Home » پوھوزانت » چے گویرا۔۔۔فیڈل کاسٹرو/شاہ محمد مری

چے گویرا۔۔۔فیڈل کاسٹرو/شاہ محمد مری

چے گویراکو بلیویا میں 9 اکتوبر1967 کو بغیر ٹرایل کے قتل کیا گیاتھا۔

اس سلسلے میں 18 اکتوبر 1967کو ہوانامیں فیڈل کاسٹرو نے لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کیا تھا۔ اس کی تقریر ہم پیش کر رہے ہیں۔

***

”میں چےؔ سے پہلی بار1955کے جولائی یا اگست کے ایک دن ملا تھا۔ اور ایک ہی رات میں وہ مستقبل کی ہماری فوجی مہم میں شامل لوگوں میں سے ایک بنا۔اْس وقت تک ہماری فوج کے پاس نہ تو کوئی بحری جہاز تھا، نہ اسلحہ تھا، اور نہ ہی سپاہیوں کے جتھے تھے۔ اس طرح ہماری ”گرانما“ فوج کی لسٹ میں راؤلؔ کے ساتھ، چےؔ اولین دو آدمیوں میں سے ایک بنا۔

اْس وقت کو بارہ برس ہوچکے ہیں۔۔۔ جدوجہد  اور تاریخی اہمیت سے بھر ے ہوئے بارہ سال۔ اِس دوران موت نے بہت سی بہادر اور بیش بہا زندگیاں کاٹ کھائیں۔مگر بہ یک وقت ہمارے انقلاب کے ان تمام سالوں میں غیر معمولی لوگ بھی ابھر آئے۔ یہ انقلاب کے درمیان سے فولاد بن کر ابھرے ہوئے لوگ تھے۔اور اْن کے درمیان محبت اور دوستی کے ایسے بندھن  پیدا ہوئے جو بیان سے بھی بڑھ کر تھے۔

آج رات ہم یہاں ایک شخص کے بارے میں ایک حد تک اپنی محسوسات بیان کرنے کی کوشش کرنے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو ہمارے انقلابی کامریڈوں کے بیچ تعریف کردہ ترین، اورمحبوب ترین لوگوں میں سے تھا۔وہ بلاشبہ غیر معمولی ترین آدمی تھا۔ ہم اْس کے لیے، اور اْن ہیروؤں کے لیے جو اْس کے ساتھ لڑے اور اْس کے ساتھ مرے، اْس کی انٹرنیشنلسٹ آرمی کے لیے جو تاریخ کا شاندار اور اَنمٹ صفحہ لکھتی رہی ہے، اپنے احساسات ظاہر کرنے یہاں جمع ہیں۔

چےؔ اْن لوگوں میں سے تھا جنہیں فوراً پسند کیا جاتا ہے: اْس کی سادگی کی وجہ سے، اْس کے کردار کی وجہ سے، اس کے فطری پن کی وجہ سے، اْس کے کامریڈی رویے کی وجہ سے، اْس کی شخصیت کی وجہ سے، خواہ کسی نے اْس کی دوسری خصوصیات اور ممتاز صفتیں نہ بھی دیکھی ہوں۔

شروع کے دنوں میں وہ ہماری فوج کا ڈاکٹر تھا۔ اس لیے اْس کے لیے دوستی کے رشتے اور گرم جوش احساسات ہمہ وقت بڑھتے تھے۔ وہ امپیریلزم کے لیے ہتک اور نفرت کے شدید اور گہرے جذبات سے بھرا ہوا تھا۔اُس کے دل میں امپیریلزم کے لیے یہ ہتک اور نفرت صرف اس لیے نہیں تھی کہ اُس کی سیاسی تعلیم کافی ترقی یافتہ تھی، بلکہ اس لیے بھی نفرت تھی کہ، ذرا پہلے،اْ سے گوئٹے مالا میں اْن کرائے کے قاتلوں کے ذریعے مجرمانہ سامراجی مداخلت کا گواہ بننے کا موقع ملا تھا جنہوں نے اْس ملک میں انقلاب کا حمل ضائع کیا تھا۔

چےؔ جیسے شخص کو تفصیلی دلائل کی ضرورت نہ تھی۔ اْس کے لیے یہ جاننا ہی کافی تھا کہ کیوبا اسی طرح کی حالت میں تھا، اور یہ کہ اْس صورتحال کے خلاف ہاتھوں میں اسلحہ لیے جدوجہد کے لیے مصمم لوگ موجود ہیں۔ اس کے لیے یہ جاننا ہی کافی تھاکہ وہ لوگ جینوئن انقلابی اور حب الوطنی کے تصورات سے انسپائر ہیں۔ یہ اْس کے لیے کافی سے بھی زیادہ تھا۔

نومبر1956کے اواخر میں ایک روز وہ ایک فوجی مہم کے لیے ہمارے ساتھ کیوبا کی طرف روانہ ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ سفر اْس کے لیے بہت مشکل تھا۔ اِس لیے کہ جن حالات کے تحت روانگی کو منظم کرنا ضروری تھا، اُن حالات میں وہ اپنے لیے وہ دوائیاں بھی نہ لے سکا جن کی اْسے ضرورت تھی۔ پورے سفر میں وہ دمہ کے شدید حملے میں مبتلا رہا۔ اْس کے پاس اْسے کم کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔ مگر اُس نے ایک بار بھی اُس کی شکایت نہیں کی۔

ہم کیوبا پہنچے، اپنا پہلا مارچ شروع کیا۔ اور جیسے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہم چند ہی ہفتوں کے آخر میں اپنی پہلی پسپائی سے دوچار ہوئے۔ اْس فوجی مہم میں شامل جو لوگ زندہ بچے تھے، وہ دوبارہ باہم اکٹھے ہونے کے قابل ہوئے۔ چےؔ ہمارے گروپ کا ڈاکٹر ہی رہا۔

ہم لڑائی میں پہلی بار فاتح ہوئے، تو اب چےؔ بہ یک وقت ہمارے گروپ کا سپاہی بھی تھا اور  ڈاکٹر بھی – ہم دوسری فتح مند لڑائی میں آئے تو چےؔ نہ صرف ایک سپاہی تھا بلکہ اْس لڑائی میں سب سے ممتاز سپاہی تھا۔ اس نے پہلی بار جو نمایاں کام سرانجام دیا وہ سارے ملٹری ایکشن میں اس کی خصوصیت رہی۔ ہماری فوجیں مسلسل ترقی کرتی رہیں اور ہمیں جلد ہی غیر معمولی اہمیت کی ایک اور لڑائی کا سامنا ہوا۔

صورت حال مشکل تھی۔ جو اطلاع ہمارے پاس تھی وہ کئی پہلوؤں سے غلط نکلی۔ ہم سمندر کے کنارے ایک مضبوط دفاع کردہ اور خوب مسلح پوسٹ پر حملہ کرنے جارہے تھے۔ اور وہ بھی دن کی مکمل روشنی میں۔ دشمن کی جو فوجیں ہمارے عقب میں تھیں،وہ بہت دُور نہ تھیں۔ اِس کنفیوز صورتِ حال میں لوگوں سے اعلیٰ ترین کوشش کرنے کا کہنا لازمی تھا۔

کامریڈ جو آنؔ المیدانے ایک مشکل ترین مشن اپنے ذمے لیا تھا۔ مگر میدانِ جنگ کا ایک بازو بالکل بے فوج رہ گیا تھا۔ اْس طرف سے حملہ کرنے کے لیے ہمارے پاس فوج نہ تھی۔ یوں پورے آپریشن کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔ اسی لمحے چےؔ نے، جو کہ ابھی تک ہمارے ڈاکٹر کے بطور کام کر رہا تھا، تین چا ر آدمی مانگے۔اْن میں سے ایک کے پاس مشین گن تھی۔ اور انہوں نے چند سیکنڈز کے اندر اندر اْس بازو کے مشن کو سنبھال لیا۔

اْس موقع پر وہ صرف ایک ممتاز لڑاکا ہی نہیں تھا بلکہ ایک ممتاز ڈاکٹر بھی تھا۔ وہ زخمی شدہ کامریڈوں کا علاج کر رہا تھا، اور بہ یک وقت دشمن کے زخمی سپاہیوں کا بھی۔

پھر جب سارے ہتھیاروں پر قبضہ ہوا توضروری ہوگیا تھا کہ وہ پوسٹ خالی کردی جائے۔ دشمن کی مختلف فورسز کے مسلسل حملوں میں واپسی کے ایک طویل سفر کا بیڑا اٹھانا تھا۔مگر کسی کو تو پیچھے زخمیوں کے ساتھ رہنا تھا۔ اور وہ شخص چےؔ نکلا۔ ہمارے سپاہیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کی مدد کے ساتھ اْس نے اْن کی دیکھ بھال کی، اْن کی زندگیاں بچائیں اور بعد میں اْن کے ساتھ اپنے دستے سے آن ملا۔

اْس وقت کے بعد، وہ ایک اہل اور بہادر لیڈر کے بطور ابھر آیا۔ وہ اْن لوگوں میں سے ایک بنا جو کہ کسی زیرِ غور مشکل مشن کو سر کرنے کے لیے کہنے کا انتظار نہیں کرتے۔

چنانچہ یہ ”ایل یْو وَیرو“کی لڑائی تھی۔ ایک غداری کے نتیجے میں ہمارے چھوٹے سے دستے پر کئی جہازوں نے اچانک حملہ کردیا اور ہم بمباری کے اندر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے تھے۔ جب ہم اچھا خاصا فاصلہ طے کر چکے توہمیں کچھ کسان سپاہیوں کی بندوقیں یاد آئیں جو پچھلے حملوں میں ہمارے ساتھ تھے اور پھر خاندانوں کو وِزِٹ کرنے کی اجازت مانگی تھی، ایک ایسے وقت جب ہماری نومولود فوج میں کچھ زیادہ ڈسپلن موجود نہ تھا۔ اْس موقع پر ہم نے سوچا کہ وہ بندوقیں ہمیں وہیں چھوڑنی پڑیں گی۔ مگر مجھے یاد ہے کہ چے ؔکے سامنے یہ مسئلہ محض اٹھایا گیا تو وہ بمباری کے باوجود جلدی سے اْن بندوقوں کو لانے چلا گیا۔

یہ اُس کی اہم خصوصیات میں سے ایک تھی کہ وہ خطرناک ترین مشن کے لیے فوری طور پر والنٹیئر بننے کی پہ تیار ہوجاتا اور فطری طور پر اُس کی اس عادت نے تعریف پائی۔ اور عمومی تعریف سے دگنی، اس لیے کہ وہ ہمارے شانہ بشانہ لڑنے والا ایک ایسا ساتھی لڑاکا تھا جو یہاں پیدا نہیں ہوا تھا۔ گہرے خیالات والا ایک شخص، ایک ایسا شخص جس کے دماغ میں براعظم کے دوسرے حصوں میں جدو جہد کرنے کاخواب مچلتا تھا، اور جو بہت ایثار آمیز، بہت بے لوث، مشکل ترین چیزوں کو کرنے کے لیے ہمیشہ تیار،اور ہمہ وقت اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے کوتیار رہتا تھا۔

انہی وجوہات کی بنا پہ اْس نے سائراؔمائیستراکے مقام پر منظم کردہ ”سیکنڈ کالم“کے کمانڈر اور لیڈر کا  رینک جیت لیا۔ چنانچہ اْس کا رتبہ بڑھنے لگا۔ اْس نے ایک شاندار لڑاکا کے بطور ڈویلپ کرنا شروع کیا جس نے جنگ کے دوران بلند ترین رینکس تک پہنچنا تھا۔

چےؔ ایک بے نظیر سپاہی تھا۔ وہ ایک بے مثال لیڈر تھا۔ چےؔ، ملٹری نکتہِ نظر سے ایک غیر معمولی اہل شخص تھا، غیر معمولی بہادر، غیر معمولی آمادہ ِ پیکار۔ اگر بطور گوریلا، اس کے پاس اْس کی سب سے بڑی کمزوری تھی تو وہ اس کی حد اور ضرورت سے بڑھی ہوئی جارح جنگجوئی صفت تھی، خطرے کے لیے اْس کی حد سے بڑھی ہوئی توہین تھی۔

دشمن کا خیال ہے کہ وہ اْس کی موت سے کچھ حاصل کرسکے گا۔ چےؔ جنگ وجدل کا ایک ماسٹر تھا۔ وہ گوریلا جنگ کا ایک آرٹسٹ تھا۔اور یہ آرٹ اُس نے بے شمار مواقع پر کر دکھایا۔ مگر اْس نے یہ آرٹ خصوصی طورپر دو غیر معمولی کارناموں میں دکھایا۔ اْن میں سے ایک وہ حملہ تھا، جس میں اْس نے ایک کالم کی کمانڈ کی۔ ایسا کالم جس کا پیچھا ایک ہموار اور بالکل ناواقف علاقے پردشمن کے ہزاروں سپاہی کر رہے تھے۔اْس نے کامیلو ؔکے ساتھ اْسے سرانجام دیا۔۔۔ یہ ایک غیر معمولی فوجی مہم تھی۔

اس نے گوریلا جنگ میں اپنی آرٹسٹی لاس ولّاس صوبے میں اپنی برق رفتار مہم میں بھی دکھائی، بالخصوص سانتا کلارا شہر میں داخلے پہ نڈر حملے کے وقت۔ محض 300سپاہیوں کے کالم کے ساتھ۔ یہ ایک ایسا شہر تھا جس کا دفاع ٹینکوں، توپخانے اور کئی ہزار انفنٹری سپاہیوں سے کیا جارہا تھا۔ اْن دو ہیروئک کارناموں نے اْس پہ ایک غیر معمولی اہل لیڈر کے بطور مہر ثبت کردی، ایک ماسٹر کے بطور، انقلابی جنگ میں ایک آرٹسٹ کے بطور۔

بہر حال، اب اس کی ہیروئک اور عظیم الشان موت کے بعد، کچھ لوگ اْس کے نظریات کی اہمیت سے انکارکی کوشش کرتے ہیں، اس کی گوریلا تھیوریوں سے انکار کی کوشش کرتے ہیں۔ آرٹسٹ مرسکتا ہے(بالخصوص جب وہ انقلابی جدوجہدجیسے خطرناک شعبے میں آرٹسٹ ہو)۔ مگر جو چیز یقینا کبھی نہیں مرتی، وہ تو وہ آرٹ ہے جس کے لیے اْس نے اپنی زندگی وقف کردی۔ وہ آرٹ جس پہ اْس نے اپنی ذہانت وقف کردی۔

اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ یہ آرٹسٹ لڑائی کے دوران مرا؟۔ زیادہ حیرت کی بات تویہ ہے کہ وہ اْن بے شمار مواقع میں سے کسی لڑائی کے دوران نہیں مرا جب اْس نے ہماری انقلابی سٹرگل کے دوران اپنی زندگی داؤپر لگائے رکھی تھی۔ کئی بار اْسے چھوٹی اہمیت کے کاموں میں اپنی زندگی قربان کرنے سے روکنے کے اقدامات ضروری ہوجاتے تھے۔

اور چنانچہ یہ موت لڑائی کے دوران تھی۔ اُس کی لڑی ہوئی کئی جنگوں میں سے ایک کے اندر اُس نے اپنی زندگی د ے دی۔ ہمارے پاس یہ نتیجہ نکالنے کے لیے کافی شواہد موجود نہیں ہیں کہ اْس لڑائی کی صورتحال کیا تھی۔ پتہ نہیں آیا اس نے ضرورت اور حد سے زیادہ جارحانہ انداز سے کوئی اقدام کیاتھا۔ مگر، ہم دوہراتے ہیں کہ ایک گوریلا کے بطور اگر اس کے اندر کوئی بہت بڑی کمزوری تھی تو وہ اُس کا ضرورت اور حد سے زیادہ جارحانہ اندازِ جنگ تھا۔خطرے کے لیے اس کی حتمی توہین اس کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔

اور یہی وہ جگہ ہے جہاں ہم اُس کے ساتھ مشکل سے متفق ہو سکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اْس کی زندگی، اْس کا تجربہ، ایک کہنہ مشق لیڈر کے بطور اْس کی قابلیت، اْس کی اتھارٹی، اور اْس کی زندگی کی اہمیت کو ظاہر کرنے والی ہر چیز، اُس بات سے بہت زیادہ قیمتی تھی جس بات کو وہ اہم سمجھتا تھا۔

ہوسکتا ہے کہ اس کا رویہ اس خیال سے گہرا متاثر ہوا ہو کہ تاریخ میں افراد کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں ہے، اس خیال سے کہ لڑائی میں افراد کے مرنے سے کاز شکست نہیں کھاتے، اور اس  خیال سے کہ جب لیڈر جنگ میں مرتے ہوں تو ہسٹری کے طاقتور مارچ رک نہیں سکتے اور نہ رکیں گے۔

یہ سچ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اِس سے عوام پہ اْس کا بھروسہ نظر آتا ہے، نظریات پہ اْس کا یقین نظر آتاہے، مثالوں پہ اْس کا یقین نظر آتا ہے۔

لیکن ہم تو دلوں کی گہرائیوں سے اْسے فتوحات کے بنانے والے کے بطور دیکھنا چاہتے تھے، اْس کی کمان، اْس کی لیڈر شپ میں فتوحات کو حاصل ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ اِس لیے کہ اُس جیسے تجربہ کار، اْس جیسے قد آور،اْس جیسے ممتاز قابلیت والے لوگ زیادہ نہیں ہیں۔

ہم اُس کی ”مثال“ کی اہمیت کی مکمل توصیف کرتے ہیں۔ ہم حتمی طور پر قائل ہیں کہ بہت سارے لوگ اس کی مثال پہ پورا اترنے کی جدوجہد کریں گے، اور اْس جیسے بہت سے لوگ پیدا ہوں گے۔

ایک ایسا شخص ڈھونڈنا آسان نہیں ہے جس میں وہ ساری خوبیاں اکٹھی موجود ہوں جو کہ چے ؔمیں موجود تھیں۔ کسی شخص کے لیے از خود اْس جیسے کیریکٹر کو ڈویلپ کرناآسان نہیں ہے۔ میں کہوں گا کہ وہ اْن لوگوں میں سے ایک ہے جن کا ثانی مشکل ہے، اور جن سے سبقت لے جانا واقعتا ناممکن ہے۔ مگر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اْس جیسے لوگوں کی مثال، اْسی وجاہت کے لوگوں کے نمودار اور پیدا ہونے میں حصہ ڈالے گی۔

چےؔ کے اندر ہم صرف لڑاکا کی تعریف نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ ہم اْس شخص کی بھی تعریف کرتے ہیں جو عظیم کارنامے سرانجام دینے کے قابل ہے۔ اُس نے کیا کیا، وہ کیا کر رہا تھا؟۔ یانکی مشیروں کی تربیت کنندہ یانکی سامراج کی طرف سے بھیجی گئی اور سارے پڑوسی ممالک کی اولیگار کیوں (چند امیروں کی حکومتوں)کی پشت پناہی والی امیروں کی حکومت کی فوج کے خلاف مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ اس کی بغاوت کی حقیقت بذاتِ خود ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔

اگر ہم ہسٹری کے صفحات کھنگالیں، تو شاید ہم کوئی اور مثال نہیں دیکھ پائیں گے جس میں اس قدر کم افراد کے ساتھ کسی لیڈر نے اتنی بڑی اہمیت کے ذمے کے کام کو شروع کیا ہو۔ ایک ایسی مثال جس میں اس قدر کم افراد کے ساتھ اتنی بڑی افواج کے خلاف لڑائی شروع کی ہو۔ اپنے آپ پر بہت زیادہ اعتماد کا ایسا ثبوت، عوام پر اس قدر اعتماد کا ایسا ثبوت، لڑنے کے لیے آدمیوں کی اہلیت پہ اعتماد کا ایسا ثبوت ہسٹری کے صفحوں میں تلاش تو کیا جاسکتا ہے مگر اس کی مثال کبھی بھی نہ مل سکے گی۔

اور وہ لڑائی کے دوران مرا۔

دشمن کا خیال ہے کہ اْس نے چے ؔکے نظریات کو شکست دے دی، اُس کے گوریلا تصورات کو، انقلابی مسلح سٹرگل پہ اْس کے نکتہِ نظر کو شکست دے دی۔ انہوں نے قسمت کی ایک ضرب سے جو حاصل کیا، وہ اُسے جسمانی طور پر ختم کرنا تھا۔ جوکچھ  انہوں نے حاصل کیا وہ ایک حادثاتی فائدے کا حصول تھا جو ایک دشمن جنگ میں حاصل کرسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کئی دوسری جنگوں کی طرح کی ایک جنگ میں چے ؔکی اْس خصوصیت نے قسمت کی اْس ضرب کی کس حد تک مدد کی جس کے بارے میں ہم پہلے بات کرچکے ہیں: اُس کے حد اور ضرورت سے زیادہ جارحانہ اندازِ جنگ  والی خاصیت نے، خطرے کے لیے اس کی مکمل تحقیر  نے۔

یہ ہماری جنگ آزادی میں بھی ہوا۔ ڈوس رِیوس میں ایک جنگ کے اندر انہوں نے ہماری آزادی کے پیغمبرجوزی مارٹی کو ماردیا تھا،پْونٹا براوا میں ایک جنگ میں انہوں نے (کیوبائی جنگ آزادی میں)سینکڑوں لڑائیوں کے لیے ایک آزمودہ کار انتونیو ماسیوکو ماردیا۔ ہماری جنگِ آزادی کی اسی طرح کی جنگوں میں بے شمار لیڈرز، بے شمار محب وطن مارے گئے تھے۔ مگر یہ سب کیوبائی کاز کے لیے شکست کا باعث نہیں بنے۔

انقلابی تحریک کے لیے چے ؔکی موت ایک سخت دھچکا ہے، ایک ہیبت ناک دھچکا ہے۔ اس لیے کہ یہ بلاشبہ انقلابی تحریک کو اْس کے سب سے تجربہ کار اور قابل لیڈر سے محروم کرتی ہے۔

مگر جو لوگ فتح کی ڈینگ ماررہے  ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ وہ غلطی پر ہیں جب یہ سوچتے ہیں کہ اْس کی موت اْس کے نظریات کا خاتمہ ہے، اْس کے گوریلا تصورات کا خاتمہ ہے،یا،اْس کی تھیوری کا خاتمہ ہے۔ اس لیے کہ جو شخص جنگ میں مرگیا،ایک فانی شخص کے بطور، ایک ایسے شخص کے بطور جس نے بار بار گولیوں کا سامنا کیا، ایک سولجر کے بطور، ایک لیڈر کے بطور مرگیا۔۔۔ وہ اْن لوگوں سے ہزار گنا زیادہ قابل تھا جنہوں نے اْسے قسمت کی ایک ضرب سے قتل کیا۔

توانقلابیوں کو اس سخت نقصان کا سامنا کس طرح کرنا چاہیے؟۔ اگر چےؔ کو اِس نکتہ پر اپنی رائے دینی ہوتی، تو وہ کیا ہوتی؟۔ اْس نے تورائے دے دی تھی، اْس نے اْس وقت اپنی رائے واضح طور پر دے دی تھی جب اْس نے (ٹرائی کا نٹی ننٹل) لاطینی امریکن سالیڈیٹرٹی کو اپنے پیغام میں لکھا کہ اگر موت اْسے کسی بھی جگہ پہ اچانک آن لے، تو اْس کا خیر مقدم کیا جائے گابشرطیکہ اْس کا جنگی نعرہ ایک اور اثر لینے والے کان تک پہنچے اور، ایک اور ہاتھ اْس کی بندوق اٹھانے کے لیے آگے بڑھے۔

اُس کا جنگی نعرہ محض ایک اثر لینے والے کان تک نہیں پہنچے گا بلکہ یہ ملینوں اثر لینے والے کانوں تک پہنچے گا!۔ اور محض ایک ہاتھ نہیں بلکہ اس کی مثال سے انسپائر شدہ ملینوں ہاتھ اسلحہ اٹھانے آگے بڑھیں گے!۔ نئے لیڈر ابھر آئیں گے۔ اثر لینے والے کانوں اور آگے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو لیڈروں کی ضرورت ہوگی جو خود اْن کی صفوں میں سے ابھریں گے، اسی طرح جس طرح کہ سارے انقلابیوں میں لیڈر ابھر آئے ہیں۔

اْن ہاتھوں کو چے ؔجیسا ایک غیر معمولی تجربہ کار اور زبردست قابلیت والا لیڈر میسر نہ ہوگا۔ وہ لیڈر جدوجہد کے پراسیس میں بنیں گے۔ وہ لیڈر ملینوں اثر لینے والے کانوں کے اندر سے ابھر آئیں گے،ملینوں ہاتھوں میں سے جو جلد یا بدیر اسلحہ اٹھانے آگے بڑھیں گے۔

ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ انقلابی جدوجہد کے عملی دائرے میں اْس کی موت کے لازماً فوری ردعمل ہوں گے، یا اْس کی موت کے لازماً انقلابی جدوجہد کی ڈویلپمنٹ کے عملی دائرے میں فوری ردعمل ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب چے نے دوبارہ اسلحہ اٹھایا تو وہ ایک فوری فتح کا نہیں سوچ رہا تھا، وہ اولیگارکیوں (چند جاگیرداروں کی حکومتوں)اور امپیریلزم کی قوتوں کے خلاف ایک تیز رفتار فتح کا نہیں سوچ رہا تھا۔ ایک تجربہ کار فائٹر کے بطور اگر ضروری ہو تا تو وہ ایک 5،10،15،یا 20سال کی طویل سٹرگل کے لیے تیار تھا!۔ اور اْس تناظر کے اندر، اُس کی موت۔۔۔ یا بلکہ اُس کی مثال۔۔۔ کے زبردست ردعمل ہوں گے۔ اْس مثال کی قوت ناقابلِ تسخیر ہوگی۔

وہ لوگ جو قسمت کے اْس دھچکے کو اہمیت دیتے ہیں جس نے چےؔ کوماردیا،وہ بے فائدہ انداز میں بطور لیڈر اس کے تجربے اور اس کی اہلیت سے انکار کرتے ہیں۔ چے ؔغیر معمولی طور پر ایک قابل ملٹری لیڈر تھا۔ مگر جب ہم چے کو یاد کرتے ہیں، جب ہم چےؔ کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم بنیادی طور پر اس کی ملٹری صفات کے بارے میں نہیں سوچتے۔ جنگ ایک ذریعہ ہے،انجام نہیں۔ جنگ انقلابیوں کا ایک آلہ ہے۔ اہم چیز انقلاب ہے، اہم چیز انقلابی کاز ہے، انقلابی تصورات ہیں، انقلابی مقاصد ہیں، انقلابی جذبات ہیں، انقلابی صفات ہیں۔

اور اْس میدان میں،یعنی  نظریات کے میدان میں، جذبات کے میدان میں، انقلابی صفات کے میدان میں،ذہانت کے میدان میں ہم (ملٹری صفات کے علاوہ) اْس بہت بڑے نقصان کو محسوس کرتے ہیں جو اُس کی موت سے انقلابی تحریک کو ہوا ہے۔

چے ؔکا غیر معمولی کیریکٹر ایسی صفات سے بنا ہوا تھا جو کبھی کبھار ہی ایک جگہ پر اکٹھی ملتی ہیں۔

وہ ایک ایسا شخص تھا جس پر عمل میں کوئی انسان سبقت نہیں لے جاسکتا تھا۔مگر چےؔ صرف وہی نہ تھا۔۔۔۔ وہ وژنری ذہانت کا آدمی بھی تھا اور وسیع کلچر کا آدمی بھی تھا۔ وہ ایک جامع تھنکر بھی تھا۔ یعنی اس کے اندر آیڈیاز کا آدمی اور عمل کا آدمی جڑے ہوئے تھے۔

مگر صرف یہی نہیں کہ چےؔ آئیڈیاز کے آدمی (جامع آئیڈیاز) اور عمل کے آدمی کی ڈبل خصوصیات رکھتا تھا، بلکہ یہ بھی کہ چےؔ نے بطور انقلابی اپنے اندر وہ ساری صفات متحد کی تھیں جنہیں ایک انقلابی کے اوصاف کے مکمل ترین اظہار کا نام دیا جاتا ہے: مکمل راست بازی والا شخص،اعلیٰ ترین وقار کے احساس کا شخص، مکمل اخلاص کاآدمی، صابرانہ سخت ڈسپلن والی زندگی کی عادتوں کا شخص، ایک شخص جس کے برتاؤ میں ایک بھی دھبہ نہ مل سکے گا۔ وہ اپنی اوصاف میں اس بات کی تشکیل کرتا تھا جسے ایک انقلابی کا سچا ماڈل کہا جاسکتا ہے۔

جب لوگ مرجاتے ہیں تو عموماً تقریریں کی جاتی ہیں، اْن کی اوصاف پر زور دیا جاتا ہے۔ مگر کسی شخص کے بارے میں عظیم تر انصاف، عظیم تر دْرستی کے ساتھ مشکل سے وہ کچھ کہا جاسکتا ہے جو ہم اس موقع پہ چےؔ کے بارے میں کہہ رہے ہیں: یہ کہ وہ انقلابی اوصاف کا ایک خالص نمونہ تھا۔

مگر اس کے پاس ایک اور کوالٹی بھی تھی۔ دانش کی کوالٹی نہیں،نہ ہی ارادے کی، نہ ہی تجربے سے نکالی ہوئی کوالٹی کی، سٹرگل سے نکالی ہوئی کوالٹی کی نہیں،بلکہ دل کی ایک کوالٹی: وہ ایک غیر معمولی انسان تھا، غیر معمولی حساس انسان!۔

اسی لیے جب ہم اْس کی زندگی کا سوچتے ہیں، اْس کے برتاؤکا سوچتے ہیں توہم کہتے ہیں کہ وہ ایک غیر معمولی ترین انسان کی مثال تھا۔ وہ اپنی شخصیت میں نہ صرف عمل کے آدمی کی خصوصیات اکٹھارکھنے کے قابل تھا، بلکہ فکر کے ایک انسان والی خصوصیات بھی، بے عیب انقلابی اچھائیوں کے ایک شخص والی خصوصیات بھی اور غیر معمولی انسانی حساسیت،اور فولادی ارادے کی غیر مغلوب محکمی والی خصوصیات بھی۔

اس وجہ سے اس نے مستقبل کی نسلوں کے لیے صرف اپنا تجربہ نہیں چھوڑا، ایک ممتاز سولجر کے بطوراپنا علم نہیں چھوڑا بلکہ اُس نے بہ یک وقت اپنی ذہانت کے ثمرات بھی چھوڑے۔ اُس نے ہماری زبان کے ایک ماہر کے تقدس کے ساتھ لکھا۔ جنگ کے بارے میں اْس کے بیانیے بے نظیر ہیں۔ فکر کی اس کی گہرائی متاثر کْن ہے۔ اس نے کبھی بھی غیر معمولی سنجیدگی سے کم کے ساتھ کسی چیز پہ نہ لکھا، غیر معمولی غوروخوص سے کم کے ساتھ کسی چیز پہ نہ لکھا۔۔۔ اور ہمیں کوئی شک نہیں کہ اُس کی کچھ تحریریں آنے والی نسلوں کے لیے انقلابی فکر کے کلاسیک مسودات کے بطور منتقل ہوں گی۔

لہذا شدید اور گہری ذہانت کے ساتھ، اْس نے ہمارے لیے بے شمار یادیں، بے شمار بیانیے چھوڑے، جو اس کی محنت کے بغیر، اس کی کوششوں کے بغیر ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجاتے۔

جن برسوں میں اس نے ہمارے ملک کی خدمت کی،اْس انتھک ورکرنے ایک دن کا آرام بھی نہیں دیکھا۔ اْس کو بہت ذمہ داریاں دی گئیں:صدر نیشنل بنک، ڈائریکٹر سنٹرل پلاننگ بورڈ، وزیر صنعت، ملٹری ریجنوں کا کمانڈر، سیاسی یا معاشی یا برادرانہ وفود کا سربراہ۔

اس کی ہمہ جہت ذہانت کسی بھی قسم کی ذمہ داری کو مکمل یقین دہانی کے ساتھ قبول کرنے کے قابل تھا۔ چنانچہ اس نے کئی انٹرنیشنل کانفرنسوں میں ہمارے ملک کی عمدگی کے ساتھ نمائندگی کی۔ بالکل اُسی طرح جس طرح اس نے لڑائی میں سپاہیوں کی عمدگی کے ساتھ لیڈری کی، بالکل اُسی طرح اْسے جس بھی ادارے کی ذمہ داری دی جاتی تو وہ اس کا ماڈل ورکر انچارج ہوتا۔ اور اس کے لیے آرام کے کوئی ایام نہ ہوتے، اس کے لیے آرام کے کوئی گھنٹے نہ ہوتے!۔

اگر ہم اُس کے دفتر کی کھڑکیوں میں سے دیکھتے، تو رات کے سارے گھنٹوں میں اس کی لائٹس جل رہی ہوتیں۔ وہ پڑھ رہا ہوتا، یا کام کر رہا ہوتا۔ اس لیے کہ وہ سارے معاملات کا ایک سٹوڈنٹ تھا: وہ ایک اَن تھک رِیڈر تھا۔ سیکھنے کے لیے اس کی پیاس عملاً نہ بجھنے والی تھی، اور جو گھنٹے وہ نیند سے چْراتا انہیں مطالعے پر وقف کردیتا۔

وہ اپنے مقرر ہ چھٹی کے دنوں کو رضا کاری والی محنت (بلوچی میں ”ہشر“)پر لگاتا۔ وہ انسپریشن تھا اور اْس کام (ہشر)کے لیے عظیم ترغیب مہیا کرتا جسے آج ملک بھر میں لاکھوں لوگ کر رہے ہیں۔ اس نے اْس سرگرمی کوابھارا جس میں لوگ زیادہ سے زیادہ کوشش کر رہے ہیں۔

ایک انقلابی کے بطور، ایک کمیونسٹ انقلابی کے بطور، ایک سچے کمیونسٹ کے بطور اْس کا اخلاقی قدروں پر بے حد ایمان تھا۔ اور ہمیں کہنا چاہیے کہ وہ حتمی صراحت کے ساتھ انسانی معاشرہ میں کمیونسٹ تعمیر میں اخلاقی قوتِ محرکہ کو بنیادی لیور (lever)کے بطور دیکھتا تھا۔

اس نے بہت سی چیزیں سوچیں، ڈویلپ کیں اور لکھیں۔ اور آج کی طرح کسی دن بیان کرنا ہوگا کہ چےؔ کی تحریریں، چےؔ کی سیاسی اور انقلابی سوچ کیوبائی انقلابی پراسیس میں اور لیٹن امیریکن انقلابی پراسیس میں مستقل قدر کی ہوں گی۔ اور ہم شک نہیں کرتے کہ اس کے آئیڈیاز (عمل کے آدمی کے بطور، فکر کے آدمی کے بطور، اجلی اخلاقی اچھائیوں کے آدمی کے بطور، شاندار انسانی حساسیت کے آدمی کے بطور، بے دھبہ برتاؤ کے شخص کے بطور) عالمگیر اہمیت کے حامل تھے اور حامل رہیں گے۔

امپیریلسٹ،لڑائی کے دوران اس گوریلا کو قتل کرنے پر اپنی فتح پہ گھمنڈ کرتے ہیں۔ امپیریلسٹ قسمت کی ایک فتح مند ضرب پہ گھمنڈ کرتے ہیں جو عمل کے اس طرح کے ہولناک آدمی کو ختم کرگئی۔ مگر امپیریلسٹ شاید یہ نہیں جانتے یا نہ جاننے کا دکھاوا کرتے ہیں کہ”عمل کا آدمی“اْس لڑاکے کی شخصیت کے کئی پہلوؤں میں سے صرف ایک تھا۔ اور اگرہم غم کی بات کریں تو ہم محض عمل کے ایک آدمی کے نقصان پر ہی مغموم نہیں ہیں۔ہم تو اچھائی کے ایک شخص کے ضیاع پر بھی مغموم ہیں۔ ہم ناقابلِ سبقت انسانی حساسیت کے ایک شخص کے نقصان پر مغموم ہیں۔ ہم اس کی طرح کے ایک دماغ کے نقصان پر مغموم ہیں۔ ہم یہ سوچنے پر مغموم ہیں کہ اپنی موت کے وقت وہ محض 39سال کا تھا۔ ہم اضافی ثمرات کے کھوجانے پہ مغموم ہیں جو ہم اس ذہنی قابلیت اور اْس ہمیشہ کے امیر تر تجربہ سے حاصل کرتے۔

ہمیں انقلابی تحریک کے نقصان کی وسعت کا اندازہ ہے۔ البتہ، یہاں امپیریلسٹ دشمن کا ایک کمزور پہلو ہے: وہ سمجھتے ہیں کہ ایک شخص کو جسمانی طور پر ختم کرنے سے انہوں نے اْس کی سوچ کو ختم کردیا ہے، کہ ْاسے جسمانی طور پر ختم کر کے انہوں نے اْس کے نظریات کو ختم کیا ہے، اْس کی اچھائیوں کو ختم کیا ہے، اْس کی مثال کو ختم کیا ہے۔

وہ اس قدر بے شرم ہیں کہ انہیں یہ چھاپنے میں کوئی جھجک نہیں ہوئی کہ انہوں نے اْسے لڑائی میں بری طرح زخمی ہونے کے بعد قتل کردیا۔ لگتا ہے انہیں اس طریقِ کار کی کراہت کا ادراک ہی نہیں، اسے قبول کرنے کی بے شرمی کاادراک ہی نہیں۔ انہوں نے اْسے اس طرح شائع کیا ہے جس طرح کہ ٹھگوں، بھاڑے کے ٹٹوؤں اور  اولیگارکیوں (چندامیروں کی حکومتوں)کوایک شدید زخمی شدہ انقلابی لڑنے والے کو شوٹ کرنے کا حق حاصل ہو۔

اِس سے بھی بدتر وہ تشریح ہے جو وہ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔وہ کہتے ہیں کہ اگر چےؔ پہ مقدمہ چلایا جاتا تو یہ بالکل ایک زلزلہ ہوتا، کہ اس انقلابی کو عدالت کے کٹہرے میں جگہ دینا ناممکن ہوتا۔

اور صرف یہی نہیں، وہ اْس کی میت کو غائب کرنے سے بھی نہیں جھجکے۔ خواہ یہ سچ ہو یا جھوٹ انہوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے اُس کی میت جلا ڈالی۔ یوں انہوں نے اپنا خوف دکھانا شروع کردیا۔ یہ دکھانا شروع کیا کہ انہیں اس قدر یقین نہیں ہے کہ لڑنے والے کو جسمانی طور پر ختم کر کے، وہ اْس کے نظریات کو ختم کرسکتے ہیں، اْس کی مثال کو ختم کر سکتے ہیں۔

چےؔ کسی اور مقصد کے دفاع میں نہیں مرا۔ وہ اِس براعظم کے استحصال شدگان اور محکوموں کے کاز کے علاوہ کسی اور کاز کے لیے نہیں مرا۔ چےؔ اس زمین کے غریبوں اور خاک نشینوں کے کاز کے علاوہ کسی اور کاز کے لیے نہیں مرا۔ اور جس مثالی طریقے سے اور جس بے لوثی سے وہ اس کاز کے دفاع کے لیے لڑا، اْس پر اْس کا تلخ ترین دشمن بھی سوال نہیں اٹھا سکتا۔

تاریخ کے سامنے، جو لوگ وہ عمل کریں جو کہ اْس نے کیا، جو لوگ غریبوں کے کاز کے لیے ہر چیز قربان کریں، وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ قد میں بلند ہوتے جائیں گے۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کے دلوں میں ایک زیادہ گہری جگہ پاتے جائیں گے۔ امپیریلسٹ دشمن یہ دیکھنے لگے ہیں، اور بہت وقت نہیں گزرے گا کہ یہ ثابت ہوجائے گا کہ اس کی موت، طویل عرصے میں، ایک بیج کی طرح ہوگی جو ایسے بہت سے لوگ پیدا کرے گی جو اُس کے نقش ِ قدم پر چلنے پہ مصمم ہوں، بہت سے لوگ جو اُس کی مثال پہ چلنے پہ مصمم ہوں۔

ہم مکمل طور پر قائل ہیں کہ اِس براعظم پر انقلابی کاز اِس ضرب سے تندرست ہوجائے گا، ہم مکمل طور پر قائل ہیں کہ اس براعظم پر انقلابی تحریک اس ضرب سے کچل نہیں جائے گی۔

انقلابی نکتہِ نظر سے، ہمارے عوام کے نکتہ نظر سے، ہمیں چےؔ کی مثال کو کس طرح دیکھنا چاہیے؟۔ کیا ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم اْسے کھوچکے ہیں؟۔ یہ سچ ہے کہ ہم اْس کی نئی تحریریں نہیں دیکھ سکیں گے۔ یہ سچ ہے کہ ہم دوبارہ اْس کی آواز کبھی نہیں سن سکیں گے۔ مگر چےؔ دنیا کے لیے ایک ورثہ چھوڑگیا، ایک عظیم ورثہ، اور ہم جو اْسے اچھی طرح جانتے تھے، بہت بڑی تعداد میں اْس کے مستفید ہونے والے بن سکتے ہیں۔

وہ اپنا انقلابی فکر اوراپنے انقلابی اوصاف ہمارے پاس چھوڑ گیا ہے۔ وہ اپنا کیریکٹر، اپنا مصمم ارادہ، اپنی محکمی،اورکام کا اپنا سپرٹ ہمارے لیے چھوڑگیا ہے۔ وہ اپنی مثال ہمارے لیے چھوڑ گیا ہے!۔ اور چےؔ کی مثال ہمارے عوام کے لیے ایک ماڈل ہوگی۔ چےؔ کی مثال ہمارے عوام کے لیے آئیڈیل ماڈل ہوگی۔

اگر ہم یہ بیان کرنا چاہیں کہ ہم اپنے انقلابی مبارز لوگوں، اپنے ملی ٹنٹس، اوراپنے عوام سے کیا خواہش رکھتے ہیں، تو ہمیں بلاجھجک کہنا ہوگا: وہ چے ؔکی طرح ہوں۔ اگر ہم یہ اظہار کرنا چاہیں کہ مستقبل کی نسلوں کے عوام کو کیسا ہونا چاہیے کہ تو ہمیں کہنا ہوگا:وہ چےؔ کی طرح ہوں۔ اگر ہم یہ کہنا چاہیں کہ ہمارے بچے کس طرح ایجوکیٹڈ ہوں تو ہمیں بلاجھجک کہنا ہوگا: ہم انہیں چے ؔکی سپرٹ میں تربیت حاصل کرتا دیکھنا چاہتے ہیں!۔ اگر ہم  ایک ایسے انسان کا ماڈل چاہیں جس کا ہمارے زمانے سے تعلق نہ ہو بلکہ مستقبل سے ہو،تومیں اپنے دل کی گہرائی سے کہتا ہوں کہ ایسا ماڈل، جس کے برتاؤ میں ایک بھی دھبہ نہ ہو، جس کے عمل میں ایک بھی دھبہ نہ ہو، جس کے رویے میں ایک بھی دھبہ نہ ہو، وہ چےؔ ہے!۔اگر ہم یہ کہنا چاہیں کہ ہمارے بچوں کو کیسا ہونا چاہیے تو ہمیں پرجوش انقلابیوں کے بطور اپنے دل سے کہنا ہوگا: ہم چاہتے ہیں کہ وہ چےؔ کی طرح ہوں!۔

مستقبل کے انسانوں کو کیسا ہونا چاہیے، چےؔ اْس کا ایک ماڈل بن چکا تھا۔ نہ صرف ہمارے عوام کے لیے بلکہ لاطینی امریکہ کے عوام کے لیے بھی۔

چےؔ انقلابی برداشت،قربانی کے انقلابی سپرٹ،انقلابی جنگجوئی،کام کے انقلابی جذبے کو اْس کے بلند ترین اظہار میں رکھتا تھا۔ چےؔ مارکسزم لینن ازم کے تصورات کو اْن کے تازہ ترین، خالص ترین اور انقلابی ترین اظہار تک لایا۔ ہمارے عہد کا کوئی ددسرا کوئی شخص پرولتاری انٹرنیشنلزم کے سپرٹ کو اْس کی ممکنہ بلند ترین سطح تک نہیں لایا جتنا کہ چے ؔلایا۔

اور جب کوئی کسی ایک پرولتاری انٹرینشنلسٹ کے بارے میں بولتا ہے، اور جب کسی پرولتاری کوانٹرنیشنلسٹ کی مثال کی تلاش ہوگی، تو وہ مثال، کسی بھی دوسری مثال سے بلند مثال، چےؔ کی مثال ہوگی۔ قومی پرچمیں، تعصبات، شاونزم اور اناپرستی اُس کے دل ودماغ سے غائب ہوچکے تھے۔ وہ کسی بھی قوم کے لیے کسی بھی قوم کی کاز کے لیے فی البدیہہ اور فی الفور اپنا سخی خون بہانے کے لیے تیار رہتا تھا۔

اْس کا خون ہماری سرزمین پر اْس وقت گرا جب وہ کئی لڑائیوں میں زخمی ہوچکا تھا۔ اور اْس کا خون بلیویا میں گرا۔محکوموں اور استحصال شدگان کی آزادی کے لیے، غریبوں اور عاجزوں کی آزادی کے لیے بلیویا میں گرا۔ وہ خون سارے استحصال شدگان اور سارے محکوموں کی خاطر گرا تھا۔ وہ خون براعظم امریکہ کی ساری قوموں اور ویت نام کے عوام کے لیے گرا تھا۔ اس لیے کہ اولیگار کیوں (چند امیروں کی حکومتوں)اور امپیریلزم کے خلاف لڑتے ہوئے وہ جانتا تھا کہ وہ ویت نام کو اپنی یک جہتی کا ممکنہ حد تک بلند ترین اظہار پیش کررہا تھا۔

یہی وجہ ہے انقلاب کے ساتھیو!،کہ ہمیں مستقبل کا مضبوطی اور پختہ ارادے کے ساتھ سامنا کرنا چاہیے، بھرپور امید کے ساتھ۔ اورہم ہمیشہ انسپریشن کے لیے تلاش چے کی مثال کی صورت میں کریں گے۔ انسپیریشن سٹرگل میں، انسپیریشن اتحاد میں، انسپیریشن دشمن کی طرف بے لچکی میں، انسپریشن انٹرنیشنلسٹ احساس میں!۔

لہذا، آج رات کی متاثر کن تقریب اس کی وسیع مقبولیت کے تسلیم کرنے کا حیرت انگیز (اپنے اس وسعت،ڈسپلن اور خلوص کی روح کے لیے حیرت انگیز) اظہار یہ واضح کرتا ہے کہ ہمارے عوام ایک حساس اورشکرگزار عوام ہیں۔ ہمارے عوام جانتے ہیں کہ ُاس بہادر کی یاد کو کیسے عزت دی جائے جو جنگ میں مرتا ہے۔ ہمارے عوام انہیں تسلیم کرتے ہیں جو اْن کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ بات انقلابی جدوجہد کے ساتھ، عوام کی یک جہتی ظاہر کرتی ہے۔ اور یاد کرنے کے اِن لمحوں میں یہ عوام آج انقلابی پر چموں اور انقلابی اصولوں کو سربلنداٹھاتے ہیں اور ان کی سربلندی قائم رکھتے ہیں۔ آئیے ہم اپنے سپرٹ کو بلند کریں اور، مستقبل میں امید رکھنے کے ساتھ، عوام کی آخری فتح میں حتمی امید رکھ کر چےؔ کو اور اس کے ساتھ جو لڑے اور مرے، کہہ دیں:

۔فتح کی طرف ہمہ وقت پیش قدمی!۔

وطن یا موت!۔

ہم جیتیں گے

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *