Home » قصہ » مزدور ۔۔۔ احمد علی

مزدور ۔۔۔ احمد علی

(1)

شام۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل۔ شام، سرخ اور عنابی۔ آسمان پر خون، اس جگہ جہاں زمین اور آسمان ملتے ہیں۔ اُفق پر خون جو بتدریج ہلکا ہوتاجاتا تھا، نارنجی اور گلابی، پھر سبز اور نیلگوں اور سیاہی مائل نیلا جو سرکے اوپر سیاہ ہوگیا تھا۔ سیاہی۔ سرپہ موت کی سیاہی۔ اور ایک آدمی زمین سے بیس فٹ اونچا کھمبے پر چڑھا ہوا، بندر کی طرح کھمبے پر چمٹا، ایک رسی کے ٹکڑے پر اپنے چوتڑ ٹکائے ایک لچھے میں سے تار لگارہا ہے۔

یونیورسٹی کی سڑک پر بجلی کی روشنی کے لیے تار اور کھمبے،آسودہ حال طالب علموں اور موٹروں پر چڑھنے والے رئیسوں کے لیے روشنی، کیوں کہ مزدور کو بھی اپنی دوزخ بھرنی ہے۔ خوش حال اور کھاتے پیتے لوگوں کے لیے، جو قیمتی کپڑے پہنتے ہیں، جن کے دماغوں میں گوبر بھرا ہوتا ہے۔ روشنی کرنے کو کھمبوں پر چڑھ کے، ہوا میں لٹک کر اپنی جان خطرہ میں ڈالنے کے بعد اس کو صرف چھ آنے روز ملتے۔ اور نوجوان کالے کوٹ اور سفید پاجامے پہنے ہوئے آسودگی کی شان اور پیسے کے گھمنڈ سے اس بندر پہ جو ان کی چربی سے ڈھکی ہوئی آنکھوں کے لیے روشنی لگانیکو چڑھاہوا تھا،ایک نظر ڈالتے ہوئے گزر جاتے۔

”ہمارے بورڈنگ ہاؤس کے پیچھے والی سڑک پر روشنی لگ رہی ہے۔ اب توبجلی کی روشنی ہوگی۔ بجلی کی روشنی!“ اور ان کے کھوکھلے دماغ اسی کے راگ گاتے اور بجلی کے خواب دیکھتے۔ لیکن کوئی بھی اس مزدور کاخیال نہ کرتا جو ننگے بدن ہوا میں لٹکا ہوا پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کھمبے پر تار لگا رہا ہے۔ اور ان کے پیروں کی احمقانہ آواز کھٹ۔۔۔ کھٹ۔۔۔ کھ۔۔۔ٹ ہوتی اور وہ مستانہ روی سے چہل قدمی کرتے ہوئے گزر جاتے۔ اور مزدور کی رگیں اور پٹھے محنت کے اثر سے اس کے جسم پر چمکتے دکھائی دیتے اور رات بڑھتی آتی تھی۔

(2)

مزدور ہوا میں ٹنگا ہوا تیزی سے کام کرتا رہا۔ اندھیرا ہو چلا تھا لیکن کام ختم کرنا لازمی تھا۔ گھر کا تصور اس کے دماغ میں بندھا تھا، سوکھی روٹی اور پیاز کی گٹھی کا، بیوی اور بچوں کا، گھر کا۔۔۔ اور اس کی آنکھوں میں اپنی جھونپڑی کے سامنے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھ کر حقہ پینے کاخیال پھر گیا، اور آرام اور نیند کا، اس نیند کا، اس نیند کا جو دن بھر کام کرنے اور ٹھیکیدار کی گالیاں سننے کے بعد آتی تھی۔ اور ٹھیکیدار عیش و عشرت میں موجیں اڑاتا تھا۔وہ جلدی جلدی کام کرنے لگا۔ پیر کے انگوٹھے سے تار اوپر کھینچتا، ایک ہاتھ سے اوپر اٹھاتا اور دوسرے سے لپیٹتا۔

سامنے لان پر یونیورسٹی سٹاف کلب کے ممبروں کے ہنسنے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں، جو پنکھے کے نیچے بیٹھے تھے۔ جس کو ایک لڑکا کھینچ رہا تھا۔کچھ ابھی تک گھٹتی ہوئی روشنی میں ٹینس کھیل رہے تھے۔ کچھ بیٹھے شربت پی رہے تھے، یا تصویر دار میگزینوں کے ورق پلٹ رہے تھے، یا گپ لڑانے اور ٹھٹھے مارنے میں مشغول تھے۔مزدور ایک سیکنڈ کے لیے پسینہ پونچھنے کو رکا۔ اس کی نگاہ سٹاف کلب کے ممبروں پر پڑی،”سسرے کیسے دھنا سیٹھ بنے بیٹھے ہیں۔ ہمیں تو جل کی بوند نائیں ملتی، اِن ساروں کی موج ہے کیسے سربت پیت ہیں۔“ اور اس نے منہ بناکر زمین پر تھوکا۔دوسری طرف سے جمعدار آنکلا جس نے ترقی کچھ تو اس لیے کی تھی کہ وہ ہوشیار تھا، لیکن زیادہ تر اس لیے کہ وہ ٹھیکیدار کے گھر پہ خالی وقت میں مفت کام کرتاتھا۔

”کیوں بے۔ابھی تک کھتم نہیں کیا۔ تیری کھاتر ہم کو رکنا پڑ رہا ہے۔“

”اجی گھر تو ہموکو جانو ہے۔“

”کھتم کرتاہے کہ نہیں۔ بک بک سے کام ہوئے ہے۔ تنکھامیں سے کٹوا دوں گا۔ سات بج چکے ہیں۔“مزدور نے جلدی جلدی کام کرنا شروع کیا۔ لیکن تار کا لچھا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر سڑک پہ پھیل گیا۔ جمعدار نے ایک گالی دی اور سڑک کے بیچ میں کھڑا ہوکر تار لپیٹنے لگا۔ اتنے میں پیں پیں پیں موٹر کا ہارن سنائی دیا۔ موٹر کار رک گئی۔”حرام زادہ! کیا دکھائی نہیں دیتا؟“ ایک صاحب جن کا سر چھوٹا سا تھا اور بڑی بڑی مونچھیں دونوں طرف لٹکی ہوئی تھیں، چلانے لگے۔ ”راستہ سے ہٹ کر کام نہیں کرسکتا؟ گدھا کہیں کا۔۔۔ جلدی سمیٹ۔ ہمیں دیر ہو رہی ہے۔“جمعدار نے جلدی سے تار ایک طرف کھینچ لیا۔

”تیری وجہ سے گاری پڑی۔ کیوں بے۔ اسی کام کی مجوری ملتی ہے؟ اگر تنکھامیں سے نہ کٹوایا تو میرا نام رام لال نہیں۔“

اور غریب مزدور نے بنیے کاخیال کیا۔ جسے اس کو پچاس روپیہ دینے تھے۔ بنیے نے بھی اسے گالیاں دی تھیں، اور جیل بھجوانے کی دھمکی دے کر سود چوگناکردیا۔ بے ایمان کس طرح ناک میں دم کرتے ہیں۔ قطرہ قطرہ لہو چوس لیتے ہیں۔ لیکن حاجت مند بے چارا اگر ان کے پاس نہ جائے تو کیاکرے۔ مزدور کی لڑکی بارہ برس کی ہوگئی تھی۔ لڑکوں کے ماں باپ بہت زیادہ روپیہ مانگتے تھے، اور اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ برادری نے اس بات پہ اس کا حقہ پانی بند کردیا۔ برہمنوں کو روپے چٹاکے برادری کو منانالازمی تھا۔ اس کے لیے سو آدمیوں کو کھانا کھلانا تھا۔ اس کے علاوہ شادی کے دیوتا کو بھی بھینٹ چڑھانی تھی۔ دیوتاؤں کو بھی روپیہ کی ضرورت تھی۔ وہ بھی بنیے تھے۔ اور وہ سال بھر سے زیادہ خالی بیٹھا رہا۔ برہمن نے صرف مندرمیں پھول بتاشہ چڑھانے کے دو رپیہ لیے۔ برادری کو کھانا دینا ضروری تھا۔ اور اس پر شادی۔ ہر چیز میں روپیہ کی ضرورت تھی۔ اور غریب کاپیٹ کاٹ کے بنیے موٹے ہوتے ہیں۔

(3)

جمعدار نے تار کوایک ستلی سے باندھ کر کھمبے پر مزدور کو پھینکا۔ وہ اپنے پیروں کو کھمبے سے ٹکاکر اسے لپکنے کو جھکا، لیکن لچھا اس کے ہاتھ سے پھسل گیا۔ اس کا دل کام سے بے زار ہوچکا تھا، اور اس کاجسم ڈھیلا اور بے جان سا ہوگیا تھا۔ جمعدار نے لچھادوبارہ پھینکا، لیکن پھر وہ رہ گیا۔ مزدور نے جھپٹ کر اسے لپکنے کی کوشش کی، لیکن رسی ٹوٹ گئی اور وہ دور سڑک پر چھاتی کے بل جاکے گرا۔ جمعدار کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔۔۔ یونیورسٹی سٹاف کلب کے ممبر اس آواز پر اپنی کرسیوں سے مڑے،”بھئی کیا ہوا؟“

”ایک آدمی گر گیا۔“

”کہاں؟“

”وہ مزدور جو کھمبے پر کام کر رہا تھا؟“

”چلو دیکھیں۔ مر تو نہیں گیا؟“

وہ دیکھنے کے لیے اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔ ایک صاحب تھوڑی دور دیکھنے آئے، لیکن واپس لوٹ کر سوچ بچار میں مشغول ہوگئے۔ دو تین نے ٹینس لان کے اس پار جانے کی ہمت کی، لیکن وہ جھاڑیوں کے اس طرف ہی رہ گئے اور ترس اور افسوس کااظہار کرنے لگے۔ لیکن خون میں لتھڑے ہوئے آدمی تک جانے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔

”اُف۔ کتنا خون نکلا ہے۔ بڑا تندرست رہاہوگا۔“

”تہ۔تہ۔تہ۔“

اس عرصہ میں کچھ نوکر اور طالب علم مزدور کے چاروں طرف جمع ہوگئے۔ لیکن کوئی بھی اس کے نزدیک نہ آتا تھا، کوئی اس کو چھونے کی ہمت نہ کرتاتھا۔ اور آدمی ہلاتک نہیں،اس کے منہ سے ایک آہ بھی نہ نکلی۔ اس کاجسم خون میں لت پت تھا، اس کی آنکھیں اوپر کھچ گئی تھیں، اس کے رگ پٹھوں کی طاقت سلب ہوچکی تھی۔ اب وہ گھر اور آرام اور نیند کی راہ دیکھ رہا تھا۔

کوئی چلایا،”چار پائی لاؤ۔“ لیکن کسی نے اس کو چھوا نہیں۔ ہر شخص موت کے ڈر سے خوف زدہ تھا۔ کچھ تانگے میں آتے ہوئے لوگ بھیڑ دیکھ کر اترپڑے اور دھکے دیتے ہوئے اندر پہنچے۔ لیکن وہ بھی دور ہی سے گھورتے رہے۔ وہ بھی خوف زدہ تھے۔۔۔ موت سے۔۔۔ گویا موت کا پتلا زمین پر پڑا ہواتھا اور دوسرے مزدور بھاگتے ہوئے آئے۔ انھوں نے اس کو چار پائی پر ڈالا اور ہسپتال لے چلے۔

(4)

ایک پروفیسر صاحب جو اوروں کی طرح دور ہی سے کھڑے دیکھ رہے تھے بولے،”بھئی ڈاکٹر کو بلانا چاہیے۔“

”میجر حسن کو فون کردو۔“

اور وہ اور لوگوں سے رائے لینے کو واپس چلے گئے۔ لیکن سب اس واقعہ کو بھول چکے تھے اور گپ اور ایک دوسرے کی برائی میں مشغول تھے۔ پروفیسر صاحب میجر حسن کو فون کرنے چلے جس پر کچھ لوگوں نے ان کو رقیق القلب اور بے وقوف کہنا شروع کیا،”بھئی تم بھی کیا آدمی ہو۔ ایک مزدور کے لیے اتنی پریشانی!“

میجر حسن اپنے دفتر میں تھے نہ گھر پر۔ وہ کلب میں تشریف رکھتے تھے۔ وہ چند لڑکیوں میں اس قدر منہمک تھے کہ فون تک جانا ناگوار معلوم ہوتا تھا۔

”ہیلو۔۔۔ و۔۔۔ و۔۔۔“ انہوں نے بن کر رئیسانہ لہجہ میں کہا۔

”ہلو۔ کیا میجر حسن بولتے ہیں؟ میں ہوں پروفیسر عابد۔ میجر صاحب براہ کرم فوراً تشریف لے آئیے۔ ایک آدمی کھمبے پر سے گر گیا، اور خون میں نہایا ہوا ہے۔“

”بھئی کوئی بات نہیں۔ اس قسم کے سینکڑوں واقعات روز پیش آتے ہیں۔ وہ تو مرگیا ہوگا۔“

”نہیں، نہیں۔ چلے تو آئیے۔ شاید آپ اس کی جان بچاسکیں۔ اس کو یونیورسٹی کے ہسپتال بھیج رہے ہیں۔۔۔“

ڈیم! میجر صاحب نے آہستہ سے کہا۔۔۔جب وہ اپنی جگہ واپس آئے تو ایک نوجوان لڑکی نے پوچھا،”کیا بات تھی؟“

”کچھ نہیں۔ حسبِ معمول کوئی شخص کہیں سے گرپڑا۔“

”مرا تو نہیں؟“

”معلوم نہیں۔ لیکن اغلب یہی ہے۔ کچھ اور پیوگی؟“

”لیکن آپ اسے دیکھنے جائیے۔“

”کوئی جلدی نہیں۔ ایسے واقعات تو روز پیش آتے ہیں۔“

اور میجر صاحب بڑی دیر کے بعد اپنی کار میں آرام سے لیٹے ہوئے تشریف لائے۔ کچھ لوگ جو مزدور کی قسمت کا فیصلہ سننے کے انتظار میں ابھی تک کھڑے تھے میجر صاحب کو دیکھ کر ایک طرف ہوگئے۔ میجر صاحب بہت اطمینان سے سیڑھیوں پر چڑھے اور ایک کمپونڈر سے دریافت کیا آدمی کہاں ہے۔ کمپونڈر انھیں ایک کمرے کی طرف لے گیا۔ وہ اندر داخل ہوئے اور چارپائی پر ایک مزدور کو پڑا دیکھ کر حقارت سے اِدھر اُدھر دیکھا اور بولے،”کیا یہی آدمی تھا جس کے لیے مجھ کو بلالیا؟ تم خود نہیں دیکھ سکتے تھے؟ کیوں جی؟“

”جی حضور۔لیکن ہم آپ کا انتظار کر رہے تھے۔ ابھی تک زندہ ہے۔“

چوں کہ وہ اب آہی گئے تھے اس لیے میجر صاحب نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا،”کیا اس کو زندہ کہتے ہیں؟ اس میں دھرا کیا ہے؟ مرگیا۔“انھوں نے زور سے اس کا ہاتھ چارپائی پہ پٹخ دیا۔ اور باہر چلے گئے۔۔۔ لوگوں کے منہ سے اطمینان اور یکسوئی کی آہ نکلی۔۔۔ اور چارپائی پر آدمی ہلکے سے ہلا، اسے ایک سسکی آئی، اور وہ مرگیا۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *