Home » قصہ » دھارا ۔۔۔ سعیدہ گزدر

دھارا ۔۔۔ سعیدہ گزدر

موٹر شہرسے نکلی تو اس نے سیٹ کی پُشت سے سر ٹکادیا اور شیشہ کھول کر ایک گہرا سانس لیا۔ برسات کی ہوا کومل اور ٹھنڈی تھی۔ وہ کھڑکی سے سر نکال کر باہر دیکھنے لگی۔ دُور دُور تک سبزے کا چھڑکاؤسا کیا ہوا لگتا تھا۔ کہیں گہرا سبز،کہیں دھانی، کہیں گھنا اور دبیز، کہیں چھدرا چھدرا جیسے بچے کھچے رنگ کھنگال کر یہاں وہاں پھینک دیئے گئے ہوں۔

”اب کدھر؟“ فاروق نے اسٹیرنگ دبا کر پوچھا۔

”کہیں بھی“۔ وہ مَست سی ہورہی تھی۔

”سُجاول چلیں؟“

”چلو“۔۔۔ اس نے ہاتھ باہر نکال کر ایک اُڑتی بوند پکڑنے کی کوشش کی۔ بِکھری بِکھری سی بوندا باندی شروع ہوگئی تھی۔ سامنے حِدّ نظر کے احاطے میں دھوپ چھاؤں کا کھیل جاری تھا۔

”نہیں“۔ اُس نے فاروق کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو روک دیا۔ وہ ریڈیو پر کوئی سٹیشن ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا“۔ آج ہوا، بادل، آسمان اور زمین کی آواز سنیں گے“۔

”اخاہ“ وہ شیشے میں دیکھ کر شرارت سے ہنسا۔”بول اری اودھرتی بول۔۔“ وہ گُنگُنانے لگا۔ پھر کچھ سوچ کر بولا“۔ شہر سے باہر ضرور نکلنا چاہیے۔ پتہ ہے کیوں؟۔۔ اپنے بکھرے وجود کو سمیٹنے کے لیے آفس میں بیٹھے بیٹھے میں کتنے حصوں میں بٹا ہوتا ہوں۔ گھر میں تمہارے ساتھ،دفتر میں اپنے عملے کے ساتھ، فون پر اپنے  Clientsکے ساتھ،ایڈیٹنگ کی میز کے اوپر کھٹا کھٹ چلتی فلم کے نیگیٹیو میں الجھا ہوا، جو کمبخت ایڈیٹر کے پلے نہیں پڑتی، اور پھر آج، کل، پرسوں میں بٹا ہوا۔۔۔۔صبح،شام، رات اور دوپہر میں تقسیم! اتنے تو شاید میرے جسم کے ٹکڑے بھی نہ بن سکیں“۔ وہ خوش دلی سے ہنس دیا۔ اچانک سنجیدگی کی ایک لہراس کی آنکھوں میں آگئی۔ سامنے ایک ٹرک پوری تیز رفتاری سے ”پاں پاں“ کرتا چلا آرہا تھا۔ وہ گاڑی سائیڈ میں بچالے گیا۔

”حرامی“ اُس نے مُنہ میں گالی دی۔ کیچڑ کے ایک آدھ چھینٹے اُر کر اس کے مُنہ پر پڑے تھے ۔

”ارے تم گاڑی میں بیٹھتے ہی گالیاں دینا کیوں شروع کردیتی ہو“۔

آدھی سڑک پر موٹے موٹے چٹانی پتھر پڑے تھے۔ دو دو، تین تین کی ٹولیوں میں بٹے مزدور انہیں بے دلی سے کُوٹ رہے تھے۔

”تب ہی تو گاڑیوں کا کباڑہ ہوتا ہے۔ اتنی اُکتاہٹ میں بھلا کیا کام ہوگا“۔ وہ جھلا کر بولی۔

”تم نے وعدہ کیا تھا کہ شہر کے باہر غصہ نہیں کروگی، تنقید نہیں کروگی اور چُپکی بیٹھی۔۔۔“

”ہاں چُپکی بیٹھی میری اور نیچر کی پوجا کرو گی“۔

”لالا للا للا لا“ صلح صفائی کے لیے وہ ہمیشہ ایسی ہی تان اُڑانے لگتا۔ وہ مُسکرا کر خاموش ہوگئی۔

”سُپر ہائی وے کے بعد تو یہ سڑک سناٹی ہوگئی تھی اب خاصی چہل پہل ہے“۔ مزدوروں کی ایک ٹولی کو دیکھ کر وہ بول پڑی۔

”لوہے کا کارکانہ اور پورٹ قاسم“

”چلو چو کھنڈی کے قبرستان میں رُکیں۔ ذرا دیر کے لیے مُردوں سے ملاقات ہوجائے“۔

”شہر میں تو تم میرے رشتے داروں سے بیزار رہتی ہو اور شہر کے باہر بے چارے مردہ رشتے داروں کو بھی نہیں بخشتیں“۔ فاروق نے اپنے راجپوت خون کا حوالہ دیا۔

”اُو ہو یہ خوش فہمی کب سے ہوئی کہ یہ تمہارے رشتہ دار ہیں“۔

“ پتھر کا اتنا عمدہ کام ہماری برداری والوں کے سوا کوئی جانتا ہی نہ تھا“۔ وہ جُھک کر ایک قبر کی اینٹ دیکھنے لگا جس پر گلے، ہاتھ اور کانوں کے بڑے خوبصورت زیوروں کے نمونے کُھدے تھے۔

”ایسی مالا لوگی؟“۔اس نے شرارت سے پوچھا۔

”پتھر پر؟ تم مجھے اس قبر کے اندر لیٹا ہوا دیکھنا چاہتے ہو۔  ہے نا!“ اس نے چھیڑا۔

”نہ جانے کون تھے یہ لوگ؟۔۔۔ مگر معاشرہ ان کا بھی طبقاتی تھا۔ جو موت کے بعد بھی قائم رہا۔ امیروں کبیروں کی قبروں کے پائینتی چھوٹے موٹے کاری گر اور سپاہی بھی دفن ہیں۔ قبرستان میں شاید طبقاتی فرق کچھ زیادہ نمایاں ہوجاتا ہے“۔

”کون تھے یہ لوگ کہ قبرستان بسا کے چل دیئے“۔ وہ ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔

”ہوسکتا ہے کہ یہاں صرف اپنے مُردے دفن کرتے ہوں اور رہتے دوسری بستیوں میں ہوں۔ پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا ہو۔ صدیوں کی چکی نے انہیں سندھ کے دوسرے باشندوں میں اس طرح گھول دیا کہ اب اِن کا الگ وجود ہی باقی نہ رہا اور بس ایک قبرستان سج گیا“۔

”کیا ہمیشہ ایسا ہوتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے میں گُھلتے ملتے جاتے ہیں جیسے ایک بہت بڑے پیالے میں چینی کے چھوٹے چھوٹے دانے۔ جو پیالے کے پانی کو تو میٹھا کر دیتے ہیں مگر اپنی انفرادیت کھو بیٹھتے ہیں“۔ وہ سوچتے ہوئے اپنے آپ سے مخاطب تھی۔

”ہاں مگر پانی کی مٹھاس چینی کے ہر دانے کی موجودگی کا احساس قائم رکھتی ہے تب ہی تو زندگی آگے بڑھ جاتی ہے اور فرد مرجاتا ہے“۔ فاروق نے ایک وزنی پتھر کو پاؤں سے ہلانے کی کوشش کی۔ پتھر اپنی جگہ جما رہا۔

چوکیدار سے کچھ لوگ بڑے پُر اسرار انداز میں باتیں کر رہے تھے کبھی چپکے چپکے۔کبھی اُونچی آواز میں۔

”یوں ایک ایک پتھر یہاں سے کِھسک کر بنگلوں  کے باغیچوں اور بیٹھکوں کی زینت بن جاتے ہیں“۔ گاڑی میں بیٹھ کر چھوٹے تولیے سے مکھیاں اُڑاتے ہوئے فاروق نے کہا۔۔۔”اور وہاں بھی طبقوں میں بٹ جاتے ہیں“۔

”دس بج گئے“۔۔ اس نے گھڑی دیکھی۔

”گھڑی مجھے دے دو۔ آج ہم اپنے آپ کو وقت کے عذاب میں بانٹنا نہیں چاہتے“۔ فاروق نے گھڑی اس سے لیکر اپنی جیب میں رکھ لی۔

”اب؟“

”چلا چل چلا چل“ کچے راستے پر وہ گاڑی آہستہ چلانے لگا۔

”بیل گاڑی یہاں کتنے دنوں میں پہنچتی ہوگی؟“۔ اس نے سڑک کے کنارے ٹھمکتی ایک بیل گاڑی کو دیکھ کر یوں ہی پوچھ لیا۔

جُوئے کے بوجھ سے جُھکی بیل کی گردن دیکھ کر وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا“۔ ہمارے تخیل سے بہت پہلے۔۔ دیکھو نا جیسی زندگی ہم لوگ گزار رہے ہیں۔ اس میں ایک سوچ لمحے بھر کے لیے بھی نہیں ٹکتی۔ کبھی کچھ اور کبھی کچھ۔بیک وقت ہم اتنی بہت  سی سمتوں میں سفر کر رہے ہیں کہ شاید کبھی کوئی منزل نہ بنا سکیں اور بنا بھی لی تو اس تک پہنچ نہ سکیں گے۔ اس بیل کی گردن دیکھتی ہو“۔ اس نے گردن موڑتے ہوئے کہا۔۔۔ ”ہمارا وجود بھی اسی طرح جُھکتے جُھکتے پستیوں کو چومنے لگا ہے اور سوچ۔۔۔ چیونٹی سے بھی کم رفتار۔۔۔ نہ عنوان نہ ٹھکانہ ہانپتی ہوئی اور بے زبان۔۔ مگر زندگی۔۔ زُوم!“ فاروق نے گاڑی ایک دم بہت تیز کردی۔

”سیلف پٹی“

”چلو بھنبور چلیں“۔۔۔۔ اس نے گاڑی دائیں جانب موڑ دی۔

”ہاں چلو میں کبھی کالج کے دنوں میں آئی تھی“۔ وہ سردیوں میں یہاں آئی تھی۔ اُس وقت پانی کی چھچھلی سی نیلی سطح رُکی رُکی سی اپنی جگہ کھڑی تھی۔ آج پانی نسبتا گہرا تھا۔ دوسرے کنارے پر اونٹوں کا قافلہ قطار میں آہستہ آہستہ مغرب کی جانب رینگ رہا تھا۔

”محمد بن قاسم کے زمانے سے آج تک کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی“۔

”کچھ تو ہوئی ہے مثلاً۔۔۔“

”مثلاً؟“

”ہم اور تم یہاں بیٹھے اپنے آپ کو بہت سی کمینگیوں سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا شکار ہورہے ہیں“۔

”تم پروپیگنڈہ فلمیں بنانا بند کردو“ اسے فاروق کا پست لہجہ اچھا نہ لگا۔

”ہم تو انیٹی پروپیگنڈہ ہیں“۔ وہ چکنے پتھروں پر لیٹ گیا“۔ یہ پانی دیکھ کر بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہاں کبھی جہاز رُکتے تھے، تجارت ہوتی تھی، مال  لادا اور اُتارا جاتا تھا۔ حملہ آور آتے تھے، کچھ لُٹتے تھے“۔

”لُوٹنے اور لُٹنے کا سلسلہ تو آج بھی جاری ہے“۔

”اسی جگہ محمد بن قاسم اور راجہ داہر کی فوجوں کا پہلی مرتبہ مقابلہ ہوا“۔

”اور محمد بن قاسم آگے بڑھتا گیا“۔

”ہاں مگر میرا ہیرو راجہ داہر ہے“۔

”سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک راجہ تمہارا ہیرو کیسے بن سکتا ہے؟“

”اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک جرنیل تمہارا ہیرو کیسے بن سکتا ہے؟“

”میں نے کب کہا کہ ایک جرنیل میرا۔۔۔۔“ اسے بہت بُر الگا۔

اُس نے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں چکنے  چکنے ایک سائز کے پانچ گول پتھر جمع کر لیے۔۔۔”بچپن میں ہم ان گٹیوں سے بہت کھیلتے تھے“۔ چار پتھروں کو نیچے رکھ کر اس نے ایک پتھر ہوا میں اُچھال دیا۔ مگر اسے دوبارہ چار پتھروں سمیت نہ اُچک سکی۔

”میں اور میری بہن کھیلتے کھیلتے ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے۔بال اور منہ نوچ لیتے، پھر اماں آکر  خوب ڈانٹتیں“۔۔۔۔ وہ بچپن کا زمانہ یاد کر کے ہنس دی۔

”اور اب تم بہن کے بدلے مجھ سے لڑتی ہو“۔۔۔ فاروق نے ہنستے ہوئے کہا۔

”بس گھوم پھر کر ہر موضوع  اپنی ذات پر لانا تمہیں بہت پسند ہے“۔ وہ چڑ گئی۔

”ذات اہم نہیں ہے کیا؟“

”بہت اہم ہے۔ مگر ذات کو اپنے اوپر اور دوسروں پر مسلط کرنا اور متوجہ کرنے کی کوشش کرنا، ہونہہ۔۔ انتہائی احمقانہ“۔۔۔پچھلے  چند دنوں سے ذات والوں سے اس کا جھگڑا چل رہا تھا۔

”اپن توٹیم ورک کرتے ہیں“۔۔۔۔ فاروق بحث کے مُوڈ میں نہیں تھا۔۔ جانے کہاں سے ایک آدمی چنے بیچتا ہوا نکل آیا۔ انہوں نے ایک ایک پُڑیا خریدلی۔ بہت تیز مرچیں تھیں۔ چنے پُرانے اور سیلے ہوئے تھے۔ وہ انہیں سمندر میں بہا کر چل دیئے۔

”کیا خیال ہے دریا کی تازہ مچھلی کھائی جائے“۔ مچھلی فاروق کی کمزوری تھی۔

”کیوں نہیں“ دریا کی سوندھی مچھلی اُسے بھی  بھاتی تھی۔

ٹھٹھہ سے کچھ پہلے وہ نہر ے قریب رُک گئے۔ پچیس سیر کا رُوہو پانی سے نکال کر ایک مچھیرا نہیں اپنا کانٹا دکھانے لگا۔  وہ چھوٹی مچھلی والوں کی جانب مُڑ گئے۔ مچھیرے نے رُو ہو واپس پانی میں دال دیا۔

”ہمت چاہیے ایسا جانور خریدنے کے لیے“۔ وہ اپنے شکار کی توہین پر ناراض لگتا تھا۔ آخر بڑی حیل حجت کے بعد دو چھوٹے رُو ہو ملے۔

ٹھٹھہ پہنچتے پہنچتے گرمی بڑھ گئی۔ مکلی سے آدھی فرلانگ پر ایک ریسٹوران میں وہ رُک گئے  اور ہوٹل والے سے مچھلی تیار کرنے کو کہا۔ پنکھے کی ہوا میں پسینہ سُکھا کر وہ کھانے کا انتظار کرنے لگے۔ ریسٹوران جالیوں سے ڈھکا تھا اور نسبتاً صاف ستھرا۔ باہر برآمدے میں مکھیوں کی چادرسی بچھی تھی۔

مچھلی تل کر آئی تو پتہ چلا کہ آدھی سے زیادہ مچھلی دوسرے گاہکوں کو پانچ روپے فی پلیٹ کے حساب سے پیش کی جاچکی ہے۔ فاروق باورچی خانے میں گُھس کر باورچی سے لڑنے لگا۔

”ایک دھیلا ٹپ نہیں دوں گا سالوں کو“۔۔۔ وہ غصے میں بھناتا دھم سے آکر بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ مچھلی کھانے لگا۔

”بے ایمانی کتنی بڑھ گئی ہے۔ یہ جو لوگ زیارت کر کر کے یہاں ٹھونسنے کے لیے آرہے ہیں سب بدمعاشی کا پیسہ لا کر خرچ کرتے ہیں اور مزاروں پر جا کر فاتحہ پڑھتے ہیں۔منتیں مانتے ہیں۔ پھر ہوٹل والا ان عقیدت کے ماروں کو ان کے ہی میدان میں مارتا ہے“۔۔۔بھانت بھانت کے لوگوں کو ہوٹل میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ بڑ بڑایا۔

”قبریں دیکھنے چلیں گے؟“۔ وہ کھانا ختم کر کے بولی۔

”چھوڑو مزہ خراب ہوگیا“۔ اُس نے چائے میں چینی ہلاتے ہوئے مُنہ بنایا“۔ اور آج تمہیں قبریں دیکھنے کا کیوں اتنا شوق  ہورہا ہے۔کچھ زندہ انسانوں سے ملو۔ انہیں دیکھو“۔

”زندہ انسان تو سب بے ایمانیوں میں مصروف ہیں“۔

وہ سجاول جانے والی سڑک پر ہو لیے۔ بادشاہی مسجد کے سامنے کچھ سواریاں کھڑی تھیں۔ تھوڑی دُور پر ایک گدھا مرا پڑا تھا اور لاش کی بواِدھر اُدھر پھیلنے لگی تھی۔ مسجد میں سجاوٹ اور مرمت کا کام جاری تھا۔ لوگ جُوتے اُتار کر مسجد کے ٹھنڈے فرش پر ننگے پیر چل رہے تھے۔ بچے بھاگ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ ان کے تیز تیز اُٹھتے، چھوٹے چھوٹے پیروں کے تلووں میں بُھری بُھری لال مٹی سیندور کی دُھول کی طرح جمتی اور جھڑتی تھی۔

ہوسکتا ہے اس میں سے کچھ گھر شہنشاہ اکبر کے زمانے کے ہوں یا ُس سے بھی پہلے کے“۔۔۔ ایک ٹُوٹے پھوٹے دو منزلہ مکان کو دیکھ کر اُس نے قیاس آرائی کی جس کے چھجے کی نقشی لکڑی جگہ جگہ سے اُکھڑی ہوئی تھی۔ مغلیہ طرز کی محرابیں اوندھی گرنے کو تھیں اور موٹے وزنی دروازے جن پر ڈھیروں کام کیا ہوا تھا اپنی چوکھٹوں میں بس ٹکے ہوئے تھے۔

راستہ بہت ہرا بھراتھا۔ بارش کے بعد پورا علاقہ نِکھرا نِکھرا سا لگتا تھا۔ پتے ہوا میں جُھومتے ہوئے دھیمے سُروں میں تالیاں بجا رہے تھے۔

کہیں کہیں کھیتوں میں کوئی رنگ برنگی چادر لہرا جاتی یا آس پاس  بنے  ہوئے کچے گھروں سے میلے کچیلے گندے جسموں والے بچے بھاگتے ہوئے سڑک پار کر جاتے ۔

”عام دنوں میں یہاں کتنی دُھول اُڑتی ہوگی“۔۔۔  اونچائی پر کچھ عورتوں کو گیہوں کے ڈھیر سے بھوسہ اُڑاتے دیکھ کر وہ بولی۔

”مجھے ایسے چائے خانے بہت پسند میں“۔ سڑک کے کنارے سے ایک بوڑھے بر گد کے نیچے چھیر والی چائے کی دکان دیکھ کر اس کا جی چاہا کہ وہیں بیٹھ کر چائے پیئے۔ فاروق نے کنارے پر گاڑی روک دی۔ وہ دونوں ایک پُرانی سی لکڑی کی بنچ کو رومال سے جھاڑ کر بیٹھ گئے۔ چند دیہاتی، ایک شہری نوجوان جوڑے کو یوں بنچ پر بیٹھا دیکھ کر گھورنے لگے۔ ان کی نظروں میں تجسس تو تھا پر کمینگی یا بدمعاشی نہیں تھی۔

بوڑھا برگد سکندر اعظم کے زمانے کا لگتا تھا۔ اُس کا تنہ اور جڑیں پچیس تیس گز کے دائرے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ سامنے کھیت میں ایک رہٹ نظر آرہا تھا۔ شاید بیکار تھا بہت دنوں سے استعمال نہیں ہوا تھا۔

کڑھے ہوئے دودھ کی چائے بہت مزے کی تھی۔ انہوں نے اس پربالائی کی موتی سی تہہ بھی ڈلوالی۔

”میری نانی بھی ہمیشہ دودھ کی چائے پیتی تھیں“۔۔۔ اس نے ایک گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔

”اور کیا کرتی تھیں تمہاری نانی؟“ وہ مسخرے پن سے بولا۔

”اور گالیاں بہت دیتی تھیں“۔ وہ کھسیا گئی۔

”سیلاب کا پانی اِدھر آتا ہے؟“ فاروق نے یوں ہی ہانگ لگائی۔

”ہاں سائیں آتا ہے پر اس سال کچھ دیری ہوگئی ہے“۔۔۔۔ چائے خانے کے مالک نے لکڑیوں کو ایک دوسرے میں جوڑ کر چولہے کی آگ تیز کردی۔

”دریا یہاں سے کتنی دُور ہے؟“۔۔۔ اس نے پاؤں چھیلاتے ہوئے پوچھا۔

”یہی کوئی دس بارہ میل ہوگا سائیں“۔۔۔ سامنے سنگِ میل پر ”سجاول چار میل“لکھا تھا۔ دیہاتیوں کو وقت اور فاصلوں کا اندازہ ہمیشہ اپنی رفتار کے حساب سے ہوتا ہے۔

”مچھلی ملتا ہے؟“

”ملتا ہے بہت ملتا ہے،پلّہ بھی مل جاتا ہے“۔

مٹیالے، گدلے پانی میں ایک آدھ کشتیاں چل رہی تھیں۔ کچھ دُور پر مچھیرے جال پھینکے بیٹھے تھے۔ وہ پُل کے نیچے رُک گئے۔ اور ٹہلتے ہوئے دوسری طر ف آگئے۔ ہند کے ڈھلان پر کچھ گھر بنے تھے۔ ایک گندا سا کُتا بان کی چار پائی پر پڑا اینڈ رہا تھا۔ ایک لڑکی کچے جھونپڑے سے باہر نکلی اور تسلے میں بھرا میلا پانی اُلٹ دیا۔ کُتے نے گردن اُٹھا کر دیکھا اور پھر لیٹ گیا۔ اسے کُتوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔ خصوصاً گاؤں کے کتوں سے۔ اس نے سن رکھا تھا کہ یہ کُتے بڑے خونخوار ہوتے ہیں اور کسی کو کھیت یا گھر کے قریب منڈلاتا دیکھ لیں تو چیر پھاڑ ڈالتے ہیں۔ وہ واپس پلٹ گئی۔ فاروق بہت سے میلے کچیلے بچوں کو جمع کر کے کیمرے میں سے جھانک رہ اتھا۔

”تم بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوجاؤ۔ آؤ جلدی آؤ“  وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے بُلانے لگا۔

”تو بہ سیاحوں والی اِس ذہنیت نے ناک میں دم کردیا ہے“۔

وہ مُنہ بنا کر ایک طر ف کھڑی ہوگئی۔

“اُس کُتے کی تصویر نہیں لوگے کیا؟“

”پُل پر سے لیں گے۔ آؤ ٹہلتے ہیں“۔ وہ کمرہ لٹکائے ہوئے بولا۔

دو چکنی، پھسلتی، لمبی گاڑیاں بند پر آکر رُک گئیں اور ان میں سے عورتیں مرد پھنس پھنس کر نکلنے لگے۔ بچے فاروق کو چھوڑ کر نئے آنے والوں کی طرف متوجہ ہوگئے جن کے نوکر اور ڈرائیور ڈِ کی میں سے کھانے کے دبے پھولوں اور مٹھائیوں کی ٹوکریاں لوٹے، گلاس اور رنگ برنگی دریان نکال کر گاڑیوں کی اوٹ میں بچھا رہے تھے۔ عورتیں بہت قرینے سے دستر خوان پر پلیٹیں لگانے لگیں۔ مرد کھانے کے انتظار میں بے بدلی سے ٹہل رہے تھے۔ جیسے اتنا لمبا سفر انہوں نے صرف کھانا کھانے کے لیے کیا ہو۔

”اس کھانے کو ہضم کرنے کے لیے انہیں یہاں سے کراچی تک پیدل جانا چاہیے“۔

”تم ہر کسی سے جلتے کیوں ہو؟“

”تمہیں میرے تصویریں کھینچنے پر تو اعتراض ہے اور ان لوگوں کے اس قدر کھانے پر کچھ نہیں کہتیں“۔

وہ بغیر جواب دیئے آگے بڑھ گئی۔ ایک ٹرک تیز رفتاری سے گزرا تو پُل ہلنے لگا۔ فٹ پاتھ پر جہاں وہ چل رہے تھے سیمنٹ کی سلیں کئی جگہ سے اُکھڑ گئی تھیں اور کئی جگہ سے اُکھڑنے والی تھیں۔

”رات کے اندھیرے میں یہاں کوئی بھی گرسکتا ہے“۔ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔ جس طرف وہ چل رہے تھے اِدھر پانی میں بیک وقت بہت سے بھنور بن  بن کر پھیل رہے تھے یوں جیسے دریا سمندر کی طرف جانے کے بجائے واپس مڑنے کے لیے مچل رہا ہو، ایڑیاں رگڑ رہا ہو۔

”اگر دریا کے پاؤں ہوتے تو وہ واپس پہاڑ کی کوکھ میں ضرور جاتا کم از کم ایک بار ضرور“۔۔ فاروق نے کہنیاں ٹِکا کر گھومتے، بل کھاتے پانی کو دیکھا۔

”جنم لینے کے بعد کون سا بچہ ماں کی کوکھ میں واپس گیاہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو شاید ہم سب اپنی ماؤں کی کوکھ میں منہ چھپائے پڑے ہوتے“۔

اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔

جال میں کوئی بڑی سی مچھلی پھنسی تھی۔ مچھیرے جال کھینچ رہے تھے۔

”میرا دل چاہتا ہے کہ کشتی میں یہاں سے کراچی جاؤں بڑا دلچسپ سفر ہوگا“۔

وہ دیر تک چپ چاپ ٹہلتے رہے اور تھک کر پُل کے نیچے اُتر گئے۔ دری بچھائے ایک ملنگ کچھ موتی کنٹھے رکھے بیٹھا تھا۔ وہ بڑی سی پارٹی کھاپی چکی تھی۔ مرد ٹہل رہے تھے۔ بچے کشتی کی سیر کے لیے مچل رہے تھے۔ اور مائیں انہیں منع کر رہی تھیں۔ دو تین عورتیں ملنگ کے قریب بچھی ایک چار پائی پر بیٹھی اس کے کنٹھوں پر جُھکی ہوئی تھیں۔

”آؤ پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھیں“۔ فاروق نے بند کے نیچے جمے ہوئے پتھروں پر پاؤں رکھ کر آہستہ آہستہ نیچے اُترتے ہوئے کہا۔ جوتے اُتار کر وہ بھی پیچھے پیچھے چلنے لگی۔

”مزہ آگیا“۔ پانیچے اُوپر سرکا کر وہ چھپ چھپ پاؤں مارنے لگے۔ پھر چلو میں پانی بھر کر اسے مُنہ پر ڈالنا شروع کردیا۔

”کتنا مٹیالہ پانی ہے“۔

”مٹیالا اور جاں بخش“

”جمنا کا پانی نیلا ہوتا ہے  اور گنگا کا اجلا“۔

”تم ہمیشہ گنگا جمنا کو کیوں، بیچ میں لاتی ہو۔ سندھ کے جیسا پانی تو دُنیا کے کسی دریا میں نہیں ہوگا“۔

”اس پانی کو چلو میں بھر کر میں نے پیا تو اس کی مٹھاس اور بھلائی کی پہچان ہوئی“۔ بوند بوند پانی ا س کے ہاتھ کی کٹوری میں سے ٹپک کر دریا میں گرنے لگا۔

”اس دریا کے ساتھ کیسے کیسے سور ماؤں اور متوالوں نے سفر کیا ہے جانے اُس وقت یہ دھارا کس سمت میں بہتا ہوگا“۔

”اور سکندر اعظم کے اَن گنت سپاہی اس پانی میں چُہلیں کرتی گوریوں کو دل دے بیٹھے ہوں گے۔ پھر یونان جانے کا ارادہ چھوڑ کر یہیں کہیں آس پاس کھیتوں میں اناج اُگانے، گیت گانے کے لیے بستے گئے ہوں گے پھر ان کے بچے اور ان کے بچوں کے بچے ملے جلے پلتے بڑھتے گئے۔

”ہمیں تاریخ پڑھنی چاہیے۔ آدمی کو سمجھنے کے لیے۔ کتنا پیچیدہ ہے انسان کا آنا جانا اور گم ہوجانا۔ یاد ہے جب ہم پچھلے سال تکشلا گئے تھے؟“

”اور کسی نے کہا تھا کہ اُسے وہاں بدھ کا آسن دکھائی دیتا ہے“۔

”خبطی لگتا تھا“۔

”خبطی نہ کہو وہ تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا تھا۔ یوں جیسے ایک پُرانا بند دروازہ کھول کر تم اپنے بچپن کی کھوج میں کہیں پیچھے نکل جاؤ“۔

اچانک فاروق کی نظر پُل کے سُتونوں پر پڑی۔ پانی ابھی خطرے کے نشان سے نیچے تھا۔

”پانی اُوپر آجائے گا تو آپ لوگ کہاں جائیں گے؟“

اس نے قریب کھڑے ایک کشتی بان سے پوچھا جو کشتی کو کنارے سے باندھ رہاتھا۔

”یہیں آس پاس کہیں کسی سُوکھی جگہ میں یا پکے میں۔ پھر انتظار کریں گے پانی اُترنے کا“۔

”کتنا دن لگتا ہے پانی اُترنے میں؟“

”دس پندرہ دن کبھی اور زیادہ۔لیکن آخر اُترتا تو ہے نا پانی کبھی نہ کبھی کسی نا کسی ٹائم پر۔۔۔ہم لوگ پھر جم جاتے ہیں۔ مچھر بہت ہے۔ یہاں اتنا کہ بال بچوں کو روز بخار آجاتا ہے۔ اِدھر دوا بھی نہیں ملتا کوئی ڈاکٹر بھی نہیں ہے۔ آپ لوگ کراچی سے آیا ہے؟“

”ہاں!“

”ہم گیا تھا ایک دفعہ کراچی۔ ہمارا تو بھیجہ پک گیا“۔

”ہمیں اپنی کشتی میں کراچی لے جاؤ گے؟“ فاروق نے مسکرا کر پوچھا۔

بوڑھا قہقہہ لگا کر بہت زور سے ہنسا“۔ وہ تمہارا کشتی تو اُدھر کھڑا ہے“۔

اس نے دھوپ میں چمکتی چھوٹی سی موٹر کی طرف اشارہ کیا۔”یہ تو ہمارا گھر ہے“۔ اس نے کشتی کو پیار سے تھپتھپا یا۔

دوپہر ڈھل گئی تو وہ اُٹھ کر اوپر چڑھنے لگے۔ آہستہ آہستہ قدم جماتے، اچانک اُس کے ہاتھ سے پانی کی بوتل چھوٹ کر دریا میں گِر پڑی۔ چند بُلبلے بنے بوتل تھوڑی دیر تک ڈولتی رہی پھر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔

”جانے دو۔ اب سے دو سو سال بعد کسی کو ملی تو وہ اس کی بناوٹ پر حیران ہوتے ہوئے اسے اپنی بیٹھک میں سجا لے گا“۔

”مجھے معلوم ہوتا تو اُس کے اندر آج کی تاریخ لکھ کر ڈال دیتی“۔ وہ پاؤں جھاڑ کر جوتے پہننے لگی۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *