تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
گر سفر نہیں کرتے
گر مطالعہ نہیں کرتے
گر زندگی کی آوازیں نہیں سنتے
گر خود کو نہیں سراہتے
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
جب خود توقیری کو قتل کرتے ہو
جب دوسروں کو اجازت نہیں دیتے
کہ وہ تمہاری مدد کر سکیں
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
جب اپنی عادتوں کے اسیر بن جاتے ہو
ہر روز لگے بندھے رستوں پر چلنے رہتے ہو
اگر، اپنے معمولات نہیں بدلتے
اگر مختلف رنگ نہیں پہنتے
اگر، اجنبیوں سے باتیں نہیں کر تے
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے، ہو
جب عشق سے اور اسکی ہنگامہ خیزیوں سے جان چھڑاتے ہو
اور ان سے جہنیں دیکھ کر تمہاری آنکھیں روشنی سے دمک اٹھتی ہیں
دل کی دھڑ کنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں
تم دھیرے دھیرے مر، جاؤ، گے
اگر خطرہ مول نہ لو گے
یہ جاننے کو
کہ نامعلوم کتنا محفوظ ہے
اگر خوابوں کی تلاش میں نہ نکلو گے
زندگی میں کم از، کم اک بار
منطق سے نہ بھاگو گے
خود کو قطرہ قطرہ مرنے نہ دینا
خوش رہنا نہ بھولنا