Home » پوھوزانت » جذباتی صحافی،ہمدرد انسان ۔۔۔۔ وحید زہیر

جذباتی صحافی،ہمدرد انسان ۔۔۔۔ وحید زہیر

جگر مراد آبادی کا ایک شعر ہے

زندگی ایک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ ہے

موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

جس شہر میں مستقبل تاریک ہو،زندگی پل صراط سے بھی زیادہ باریک ہو،ہر شخص دوسرے کےلئے زندیق ہو،قاتل بھی ٹھیک ہو مقتول بھی ٹھیک ہو،زندہ رہنا مانند بھیک ہو،بھلا بتایا جائے کہ وہاں جینا کیسے قابل فخر ہوسکتا ہے۔

جس معاشرے میںلوگ اپنے بند نالیوں سے چشم پوشی کریں ،مکڑی کے جالوں کے بیچ میںرہیں ،بیماروں،ناداروں سے منہ موڑیں ،ناجائز کو جائز سمجھیں،حق کو احسان کے طور پر برتیں،ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کو گلو خلاصی سمجھیں،اپنوں سے نفر ت غیروں کو دوست جانیں،ایک موٹر سائیکل کےلئے گھروں کو اجاڑیں،مارنے مرنے کو عافیت جانیں،وہاں ارشاد مستوئی جیسا نوجوان بھلا کیسے اپنے ہوش و حواس میں رہ سکتا ہے،اسکا پاگل پن ،اُس کاجذباتی ہونا فطری عمل تھا۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

راکھ کے ڈھیر پر اب رات بسر کرنی ہے

جل چکے ہیں میرے خیمے مرے خوابوں کی طرح

انسان کا مل نہیںہوتا۔اس میں بشری کمزروریاںضرور ہوتی ہیں مگرہر نوع کے جرم کےلئے قانون میں سزاکا تصور موجود ہے لیکن دور اندیشی کو بغاوت تصور کونا،لاتعلقی کو گناہ کبیرہ خیال کرنا ،کسی بھی قسم کی کوتاہی یا غلطی کو قابل گردن زدنی خیال کرنا ،خود کو سچا اور دوسروں کو جھوٹا قرار دینا ……..یہ کیسا اختیار ہے ۔

اس ہی پر ارشاد ہمیشہ بحث کرتا تھا خود کو سمجھانے اور دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ اسے کیا پتہ تھا کہ وہ اس سمجھنے اور سمجھانے میں ہی مارا جائیگا،وہ اپنے طور پر سچ کو زندگی کا اصل سرمایا سمجھتا تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہتا تھا کہ اس ملک میں اخلاص کو چاپلوسی ،محبت کو ضرورت مندی ،شرافت کو بزدلی ،ظلم طاقت اور بیہودہ پن کو ترقی تصور کیا جاتا ہے۔ اخلاق وہ پیمانہ ہے جس سے اختلافی معاملات کی گھتیاں سلجھتی ہیں ۔ان اختلافات پر قتل ہونا ،قتل کیا جانا یا مباحث میں جمود کا آنا اختلافات کے طول پکڑنے کا سبب بنتے ہیں ۔،ایسے ہی کچھ فیض احمد فیض،حبیب جالب،گل خان نصیر،غلام محمد شاہوانی، مہناج برنا و دیگر کے ادوار میں ہوتا رہا ۔جس کی وجہ سے جہالت کی تاریک گلیاں انسانوں کے نگلنے کا سامان ابھی تک مہیا کررہی ہیں۔ یہاں بھی موت مخلص جانوروں کو نصیب ہوتا رہا ہے مگر اب وہ بھی ایسی موت کو ترستے ہیں۔ بیالوجیکل وار میں وہ بھی انسانوں کی طرح مارے جا رہے ہیں پلاسٹک اور کاغذ کھانے والے ،نالوں کا گندہ پانی پینے والے جانور بھلا کیسے زندہ رہ سکتے ہیں اور وہ کیسے صحت مند خوراک مہیا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ گانگو وائرس ،کینسر جیسے امراض کا بڑھ جانا کس بات کی دلیل ہے، پاکستا ن بننے کےساتھ ہی ملک میں علمی سبزہ اگانے کی بجائے جہالت کی شجر کاری ہوتی رہی اور اس کےلئے انسانی خون کو کھاد کے طور پر استعمال کیا جا تارہا۔ظاہر ہے خون سے جس شجر کی آبیاری ہو وہ آدم خور درخت کے طور پر ہی پروان چڑھے گا جس کا فائدہ زہریلے اور خود روپودے بھی اٹھاہیں گے جبھی توآج ملک کا ہر شہری پریشان ہے،طالب علم ،عالم ،فاضل ،حکمران ،سپاہی ،سیاسی رہنمائ، الغرض سب کو ایک نہ تھمنے والے طوفان کا سامنا ہے۔

چڑھے گا زہر خوشبو کااسے آہستہ آہستہ

کبھی بھگتے کا خمیازہ وہ پھولوں کے مسلنے کا

دنیا میں موذی امراض اور مظالم کاسن رکھا تھا اور اس کے محرکات و اسباب بھی معلوم ہوتے رہے، کہیں انھیں جہالت ،کہیں انتقام ،غرور،طاقت اورکہیں ظلم کہا گیا اور کہیں مکافات عمل ۔مگر اب جب محرک ہی نامعلوم ہو تو بندہ کیا کرسکتا ہے۔سزا اور جزا کے طور پر بھی اس کی تفہیم نہیں ہو رہی اور نہ ہی حکما اور علماءاس کا درک لگانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ جنات سے بھی غالباً کوئی آگے کی مخلوق ہے ۔بہرحال لاعلم لوگ پرانے انسانوں کی طرح چاند کو گرہن سے آزاد کرنے کےلئے ڈھول نہ پیٹیں گے تو اور کیاکریں گے…….. اور ہم سب بھی یہی کر رہے ہیں ۔

اب تو نوجوان نسل کہہ رہی ہے کہ ہماری موت زندگی سے بہتر ہے۔ جیسے کہتے ہیں بہتر مارشل لاءسے بدترین جمہوریت بہتر ہے ۔

ارشاد قلم کا پجاری تھا، اس کا ہر مشکل سے یاری تھا۔ اسکے نزدیک ظلم ایٹمی تابکاری تھا۔

سزا کے طور پر ہم کو ملا قفس جالب

بہت تھا شوق ہمیں آشیاں بنانے کا

ارشاد مستوئی کی شہادت کے حوالے سے آخر میں کہتا چلوں کہ شہادت عظیم رتبہ ہے۔ شہادت کی موت کے اسباب ذاتی نہیں ہوتے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *