1903 کی روسی پارٹی کانگریس

تاریخی طور پر یہ بات درست ہے کہ روسی کمیونسٹ(سوشل ڈیموکریٹک )پارٹی کی پہلی کانگریس 1898میں ہوچکی تھی۔ اور اُس میں پارٹی کے قیام کا اعلان بھی ہوچکا تھا ۔لیکن حقیقی معنوں کی پارٹی ابھی تک وجود میں نہیں آئی تھی۔ اس لیے کہ اب تک نہ تو پارٹی کا کوئی پروگرام تھا اور نہ قواعد و ضوابط تھے ۔ پارٹی کی مرکزی کمیٹی، جو پہلی کانگریس میں چنی گئی تھی، گرفتار ہوچکی تھی اور اس کی جگہ کوئی دوسری کمیٹی نہیں چنی جاسکی تھی۔ اس لیے کہ کوئی باقی بچا ہی نہ تھا۔
اِس سے بھی زیادہ بُری بات یہ تھی کہ روس میں نظریاتی انتشار تھا۔تنظیم اور یک جہتی کی کمی بہت زیادہ تھی ۔دراصل 1884سے 1894تک کا زمانہ نارودزم کے خلاف کامیابی کا دور تھا۔ اسی دور میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (کمیونسٹ پارٹی)کے قیام کے لیے خواہش بڑھ گئی تھی۔ 1894سے 1898تک کے دور میں مختلف مارکسی گروہوں کو ملا کر ایک پارٹی بنانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش ناکام رہی۔ مگر 1898کے فوراًبعد کا زمانہ پارٹی کے اندر نظریاتی اور تنظیمی پراگندگی کا زمانہ تھا۔ بہرحال نارودزم کے خلاف مارکسیوں کو کامیابی حاصل ہوتی گئی اور مزدوروں کی انقلابی تحریک کچھ کچھ بڑھنے لگی۔
اِس کام میں اخبار، اسکرا کے تین سالوں نے بہت مدد کی ۔ اس اخبار نے روس میں سیاسی اور نظریاتی میدانوں کے اندر زبردست اثرات ڈالے۔ اِس نے اُس وقت موجود بہت مقبول نظریہ ”اکانومزم “کا تو سمجھوبھٹہ بٹھا دیا تھا۔ اس نے موقع پرستی اور مصلحت پسندی کا بھی نقاب چاک کر دیا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کردی کہ اپنے قارئین کے ذریعے روس کے اندر موجود پارٹی تنظیموں کومتحد کیا۔
یہ کام جب بڑی حد تک ہوگیا تو لینن نے پارٹی کی (دوسری )کانگریس منعقد کرنے کی مہم چلائی۔ تا کہ ”اسکرا“ کے مضامین کے مطابق تنظیمی اور اصولی بنیادوں پر ایک اصل پارٹی بنائی جائے (1)۔
اُس کی مہم کامیاب ہوئی۔ اور پارٹی کانگریس منعقد کرنے کے لیے رائے ہموار ہوگئی۔اور اُس کی تاریخ مقرر ہوگئی۔
لینن ہمیشہ پارٹی کانگریس کو بہت اہمیت دیتا تھا ۔پارٹی کانگریس کو وہ پارٹی اتھارٹی کا اعلیٰ ترین ادارہ سمجھتا تھا ۔ اس نے زندگی بھر پارٹی کانگریس کو ایسا موقع گردانا جہاں شخصیات کا وجود نہیں ہوتا ،جہاں کچھ بھی چھپایا نہیں جاتا ، اور ہر بات کھلے عام کی جاتی ہے ۔ اس نے کانگریس کو زبردست نظریاتی جدوجہد کا موقع بنائے رکھا۔ اسے ڈیلیگیٹوں سے ملنا اچھا لگتا تھا۔ وہ ورکنگ کلاس ڈیلیگیٹوں سے تبادلہِ خیال کرنے کے اِس موقع کو بہت اہمیت دیتا تھا۔(2)۔
کانگریس کی جوآرگنائزنگ کمیٹی بنی، لینن کو اُس کا سربراہ بنایا گیا۔ کمیٹی نے کانگریس کے انعقاد کی زبردست تیاریاں شروع کردیں۔ یہاں تیاری کا مطلب تھا ، الف بے سے شروع کرنا ۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اب تک پارٹی پروگرام نام کا کوئی مسودہ ہی موجود نہ تھا۔اور جس کو آئین ومنشور کہا جاتا ہے ، وہ سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ تصور کیجیے کہ یہ کتنا بڑا اور مشکل اور اہم کام تھا۔
لینن پارٹی رولز کے بارے میں ایک مسودہ لکھنے میں جُت گیا ۔ مکمل ہونے پر اس نے اُسے اسکرا ایڈیٹوریل بورڈ کے سامنے رکھا ۔ اور پھر بعد میں کانگریس کے لیے آنے والے ڈیلیگیٹس کوبھی پیش کیا۔ یوں اس نے اس پہ زبردست اور طویل بحثیں چلوائیں۔ ایک ایک نکتہ پر طویل تکرار و ترامیم ہوتی رہیں۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ آئین و منشور تو کسی تنظیم کا بنیادی ڈاکومنٹ ہوتا ہے ۔ اور انقلابی پارٹی کا تو اِس کے بغیر چلنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
پارٹی کی یہ دوسری کانگریس جولائی اگست 1903 میں منعقد ہوئی ۔ اس کی ابتداءبرسلز کے ایک فلور مل کے گودام میں ہوئی ۔جو اندر سے چوہوں سے بھری ہوئی تھی اور اس کے باہر روس اور بلجیم کے جاسوس ریوڑوں کی صورت موجود تھے۔ پولیس نے دوڈیلیگیٹ پکڑ لیے اور ملک بدرکردیے تو پھر یہ کانگریس وہاں سے ختم کی گئی اور لندن شفٹ ہوئی ۔ وہاں یہ کانگریس اگست کی گرمی اور گند میں جاری رہی۔
واضح ہو کہ کانگریس ایک ہی طرح کے لوگوں پر مشتمل نہیں تھی (3)۔اس میں اسکرا والے تھے،تو زاریا سوچ کے مندوب بھی تھے، اور ”دی اکانومسٹ “نامی دھڑے کے ڈیلیگیٹ بھی موجود تھے ۔
اس کانگریس میں کل 43 ڈیلیگیٹ شامل تھے ۔ جبکہ 1898 میں منعقد ہونے والی کانگریس میں صرف نو افراد شامل تھے ۔ اس کانگریس کا افتتاح پلیخانوف نے کیا ۔
کروپسکایا نے ”لینن کی یاداشتوں “ میں لکھا کہ اس کانگریس کے کل37سیشن ہوئے (4)۔
کانگریس نے اسکرا کی جانب سے پیش کردہ پارٹی پروگرام منظور کر لیا۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے : ایک زیادہ سے زیادہ پروگرام ،اور ،ایک کم سے کم پروگرام ۔
زیادہ سے زیادہ پروگرام ورکنگ کلاس پارٹی کے اہم ترین مقصد سے متعلق تھا۔ یعنی سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ۔بہت اختلافات اور بحث مباحثہ کے بعد لینن کو اولین کامیابی ملی ۔ اور وہ ”پرولتاریہ کی انقلابی ڈکٹیٹر شپ“ کی بات منوانے میں کامیاب ہوا۔ اسی طرح اس نے کانگریس کو اس بات پہ بھی قائل کردیا کہ کسانوں کو پرولتاری کلاس کا اتحادی قرار دیا جائے۔
کم سے کم پروگرام میں یہ طے پایا کہ پارٹی کا فوری مقصد ایک ڈیموکریٹک انقلاب کے ذریعے زار بادشاہ کا تختہ الٹنا تھا۔ اور اُس کی جگہ ایک ڈیمو کریٹک رپبلک قائم کرنا ۔ جہاں کام کے اوقات 8گھنٹے ہوں، دیہات میں سرف ڈم کی ساری باقیات ختم ہوں اور جاگیرداروں کی جانب سے کسانوں کی ہتھیائی زمین کی کسانوں کو واپسی ہو۔
یہ بہت بڑی کامیابی تھی ۔اِس لیے کہ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے انتقال کے بعد بین الاقوامی مزدور تحریک کی تاریخ میں پہلی بار ایک انقلابی منشور اپنایا گیا جس میں پرولتاریہ کے اقتدار کے لئے جدوجہد کو مزدور طبقے کا بنیادی ہدف قرار دیا گیا ۔
کانگریس کی کاروائی کے دوران ایک گرما گرم مباحثہ اُس وقت ہوا جب لینن اور اس کے ساتھیوں نے قوموں کے حقِ خود اختیاری کا نکتہ پیش کیا۔ لینن چاہتا تھا کہ مزدور طبقہ قومی جبر کے خلاف آواز اٹھائے ۔اُس کی رائے تھی کہ قومی جبر کے معاملے میں مزدوروں کو کبھی بھی حکمران کلاسز کا شریک ِ کار نہیں ہونا چاہیے ۔اچھی خاصی بحث ہوئی اور بالآخر اُس کی بات منظور ہوگئی۔
پارٹی ممبر شپ کے معیار کی بات بھی اہم ترین مباحثے کا باعث بنی۔ اس حوالے سے لینن نے ڈیموکریٹک سنٹرلزم کا اصول متعارف کرایا۔ اس نے خیال پیش کیا کہ پارٹی عوام کی صحیح راہنمائی اُسی وقت کرسکتی ہے جب اُس کی تنظیم جمہوری مرکزیت (ڈیموکریٹک سنٹرل ازم) کے اصول پر کی جائے ۔یعنی اوپر کے اداروں کی نچلے اداروں پر بالادستی۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات بھی جھگڑا پڑا، کہ پارٹی ممبر بن سکنے کی شرائط کیا ہوں۔ لینن کے قریب ترین ساتھی مارٹوف نے اس سلسلے میں یہ تجویز پیش کی کہ ”ہر وہ شخص پارٹی ممبر بن سکتا ہے جو:
1۔ پارٹی پروگرام تسلیم کرے
2۔ پارٹی کو مالی مدد کرے
3۔ پارٹی تنظیموں میں سے ایک کی” ہدایات “پہ کام کرنے پہ تیار ہو“۔
لینن پہلے دو شرائط سے تو متفق تھا۔ مگر تیسری بات پہ اُس نے شدید اختلاف کیا۔ اُس نے تیسرے نکتے کو یوں پیش کیا ”پارٹی تنظیموں میں سے ایک میں کام“ کرے (5)۔
مطلب یہ کہ لینن کا موقف تھا :وہی شخص پارٹی ممبرہوسکتا ہے جو پارٹی کے پروگرام کو تسلیم کرتا ہو، پارٹی کو مالی طور پر مدد دے ،اور خود اس کی تنظیموں میں سے ایک میں ذاتی طو ر پر حصہ لیتا ہو (6)۔ اس سےلینن کا مطلب یہ تھا کہ ارکان ،پارٹی میں بھرتی نہیں کیے جاسکتے بلکہ انہیں پارٹی کی متعلقہ تنظیمیں شامل کرتی ہیں اور اس لیے اُن پہ ڈسپلن نافذ ہوتا ہے ۔
بحث مباحثہ سے کوئی بھی قائل نہ ہوا۔ چنانچہ آخر میں اس معاملے پہ ووٹنگ ہوئی ۔کانگریس نے مارتوف کے حق میں فیصلہ دے دیا: 28بمقابلہ 22۔یعنی چھ ووٹوں کی اکثریت سے کانگریس نے پارٹی رولز پہ مارتوف کے فارمولیشن کی منظوری دی۔
کانگریس کے ایجنڈے کا آخری نکتہ پارٹی کے راہنما اداروں کے انتخابات کا تھا۔ یعنی ایڈیٹوریل بورڈ اور سنٹرل کمیٹی کے لیے الیکشنز۔
ایڈیٹوریل بورڈ کی تشکیل میں لینن جیت گیا ۔ اُس نے ایڈیٹوریل بورڈ میں چھ کے بجائے تین ممبر رکھنے کی تجویز دی۔ اور اپنے علاوہ صرف پلیخانوف اور مارتوف کے شامل ہونے کی تجویز پیش کی ۔ مگر ،مارتوف تین کے بجائے بورڈ کے سابقہ چھ ارکان کو شامل کرنے کی وکالت کررہا تھا ۔ کانگریس نے اسکرا ایڈیٹوریل بورڈ سے پال ایکسلراڈ، الیگزنڈر پوٹریسوف ،اور ویرا زاسولچ کو ہٹا دیا اور لینن کی تجویز پر تین ممبروں کا ایڈیٹوریل بورڈ رہنے دیا گیا۔ یعنی پلیخانوف ، لینن اور مارٹوف مرکزی آرگن (رسالہ ) چلانے کے لئے چنے گئے ۔
اسی طرح کانگریس نے پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کی تشکیل کے بارے میں بھی لینن کی تجویز منظور کی۔ وہ یہ تھی کہ سنٹرل کمیٹی پختہ کار اور مستحکم انقلابیوں پہ مشتمل ہو۔
مگر مارٹوف نے کانگریس کے ایڈیٹوریل بورڈ والے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا۔ اور اعلان کیا کہ وہ کانگریس کے منتخب کردہ ایڈیٹوریل بورڈ میں کام نہیں کرے گا ۔ پارٹی میں ٹوٹ ظاہر تھی (7)۔
اور یوں یہ پارٹی ٹوٹ گئی ۔الگ ہونے والوں کا نام مانشویک (اقلیت)پڑ گیا اور دوسرے کا بالشویک(اکثریت)۔ اس بڑے حصے کا راہنما لینن تھا۔ اس قدر گڑ بڑ تھی کہ مخالفین نے کروپسکایا کی لکھی رپورٹ بھی پیش نہ کی جو اُس نے ”اسکرا“ تنظیم پہ لکھی تھی۔
”اسکرا“ گروپ جو پوری کانگریس کے دوران بالادست رہا ،بالآخر بکھر گیا ۔بہت مشکلوں سے بنائی گئی تنظیم گروہ بندی کے سامنے ڈھیر ہوگئی ۔ کروپسکایا اور لینن ”بالشویکوں“ کے ساتھ رہ گئے ۔ باقی سارے لیڈر الگ ہوگئے ۔
مانشویکوں نے اپنا ”اسکرا“ بھی الگ کردیا اور اس کا نام ”نیا اسکرا“ رکھ دیا۔
المختصر،1903کی کانگریس میں بالشویک فتح مند ہو کر نکلے۔گو کہ پارٹی ممبر شپ کی ڈیفی نی شن پہ انہیں شکست ہوئی۔ مگر دوسرے معاملات پہ وہ جیت گئے ، بشمول پارٹی کے ڈھانچے کے (8)۔
کروپسکایااور لینن اس پھوٹ میں صف اول میں شامل تھے ۔ مگر ایسا میاں بیوی کے بطور نہیں ہورہا تھا بلکہ منجھے ہوئے ذمہ دار انقلابیوں کی حیثیت سے ۔دونوں کے فیصلے کسی صلاح مشورے پہ نہیں بلکہ ٹھوس انقلابی شعور کے ساتھ ہورہے تھے۔
۔۔۔ ۔ اور جب اس کانگریس کے بعد لینن کی قیادت میں پارٹی کی اصل بنیاد پڑی تواُس نے اگلے تین سال تنظیم کے اپنے تصور پر مکمل طور پر وقف کیے ۔ (9)
کانگریس کے فوراً بعد منشویکوں نے اس کے فیصلوں کو ناکام بنانے اور پارٹی کے مرکزی اداروں پر قبضہ کرنے کی ایک بار پھرپوری کوشش کی ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے اتنے نمائندوں کو اسکرا کی مجلس ادارت اور سنٹرل کمیٹی میں شامل کیا جائے کہ مجلس ادارت میں اُن کی اکثریت ہوجائے اور مرکزی کمیٹی میں وہ اور بالشویک برابر ہوجائیں۔ (10)
***

مانشویکوں کے مسلسل پروپیگنڈہ اور فکری کنفیوژن پھیلاتے رہنے کے خلاف اٹل جنگ کرنے کی ضرورت تھی ۔ پارٹی اور روس کی انقلابی تحریک کے لئے مانشویزم سے خطرے کی وضاحت ضروری ہو گئی تھی۔چنانچہ یہ طریقہ رہ گیا کہ لینن سیدھا سیدھا عوام کو مخاطب کرے۔ لینن نے یہ کام اپنی کتاب ” ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے “ کے ذریعے کیا جوکہ مئی 1904 میں شائع ہوئی ۔(11)

ریفرنسز

1۔لینن ۔سلیکٹڈ ورکس ۔ انگلش ایڈیشن۔۔ ماسکو۔ 1947۔والیوم 1۔ صفحہ 273
2۔ سروس، رابرٹ۔ لینن ، اے بائیوگرافی۔ Pan Books۔ 2000۔ صفحہ 170
3۔او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو۔صفحہ53
4۔کروپسکایا۔ میما ئیرز آف لینن۔ صفحہ72
5۔ دی اوریجن ۔صفحہ 29
6 ۔ لیننز پارٹی ۔صفحہ33
7۔ کروپسکایا۔۔۔ Rem۔ سال1905
8۔فار گاٹن لائیوز۔صفحہ46
9۔او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو ۔صفحہ 54
10۔ تاریخ کمیونسٹ ۔ صفحہ18
11۔ اوبچکین اور دوسرے۔ لینن مختصر سوانح عمری 1971۔ دارالاشاعت ترقی ۔ ماسکو صفحہ 63۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*