Home » قصہ » مکران کی بیٹی ۔۔۔ گوہر ملک /شاہ محمد مری

مکران کی بیٹی ۔۔۔ گوہر ملک /شاہ محمد مری

کہتے ہیں کہ مکران کا ایک بلوچ ایک سال خان کے ٹیکس ادا نہ کرسکا۔ خان کے نائب نے ٹیکس کے بدلے میں بلوچ کی بیٹی گرفتار کر لی اور کلات بھیج دی۔ جو بھی ایک بار خان کے کلات میں داخل ہوا وہ پھر زندہ  وہاں سے نہ نکل پاتا۔ وقت ماہ و سالوں کے حساب سے گزرتا گیا۔ خدا جانے موسم نے خود کو کتنی بار تبدیل کردیا۔ کبھی کلات کے کوہ و گھاس و درختوں کو سیاہ سردی گھیرتی رہی، کبھی وہ برف کی سفید چادر تلے ہو جاتے اور کبھی گلِ لالہ و سوسن و سرخ پھول پہاڑوں پہ اپنی خوشبو بھری چادر بچھاتے رہے۔ بادام اور شفتا لو اور زردالو کے درخت اپنے سفید وسرخ وگلابی پھولوں کے ساتھ دلہن کی طرح سنگھار لیے ہوتے۔سنجد کے پھول اپنی خوشبو بکھیرتے اور گلاب کی خوشبو سارے زاوہ ؔاور شاہ ؔپلان مردان کو اپنے سر پہ اٹھاتے۔

مگر بلوچ کی لڑکی نہیں جانتی تھی کہ اُس کے علاقے میں کونسا موسم ہے۔ ایک رات وہ جاگ گئی تو کلات کے اوپر اُس کی نظر آسمان پہ پڑی۔ دیکھا کہ پتلے بادلوں میں سے پورؔ نامی ستارے نظر آرہے ہیں۔ اب وہ جان گئی کہ جس وقت پور کے ستارے اس جگہ پر آجائیں تو مکران میں ہامین (کھجور کی فصل پکنے کے موسم کا نام) ہوجاتا ہے۔

اس کا دل امڈ آیا اور اس نے میٹھی آواز میں یہ زہیروک گایا:

سویر کا وقت بادل بکھر گئے

ہفتیں پور نامی ستارے صبح صادق کے قاصد ہیں

جانتی ہوں کہ مکران ہامین ہے

ہیریؔ کے کھجوروں کا باغ پک چکا ہوگا

کیساکؔ کے بیر کے پیٹر پلکیؔ ندی کے پانی کے سبب بیروں سے لد گئے ہوں گے

سر میرا چکراتا ہے تمہارے محل کی بلندی سے

کان میرے بہرے ہوگئے تمہاری گھوڑی کے ہنہناہٹ سے

بھیڑوں کے ممیا نے سے اور لسی بناتے مشکیزے کی آوازوں سے

تمہاری فیاضی مجھے دکھ پہنچاتی ہے

اُس کی میٹھی اور خوبصورت آواز والے اس گیت نے سارے کلات کے لوگوں کو بے چین کر کے رکھ دیا۔ ایک نے آکر اُس کا ہاتھ پکڑا کہ ”او بدقسمت بس کر۔ اگر خان نے سن لیاتو کل تمہیں قتل کردے گا“۔

اگلی صبح خان نے قلعے کی ساری لڑکیوں کو منگوایا اور پوچھا کہ رات کو وہ زہیروک کس نے گایا؟۔ سب کو سانپ سونگھ گیا۔ کون ہو جو خان کو جواب دے؟۔ ایک مکمل سکوت چھا گیا۔

لڑکی ہمت کر کے اٹھی۔ اور دست بستہ خان صاحب کے سامنے کھڑی ہوگئی۔

خان نے پوچھا ”رات کو تم تھیں؟“ اس نے کہا”جی ہاں واجہ، میں تھی۔ جو سزا دیں مجھے قبول ہے“۔

خان نے کہا کہ ”اُس زہیروک کو اُسی طرزو آواز کے ساتھ دوبارہ گاؤ“۔ اس نے اپنی میٹھی آواز کے ساتھ وہ زہیروک دوبارہ گایا۔ زہیروک ختم ہوا۔ سارا دربار جیسے نیند سے جاگ گیا ہو۔ خان نے کہا ”کون کہتا ہے کہ مکران ہامین ہے؟“۔

لڑکی نے کہا ”میں کہتی ہوں“۔ خان نے پوچھا ”تمہیں کیسے معلوم؟“۔ لڑکی نے کہا ”واجہ میں بلوچ ہوں۔ مویشی بان بلوچ اپنا راستہ اور اپنے وطن کے موسم کو ستاروں کی خاص جگہ پہ موجودگی سے جان جاتے ہیں۔ رات کے پچھلے پہر جب پور ؔآسمان کے اس جگہ پہ ہوں تو ہمارے علاقے میں ہامین ہوتا ہے“۔

خان نے کہا”میں تمہاری اس بات کی تصدیق کے لیے ایک قاصد مکران بھیجتا ہوں۔ اگر تمہاری بات سچ نکلی تو میں تمہیں تمہارے علاقے بھجواتا  ہوں“۔

چند روز بعد قاصد لوٹا اور بتایا کہ لڑکی کی بات سچ ہے۔ مکران ہامین ہے۔ تب خان نے عزت کے ساتھ لڑکی کو مکران بھیج دیا اور اسے لکھ کر دیا کہ اس لڑکی کے باپ کو باج معاف ہے۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *