جی کی بات

مرے جی میں اک اور میں ہوں
جسے میں نے دیکھا نہیں ہے
مگر جب لرزتی ہوئی دھڑکنیں،
ڈوبتی سانس،
ہارے ہوئے دن سنبھلتے ہیں
چپ چاپ بکھری ہوئی زندگی
اینٹ در اینٹ تعمیر ہوتی ہے
طوفاں پلٹتے ہیں
تاریک منظر کی آنکھوں میں
تارے چمکتے ہیں
لگتا ہے مجھ میں چھپا ہے کوئی
جو چلاتا ہے جیون کو
رُخ موڑتا ہے بہاؤ کا
ٹوٹی ہوئی کشتیاں جوڑتا ہے
کٹھن راستوں پہ بچھاتا ہے
راحت بھرے پھول
مسکان بھرتا ہے
شاموں کی سرخی میں
پہلے مجھے لگ رہا تھا
یہ تم ہو
مگر سچ تو یہ ہے کہ
تم تو کہیں بھی نہیں ہو
مرے جی میں۔۔۔
میں ہوں
یا اک اور میں ہوں۔۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*