Home » قصہ » نوٹنکی والی۔۔۔جاوید صدیقی

نوٹنکی والی۔۔۔جاوید صدیقی

ساجد کے ہاتھ مشین کی تیزی سے چل رہے تھے اور کان ملّا طاہر کی آواز پر لگے ہوئے تھے جو ایک اونچے اسٹول پر بیٹھے ہل ہل کر کوئی اسلامی ناول سنا رہے تھے۔ وہ بہت اچھاپڑھتے تھے،اُن کی آواز منظر کے مطابق اونچی نیچی ہوتی رہتی تھی، کبھی اس طرح چلّاتے کہ سڑک سے گزرنے والے رُک جاتے اور کبھی اتنے جذباتی ہوجاتے کہ رونے لگتے۔

’ہلاکو خان بغداد پر حملے کے لیے اپنا لشکر لے کر بڑھ رہا تھا عراق کے صحرا میں گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہل چل مچی ہوئی تھی ریت کا بادل اڑرہا تھا۔آسمان میں چمکتا ہوا سورج دھندلا ہو گیا تھا اور شہر بغداد کی فصیلوں پر تیر اندازکمانوں پر تیر چڑھائے اس گرد کی طرف دیکھ رہے تھے جو دھیرے دھیرے ان کی طرف بڑھ رہی تھی اور نیچے شہر کی مسجدوں میں ہزاروں گھبرائے ہوئے خوف زدہ مسلمان زور زور سے آیت کریمہ کا ورد کر رہے تھے…‘

ساجد کو سب کچھ دِکھائی دے رہا تھا وہ خود حملے کے خوف سے پریشان لوگوں کی بھیڑ میں شامل تھا مگر اس کے ہاتھوں کی رفتار میں کوئی فرق نہیں تھا۔ وہ پتّا اٹھاتا اس پر تمباکو ڈالتا،لپیٹتا اور اپنے ناخون سے، جسے اس نے قلم کی نب کی طرح بنایا ہوا تھا،بیڑی کا منہ بند کرتا دھاگا لپیٹتا اور پاس رکھے چھاج میں ڈال دیتا۔ اسے ایک بیڑی بنانے میں پانچ سات سیکنڈ سے زیادہ نہیں لگتے تھے۔

وہ بیڑی کے جس کارخانے میں کام کرتا تھا وہاں چوبیس کاریگراور بھی تھے مگر ساجد سب سے تیز تھا اس کے ہاتھ کی بیڑی بھی ہمیشہ ایک جیسی ہی ہوتی تھی موٹی، پتلی یا ڈھیلی نہیں ہوتی تھی۔کارخانے دار بشیر خان نئے کا ریگروں کو ساجد کے پاس بٹھا یا کرتا اور کہتا

ؔ”سیکھو سیکھو!اگر اچھی بیڑی بنانی ہے تو ساجد کو دیکھو ایسا لگتا ہے جیسے مشین سے بن کر نکلی ہو۔!“

ساجد خوش ہو جاتا اور اس کا ہاتھ کچھ زیادہ تیزی سے چلنے لگتا۔ اس کا روزانہ اوسط بھی اچھاتھا۔ شام کو کام ختم ہونے پر جب وہ دس دس بیڑی کے بنڈل بناتا تو ایک سو بیس یا ایک سو تیس بنڈل سے کم نہ ہوتے۔

بیڑی تین روپے سیکڑہ کے حساب سے بنتی تھی اس لیے ساجد کی روزانہ آمدنی خاصی معقول تھی۔ پیسے ہر ہفتے ملتے تھے جب وہ بہت سے نوٹ اماں کے سامنے رکھتا تو وہ دو پٹہ پھیلاکر اللہ سے ساجد کی ترقی،کامیابی اور لمبی عمر کی دعائیں کرتیں اور پھر ساجد کے پیر کو دیکھ کر رو پڑتیں۔ ساجد کا سیدھا پیر ران سے لے کر نیچے تک بالکل سوکھا ہوا تھا ایسا لگتا تھا جیسے ہڈیوں پر چمڑا منڈھ دیا گیا ہو۔گوشت کا تو نام ونشان تک نہیں تھا۔ جب وہ کھڑا ہوتا تو پیر اس طرح ہلتا تھا جیسے ٹوٹا ہوا ڈنڈا لٹک رہا ہو۔اماں کو بڑ اارمان تھا ساجد کی دلہن لانے کا مگر لنگڑے کو کون بیٹی دیتا ہے؟وہ دل مسوس کر رہ جاتیں۔ساجد کا ایک بڑ ابھائی بھی تھا جو اپنی بیوی اور چار بیٹیوں کے ساتھ الگ رہتا تھا۔ وہ ہر ہفتے ماں اور بھائی سے ملنے آتا تھا مگر خیریت لینے نہیں، اُدھار مانگنے۔ اس کی پان بیڑی سگریٹ کی دوکان چلتی ہی نہیں تھی۔ جو تھوڑی بہت آمدنی ہوتی وہ گھر کے خرچے میں لگ جاتی۔ اکثر دوکان میں مال بھرنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔اماں ماجد اور اس کی بیوی کو پچاس باتیں سناتیں مگر ساجد اپنے بھائی کو مایوس نہ کرتا۔ اللہ کس کی روٹی کس کے ہاتھ سے بھیجتا ہے یہ وہی جانتا ہے۔

ملّا طاہر پڑھتے پڑھتے اچانک رُک گئے۔ بہت زور سے لاحول پڑھا۔ اور دنیا کے شیطانی کارخانے پر لعنت بھیجنے لگے۔

کار خانے کے باہر سڑک پر زور زور سے لاؤڈ اسپیکر بج رہا تھا۔تھوڑی دیر میں وہ سائیکل رکشا سامنے آگیا جس پر لاؤڈاسپیکر لگاہو ا تھا۔ رکشا کے چاروں طرف ہاتھ کے بنے ہوئے پوسٹر لگے تھے اور رکشا کے اندر بیٹھا ہوا آ دمی چلّا رہا تھا۔

”آپ کے شہر میں پہلی بار پہلی بار پہلی بار انڈیا کی بہترین نوٹنکی، آزاد بھارت نو ٹنکی کمپنی۔آزاد بھارت نو ٹنکی کمپنی۔آزاد بھارت نو ٹنکی کمپنی۔دس دن تک روز ایک نئی نوٹنکی۔نیا کھیل۔دیکھئے دیکھئے دیکھئے۔ ڈاکو کی بیٹی۔سیّاں بھئے کوتوال۔ آج کی انار کلی۔ آج کی انار کلی۔ آج کی انار کلی…“

رکشا دور نکل گیا۔ آواز ہلکی ہو گئی ملا طاہر نے پھر پڑھنا شروع کر دیا

’ہلاکو کے وحشی قلعے کا دروازہ توڑنے میں لگے تھے مگر ساجد کا دھیان کہیں اور تھا اس کے کانوں میں نوٹنکی والے کی آواز گونج رہی تھی۔

ؔ”ڈاکو کی بیٹی،سیّاں بھئے کوتوال،آج کی انار کلی…“

سنیما اور تھیٹر ساجد کی بڑی کمزوری تھے۔ اماں کو معلوم تھا اس لیے وہ ہر جمعہ کو دس کا نوٹ نکال کر ساجد کو دے دیا کرتی تھیں، ساتھ ہی نصیحت بھی کرتی تھیں کہ سنیما تھیٹر گناہ ہیں ان سے دور رہنا چاہئے۔ ساجد سنتا زور سے سر ہلاتا،کونے میں سے اپنی لاٹھی اٹھا کر اس پر اپنا سوکھا پیر اس طرح لپیٹ لیتا جیسے جنگلی بیل پیڑ سے لپٹ جاتی ہے اور کھٹ کھٹ کرتا تیزی سے باہر نکل جاتا۔

اس گناہ میں ساجد کا شریک رام آسرے تھا۔ پڑوسی بھی تھا،بچپن کا دوست بھی تھا اور ساجد کے ساتھ ہم دردی بھی نہیں کرتا تھا جس سے ساجد کو سخت نفرت تھی  جیسے ہی ساجد آواز لگاتا، رام آسرے اس تیزی سے باہر آتا جیسے دروازے کے پاس ہی کھڑا ہو۔ ساجد کو دیکھتے ہی اس کے موٹے موٹے ہونٹ کھِل جاتے اور وہ چہک کر پوچھتا۔

”کیا بڑے بھیّا کدھر کا وچار ہے؟ اتّر یا دکھن۔؟“

شہر میں دو ہی سنیما تھے اس لیے جس میں نئی پکچر لگی ہوتی اس کی باری آجاتی۔ ڈھائی روپے والا ٹکٹ لے کر گدّے دار کرسی پر بیٹھ کر فلم دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔فلم دیکھنے کے بعد بالکل ایسا لگتا جیسے ہفتے بھر کی تھکن تین گھنٹے میں اُتر گئی ہو،واپسی میں متھراداس کی دوکان پر ملائی والا ایک کلہّڑ دودھ اور گنگا رام کا پان  دودھ اور پان کے پیسے عام طور پر رام آسرے دیتا تھا کیونکہ وہ دن بھر اپنے باپ کی پر چون کی دوکان پر کام کرتا تھا اور موقع ملتے ہی ایک دو روپے اِدھر اُدھر کر لیتا تھا،ساجد اُسے روکتا تو وہ ہنس پڑتا۔

”ارے بڑے بھیّا۔باپو ہمیں تنخواہ تو دیتا نہیں ہے۔مفت میں کام کراتا ہے،دو ٹیم کی روٹی اور چار گالیاں ملتی ہیں۔پھر بھی ہم چوری نہیں کرتے اپنا کمیشن نکال لیتے ہیں۔“

کبھی کبھی موسم اچھا ہوتا تو نالے کی پُلیا پر بیٹھ جاتے اور بیڑی سلگاکر سپنوں کی باتیں کرتے،جب اُن کے اپنے گھر ہونگے،گھروں میں بیوی بچّے ہونگے اور خرچا کرنے کے لیے بہت سے پیسے ہونگے۔

شہر میں نو ٹنکی بہت دنوں بعد آئی تھی۔ ساجد نے زندہ ناچ گانا دو برس پہلے دیکھا تھا جب بمبئی کی ایک تھیٹر کمپنی آئی تھی اور اس میں اسٹیج پر ایسی خوبصورت لڑکیاں فلمی گانوں پر ناچ رہی تھیں کہ ساجد کو کئی ہفتے تک روزانہ سویرے ٹھنڈے پانی سے نہانا پڑا تھا۔

ساجد سے کام ہی نہیں ہو رہا تھا کانوں میں ملّا طاہر کی آواز کے بدلے نوٹنکی والے کی آواز گونج رہی تھی اس نے چاروں طرف دیکھا،سارے کاریگر اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔کار خانے دار بشیر خان دروازے کے پاس بیٹھا ٹینڈو کے پتّے چھانٹ رہا تھا۔ اچھے پتّے صاف کرکے پانی کی بالٹی میں ڈال دیتا جو خراب ہوتے اُنھیں پھینک دیتا۔

”استاد۔!“ ساجد نے بشیر خان کو آواز دی۔

بشیر نے ساجد کی طرف سر گھمایا اور منہ بنا کر بولا

”معلوم ہے معلوم ہے۔پتّا خراب آرہا ہے تو کیا کریں۔حرام کے جنے،سالے۔ان کی ماں کی… جنگلوں پہ ایسا قبضہ کرکے بیٹھ گئے ہیں جیسے اُن کے باپ جاگیر میں چھوڑگئے تھے۔بھاؤ بڑھاتے جا رہے ہیں حرامی…“

ساجد نے لمبی سانس لی۔یہ باتیں وہ کئی سال سے سنتا آرہا تھا۔اور یہ بھی جانتا تھا کہ بشیر خان پتے اور تمباکو کی مہنگائی کا رونا اس لیے روتا ہے کہ کاریگروں کی مزدوری نہ بڑھانی پڑے۔

”ہاں یہ تو ہے استاد۔مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔مگر ہم دوسری بات کہہ رہے تھے۔!“

”کیا بات ہے۔؟“ بشیر خان کا لہجہ بدل گیا۔

ساجد اس کا سب سے اچھا کاریگر تھا۔

”ہمیں کچھ دن کی چھُٹّی چاہئے!“ساجد نے کہا

بشیر خان نے جلدی سے بالٹی میں ہاتھ دھوئے اور پاس آگیا

”کیا ہوا بھیّا۔تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔؟“

”ہاں طبیعت تو ٹھیک ہے۔وہ رامو کے ساتھ باہر جانا تھا۔“

”کیسی بات کر رہا ہے یار؟مال کی ڈلیوری دینی ہے اور تو چھُٹّی مانگ رہا ہے۔!“بشیر خان پریشان ہو گیا۔

”اچھا تو یوں کرتے ہیں کچھ دن ذرا جلدی چلے جایا کرینگے۔!“

”ہاں یہ ٹھیک ہے۔!“بشیر خان نے سر ہلایا اور اطمینان کی سانس لی۔

”کچھ ایڈوانس بھی چاہئے ہوگا۔!“

بشیر خان نے سات دن پرانی جھنکاڑ داڑھی کھجا کر کچھ سوچا اور پوچھا

”کتنا چاہئے۔؟“

”بس ایک پان سو۔!“

”مل جائینگے۔!“بشیر خان نے بڑے پیار سے کہا

”مگر پہلے یہ بتا تیرے اوپر پچھلی کوئی اُدھاری آتی ہے کیا؟“

ساجد بہت زور سے ہنسا

”ارے استاد۔ تم کسی پر دمڑی چھوڑتے ہو جو ہم پر چھوڑدیتے ایک ایک بیڑی کا تو حساب کرتے ہو۔!“

کار خانے دار کو اپنی کنجوسی کی شہرت کا پتہ تھا مگر وہ شرمندہ نہیں ہوتا تھا۔اس لیے زور سے ہنسا اور پھر پتّے چھانٹنے لگ گیا۔!

رام آسرے نے ساجد کا پروگرام سنا تو موٹے موٹے ہونٹ گالوں تک پھیل گئے۔

”ارے میّا رے۔ مزہ آجائے گا۔پورے دس دن تک روز نو ٹنکی۔!“

اس نے ساجد کی کمر پر زور سے ہاتھ مارا اور بولا

”اس بات پہ ایک چا اور ہو جائے۔ارے او جمیل ایک چا بھیج۔“

”تیرے پاس مال کتنا ہے رامو۔؟“

”ابھی تو ٹھن ٹھن گوپال ہیں مگر پربندھ ہو جائے گا۔باپو کی جیب کاٹینگے،نہیں تواماں سے مانگ لینگے۔کتنے پیسے چاہئں۔؟“

”ہمارے پاس آٹھ سو ہیں پانچ سو بشیرا دے گا تو تیرہ سو ہو جائینگے تو بھی اتنا ہی کر لے توآگے بیٹھ کے دیکھیں گے۔!“

رام آسرے کی آنکھوں میں چمک آگئی۔

”یہ ناٹک نوٹنکی والے بمبئی،کلکتہ سے ایسی ایسی کترنیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں کہ سالی نیند اڑ جاتی ہے۔ پاس سے دیکھنے کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔مگر یار فس کلاس تو بہت مہنگا ہو تا ہے۔!“

”ہاں ہو تا ہے۔“ساجد نے سر ہلایا ”مگر نوٹنکی روز روز تو آتی نہیں ہے۔!“

رام آسرے نے بھی زور سے سر ہلایا۔

”ہاں یہ بات تو ہے۔!“

ساجد نے آدھی چائے طشتری میں ڈال کر منہ کو لگائی اور پیالی رام آسرے کی طرف بڑھا دی۔ یہ دونوں کا روزانہ کا معمول تھا۔ چائے ہمیشہ بانٹ کر پیتے تھے

نو ٹنکی کا منڈوا شہر کے باہر لگا تھا اس لیے ایک رکشا والے کو تیار کیا گیا کہ وہ روزانہ دونوں دوستوں کو لے کر جائے اور شو کے بعد واپس لائے۔

ساجد جب شام کو نو ٹنکی کے منڈوے کے سامنے رکشا سے اترتا تواسے بالکل ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ کوئی بہت امیر سیٹھ ہو اور بڑی سی گاڑی سے اُتر رہا ہو۔ اور تنبو کے دروازے پر جو بینڈ باجا بج رہا ہے وہ اس کے استقبال کے لیے ہے۔ وہ ایک ادائے بے نیازی سے رامو کو اشارہ کرتا جو گیٹ کیپر کو فرسٹ کلاس کے ٹکٹ دِکھاتا۔اُسے لے جا کرسب سے آگے صوفے پر بٹھایا جاتا اور بٹھانے والا لڑکا ادب سے پوچھتا

”ساب کچھ ٹھنڈا گرم لاؤں؟“

اور وہ فاتحانہ شان سے جواب دیتا

”انٹرویل میں لانا۔!“

نوٹنکی کی دس شامیں ساجد کے لیے ایک خوبصورت رنگین خواب کی طرح تھیں۔ جب تک تماشا چلتا رہتا وہ سب کچھ بھول جاتا۔اُسے دھیان بھی نہیں آتا کہ وہ ایک معمولی سا مزدور ہے جو بیڑی کے کارخانے میں تین روپے سیکڑہ پر بیڑیاں بناتا ہے،اس کا ایک پیر پولیو کی نذر ہو چکا ہے اور وہ لاٹھی کا سہارا لیے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتا۔ وہ اکثر سوچتاکہ یہ نو ٹنکی ناٹک اور سنیما بڑے بڑے اسٹیشن ہیں جیسے ریلوے اسٹیشن ہوتے ہیں۔ جہاں خوابوں کی گاڑی آتی ہے اور سب کو بٹھا کر لے جاتی ہے۔ خوب گھماتی ہے،خوب مزے کراتی ہے، پھر اپنے اسٹیشن پر لا کر اُتار دیتی ہے۔

شو کے بعد جب دونوں رکشا میں بیٹھتے تو گھر تک اس دن کی نوٹنکی کی باتیں کرتے رہتے۔رام آسرے کو اَچھّن ماسٹر کی کامیڈی بہت پسند آتی تھی وہ ہر ڈائلاگ پر جن میں زیادہ تر دو معنی ہوتے لوٹ پوٹ ہو جاتا اُنھیں بار بار دوہراتا اور زور زور سے ہنستا۔ ساجد کو نہ اَچھّن ماسٹر سے دل چسپی تھی نہ ناچ گانے سے وہ تو پہلے دن سے ہی سروج رانی کی اداؤں کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ سروج رانی آزاد بھارت نوٹنکی کمپنی کی جان تھی زیادہ تر دیکھنے والے اُسے اِس طرح آنکھیں پھاڑپھاڑ کر دیکھتے جیسے وہ آسمان سے اُتر آئی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کافی خوبصورت تھی۔ بدن بھی اچھا تھا اور کپڑے ایسے پہنتی تھی کہ ہر ایک انگ باہر آنے کو بیتاب نظر آتا تھا۔ مگر سب سے زیادہ قیامت تھی اس کی وہ ادا جس میں وہ سر کو ذرا سا ٹیڑھا کر کے ترچھی نظر سے دیکھتی تو دیکھنے والوں کے منہ سے ہائے نکل جاتی۔آواز بھی اچھی تھی اور ادا ئیگی بھی اور ڈانس کا تو کہنا ہی کیا۔ سر سے پاؤں تک ایک ایسا شعلہ بن جاتی جو ہواؤں سے مقابلہ کر رہاہو۔ وہ جب اسٹیج پر ہوتی تو ساجد کو اپنا ہوش بھی نہ رہتا۔ رام آسرے زور زور سے ہنستا،تالیاں بجاتا،اس کی پسلی میں کو ہنی مارتا مگر ساجد تو کہیں اور ہوتا تھا۔ کارخانے میں بھی اس کی یہی حالت ہوتی،کام کرتے کرتے رُک جاتا، پلکیں جھپکائے بغیر کچھ سوچتا رہتا۔ ایک دن بشیر خان نے ساجد کو پتّا ہاتھ میں لیے ساکت بیٹھے دیکھا تو آواز لگائی۔

”او میرے یار ساجد تیرے ہاتھوں کی مشین کیوں رُکی ہوئی ہے،کیا ہوا گیا ہے تجھے؟کسی لونڈیا ونڈیا کے چکّر میں تو نہیں پھنس گیا نا میرے بھائی؟“

تھوڑی دیر کو ایسا لگا جیسے ساجد کی چوری پکڑی گئی ہو۔ مگر وہ سنبھل گیا،ہنس کے بولا

”استاد۔لونڈیا تو ہے مگر باہر نہیں آرہی ہے۔!“

”اچھا۔“ بشیر خان نے کہا”کہاں چھُپی ہوئی ہے؟“

”آنکھوں میں!“ساجد نے کہا

آس پاس والے زور سے ہنس پڑے۔

وہ جب بھی سوچتا کہ کچھ دن میں نو ٹنکی کمپنی چلی جائے گی اور اس کے ساتھ ہی سروج رانی بھی رخصت ہوجائے گی تو اُسے ایسا لگتا جیسے اچانک اس کے اندر سے کوئی چیز کم ہو گئی ہے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جس میں سائیں سائیں کی آواز گونج رہی ہے۔ وہ اپنے سر کو جھٹکا دیتا،اپنے چاروں طرف دیکھتا جہاں اس کے ساتھی کاریگر سر جھکائے اس کی حالت سے بے خبر بیڑیاں بنا رہے ہوتے۔وہ خود کوسمجھاتا۔

”ارے تو پاگل ہو گیا ہے کیا؟سروج رانی پر عاشق ہو گیا ہے، کبھی اپنی حالت دیکھی ہے سالے لنگڑے، کہاں تو ایک بیڑی مزدور اور کہاں وہ جس کے چاہنے والوں کی کوئی گنتی نہیں ہے۔جس کے ایک اشارے پر نہ جانے کتنے بڑے بڑے سیٹھ اپنی تجوریوں کے منہ کھول دینگے۔ اور تو کیا دے گا اس کو، بیڑی کا بنڈل۔؟“

ساجد خود ہی ہنس پڑا مگر اس ہنسی میں بڑا درد تھا اُس کے آنسو نکل آئے۔

دسویں دن جب نوٹنکی کا آخری شو ختم ہوا اور ایکٹروں،گانے والوں،سازندوں اور بیک اسٹیج پر کام کرنے والوں نے اسٹیج پر آکر دیکھنے والوں کا جھک جھک کر شکریہ ادا کیا تو ساجد کو ایسا لگا جیسے کوئی اپنا ہمیشہ کے لیے شہر چھوڑ کر جا رہا ہو۔اس نے سروج رانی کو دیکھا جو باقی لڑکیوں کے ساتھ کھڑی تھی مگر سب سے الگ لگ رہی تھی۔پردہ گرنے کے بعد بھی وہ دیر تک بیٹھا رہا۔ رام آسرے نے اس کی لاٹھی بڑھاتے ہوئے کہا۔

”کھیل ختم ہو گیاہے بڑے بھیّا۔چلو واپس اپنی دنیا میں۔!“

جب دونوں باہر نکل رہے تھے تو گیٹ پر ماسٹرکیلاش نے روک لیا۔وہ آزاد بھارت نوٹنکی کمپنی کا منیجر بھی تھا اور ایکٹر ڈائرکٹر بھی۔ اس نے بڑے ادب سے سلام کیا اور بولا

”آپ نے ہمارے سارے کھیل دیکھے ہیں نا سر؟“

”جی۔!“ ساجد نے سر ہلا دیا

”دسوں کے دسوں دیکھے ہیں۔شروع سے آخر تک۔!“رام آسرے ذرا سا آگے کو آ کے بولا۔ ماسٹر کیلاش مسکرایا۔

”کیسے لگے آپ کو ہمارے کھیل؟“

”بہت اچھے۔ سب بہت اچھے ہیں۔!“ساجد نے کہا

”آپ جیسے لوگوں کے کارن نوٹنکی زندہ ہے جب تک آپ جیسے شوقین ہیں نو ٹنکی بھی رہے گی۔!“

ماسٹر کیلاش نے اپنی بھاری اونچی آواز میں یہ بات اس طرح کہی جیسے اسٹیج پر ڈائلاگ بول رہا ہو۔

”چلئے۔!“اس نے کہا۔”میں آپ کو اپنے ایکٹروں سے ملاؤں۔“

ساجد کی آنکھوں میں چمک آگئی سروج رانی سے ملنے کا تصّور اس کی رگوں میں کرنٹ کی طرح دوڑ گیا۔

ماسٹر کیلاش، ساجد اور رام آسرے کو لے کر اسٹیج کے پیچھے بنے ہوئے ایک بڑے سے تنبو میں آیا۔ جہاں ایکٹرکاسٹیوم اور میک اپ اُتارنے میں مصروف تھے

رام آسرے نے کامیڈین اَچھّن ماسٹر کو دیکھا جو اپنی نقلی ناک اور داڑھی ایک ڈبّے میں رکھ رہا تھا۔ ایک لڑکی اسٹول پر بیٹھی گھنگرو کھول رہی تھی اور اس کے پاس کھڑی ایک اور لڑکی اپنے لمبے بالوں کی وِگ میں کنگھا کر کے اس کے بل نکال رہی تھی۔ ساجد کی آنکھوں نے یہ سب کچھ نہیں دیکھا وہ تو بس سروج رانی کو دیکھ رہا تھا جو آئینے کے سامنے کھڑی چہرے پر تیل لگا کر میک اپ اُتار رہی تھی۔ ماسٹر کیلاش نے اعلان کیا۔

”دیکھوتم لوگ،ایسے ہوتے ہیں شوقین۔صاحب لوگوں نے سارے کھیل دیکھے ہیں فسٹ کلاس میں بیٹھ کر۔“پھر وہ ساجد کی طرف مڑا۔

”آپ کو تو سلام کر نا چاہئیے ساب کہ آپ معذور ہیں مگر مجبور نہیں ہیں۔!“

ساجد کو ایک پل کے لیے جھٹکا سا لگا یہ معذور والی بات اُسے گالی کی طرح لگتی تھی مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولے سروج رانی تولیہ سے منہ پونچھتی ہوئی پاس آکے بیٹھ گئی۔ساجد نے اُسے غور سے دیکھا۔میک اپ اُتر جانے کے بعد وہ بدلی بدلی نظر آرہی تھی۔ وہ اتنی جوان نہیں تھی جتنی اسٹیج پر دِکھائی دیتی تھی اور نہ ہی اتنی حسین تھی۔ آنکھوں کے نیچے کالے دائرے دکھائی دے رہے تھے جو شاید راتوں کو جاگنے کا نتیجہ تھے۔ گردن کی ڈھیلی کھال اس کی عمر کا پتہ دے رہی تھی مگر پھر بھی وہ کافی حسین تھی۔کم سے کم ساجد نے تو ایسا حسن پہلے کہیں نہیں دیکھا تھا اور سب سے زیادہ خوبصورت تھی اس کی مسکراہٹ جو سیدھی دل میں اُتر جاتی تھی۔ سروج نے ایک پھسلتی ہوئی نظر ساجد کی سوکھی ہوئی ٹانگ پر ڈالی اور پوچھا

”کیا نام ہے آپ کا؟“

”ساجد علی۔!“ ساجد نے دھیرے سے جواب دیا

”اور آ پ کا؟“ سروج رانی رام آسرے کی طرف مڑی۔

”ہم رام آسرے ہیں۔!“

سروج نے سر ہلایا اور وہ تولیہ جس سے منہ پونچھ رہی تھی ایک طرف پھینک کر زور سے بولی۔

”ارے یار کوئی بیڑی سگریٹ پلاؤ۔سالا منہ کا مزہ خراب ہو رہا ہے۔!“

ساجد سنبھل کر بیٹھ گیا

”آپ ہماری بیڑی پیئنگی؟“

اس نے جلدی سے جیب سے بیڑی کا بنڈل نکالا اور بڑھا دیا۔

”شکریہ۔!“

سروج نے بنڈل لے کر اُلٹ پلٹ کے دیکھا پھر ایک بیڑی نکال کررام آسرے کی ماچس سے سلگائی اور ایک لمبا کش لے کر بولی۔

”بہت میٹھی ہے۔کس کمپنی کی ہے؟“

”یہ کسی کمپنی کی نہیں ہیں۔ اپنے پینے کے لیے بنائی ہے۔!“

”آپ بیڑی بناتے ہیں؟“سروج نے پوچھا

”جی،بیڑی کے کارخانے میں کام کرتے ہیں۔!“

سروج نے غور سے ساجد کو دیکھا اورکچھ سوچ کر بولی

”آپ اتنے اچھے کاریگر ہیں،اتنی اچھی بیڑی بناتے ہیں تو دوسروں کے لیے کیوں بناتے ہیں۔اپنے لیے کیوں نہیں بناتے؟“

”کوشش کرینگے۔آپ دعا کیجئے۔!“

تب تک اَچھّن ماسٹر اُن کے پاس آکھڑا ہوا تھا اس نے کہا رانی جو کہہ دے وہی ہو جاتا ہے بس کبھی کبھی نشانہ چونک جاتاہے اس نے بولا تھا میری ساس مر جائے گی گھر جا کے دیکھا تو بھینس مری پڑی تھی،سننے والے زور زور سے ہنسنے لگے۔سروج رانی نے اَچھّن ماسٹر کی ٹانگ میں چُٹکی کاٹی اور بولی

”حرامی۔!“

سروج رانی کی توجہ ساجد کی طرف سے ہٹ گئی تو اس نے کہا

”اچھا اب ہم چلتے ہیں۔“اس نے بڑے ادب سے ہاتھ جوڑ دیے اور اپنی لاٹھی کی سہارے کھٹ کھٹ کرتا ہوا باہر نکل گیا۔سروج رانی دیر تک اُسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔

کئی دن تک ساجد کو ایسا لگتا رہا جیسے اس کا کچھ کھو گیا ہے اور اُسے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ کیا کھو یاہے۔وہ کئی دن تک کام پر بھی نہیں گیا بس اپنی کوٹھری میں پڑا رہا

اُسے سروج رانی کی آواز بار بار سنائی دیتی تھی۔

”آپ اتنے اچھے کاریگر ہیں،اتنی اچھی بیڑی بناتے ہیں تو دوسروں کے لیے کیوں بناتے ہیں۔اپنے لیے کیوں نہیں بناتے؟“

یہ آواز اُسے چاروں طرف سے آتی ہوئی لگتی تھی بالکل ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے کسی بند کمرے میں کوئی چڑیا پھنس گئی ہو اور باہر نکلنے کے لیے پھڑ پھڑا رہی ہو۔

کئی دن بعد جب ساجد کام پر آیا تو بدلا بدلا ساتھا اُس کے ہاتھوں کی رفتار بھی کم ہوگئی تھی۔کارخانے دار بشیر خان نے باربار پوچھاتو ساجد نے ہنس کر ٹال دیا

”ارے استاد،تم تو میری اماں کی طرح پیچھے ہی پڑ جاتے ہو،کچھ نہیں ہوا ہے مجھے، بس ذرا تھک گیا ہوں دو چار دن میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔!“

ایک دن شام کو جب وہ رام آسرے کے ساتھ جمیل چائے والی کی دوکان کے باہربنچ پر بیٹھا چائے کی چسکی لے رہا تھا اس نے کہا

”رامو،اگر ہم اپنی بیڑی بنائیں تو چلے گی کیا؟“

رامو نے سرہلا یا

”کیوں نہیں چلے گی؟ہم تو دوکان دار آدمی ہیں ایک بات اچھی طرح جانتے ہیں مال اچھا ہو تو مٹی بھی بک جاتی ہے۔مگر تم اپنی بیڑی بناؤگے کیسے؟بہت مال لگتا ہے کارخانہ ڈالنے میں۔!“

”مال کا بندوبست ہو جائے گا۔“ساجد نے کہا۔

رام آسرے کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی وہ سنجیدہ ہو گیا اور آگے جھک کر بولا

”کیا سچ مچ؟“

ساجد نے سر ہلایا۔

ؔ”تیری دوکان بیچ ڈالینگے۔“

رام آسرے ہنس پڑا

”میراباپو ہم دونوں کی ارتھی نکال دیگا۔راکھ بھی نہیں ملے گی۔“

”ذرا حساب لگا کے بتا کتنے پیسے کی ضرورت ہوگی؟“

رام آسرے کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر بولا

”تمباکو اور پتّا تو آسانی سے مل جائے گا۔سمسیا ہو گی کاریگروں کی۔وہ کہاں سے لاؤگے اور مل بھی گئے تو ان کی مزدوری مال بکنے سے پہلے دینی پڑیگی۔یہ بہت مہنگا سودا ہے بڑے بھیّا۔!“

ساجد نے رام آسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور بولا

”سستے میں کب تک جیتے رہینگے رامو!ایک کوشش کر کے دیکھتے ہیں اگر ہار گئے تو تو دوکان پر چلے جانا ہم کارخانے میں۔!“

”مگر دھندے کا اصول ہے یار کہ پہلے لگاؤ پھر کماؤ۔ہمارے پاس تو لگانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔!“

ؔ”چھوٹے سے شروع کرینگے رامو۔!ہاتھیوں سے مقابلے کے لیے ہاتھی بننا ضروری تو نہیں ہے۔!“

ایک مہینے تک ساجد سب کی کھڑی کھوٹی باتیں سنتا رہا۔ اماں نے ر و کر کہا

”ارے پگلا گئے ہیں کیا۔دس برس میں جو جمع کیا ہے سب لٹا کے بیٹھ جائینگے۔!“

بشیر خان نے تو لطیفہ ہی بنا دیا۔جو بھی کار خانے میں آتا اُس سے کہتا۔

”اِن سے ملو یہ اپنے سیٹھ ساجد علی ہیں،بہت جلد اپنی بیڑی فیکٹری ڈالنے والے ہیں۔!“

ماجد نے سنا تو کھل کھلا کے ہنس پڑا۔

”بازار میں دس طرح کی بیڑی پہلے سے موجود ہے۔ تمہاری بیڑی میں ایسی کون سی خاص بات ہو گی کہ لوگ ان کو چھوڑ کر تمہاری بیڑی پئینگے؟“

رامو نے سنا تو بولا

”صحیح تو کہہ رہے ہیں ماجد بھائی تمہاری بیڑی میں ایسی کونسی بات ہوگی کہ لوگ دوسری بیڑیوں کو چھوڑ دینگے؟“

اُس پوری رات ساجد سو نہیں سکا جب بھی آنکھ لگتی سروج رانی سامنے آکر کھڑی ہو جاتی اور ایک ترچھی نظر ڈال کر مسکراتی پھر پوچھتی

”ہار گئے کیا؟“

اور وہ گھبرا کے اٹھ بیٹھتا۔

دوسرے دن جب وہ اماں کے ہاتھ کا تازہ پراٹھا رات کے بچے ہوئے سالن سے کھا کر باہر نکل رہا تھا تو اماں نے پکار کر کہا۔

”بیٹاہمارا زردہ ختم ہوگیاہے۔کسی سے منگوا دیناپان میں مزہ نہیں آرہا ہے۔!“

ساجد کو ایسا لگا جیسے ا س کے سر میں بجلی کوند گئی ہو۔ اس نے باہر نکلتے ہی رکشا پکڑا اور بڑے بازار میں حقّے کی تمباکوبیچنے والے کی دوکان پر پہونچ گیا۔

دوسرے دن شام کو جب وہ رام آسرے سے ملا تو اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور ہونٹ مسکرارہے تھے۔

”کیا بات ہے بڑے بھیّا،بڑی لائٹ مار رہے ہو؟“

”لے بیڑی پی۔!“

ساجد نے ایک بیڑی اس کی طرف بڑھا دی،رام آسرے نے ایک لمبا کش لیا اور بیچ ہی میں رُک گیا۔اس نے جلدی سے دھواں باہر نکالا اور پوچھا

”یہ تو کمال کی بیڑی ہے یار۔ میٹھی بھی ہے اور سگندھ بھی آ رہی ہے۔ کس کمپنی کی ہے؟“

”ایک نئی بیڑی فیکٹری کا ایک دم تازہ مال ہے۔!“ساجد نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا۔

رام آسرے نے ایک کش اور لیا پھر اچانک چونک کر بولا

”تم نے بنائی ہے بڑے بھیّا؟“

ساجد نے سر ہلایا

”اس میں ڈالا کیا ہے؟“رام آسرے بیڑی کو سونگھ سونگھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔

”یہ بتا،چلے گی کہ نہیں؟“

”ارے بڑے بھیّاتم چلنے کی بات کر رہے ہو یہ تو سر پٹ دوڑ جا ئے گی۔مگر تم نے تمباکو میں ملایا کیا ہے یہ تو بتا دو۔؟“

”حقے کی تمباکو میں جو خوشبو والا شیرہ پڑتا ہے وہی ذرا سا ملا دیا تھا۔!“

رام آسرے ساجد سے لپٹ گیا دو تین بار اس کے ہاتھ چومے اور آنسو بھری آنکھوں سے پوچھا۔

”بیڑی کا نام کیا سوچا ہے؟“

”رانی بیڑی۔!“

ساجد نے اس طرح کہا جیسے لوگ نعرہ لگاتے ہیں!

ساجد نے رام آسرے کو قسم دی کہ وہ فارمولا کسی کو نہیں بتا ئے گا اور رانی بیڑی فیکٹری کی تیاری شروع کردی۔

ساجد کا گھر بڑا نہیں تھا مگر اس کے باپ نے چھت کے اوپر ایک کمرہ اور کھپریل کا دالان بنایا تھا کہ ماجد اور اس کی بیوی وہاں رہینگے۔مگر ماجد الگ گھر میں چلا گیا تو اوپر کا حصّہ جنگلی کبوتروں اور چڑیوں کا رین بسیرا بن گیا تھا۔ساجد نے مزدور لگا کے صفائی کرائی۔دیواروں پر چونالگوایا،پردے ڈالے اور پنکھے لگائے تاکہ کاریگروں کو پریشانی نہ ہو۔

ملّا طاہر نے اللہ کا کلام پڑھ کر چاروں کونوں میں پھونکا۔اماں نے میلا دشریف کیا اور ساجد علی کی رانی بیڑی فیکٹری شروع ہوگئی۔

دیکھتے ہی دیکھتے چوبیس سال گزر گئے۔ رانی بیڑی کی مقبولیت نے دوسرے بہت سے کار خانے بند کرا دئیے۔ ساجد کا نقلی پاؤں لگ گیا اور اس کی شادی بھی ہو گئی۔ اس کے پارٹنر رام آسرے نے ایک پٹرول پمپ بھی خرید لیا اور ماجد ایک جنرل اسٹور کا مالک بن گیا۔ تقدیر نے ساجد کا پاؤں چھین کر جو

نا انصافی کی تھی اس کی بھر پائی اس طرح کی کہ جس نے سنا حیران رہ گیا۔

ایک دن جب وہ اپنے دفتر میں بیٹھا حساب دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر میز کے کونے پر رکھے ہوئے اخبار پر پڑی جس میں آزاد بھارت نوٹنکی کمپنی کا اشتہار دکھائی دے رہا تھا۔ساجد نے جھپٹ کر اخبار اٹھا یا اور اشتہار پڑھنے لگا۔

آزاد بھارت نوٹنکی کمپنی سہارن پورمیں اپنے کھیل دِکھا رہی تھی۔

ساجد شرمندہ ساہو گیا۔اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں وہ تو بھول ہی گیا تھا کہ رانی بیڑی کی کہانی کہاں سے شروع ہوئی تھی۔ اس نے رام آسرے کو بلایا جس کا دفتر برابر والے کمرے میں تھا اور اخبار سامنے رکھ دیا۔

رام آسرے نے اشتہار دیکھا اور ایک لفظ بولے بغیر ساجد کے سامنے بیٹھ گیا۔دونوں دیر تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے،کبھی کبھی باتیں کرنے کے لیے ہونٹوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔!کا فی دیر بعد ساجد نے گلا صاف کیا اور بولا

ؔ”کل سویرے چلیں گے۔!“

رام آسرے نے سر ہلا دیا۔

”ٹھیک ہے۔!“

جب وہ دونوں پانچ گھنٹے لمبا سفر طے کر کے سہارن پور پہونچے تو دوپہر ڈھل چکی تھی۔آزاد بھارت نو ٹنکی کمپنی کے بڑے سے تنبو میں رات کے شو کی تیاری شروع ہو چکی تھی،کرسیوں کو جھاڑ پونچھ کر قطار میں لگا یا جا رہا تھا۔ کچھ لوگ اسٹیج پر بچھی ہوئی دری کو برش کر رہے تھے۔ اور ایک بوڑھا لائٹ چیک کر رہا تھا۔ ساجد نے صفائی کرنے والے سے پوچھا تو اس نے ایک پل کو سوچا پھر پکار کر بولا

”ارے او لڈّو، یہ موسی کو پوچھ رہے ہیں۔جا لے جا اُن کے پاس۔!“

ایک موٹا سا لڑکا کرسیوں کے بیچ سے نکل آ یا۔

”چلئے۔!“

تنبو کے پیچھے کھلے میدان میں کچھ خیمے اور کچھ چھولداریاں لگی ہوئی تھیں، انھیں میں سے ایک میں سروج رانی بیٹھی تھی۔اس کے سامنے چٹائی پر کچھ کپڑے بکھرے ہوئے تھے اور برابرہی اسٹوؤ پر پتیلی رکھی تھی جس میں کچھ پک رہا تھا۔

”موسی۔ یہ تم سے ملنے آئے ہیں۔!“لڈّو نے اعلان کیا

سروج رانی نے سر اٹھا کر ساجد اور رام آسرے کو غور سے دیکھا اور کہا

”آئیے۔!“

اس نے پلاسٹک کی کرسیوں کی طرف اشارہ کیا

”بیٹھئے۔!“

ساجد نے بڑے غور سے سروج رانی کو دیکھا۔وہ بوڑھی ہو چکی تھی۔بال تو کالی مہندی اور تیل سے چمک رہے تھے مگر چہرے پر کوئی چمک نہیں تھی۔ آنکھوں کے پاس جھرّیاں پڑ گئی تھیں اور ہاتھوں کی رگیں دکھائی دے رہی تھیں۔یہ وہ سروج رانی نہیں تھی جس نے ساجد کی نیند حرام کر دی تھی۔ وہ مسکراہٹ اور لمبی پلکوں کے نیچے سے نکلنے والی ترچھی نظر بھی غائب تھی۔ ساجد کی آنکھیں جلنے لگیں۔ پتہ نہیں اُسے سروج رانی کی حالت پر ترس آرہا تھا یا اپنے تصوّر کی شکت کا صدمہ تھا۔

”فرمائیے۔!“سروج رانی کی آوا سنائی دی

”آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟“

ساجد نے گلا صاف کیا اور بولا

”کوئی بائیس برس اُدھر کی بات ہے،آپ ہمارے شہر آئی تھیں۔!“

”ہم تو شہر شہر گھومتے رہتے ہیں آ پ کس شہر کی بات کر رہے ہیں؟“

ساجد اور رام آسرے نے اُسے یاد دلایا کی کس طرح ان دونوں نے دس دن تک نوٹنکی کے کھیل دیکھے تھے اور آخری دن ماسٹر کیلاش نے ان کو سروج رانی سے ملایا تھا۔سروج رانی نے آنکھیں سکوڑ کر دماغ پر زور ڈالا اور بولی

”ہاں کچھ کچھ یاد تو آتا ہے۔“

”آ پ کو ہم نے اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی بیڑی پلائی تھی تو آپ نے کہا تھا آپ اتنے اچھے کاریگر ہیں،اتنی اچھی بیڑی بناتے ہیں تو دوسروں کے لیے کیوں بناتے ہیں۔اپنے لیے کیوں نہیں بناتے؟“

سروج رانی نے سر ہلا دیا

”آ پ کی اُس بات کا ہم پر بہت اثر ہوا تھا۔ اور ہم نے وہی کیا جو آپ نے کہا تھا؟اب ہماری بیڑی اتر پردیش کی سب سے زیادہ بکنے والی بیڑی ہے۔!“ رام آسرے نے بڑے فخر سے بتایا

”ہم نے بیڑی کا نام بھی آپ کے نام پر رکھاہے۔یہ دیکھئے۔“

اس نے تھیلے میں سے ایک بڑا سا پیکٹ نکال کر سامنے رکھ دیا جس پر موٹا موٹا چھپا ہوا تھا ”رانی بیڑی“سروج رانی بیڑی کا پیکٹ ہاتھ میں لیے دیر تک کبھی پیکٹ کو اور کبھی ان دونوں کو دیکھتی رہی جیسے اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہوکہ کیا بولے

”ہم نے آپ سے پوچھا بھی نہیں اور آپ کا نام رکھ لیا۔آپ کو بُرا تو نہیں لگا؟“

”نہیں۔بہت اچھا لگا۔!“سروج رانی نے مسکرا کے کہا

”آج تک کسی نوٹنکی والی کو ایسی عزّت نہیں ملی ہو گی۔!“

”ایک گستاخی اور کرنا چاہتے ہیں۔!“ساجد نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا

”کیجئے۔“سروج مسکرادی۔

ساجد نے اشارہ کیا تو رام آسرے نے وہ بریف کیس جو اس کے ہاتھ میں تھا آگے بڑھا دیا، ساجد نے بریف کیس سروج کے پیروں کے پاس چٹائی پر رکھا اور کھول دیا۔وہ نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔

”یہ کیا ہے؟“سروج نے حیرت سے پوچھا

”ایک چھوٹا سا تحفہ ہے۔رکھ لیجئے۔!“

سروج تھوڑی دیر تک سوچتی رہی پھر بولی

”تعریف کے دو بول کی اتنی بڑی قیمت۔؟“

”وہ دو بول نہیں تھے آپ نے ایک احسان کیا تھا جس نے بہت سے لوگوں کی زندگی بدل دی ہے۔!“

سروج رانی مسکرائی

”تو پھر احسان کو احسان ہی رہنے دیجئے۔!“

”آپ کی وجہ سے ہمیں بہت کچھ ملا ہے ہم بھی کچھ دینا چاہتے ہیں اگر آپ یہ لے لینگی تو ہمیں بڑی خوشی ہو گی۔!“ساجد نے کہا

سروج رانی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اس نے ساجد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ذرا اونچی آواز میں کہا

”مہر بانی کا شکریہ سیٹھ جی۔مگر مجھے آپ کے پیسے کی ضرورت نہیں ہے۔میری ماں مجھے دو وقت کی روٹی دے دیتی ہے۔!“

”آپ کی ماں۔؟“رام آسرے نے پوچھا

”ہاں۔“سروج نے سر ہلایا۔”یہ نوٹنکی کمپنی میری ماں ہی تو ہے۔!“

دونوں دیر تک چپ چاپ سروج رانی کو دیکھتے رہے۔ سروج رانی نے بریف کیس بند کر کے رام آسرے کی طرف بڑھا دیا اور پوچھا

”اور کچھ کہنا ہے آپ کو؟“

”جی نہیں۔!“سا جد نے جواب دیا

پھر وہ جھکا اس نے سروج رانی کے پاؤں چھوئے اور رام آسرے کے ساتھ باہر نکل گیا۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *