فریادی

"آج ساری دنیا ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے. مگر بلوچستان کچھ ایسا سویا ہوا ہے کہ جاگنا محشر کو معلوم ہوتا ہے. بلوچستانیوں سے ہماری درخواست ہے کہ خدا کے لئے ساری دنیا کو ہنسنے کا موقع نہ دیجئے، یہی وقت ہے اگر اسلاف کا خون آپ میں موجود ہے اٹھئیے اور اس طرح اٹھئیے جس طرح آپ کے اسلاف اٹھا کرتے تھے، سیاسی غلامی کی زنجیریں ایک نعرہ حریت لگا کر توڑ ڈالئے اور قوموں کے لئے مشعلِ راہ بن جائیے. باہمی حسد و رقابت اور ان لغویات کی بیخ کنی کیجئے اور صرف اس آتشِ رقابت سے اپنے سینوں کو منور کیجئے کہ جنگِ آزادی میں تم سے زیادہ کوئی بہادر نہ نکلے اور تم سے پہلے کوئی جامِ شہادت نوش نہ کرے. خدا کے لئے بزدلانہ اور رجعت پسندانہ ذہنیت کو مٹائیے اور دیکھئے تاریخ کیا کہتی ہے. مادرِ وطن کی قربانیوں سے سبق سیکھئے”
یہ تحریر
کسی” ملک دشمن”
کسی” دہشت گرد”
کسی” علیحدگی پسند”
کسی” بھارتی ایجنٹ”
کسی” یہودی نمائندے” کی پہاڑوں میں چھپے انسان کی نہیں
بلکہ
یہ لفظ،
یہ تحریر،
یہ فریاد،
یہ للکار،
2020 کی بھی نہیں ہے اور کسی بدیشی ایجنٹ، کسی کلاشن والے پہاڑی کی بھی نہیں….
تو
آئیے پہلے وقت کو دیکھتے ہیں، سال کی پیمائش کرتے ہیں.
کیلنڈر کی تاریخوں کے حساب سے
"فریادِ بلوچستان” کے عنوان سے یہ تحریر چھاپنے والے لہوری اخبار "مساوات” کی پیشانی پر سترہ نومبر 1921 لکھا ہے.
اور اب ڈھونڈتے ہیں لکھنے والے کو…

"فریادی” کا نام لکھنے لگے تھے کہ پیر فرید نے لعل شہباز قلندر کی درگاہ سے فرمایا "فریادی” کا بھائی گُل زیب تو ہمارا مرید تھا، تو ساتھ بیٹھے لعل شہباز قلندر سرکار نے مسکراتے ہوئے کہا
فرید!!
تیرا مرید تو بہت گُنی ہے اس نے ہمارے کلام میں کتنا خوبصورت اضافہ کیا ہے. کوٹ مٹھن کا پیر فرید، فخر سے کہنے لگا آخر مرید کس کا ہے…
کیا اضافہ کیا ہے؟
حضرت عثمان مروندی لعل شہاز قلندر نے آنکھیں بند کیں عالمِ مستی میں کہا
"منم عثمان مروندی کہ یارِ خواجہ منصورم،
نہ لرزم از ملامت آں کہ من بردار می رقصم”

تیرا مرید گُل زیب ہمارے اس کلام میں یوں اضافہ کرتا ہے

"بہ یادِ گردش آن چشم مست یار می رقصم،
بہ عشقِ ابرویش بر تیغِ جوہر دار می رقصم”.

چلیں آگے بڑھتے ہیں "فریادی” تلاشتے ہیں

قلات کے پنجابی وزیرِ اعظم شمس شاہ نے "فریادی” کے والد سے نہ صرف قبیلے کی سرداری چھینی بلکہ مہاجرت پر بھی مجبور کر دیا.
سرِ زمین اولیاء،
شہادتِ گاہِ مظفر،
چاندیوں جیسے چمکتے دمکتے ملتان نے مہاجر گھرانے کو اپنی پناہوں میں لے لیا…
اور جب” فریادی” نے چناب سے پیاس بجھائی تو بلوچ دیس کی کاریزوں کا پانی یاد آیا. کھیتوں میں اناج اگاتے، بیگار میں جان جلاتے….. بلوچ زادے یاد آئے تو تڑپ اٹھا….
انہی سوچوں میں کے بیچ حسرت موہانی کی سامراج دشمن تحریریں، آزاد کی تقریریں، نہرو کی طرزِ جہانبانی اور بھگت سنگھ کی مساوات میں گُندھی بغاوتوں میں "فریادی” نے خود کو مالا مال پایا.
آزادی، جدوجہد، انقلاب ،مساوات کے آفاقی اصولوں کو سمجھنے والا "فریادی”، والد کو بہاؤالدین ذکریا کے پہلو میں سُلانے کے بعد اپنے دیس آیا.
اور "شمس گردی” کے عنوان پملٹ لکھ کر وزیر اعظم قلات کے مظالم کا پردہ چاک کیا
قلات کا نابینا نواب، گورے کی چھتری تلے عیش میں غرق اور عوام بیگاری و لاچاری میں سانس لے رہی تھی یہ دیکھ کر” فریادی” تڑپ اٹھا.
"آقاؤں” نے دل و آنکھ کے کھٹور نواب کی نااہلی چھپانے کے لئے آج کی طرح حکمران کو بدیشی کے ساتھ ساتھ دیسی وزیر بھی ساتھ لگا دیئے.
تعویز، دھاگا، دم درود کام نہ آیا تو افغانستان کے قاضی جلال الدین
(بلوچستان مسلم لیگ کے صدر، قاضی عیسی’، آج کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس قاضی فائز عیسی’ کے دادا)
کو وزیر اعظم قلات بنا کر نواب قلات کو مصنوعی آنکھوں لگا دی گئیں.

المختصر "فریادی” نے انہی حالات میں نہ صرف اپنی نوابی حاصل کی بلکہ اپنی زمین پر ٹالسٹائی کی طرح ایسی اصلاحات نافذ کیں کہ بلوچ کسان کے چہرے پر زندگی کا نور نظر آنے لگا.
اس کے بعد "فریادی” نے جمال لغاری،
مشتاق گورمانی اور غلام رسول کورائی….
( یہاں تک لکھا تھا کہ محمد اسلم احمدانی نے پوچھا غلام رسول کورائی کون تھا، معلوم ہے؟

عرض کیا
آپ بتا دیں گے تو ہم جیسے نا سمجھ مخلوق کا بھلا ہوگا.
کہنے لگے ہمارا رسول پور شہر اِسی غلام رسول کورائی کی دی گئی زمین پر تعمیر ہوا ہے اور آج میں فخر سے خود کو اسلم رسول پوری جو کہتا ہوں تو اس ناز میں انہی غلام رسول کورائی کا حصہ ہے)
کے ساتھ مل کر بلوچستان تاریخ کی پہلی انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان کانفرنس منعقد کرائی.
اس کانفرنس میں درج ذیل قراردادیں منظور کرائیں.
بلوچستان کے متعدد حصوں کا اتحاد اور مکمل سیاسی آزادیوں کا مطالبہ،
سرداریت کا خاتمہ،
عورتوں کو وارثت کا حق،
مفت تعلیم،
سکول کالج کا قیام، چھوٹی صنعتوں کا قیام.

لہوری اخبار میں فریادی کی تحریر چھپنے پر ریاستی جرگہ بلوایا گیا. اُس زمانے میں تحریروں سے طوفان اٹھتے تھے اب انسان اٹھتے ہیں.
سقراط کے دور کے طرح کی عدالت لگی اور "فریادی” کو یہ کہہ کر کہ اس طرح کی آج تک پہلے کوئی تحریر نہیں چھپی. اس تحریر سے قلات کے انتظام میں خلل اندازی اور بدامنی پھیلانے کی کوشش ہے. مصنف کے کانگریسی خیالات اور بلوچستان کے بعض بد خیال اشخاص کی سازش سے متاثر ہو کر اس جرم کا ارتکاب کیا ہے.
لہزا یہ جرگہ،” فریادی” کو کٹ زہری کے مقام پر ایک سال کی نظربندی کے ساتھ ساتھ بارہ ہزار نوسو روپے جرمانہ اور دس ہزار ضمانت نیک چلنی داخل کرنے کی سزا دیتا ہے.
بھلا باغیوں کا سزا کچھ بگاڑ سکی ہے کیا؟

اپنے لئے نواب، بلوچ، سردار کا نام اختیار کرنے کی بجائے اپنے انسان ہونے پر نازاں "فریادی” نے قلیل وقت میں اپنے علاقے میں کیرتھر نہر کھدوائی،
ایک نیا شہر بسایا،
علاج کے لئے ڈسپنسریاں بنوائیں،
سکول کے علاوہ اپنے علاقے میں جامعہ سطح کا تعلیمی ادارہ قائم کیا.
جدید بلوچستان کا خواب اور اس کی بنیاد رکھنے والا "فریادی”
اکتیس مئی 1935 کو کوئٹہ کے ریلوے ریسٹ ہاؤس میں سو رہا تھا کہ زلزلے نے بلوچستان سے اس کا بیٹا چھین لیا اور آج تاریخ کی کتابوں میں زندگی کی صرف ستائس بہاریں دیکھنے والے "فریادی” کو میر یوسف عزیز مگسی کے نام یاد کیا جاتا ہے.

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*