Home » قصہ » عیباں والیاں دے متھے لالڑیاں ۔۔۔ سبین علی

عیباں والیاں دے متھے لالڑیاں ۔۔۔ سبین علی

شیش محل بھی شاہجہاں نے تعمیر کروایا تھا۔ یہاں جب رات کے وقت مشعلیں  روشن کی جاتیں تو  ان کی آگ کے ہزار ہا عکس ان آئینوں سے پھوٹتے ہیروں کی  مانند جگمگانے لگتے۔

شاہ جہاں جو ممتاز محل سے اپنی محبت کی نشانی کے طور پر دنیا بھر کو تاج محل کا  تحفہ بھی دے گیا.

اس خوب صورت بلوریں محل میں بھی محبت نے اپنا فسوں  کہیں نہ کہیں تو  پھونکا ہوگا  جو ہر آئینہ عکس گری کے جوہر دکھاتا نظر آتا ہے۔

مام پھر تو یہاں بڑا رومانوی منظر ہوتا ہوگا۔ایک لڑکی نے کھکھلا کر کہا

اور باقی سب سٹوڈنٹس بے ساختہ ہنسنے لگے۔ یہ شاہوں کا  رومان ہے عام لوگوں کی ایسی عیاشی کہاں؟ ایک شوخ آواز ابھری۔ وہ سنجیدہ اور پروقار سی خاتون موٹے شیشوں کی عینک آنکھوں پر جما کر مسکرائی اور کہنے لگی۔

عورت کا دل بھی تو ایک شیش محل ہے۔جس میں نگینوں کی مانند ہزار ہا  آئینے جڑے ہوئے ہیں۔وہ ہر آئینے میں اپنے سب پیاروں کے عکس الگ الگ  سموئے رکھتی ہے۔

مانوس آواز سن میں کیمرا گلے میں لٹکاتے ہوئے  تیزی سے اس  طرف مڑی??

ممتاز۔۔۔یہ تم ہو نا۔۔۔۔

میں  حیرت میں گھلی سرخوشی سے پکاری

اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔ پھر استفساریہ انداز میں کہنے لگی

ہاں میں ممتاز ہوں مگر آپ کون ہیں؟۔

میں مہ جبیں ۔۔۔بھول گئی کیا ہم دونوں لاہور کالج میں کلاس فیلوز تھیں۔

یاد آیا …… مہ جبیں۔۔۔اور ہم دونوں یوں گلے ملیں جیسے بیس سال بعد اچانک ملنے والی سہیلیوں کو ملنا چاہیے تھا۔

ماہ جبیں تم کہاں غائب ہو گئی تھی گریجو یشن کے بعد؟ مدتوں کے بعد ملی ہو۔

لڑکیاں تو پھل دار درختوں کا بور ہوتی ہیں۔ہوا جانے کس کس دیس انہیں بکھیر دیتی ہے۔ پھر نصیبوں سے کوئی اپنا مل جائے تو کیسی خوشی ہوتی ہے ۔

ہاں ایسے لگتا ہے  جیسے نوعمری پھر سے لوٹ آئی ہو.  درخت سے ٹوٹے  پتے ہواؤں کے سنگ سفر کرتے گھوم کر اسی شجر کے نیچے آ گرے ہوں جہاں سے جدا  ہوئے تھے۔

ہمارے چہرے دمک رہے تھے،  اداس تھے، خوش تھے  جیسے خزاں  رتوں میں درختوں پر ایک ساتھ کئی رنگ امڈ آتے ہیں۔ان کچی عمروں کے چڑھے  رنگ بہت پکے ہوتے ہیں۔ان رنگوں کے سنگ اپنے بچپنے کی یادیں تھیں۔وہ  زندگی تو اب بچپنا ہی محسوس ہوتی ہے۔

ممتاز تم یہاں کیسے؟ میں نے پوچھا

سڈی ٹور  پر اپنے سٹوڈنٹس کو لے کر آئی تھی۔

اچھا تو یہ ینگ سی بچی کون ہے پھر تمہارے ساتھ؟۔

میری بیٹی ہے۔

واؤ ماشاء اللہ شی از سو کیوٹ۔۔میں نے اس کی پیاری سی بیٹی کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

وہ مسکرائی اور بتانے لگی کہ ایک بیٹا اور دو بڑی بیٹیاں بھی ہیں۔

اچھا یہ بتاؤ تم کہاں ہوتی ہو کتنے بچے ہیں کیا کرتی ہو آجکل؟۔اس نے بیتابی سے سوال کیا؟  میں۔۔۔۔ میں کیا بتاؤں ۔

ایک گہری خاموشی ہے سمندر کا سکوت ہے جو مدتوں سے میرے وجود پر چھایا ہوا  ہے جس میں جانے کتنے سفینے غرقاب ہیں درد کی کتنی گہری کھائیاں ہیں۔۔۔۔

پھر ان سوچوں کو جھٹک کر کہا۔

میں۔۔۔میری تو شادی ہی نہیں ہوئی۔

اس کی آنکھوں میں پہلے حیرت پھر تاسف ابھرا ۔۔۔۔

شاید میری بھی شادی ہوتی

اگر امی ابا زندہ رہتے؟

اگر ایسا ہوتا۔

اگر ویسا ہوتا۔

ہماری زندگی میں بے شمار ایسی باتیں وقوع پزیر ہو جاتی ہیں جن کی کوئی  توجیہ پیش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔بہت ساری باتیں بہت سارے فیصلے ہمارے  اختیار سے چھین لیے جاتے ہیں یا ہم خود انہیں کہیں گنوا دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔

پھر  سوچوں کا سلسلہ ممتاز کی آواز سے منقطع ہوا۔

ایک دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ پوچھنی لگی آجکل کہاں ہوتی ہو؟

یہ فارنر کون ہے تمہارے ساتھ؟

بھائی کی گرل فرینڈ ہے۔

میں نے بھی جوابا مسکرانے کی کوشش کی۔

امی ابا کے گزرنے کے بعد اکیلی رہ گئی تھی۔بھائی نے اپنے پاس انگلینڈ ہی  بلوا لیا۔ وہیں  کی قومیت اختیار کر لی ۔اب اٹھارہ سال بعد پاکستان  آئی  ہوں۔لاہور ۔۔۔اپنے شہر۔۔۔۔اپنے وطن۔۔۔۔مگر ویزہ  لے کر۔

اس نے میرا ہاتھ تھپتھپایا اور کہنے لگی

تم ابھی بھی بہت پیاری ہو، تقریبا اسی طرح جیسے کالج میں تھی۔ کالج کی سب سے پیاری لڑکی۔۔۔

کوئی پرانا شناسا مل جائے جو ہمارے کسی بالا حصار میں مقید ہونے سے قبل کا  ہو تو  اشکوں پر بٹھائے سارے پہرے دار، ارادوں کے سارے سپاہی ہتھیار ڈال  دیتے ہیں۔فصیلیں دھڑ دھڑ منہدم ہوتی چلی جاتی ہیں۔

بیس برسوں بعد  کوئی پرانا چہرہ نظر آیا تھا۔ ارد گرد سینکڑوں لوگ تھے جن کی متجسس نظریں  میرے احساس پر بند باندھے کھڑی تھیں۔میں بہت کچھ کہنے سے عاری تھی مگر  میرے ذہن کی وادیوں میں لفظوں کی باڑھ آئی ہوئی تھی اور آوازوں کا ہجوم تھا  کہ باہر نکلنے کا راستہ مدتوں سے ڈھونڈ رہا تھا۔ہاں میں جانتی ہوں سارے  الفاظ کہہ کر تو بیان نہیں کیے جاتے۔لیکن اس دنیا میں کئی لوگ ایسے بھی  ملتے ہیں جو ہمارے دلوں کے اندر جھانک لیتے ہیں۔ خوب صورت قلعوں کے اندر  بسی ویرانیاں دیکھ لیتے ہیں۔۔۔۔

اے کاروان زیست ٹھہر ذرا

یہاں بگولوں کا رقص مت کر

عورت کا دل تو محبتوں کا شیش محل ہے

وہ ہشت پہلوی عجائب خانہ

کہ جس کی دیواروں پر

بے شمار آئینے نگینوں کی مانند جڑے ہیں

ہر آئینے میں کوئی الگ عکس بستا ہے

کبھی یادوں کی مشعل روشن کرو

تو دیکھ پاؤ گے

ہر شکستہ آئینے میں

یاد کا صیقل عکس جھلملاتا ہے

اے کاروان زیست ٹھہر ذرا

اک سکوت!

کہ احترام لازم ہے

یہ عورت کا نہاں خانہ دل ہے

یہاں بگولوں کا رقص مت کر

۔۔۔مجھے لگ رہا تھا کہ ممتاز کے سامنے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جائیں گے۔میں  بار بار اپنے ذہن کو جھٹک کر ماضی سے موجود میں لانے کی شعوری کوشش کر رہی  تھی۔لیکن۔۔۔۔جوگی صرف وہی تو نہیں ہوتے جو دھونی رمائے  جنگلوں میں جا بسیرا کریں نہ ہی جوگنیں وہ جو اپنے ماس کے جوتے اور نینوں  کے دیپ دان کرنے کو تیار بیٹھی ہوں۔ دنیاؤں کو تیاگ دینے والے شہروں میں   بھی رہتے ہیں عام انسانوں کی طرح۔اور جوگنیں اچھے کپڑوں خوشبوؤں میں بسی  بھی ہوتی ہیں مگر ان کے من کا ماس قطرہ قطرہ پگھل کر گھی کے دیوؤں میں جلتا  رہتا ہے۔۔۔۔۔ آج پھر سے امی اور ابا جی بڑی شدت سے یاد آ  رہے ہیں۔کتنی جلدی تھی انہیں جانے کی اور میں یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ بھلا  ماں باپ بھی یوں کبھی اولاد کو اکیلا چھوڑ سکتے ہیں۔اپنا بچپن سکول کالج  اپنا شہر اس کی پرانی گلیاں بازار سب کی خوشبوئیں ممتاز کے ساتھ ہی آن  وارد ہوئی تھیں۔

مجھے ممتاز کی بیٹی کو دیکھ کر جہاں خوشگوار حیرت  کا جھٹکا لگا تھا وہیں اندر ہی کہیں کچھ ٹوٹ سا بھی گیا تھا۔ اور ایک  لمحے کے لیے ایسا سناٹا چھایا جیسے کسی ٹورنیڈو کے مرکز میں سکوت ہوتا ہے  اور چاروں طرف مہیب طوفان گھومنے لگتا ہے۔مہ جبیں تم کتنی حسین ہوا کرتی تھی۔

ہاں بہت برسوں تک میں نے اپنا سراپا سینت سینت کر رکھنے کی کوشش کی تھی  کوئی اور مشغلہ جو نہ تھا۔مجھے یاد آتا ہے کالج کے دنوں میں کتنے ہی  لڑکے ایک جھلک کے دیوانے ہوا کرتے تھے۔جانے کب وقت نے میرے اندر اک ناز  دلربائی پیدا کر دیا تھا۔لیکن فطرت کو اسے توڑنا مقصود تھا سو وہ ناز  ٹوٹا اور ایسا ٹوٹا کہ مجھے میری ذات کے محور سے ہٹا گیا۔ محبت نے بڑی  درشتی سے میرے وجود کی کشش ثقل ختم کی تھی اور مجھے خلاؤں میں معلق چھوڑ  دیا تھا۔ یہ کشش ثقل تو ختم ہوئی سو ہوئی مگر پھر ایک گمان نے جنم لے  لیا ۔کیا اسے بھی مجھ سے محبت ہے؟۔

اگر اسے مجھ سے محبت نہ ہوتی تو  میں کیوں اتنی شدید تڑپ محسوس کرتی؟۔  لیکن اگر اسے بھی محبت تھی تو اس نے  مجھے چھوڑ کر اوروں سے کیوں دل لگا لیا؟۔ایک بار اس نے کہا تھا کہ مل کر  زندگی شروع کریں گے۔

ایسے ماہ و سال کا شمار کریں گے کہ میری زندگی کے ہر دن کا لازمی حصہ تم ہو گی،  ہم ہونگے۔

شاید میں اور وہ ہم بن سکتے دونوں ایک ساتھ رہتے ہر دن کو ایک نئے دن میں طلوع ہوتے اکٹھا دیکھتے مگر۔۔۔

مگر بہت سی باتوں کا کوئی اگر مگر نہیں ہوتا کوئی توجیہہ کوئی دلیل نہیں  ملتی۔  محبتوں کے روٹھ جانے کی، رشتوں کے منہ موڑ لینے کی،  وقت کی گرد  میں دبیز چادر تلے چھپ جانے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی جا سکتی۔

میں  ممتاز کی حیرت اور ہمدردی بھری نظروں کا کیا جواب دوں۔ اس نے شاید میرے بہت  اندر تک جھانک کر ہر ایک محرومی دیکھ لی تھی اور اب خاموشی سے بنچ پر میرے  پاس بیٹھی تھی۔  شاید اس کے پاس بھی کوئی دلاسہ کوئی پرسہ نہیں تھا سوائے  نرم مسکراہٹ یا ہمدردی و محبت سے لبریز نظروں کے۔

بھلا ان سب چیزوں  کی دلیل ہوتی تو ممتاز جیسی یتیم اور  معذور لڑکی کی شادی ملازمت سب کچھ  اتنی آسانی سے ہو جاتا۔مجھے یاد آ رہا ہے میں کالج میں کئی بار سوچا  کرتی تھی کہ ممتاز کی شادی شاید ہی ہو پائے۔مگر آج اس کی  بیٹی دیکھ کر  دل میں ایک ہوک اٹھی ہے۔  میرے اندر مامتا کے خشک سوتے کلبلاتے کیڑے بن  گئے ہیں جو میری رگ رگ کو نوچ رہے ہیں۔ تنہائی کا جان لیوا احساس منجمد  کئے جا رہا ہے۔مجھے ممتاز پر رشک آ رہا ہے اور بار بار یہ احساس ستائے  جا رہا ہے کہ آخر مجھ میں ایسی کیا کمی تھی۔

عین عشق ماہی والی نہر وگے

کئی تریاں کرماں والڑیاں

ہک کوجھیاں وی لنگھ پار گئیاں

کھڑیاں روندیاں شکلاں والڑیاں

ہک سوہنیاں دے متھے بھاگ نئیں

باہروں لال تے اندروں کالڑیاں

غلام فرید اللہ کرم کرے

عیباں والیاں دے متھے لالڑیاں

لاہور فورٹ اور بادشاہی مسجد کی زیارت کے بعد ہوٹل واپس جاتے وقت ڈرائیور  نے گاڑی میں  ثریا ملتانیکر کی سی ڈی لگائی ہوئی تھی اور پورے ماحول کو  اداسی کے فسوں جکڑتی خواجہ غلام فرید کی کافی مغنیہ کی پرسوز  آواز میں  گونج رہی تھی۔ میرے دل و دماغ میں اپنی معذور سہیلی کی زندگی کے ساتھ  اپنی زندگی کا موازنہ نہ چاہتے ہوئے بھی بڑی شدومد سے جاری تھا۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *