یہ مارچ ان بہادر ماوں اور بیٹیوں کے نام جو سماج میں پھیلی مایوسی ناامیدی کو توڑ کر ایک تابناک صبح اور امید کی روشنی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ہمارا یہ مارچ گوادر کی ماہی گیر عورت مائی زینب کے نام جس نے کیپٹلزم کو گریبان سے پکٹر کر اپنے مطالبات منوانے کیلیے مجبور کیا اور بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی عورت ریلی نکالی۔ یہ مارچ کوہ سلیمان میں رہنے والی سعدیہ بلوچ کے نام جو فیوڈل سوچ کو مات دے کر مظلوم عوام کی آواز بن گئی۔انٹر کی اس طالبہ نے کوہ سلیمان کے خواتین کے لیے امید کی ایک کرن روشن کی۔ سندھ کی بہادر بیٹی ام رباب کے نام کہ جس نے جاگیردار و وڈیروں کو بے نقاب کیا اور انہیں عدالت کے دروازے پر لے آئی۔
یہ مارچ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اور کلثوم بلوچ کے نام جو اس وقت بلوچ قوم کو لیڈ کر رہی ہیں۔
درج بالا عورتیں اب کیپٹلسٹ اور اس کے ساتھی جاگیردار اور سردار کے گریبان میں ہاتھ ڈال چکی ہیں اور جب کسی مظلوم کے ہاتھ کسی ظالم کے گریبان پر پڑے تو ظالم کی رسوائی تو طے ہو جاتی ہے۔ بلوچستان کا سردار ہو سندھ کا وڈیرہ ہو یا انٹرنیشنل کیپٹسلٹ سب کے لیے مشترکہ خطرہ تو سماجی شعور اور بیداری ہے اور وہ دو ہزار بائیس کے عورت میں آچکی ہے۔وہ اب ذاتی اور قومی حق حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کی کمپرومائز کے لیے تیار نہیں۔وہ ظالم کے ہر ظلم کے خلاف اب سے مورچہ بند ہے۔وہ اب رونے سسکیاں بھرنے والی نہیں بلکہ عدالتوں، سوشل میڈیا اور سڑکوں پر سرعام نعرے لگانے اور اپنی حق کے لیے آواز بلند کرتی ہے۔وہ سماج میں اپنے کردار کو جان چکی ہے وہ جانتی ہے کہ اس کی جنگ طبقاتی ہے۔امیر اور غریب کی جنگ ہے استحصال کرنے والے اور استحصال ہونے والے کے بیچ کی جنگ ہے اور اس جنگ میں کوئی مظلوم عورت اکیلے نہیں بلکہ پورا مظلوم و محکوم سماج اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ ام رباب اگر جاگیردار سے تنگ ہے تو سندھ کا ہر ہاری اور مزدور عورت اس جاگیردار کے ظلم سے زچ ہو چکی ہے اور وہ ام رباب کی سپاہی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کی عورت اگر سردار کے خلاف آواز بلند کرتی ہے تو بارکھان اور کچی کا ہر مظلوم فرد اس کے پیچھے ڈھال بن جاتا ہے۔ کوہ سلیمان کی سعدیہ بلوچ اگر سرداروں کے خلاف تقریر کرتی ہے تو مظلوم عوام تالیوں کی گونج میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یہ جاننا بہت لازم ہے کہ عورت کی جنگ کس کے خلاف ہے؟۔تو آسان لفظوں میں عورت کی جنگ ہر اس فرد کے خلاف ہے جو سماج کو آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہے اور یہ محض ایک صنفی جنگ نہیں بلکہ طبقاتی جنگ ہے۔
ہاں عورت کو منظم ہونے کی ضرورت ہے اس کو اپنے ابجیکٹو سوچ سے نکل کر تخلیقی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔تنظیم کاری کرنے اور سائنسی بنیادوں پر سیاست میں حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ عورت سماج کا ہی حصہ ہے اور سماج کی ترقی عورت کی ترقی ہے۔
ہم بالکل نا امید نہیں ہیں۔ہماری عورت بہت آزاد اور خود مختیار ہے۔یہ سیاسی پارٹیوں میں با قاعدہ حصہ لے رہی ہیں تنظیم کاری کر رہی ہیں، اور خواتین میں شعور بیدار کر رہی ہیں۔
دو ہزار بائیس کی بلوچستان کی عورت اس خطے کی تمام عورتوں سے زیادہ با شعور اور تربیت یافتہ ہے۔یہ جانتی ہے کہ کیا ہو رہا اور اس نے سماج کو آگے لے جانے کے لیے کیا کرنا ہے۔