Home » پوھوزانت » کلات۔۔۔ریاست سے ضلع تک ۔۔۔ وحید زہیر

کلات۔۔۔ریاست سے ضلع تک ۔۔۔ وحید زہیر

میری کلات و ہر بوئی …… نوری نصیرخان کی رہبری …… دوستی میں ایسی روشنی ……! تھی دھڑکنوں میں زندگی …… محبت سے بھرپور چاشنی ……، بہادری میں ساری بے خودی ……، تاریخ میں یہ نامور ی ……، بے مثل سب کی سادگی ……، دے یہ حوالے شاعری …… چشمہ دودران کی بے غمی ……!!!(دودران ایک قدرتی چشمہ)

بزرگوں نے اس وقت کہا تھا …… ”دودران است کلات را چی غم است“دودران کیا خشک ہوا، گویا ہماری آنکھیں خشک ہوگئیں۔اس کے بعد تو یہی کہا جاسکتا ہے!

اپنی تو وہ مثال ہے جیسے کوئی درخت

دنیا کو چھاؤں بخش کے خود دھوپ میں جلے

کلات کے ریاستی آثار ایک ایک کرکے ختم ہوتے گئے۔ نا انصافی ایسی کہ کہنا پڑا ”کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں“۔ اس خطے کو غالباً اولیاء، صوفیاء اوربزرگوں کی اس لئے بھی ضرورت نہیں پڑی کہ یہاں تو ہر معصوم دل خود مقدس خانہ تھا۔ مہمان نوازی، انسانیت کی پہلی سیڑھی تھی۔ باہوٹ کسی مصیبت زدہ کو اپنے حصار میں لینا۔ کسی کی پرواہ کئے بغیر اسے مسلسل پناہ میں رکھنا۔ احترام آدمیت کی بہترین مثال…… ایسی محبت کے خانہ بدوشانہ زندگی گزارنے والوں میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ کلات کے پانزو جیسے پاگل، درویش بھی سڑکوں پر مسکراتے ملتے تھے۔ دستگیر بادشاہ کا علامتی مزار ہمیشہ ہندو مجاور کی رکھوالی میں رہا۔ سخی رمضان نومولود کے بالوں کا نذرانہ لے کر ان کے سروں میں ضمیر کی بیداری کی ضمانت فراہم کرتا رہا۔ خشک میوہ جات میں پالو (تربوز کے بیج) میں توانائی کا عنصر پایا جاتاتھا۔ خدیت (خشک گوشت) گون(پہاڑی بیج) کا سالن، کچھوڑی نام کے پر لذت پکوڑے خوراک کے اہم حوالے تھے، فٹ بال کے کھلاڑیوں سے لے کر علماء تک میں حِس مزاح پایاجاتاتھا۔

بلوچی اشر(مِل جل)کر غمی خوشی کے لمحے بانٹنا،،کچی سڑکیں کچے گھر، تاریخ میں گوادر سے دریا آموتک بلوچ ماما ہر لحاظ سے قابل احترام قابل فخر اور قابل اعتبار رہا۔ انہی اہلیت و صلاحیتوں پر بلوچ قوم نے بد خواہوں کے تیر سینے پر سہے۔انسانی اقدار کے پھیلاؤ کے ساتھ ایسی خوش بختی کسے ہضم ہوتی۔ مغربی ایجنٹ، ٹولوں کی شکل میں آلہ کاروں نے اْن کے مفادات کے لئے بڑھ چڑھ کر کام کیا۔ انہوں نے خطے میں ایسی ہلچل مچائی۔ جس کے اثرات سازشی تھیوریاں کونے کونے تک پھیلیں۔ جب بصارت دھندلا جائے، بصیرت داغدار ہوجائے، سماعتوں میں کرارے نوٹ بجنے لگیں۔ پھر تو خونخواروں کے نوالے میں خون کا چسکا شامل ہونا ہی ہے۔

ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو دیواروں میں چننے کا سنگ دلانہ کام خوشی سے کیا۔ حالانکہ کلات کے قلعہ (میری) میں رہبر، عوام اور پالتو جانوروں کے ایک ساتھ رہنے میں کوئی مشکل کوئی عار نہیں تھی۔ یہ تھا مہر گڑھ کا تسلسل۔ جب انگریز مشنری توسیع پسندانہ، غاصبانہ عزائم لے کر آیا۔ اسے ہمنوا چاہئے تھا۔ اس نے سونے کی لاٹھی اور چھڑیاں تقسیم کی۔ جس کا تسلسل اب ایک نئی شکل میں جاری و ساری ہے۔ ایسے بد روحوں کے بیچ عوامی قلعے کیسے سلامت رہ سکتے تھے۔

یہیں سے کلات بدری و دربدری کا آغاز ہوا۔ جس شہر میں دروازوں کا رواج نہیں تھا۔ وہاں شرم و حیا پر حرف زنی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔ نام نہاد غیرت کا کلچر اقدار کے نام پر پردہ داری کا واویلا ہر سو مچا، سیاہ کاری کے قبیح رسم سے اب پورا بلوچستان فیض یاب ہے۔ غیرت کی ایسی توضیح کہ اب میں میں نہ رہا، تم تم نہ رہے …… اجنبیت کایہ کلچر پرانی آبادیوں میں بھی محسوس کیاجارہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے نہ تو فلسفہ پڑھا، نہ ہی وہ جامع الازہر کے فارغ التحصیل علماء  میں سے تھے۔ نہ ہی نفسیات کا علم رکھتے تھے۔ نہ جدید طب اور ٹیکنالوجی سے واقف تھے۔ اس کے باوجود انسانی اقدار سے بخوبی واقف تھے۔زراعت اور طب پر مہار ت رکھتے تھے۔ جڑی بوٹیوں سے علاج و معالجہ کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ہر قسم کے اوزار بنانے کا ہنر رکھتے تھے۔ فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں مہارت میں یکتا تھے۔ کشیدہ کاری میں رنگوں کی میچنگ پر کمال دسترس تھی۔ موسمی شدت کے درست اندازوں پر انہیں قدرت حاصل تھی۔ جانوروں کی بیماریوں کا علم رکھتے تھے۔ الغرض وہ کون سا شعبہ نہیں جس میں وہ اپنے اپنے علاقوں کی آب و ہوا، موجود عناصرکاعلم نہیں رکھتے۔ او رانہیں ان کے اپنے ناموں سے نہیں پکارتے۔

تاریخ میں بلوچی عظمت کے مینار انہی صلاحیتوں کی مرہون مِنت ہیں۔ جب یْو ٹرن او راباؤٹ ٹرن کی بیماری نے کرونا کی شکل اختیار کی۔ ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اسیر ہوئے۔ اپنی خوبیاں مزید نکھارنے کے بجائے، ان کی سیاسی، کاروباری اور ہر قسم کے کلچر کے پیچھے بھاگتے بھاگتے یہاں تک کہ آپس میں دست و گربیان ہونے کو مسابقت اور ترقی کا نام دینے لگے۔ یوسف عزیز مگسی نے 1932میں جیکب آباد میں آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں جن اصلاحات کی بات کی تھی۔ ان سے ابھی تک فیض یاب نہیں ہوسکے اور نہ ہی ان کے درک (کھوج) لگانے میں کسی نے ہماری مدد کی۔ بلکہ اس کے بدلے میں ہمارے درد اورارمانوں میں اضافہ ہوتار ہا۔

سیانے بزرگوں نے چشمہ دودران کا علامتی نعرہ اسی دن کے لئے لگایا تھا۔ انہوں نے ہی ترغیب دی تھی، معاشی جنگیں،پانی پر جنگیں ہی مستقبل میں وبال جان ہونگی۔ یہاں کی لوک شاعری میں آپ کو پانی کے لئے تگ و دو کی گردان ملتی ہے۔حال ہی میں شدید خشک سالی کے بعد موجودہ سیلاب اور ناقص ڈیموں کی تعمیر کے بہہ جانے کا المیہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔یہ بد عنوانی ریاست کلات کی نہیں کلات ڈویژن کی ترقی یافتہ ذہن کی دین ہے۔

معاشی و اقتصادی اور طبقاتی ناہمواری سے قوموں او رزبانوں کے معدوم ہونے کا بھی کسی کو کوئی غم نہیں۔اس وقت نئی تحقیق کے مطابق بعض اقوام ایسی زبانوں کی نعمت سے محروم ہونے سے دوچار ہیں۔ اچھی روایات، ثقافتیں اور تاریخی آثار دنیا بھر میں ٹورزم کا بہترین وسیلہ ہیں۔ہماری ثقافت اور تاریخی آثار گم ہورہے ہیں۔ کلات میں ہربوئی کے صنوبر کے جنگلات جیسے اثاثے بے قدری کا شکار ہیں۔ گھر گھر کیمرے او ر گارڈ لگانے پر ہمارا سارا سرمایہ اور وقت برباد ہورہا ہے۔ کیا بد امنی او ر خوف میں مبتلا قومیں بغیر پائلٹ جنگی طیاروں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھ سکیں گے۔ کیا اس طرح روبوٹس میں اضافہ نا اہل انسانوں کے لئے خودکشی کامعاملہ ثابت نہیں ہوگا……؟۔

ہم نفسیاتی لڑائیوں میں پسپائی کا شکار ہیں۔ہماری سیاست، سیاسی اصولوں کا پابند نہیں۔ ہمیں مْلا اور ملائک کو بیچ میں لائے بغیر الٹراساؤنڈ، ایم آر آئی، سوشل میڈیا کی افادیت کو اپنا نا ہوگا۔ تیغ بند باندھ کر نکلنے کی بجائے بارودی سرنگوں کو ناکارہ کرنے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

ملکی حکمرانوں کو اپنی غلطیوں کا زبانی اعلان کی بجائے ان کے ازالے کے لئے عملی طور پر اقدامات کرنے ہونگے۔ لاشوں کی سیاست کی بجائے انسانی حقوق کی عالمی قواعد کے مطابق رہنمائی کے اصول اپنانے ہونگے۔ اگر اس خطے میں حقوق، وطن دوستی اور بہادری کے دشمنوں سے نبرد آزماہونے کو محراب خانی تسلسل کو جاری رہنے دیا جاتا …… انہیں قومی نصاب کا حصہ بنایاجاتا۔ شاید آج آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے سامنے ایسی بے بسی نظر نہ آتی۔

بلوچستان کے یہ معدنیات، یہ قدرتی دولت، خطے میں امن وترقی کا باعث ہوتے۔ کلات کا پاگل پانزو حالانکہ سینس لیس لگتا تھا۔ اس کے باوجود راہ چلتے دکانداروں یا کسی شخص کی کوئی چیز اپنی دسترس میں لیتا۔ اسے واپس کرتے ہوئے نہ تو اس چیز کو ناکارہ بناتااور نہ ہی اس کا حلیہ بگاڑتا۔ ہم حلیہ  بگاڑنے کو اپنی بہادری اور دانشمندی سمجھتے ہیں جس میں رتی بھر انسانیت کا عمل دخل نہیں۔

اب تو اس نظام میں اس نالائق کلاس فیلو کی طرح ذہین طالبعلم کی کاپی کو چرایا جاتا ہے۔ ناکارہ کرکے نالی برد کیاجاتا ہے۔ یا صفحے نکال کر کاپیاں ناکارہ بنائی جاتی ہیں۔ جیسے آپ زور آوروں کو ووٹ نہ دینے پر مصیبت جھیلتے ہیں۔ کاروباری مخاصمت میں کس طرح ایک دوسرے کو نقصان دیا جارہا …… چند فٹ زمین کے لئے یا حسد و تفاوت پر مبنی قتل و غارت گری پر مبنی خبریں روز پڑھتے ہیں۔ بد فعلی اور ہراسمنٹ پر کوئی سزا کا مرتکب نہیں ہورہا۔ کاش ریاست کلات سے پھوٹی احترام آدمیت کا کلچر نہ بگاڑا جاتا۔

کلات میں ایک غوثو لْچ ہوا کرتا تھا۔ اس شرارتی انسان کو محبت میں لْچ و لوفر کا نام دیا گیا تھا۔ آپ کے کلات کے بین الاقوامی شناخت رکھنے والے گلوکار اختر چنال نے بتایا کہ کلات میں ہر شخص موسیقی کا دلدادہ ہواکرتا تھا۔ محفلیں سجتی تھیں۔ میں محکمہ پولیس کا ملازم تھا۔ میر ا تبادلہ نصیر آباد ہوا۔ یار دوست سب پریشان ہوئے۔ تبادلہ روکنے میں مسلسل ناکامی پر ایک روز غوثو لْچ ڈی آئی جی پولیس کی راہ گزر پر ان کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ جیسے ہی ان کی گاڑی آتے ہوئے نظر آئی۔ غوثو ان کی گاڑی کے سامنے لیٹ گئے۔ ڈی آئی جی میر جبار گاڑی سے اْترے۔ اتفاق سے میر حسین بخش بنگلزئی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے غوثو کی داد و فریاد سن لی اور اس طرح میرا تبادلہ رک گیا۔ یہ کلات کا کلچر تھا۔موسیقی واقعی روحانی غذا کا حصہ تھی۔ لوگوں کی چال و گفتگو بتاتی تھی کہ ان کا شمار ٹیون انسانوں میں ہے۔

جب سماعت کا م کرنا چھوڑ دے …… منہ کی لذت چھن جائے، پوشاک میں تکبر آجائے، ایک دوسرے سے آنکھیں پھیری جائیں، اپنی سہولت، خواہش کے لئے کسی اور کا گھر برباد کیاجائے، محض اپنی تشفی کے لئے مسلسل جھوٹ بولاجائے۔ ظلم کو ہمدردی کا نام دیا جائے، غریبوں کو لوٹ کر خود کو معتبر بنانے کی کوشش کی جائے تو اس سے قومیں، قومیں نہیں رہتیں۔ انسانیت کاقتل ہوتا ہے۔ زندگی کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ کلات کو زندہ رکھنے کے لئے بلوچی روایات کو بگڑنے سے بچایاجائے۔ تعلیمی جدت کو اپنی اہلیت و ہنر مندی سے جوڑا جائے۔ایک ریاست کو ریاست رہنے نہیں دیا گیا۔کم از کم اسے بلوچستان کا صدر مقام ہی بنایاجاتا۔ اس کی تاریخی حیثیت کے مطابق یہاں ہر طرح کے میوزیم بنائے جاتے۔ نایاب صنوبر کے جنگلات پر پھیلے ہر بوئی کے پہاڑوں کو جدید تفریحی مقام کے طورپر محفوظ کیاجاتا (افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ کلات میں گیس کی سہولت میں رکاوٹوں کی وجہ سے صنوبر کے جنگلات ایندھن کے طور پر استعمال ہورہے ہیں) جب ریاست کلات پر مبنی ضلع کا یہ حال ہے باقی بلوچ آبادی پر منحصر اضلاع کا کیا حال ہوگا …… ا ب اس کا واحد حل نوجوانوں کی خود بیداری ہے۔ بلوچستان کی تعمیر وترقی کو جدید سائنسی علوم حاصل کرکے حقیقی بلوچ ضمیر کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *