Home » قصہ » چھاؤں ۔۔۔ فرزانہ خدرزئی

چھاؤں ۔۔۔ فرزانہ خدرزئی

شغلہ کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔کافی دنوں سے یہ صورت حال تھی کہ کسی صورت چین نہیں تھا۔جسم میں چیونٹیاں سی رینگنے لگتیں۔عجیب سی انہونی کیفیت طاری تھی پھر سر درد،جسم کا درد،بھاری پن ایسی صورت حال میں کوئی چین نہیں تھا۔ جسم کے تناؤ اور سر میں شدید درد۔۔۔۔اسے شدید طلب ہو رہی تھی۔خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے وہ  ایک مرتبہ پھر قاسم کے سامنے گڑگڑانے لگی۔اللہ کے واسطے مجھ پر رحم کرو۔میں مر جاؤں گی۔ میں تو یہ سب جانتی بھی نہیں تھی تم نے مجھے عادی بنایا۔اب مجھے وقت دو کہ آہستہ آہستہ اس سے چھٹکا را پاؤں۔ایسے ایک دم سے میں نہیں چھوڑ سکتی۔ٹوٹ رہی ہوں اندر سے۔۔۔اس نے اپنے بازؤں کو دونوں ہاتھوں سے دبایا۔خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے وہ ایک بار پھر اس کے پاؤں پڑنے لگی۔ قاسم اس کی اضطرابی کیفیت کو اچھی طرح سمجھ رہا تھا اور محظوظ ہو رہا تھا۔اس نے نفرت سے اپنے پاؤں سمیٹ کر زور سے ٹھڈا لگایاوہ مایوس ہو کر پلٹ گئی۔ایک بار پھر قوت سمیٹ کر گھر کے کاموں میں لگ گئی۔قاسم ہر لحظہ ہر گھڑی اس کی کیفیت کو آنکھوں میں تو لتا رہا۔حساب لگاتا رہا۔آخر کب تک لڑوگی۔۔۔ آخر ہار مانو گی وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔

شغلہ اور قاسم کی شادی کو دس سال ہو چکے تھے۔ وہ قاسم کی خوشنودی کو اولیت دیتی۔اس کی تعمیل میں کوئی کسر کبھی روا نہیں رکھی۔ان دس سالوں میں اللہ تعالیٰ نے انہیں تین بیٹوں سے نوازا۔ شادی سے پہلے اس نے قاسم کو اپنے رشتہ داروں کی ایک شادی میں دیکھا تھا۔کاٹن کے سفید کھڑ کھڑاتے شلوار قمیص میں وہ خاصا مدبر دکھائی دیا۔نکھرا روپ۔۔اونچا لمبا۔۔۔سمارٹ سا قاسم پہلی ہی نظر میں اس کے دل میں اتر گیا۔۔۔قاسم نے بھی لڑکیوں کے جھرمٹ میں دیکھا تھا۔جب بعد میں اس کے رشتے کا سلسلہ شروع ہوا تو لڑکیوں کے چناؤ میں ایک نام شغلہ کا بھی تھا۔۔۔اور قرعہ شغلہ کے نام پر اس کی خواہش کے مطابق نکلا۔۔۔شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی قاسم کے مشاغل کھل کر اس کے سامنے آگئے۔اس کے دل نے قاسم کے کئی معاشقوں کی داستانوں کو صبرو برداشت کے ساتھ سہا۔عورت خدمت گزاری کے نام پر زندگی گزار دیتی ہے۔۔مرد اسے کھلم کھلا دھوکا دیتا ہے اور وہ گونگی بہری بن کر دھوکاکھاتی رہتی ہے۔۔۔ جھوٹ۔۔۔مکرفریب۔۔۔چالاکیوں کے ساتھ ساتھ وہ نشہ بھی کر تا تھا۔۔۔نشے کی ہر قسم اس پر حلال تھی جو بھی اسے دستیاب ہوتاوہ ضرور آزماتا۔مگر افیون ایک ایسا نشہ تھا جس میں وہ چوبیس گھنٹے غرق رہتا۔اس کا ذریعہ معاش باپ دادا کی زمین تھی۔۔۔جس کا انتظام اپنے باپ کے دور پرے کے قابل بھروسہ رشتہ دار کو سنبھالنے کے لیے دے رکھا تھا۔رمضان غریب تھا۔۔۔صدیوں کی غربت اور بے چارگی نے اس کے چہرے پر پرمژدگی طاری کر دی تھی۔وہ کاشت کی نئی زمین خریدنا چاہتا تھا مگر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے قاسم کی زمین پر کام کرنے کے لیے مجبور تھا۔وہ اور اس کی بیوی بیٹیاں گرمیوں کے تپتے دنوں میں سارا سارا دن زمین پر کام کرتیں۔۔آ گ برساتے آسمان نے لڑکیوں کی سرخ و سفید رنگت کو سیاہی مائل کر دیا تھا۔۔۔وہ سارا سارا دن کام کرتی بیٹیوں کو ایک بیوپاری کی نگاہ سے تولتا رہتا۔ چھوٹی والی بڑی کی نسبت زیادہ تیزی سے قد نکال رہی تھی۔۔۔تپتے دنوں میں وہ ان کی لال ہوتی رنگت کو دیکھ کر دل ہی دل میں سودا طے کرتا۔۔۔ بس اب ایک دو سال اور پھر حالات ضرور بہتر ہوں گے۔دوتین لوگوں نے کہہ رکھا تھا مگر ولور کی قیمت پرکشش نہ ہونے کی وجہ سے اس نے انکار کردیا۔میری بیٹیاں لاکھوں سے تو کسی صورت کم نہیں۔درانتی سے گھاس کاٹتے وہ دل ہی دل میں خوش ہونے لگتا۔۔۔پھر میرے پاس کاشت کی اپنی زمین ہوگی۔۔۔اپنے مال مویشی بھی خریدوں گا اور پکا مکان بنواؤں گا۔۔۔شام کے وقت وہ قاسم کے گھر بکریوں کا چارہ لے کر جاتا۔۔۔باڑے کی صفائی کرکے گھر لوٹتا۔قاسم نے بھوسہ۔۔۔بیری کے درخت اور فصل کا تیسرا حصہ اسے دے رکھا تھا۔۔۔صرف زمین اور پانی قاسم کا تھا باقی بیج۔۔۔محنت۔۔۔دیکھ بھال کھادسب رمضان کے ذمے تھا۔۔۔اس کی محنت سے میعاری فصل تیار ہوتی۔۔۔جس سے خرچ بھی نکل آتا اور قاسم و رمضان کی مطلوبہ رقم و اناج کا بھی بندوبست ہوتا۔۔۔مگر زمین کا بڑا حصہ بھی اس کے نشوں کی نذر ہو گیا۔اس کے پاس اکثر پیسے نہیں ہوتے اور افیون کی طلب اس کی غیرت۔۔۔خوداری۔۔۔انا سب کچھ کچلنے پر حاوی ہوتی۔اس کے لیے اس نے شغلہ کا استعمال کرنے سے بھی دریغ کیا۔جب پیسے نہ ہوتے تو وہ شغلہ کو سردار شا ہ زمان کے گھر بھیجتا جو خود اس نشے میں ہمہ وقت غرق رہتا۔۔۔عورت بھوکی رہتی ہے۔۔۔پیاسی رہتی ہے۔۔۔اس کی زندگی کی ساری خوشی اس کا گھر شوہر اور بچے ہوتے ہیں۔وہ بھی شوہر کی خو شنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی ہر جائز و نا جائز باتوں پر عمل کرنے لگی۔

شغلہ سردار شاہ زمان کے گھر جاتی۔سارا سار ا دن گھر کے کاموں میں کو ہلو کے بیل کی طرح جتی رہتی۔۔۔اس کی تینوں بیویاں اس دن اپنے تمام کام نکلوا تیں۔۔۔ اور پھر اس کے بدلے قاسم کے لیے افیون لے آتی۔یہاں آسانی سے افیون ملتی بھی نہیں تھی۔ شاہ زمان سردار تھا۔اس کے کارندے آس پاس کے دور دراز کے علاقو ں سے افیون لے آتے۔اس کے پا س ہر وقت دستیاب ہوتی۔اکثر شغلہ اس کے گھر کے لیے پس و پیش سے کام لیتی۔قاسم جانتا تھا کہ ایک ایسا وقت آسکتا ہے جب شغلہ وہاں جانے سے مکمل انکار کر دے گی۔اگر چہ اس نے اپنے گھر کے پچھلے حصے میں بھی افیون کاشت کی۔جس کے پودے خوب پروان چڑھے۔پودوں کے اوپر لگے گول گول اور بیضوی ڈوڈوں سے عمدہ اور خالص افیون تیار ہوتی۔۔ان ڈوڈوں کو ہاتھوں میں لے کر اس کی مسحور کن خوشبو سے مدہوش ہوتا۔اس کا لیس داررس زندگی بخشتا ۔۔۔اس دن کے بعد تو گویا افیمیوں کی لائن لگ گئی جو ساراسار ا دن اس کے گھر منڈلاتے نظر آتے۔۔۔وہ ان سب میں اہم شخصیت کا درجہ رکھنے لگا۔۔۔ مگر جب دور دور تک کی شہرت پہنچنے لگی تو مخبری کے خوف سے یہ سلسلہ ترک کرنا پڑا۔ اب اس کے پاس شغلہ کو استعمال کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔یہ ایک ایسا دروازہ تھا جس کی چابی اس کی دسترس میں تھی۔۔۔

اس دن بھی شغلہ کے لیے اس کی ضرورت کے مطابق مقدار لے آئی تھی۔قاسم جانتا تھا کہ وہ ہر بات پر سر جھکانے والی۔۔۔اس کے ہر حکم پر جی جان سے عمل کرنے والی شغلہ کو مزید رام کرنے کے لیے کون سا ہتھیار کار گر ثابت ہو سکتا ہے۔یہ لیں اس نے اپنا پلو کھولتے ہوئے پڑیا قاسم کی جانب بڑھائی۔قاسم نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔تم کتنی اچھی ہو۔۔۔معصوم۔۔۔تمھارا دل بھی شفاف پانی کی طرح صاف ہے۔وہ پیار سے اس کے ہاتھوں کو سہلانے لگا۔قاسم کی پیار بھری باتیں اسے پگھلا رہی تھیں۔۔۔لو تم بھی اس کا ذائقہ چکھو۔۔۔میں۔۔۔اس کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑیں۔۔۔وہ اس پیار بھرے اصرار کے باجود تھوڑی گریزاں تھی۔نہیں میں یہ نہیں کر سکتی۔۔۔مگروہ تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہا تھا۔۔۔وہ نہ پگھلی تو ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگا۔تم کتنا کام کرتی رہتی ہو یقینا تھکن ہوتی ہو گی یہ تھکاوٹ کا بہترین علاج ہے۔۔تمھیں شروع شروع میں اچھا نہیں لگے گا مگر بعد میں مجھے دعائیں دو گی۔آنکھوں میں محبت،چہرے پر شگفتگی اور نرمی تھی یقینا وہ بہت اچھا اداکار تھا۔وہ اس کی ضد کے سامنے ہار گئی۔اپنے ہاتھ سے اس کے منہ میں ایک چھوٹا سا ٹکڑا رکھ دیااور ماتھے کے بال سنوارنے لگا۔۔۔اس کی آنکھوں میں محبت کے چراغ جلنے لگے۔۔ایسا لطف و کرم۔۔۔شایدجان دینے سے دریغ نہ کرے۔۔۔وہ جذباتی ہونے لگی۔۔۔شروع شروع میں اُسے یہ سب مفلوج بناتا رہا مگر آہستہ آہستہ وہ اس کی عادی ہوتی گئی۔بل کہ اب اسے اس کے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ننھا دلاور بہت زیادہ روتا تھا۔وہ اسے بھی پاؤڈر بنا کر تھوڑا سا چکھا دیتی۔۔۔سارا سارا دن آرام سے رہتا۔۔۔نشے نے شغلہ کی خوب صورت کے ساتھ ساتھ قابل رشک صحت بھی چھین لی۔رخساروں کی ہڈیاں ابھر آئیں۔۔۔گردن کا گوشت لاغر ہو کر لٹک گیا۔آنکھیں اندر کو دھنس گئیں۔نشے سے مرجھائے کمزور چہرے پر بے رونقی نے ڈیرا جما لیا۔جو روز بروز پھیکا،بے رونق،اور زرد ہونے لگا۔اب وہ سردار کے گھر قاسم کی ضرورت کے لیے نہیں جاتی بل کہ اپنی طلب کے لیے بھاگ بھاگ کر جاتی۔۔۔قاسم کی ضرورت کردہ مقدار سے اگر تھوڑی سی بھی کم ہوتی تو وہ چڑھ دوڑتا۔۔۔قاسم کا کتا بھی مالک کا ساتھ دیتا اور اپنے منہ سے اس کے اوڑھنی کھینچ کر چہرے اور ہاتھوں پر پنجے گاڑ ھتا۔۔۔پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا قاسم نے اس کا سردار کے گھر جانا اور اپنے لیے افیون لانے کا سلسلہ بند کر دیا۔۔قاسم تو اپنی ضرورت پوری کر رہا تھا۔۔۔مگر وہ بے آب ماہی کی طرح تڑپنے لگی۔۔وہ اس کی منتیں کرتی ہاتھ جوڑتی مگر قاسم نے تو گویا کان اور آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔۔۔وہ ایسا کیوں کر رہا تھا شغلہ سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔تم نے خود ہی تو۔۔۔بکواس بند کرو۔۔سرخ سرخ آنکھوں سے گھورتے ہوئے وہ اس پر قہر کی طرح ٹوٹ پڑتا۔۔۔وہ اس کے رویے پر کانپ جاتی۔۔دونوں میں اس کے لیے اکثر خون خوارجھڑپیں بھی ہونے لگیں۔۔۔اس کی ساس اٹھتے بیٹھے طعنے دینے لگی تھی۔ارے شوہر سے اتنی دشمنی کی تو شاید ہی کوئی مثال ہو گی۔پھر وہ پچھلی وفا شعار بیویوں کی عمدہ عمدہ مثالیں نہ جانے کہاں سے ڈھونڈ کر لاتی اور اس کا کلیجہ جلاتی۔وہ چپ چاپ ڈھیٹ بن کر یہ سب کچھ سنتی۔۔۔چپ چاپ پٹتی رہتی،بے عزت ہوتی رہتی۔تھکی تھکی نڈھال۔۔۔کبھی اس کے کان محبت کے حسین بولوں کے لیے ترستے۔۔۔قاسم کی ذرا سی بے توجہی اسے دل گرفتہ کر دیتی تھی مگر اب اسے ان باتوں سے کوئی سرکار نہیں تھا اسے تو بس تھکاؤٹ کا علاج چاہیے تھا جو قاسم نے اچانک بند کر دیا تھا۔ قاسم اس سے بے زار تھا وہ بار بار شادی نہیں کر سکتا تھا اس کے پاس بیوی خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔وہ بات بے بات اسے مارتا رہتا ساس بھی اسے پیٹی رہتی۔وہ کچھ دیر تک سوں سوں کرتی ناک کے ساتھ روتی رہتی پھر آنکھیں پونچھ کر گھر کے کام میں مصروف ہوجاتی۔جلد ہی اس کے نشہ کرنے اور افیون کھانے کے بارے میں سب کو پتہ چل گیا۔چہ چہ بڑا افسوس ہوا۔عورتیں بھی نشہ کرتی ہیں، نہ کبھی سنا نہ دیکھا۔۔۔آس پاس کی عورتیں اس کی شہرت سن کراپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود دن میں ایک مرتبہ ضرور چکر لگاتیں۔۔۔ ناک اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے توبہ توبہ کرتیں۔کتنا مظلوم ہے قاسم۔۔۔ہائے بے چارہ مارے نہ تو اور کیا کرے۔۔یہ بھی کیسی پکی ہے۔۔شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔جو عورت نشہ کر سکتی ہے اس کا کیا بھروسہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔۔۔اللہ رحم کرے اب تو اپنی بہو بیٹیوں کو اس گھر میں بھیجتے وقت ڈر لگتا ہے۔۔۔وہ خوف سے جھرجھری لیتیں۔۔۔

وہ ٹوٹ رہی تھی بکھر رہی تھی۔۔قاسم گھر میں کبھی کبھار رش دیکھ کر اسے رسی سے باندھ دیتا۔۔۔ساس گھر کے کاموں میں لگی اسے صلواتیں سناتی۔۔۔شام ڈھلنے لگی تھی تماشائی عورتیں گھر کو چلی گئیں  چل اٹھ کام کر۔۔۔ساس نے آٹے کا تھال زمین پر پٹخا۔۔آٹا گوندھنے کے بعد خاموشی سے روٹی پکانے لگی۔۔۔دم گھونٹے والا سناٹا چاروں طرف پھیلا تھا۔۔۔اسے کبھی سناٹے سے اتنا خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔۔قاسم چارپائی پر بیٹھا اپنے کتے کو سہلا رہا تھا۔

سناٹے کو رمضان کی آواز نے چیرا۔ آج گھاس کم ہی کاٹ سکا ہو ں۔۔۔زینو کی طبیعت خراب تھی مگر آج کا گزارہ ہو جائے گا کل صبح سویرے مزید کاٹ کر لے آؤں گا۔۔۔ہوں۔۔۔ قاسم کسی گہری سوچ سے بیدار ہوا۔۔۔اس کے دل میں نجانے کیا خیال آیا۔۔۔چل شغلہ جا کچھ دن میکے ہو آ۔۔۔وہ ایک دم سے مسکرانے لگا۔۔۔توے پر آخری روٹی ڈالتا ہاتھ رک گیا۔۔یہ کیا کہہ رہا ہے؟

شام گہری ہونے لگی۔چاند کی مدہم ذرد روشنی دیواروں پر پڑنے لگی۔ملگجے اندھیرے میں رمضان کے ساتھ سست روی کے ساتھ جانے لگی۔۔۔پتلی۔۔ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی کے کنارے کنارے اگتی گھاس میں پھنسے کانٹے اس کے پاؤں میں چبھنے لگے۔۔۔دل کی تہوں سے اترتا درد بڑا جان لیوا لگ رہا تھا۔۔۔وہ میری بدنصیبی کا دن تھا جب میں نے اس کی بات مانی۔وہ دل ہی دل میں غم زدہ ہو گئی۔راہ کے اندھیروں میں لپٹا والدین کا گھر لامتناہی فاصلے پر پھیل گیا۔پشت پر تیز دوڑتے قدموں کو اس کے کانوں نے سن لیا۔۔سب طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔رمضان کی خوف بھری آواز ابھری کون ہو تم۔۔۔اچھا اب یہ سوال بھی ہم سے۔۔۔پکڑو ان دونوں کو۔۔۔یہ دونوں بھاگ رہے ہیں۔۔۔کیا رمضان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ ہمیں قاسم نے خود ہی بھیجا ہے۔۔۔میں اسے قاسم کے کہنے پر والدین کے گھر چھوڑنے جا رہا ہوں۔۔۔اب اس کی بکواس سنو ذرا۔۔۔ان میں سے ایک استہزائیہ انداز میں ہنسا۔۔۔زور کا گھونسا اس کے جبڑے کو چیر گیا۔۔۔سرخ سرخ خون کی دھار نے اس کی بوسیدہ قمیص کا گریبان لال کر دیا۔پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے زخم سے ابلتے خون کو دیکھنے لگا۔۔۔وہ انہیں گھسیٹتے ہوئے لے جانے لگے۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔چھوڑو۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ۔۔ایسا کچھ نہیں ہے تم لوگ غلط کر رہے ہو۔۔۔رمضان خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔۔۔۔میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔وہ چاروں اسے بری طرح ذدو کوب کرنے لگے۔۔۔تھپڑ۔۔۔لاتیں گھونسے اور مکے کھانے کے باوجود بولتا جھکتا رہا مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔۔۔اگلے چند لمحوں میں وہ سر دار شاہ زمان کے سامنے پیش کیے گئے۔۔۔سردار یہ دونوں کالے ہوگئے۔۔۔ہم نے خود انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔۔بھاگ رہے تھے دونوں۔۔۔ہم نے پکڑ لیا۔۔۔ہوں سردار نے ایک گہری نگاہ ان دونوں پر ڈالی اور سچ و جھوٹ کے آثار ان کے چہرے پر تلاشنے لگا۔۔۔۔اس نے حقیقت تلاش لی تھی۔۔۔اب اسے فیصلہ سنانا تھا۔۔منصفانہ فیصلہ جس میں سب کی بھلائی تھی۔۔۔غمزدہ قاسم کا دکھ کسی سے نہ دیکھا گیا۔۔۔کیا عزت رہ گئی۔۔۔چہ چہ، افسوس۔جرگے میں مسلسل ہونے والی چہ مگوئیاں، لوگوں کی نگاہیں۔۔۔قاسم کا دل چیر رہی تھیں۔۔سب نے اس کے دکھ اور کرب کو محسوس کیا۔۔۔۔ان دونوں کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔۔۔آوازوں کا سلسلہ ایک مرتبہ تیز ہوگیا۔۔۔سردار نے کھنکھار کر سب کو متوجہ کیا اور پھررمضان اور شغلہ کو جرگے نے کالا قرار دیا۔شغلہ شادی  شدہ ہے اس نے اپنے شوہر کی عزت کو داغ دار کیا اور رمضان ایک شادی شدہ عورت کو بھگا رہا تھا یقینا اس کا جرم سنگین تھا۔۔۔جرگے نے فیصلہ سنا دیا۔۔شغلہ کو قاسم کے حوالے کر دیا جائے۔۔۔ وہی سزا دینے کا اصل حق دار ہے۔۔۔اور رمضان کے جرم کے بدلے اس کی بڑی بیٹی کا نکاح قاسم سے ہوگا جب کہ چھوٹی بیٹی۔۔۔سردار نے چاروں طرف دیکھ کر انتہائی دکھ سے کہا۔۔۔رمضان کی موت کے بعد بے آسرا ہو جائے گی جوان جہان لڑکی ہے میں نوے ہزار ولور کے عوض شادی کرنے اور اس کارخیر میں حصہ ڈالنے پر تیار ہوں۔۔۔ ۔۔۔رمضان کے لاکھوں ڈوب گئے۔ اسے اپنے مویشی اور کاشت کی زمین ڈوبتی دکھائی دی۔۔۔

اٹھو۔۔۔

قاسم کی آواز شغلہ کو حقیقت کی دنیا میں کھینچ لائی۔۔۔اس کے زرد ہوتے ہوئے چہرے پر ہلکا سا رنگ ابھرااور اپنی زائل تمام قوتوں کو سمیٹ کر قاسم کے ساتھ چلی گئی۔۔۔

کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے قاسم نے پستول اس کی پیشانی پر رکھا۔۔۔ضمیر میں ہلکی سی چبھن محسوس کیے بغیرٹھنڈے سرد لہجے میں بولاتم نے میری عزت کو داغ دار کیا میں بھی تمھاری پیشانی پرتمھاری کالک کا داغ سجاؤں گا۔۔۔

ٹھاہ کی آواز سے منڈیر پر بیٹھی چڑیاں پُھر سے اُڑ گئیں۔۔۔ایک گولی اس کی پیشانی کو داغ کر سر کے پچھلے حصے کو پھاڑتی ہو ئی نکلی۔۔۔بے چارہ۔۔۔ساری زندگی اس درد کے ساتھ زندگی گزارے گا۔کیا نہیں دیا اسے۔ مگر عزت بھی کسی کسی کو راس آتی ہے۔۔۔غیرت مند مرد اور کر ہی کیا سکتا ہے۔۔نشئی ہونے کے ساتھ ساتھ بدکار بھی تھی۔۔۔صبح عورتیں اس کی لاش کو برابر کرتے ہوئے قاسم کی بے چارگی پررو پڑیں۔۔۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *