Home » پوھوزانت » شوکت صاحب۔۔ایک اچھا دوست ۔۔۔ شاہ محمد مری

شوکت صاحب۔۔ایک اچھا دوست ۔۔۔ شاہ محمد مری

کبھی  تفصیل سے جاننے کی کوشش ہی نہ کی کہ اس کا پورا نام شوکت علی زیدی تھا۔ وہ عمر میں مجھ سے دوچار  سال بڑا تھا۔ ہماری فیملی فرینڈ شپ بہت گہری تھی۔وہ میرے بڑے بھائی میرو خان کو میرو بھائی پکارتا تھا۔ اُس کی میرے بڑے بیٹے ڈاکٹر طارق سے اچھی خاصی گپ شپ تھی۔

سائنس بالخصوص کا سمالوجی سے اسے بہت دلچسپی تھی۔اور یوں ہم مشترک طور پر کارل ساگاں کے مداح تھے۔

کراچی جب بھی جانا ہوتا تو وہ ہمیں پرانی کتابوں کے ٹھیلوں اور صدر میں اتوار کو زمین پہ رکھی ہزاروں کتابوں والے روڈ ضرور لے جاتا۔ہم اپنے اپنے شہروں سے اچھی کتابوں کا تبادلہ کرتے۔ وہ محترمہ فاطمہ حسن کا خاوند تھا، اور فاطمہ سمجھیے میرے خاندان کا فرد ہے۔

شوکت صاحب دوستوں کا دوست تھا۔ وہ اپنے خاندان والوں کے لیے والد جیسا تھا۔

وہ عام طور پر کم گو انسان تھا۔ مگر میرے ساتھ گھنٹوں تک بولتا۔ کتابوں کے بارے میں سائنس کے بارے میں،آرٹ کے بارے میں، ممالک کے بارے میں،کلچرز کے بارے میں۔ اور وہ دل سے بولتا تھا۔ اپنی بات پہ یقین کی حد تک اعتماد کرتے ہوئے بولتا تھا۔ ہاتھوں کی حرکت اور جسم کا جسچر زبان کا ساتھ دیتے تھے۔

شوکت بہت مذہبی شخص تھا۔ تہجد گزار۔اپنے کام سے کام رکھنے والا عمل پسند انسان۔

وہ زندگی چونکہ انگلینڈ گزار آیا تھا۔ اس لیے انگریزوں جیسا بااصول، کھرا،اور سچا آدمی تھا۔

وہ اپنے شہر میں ادبی محفلوں، مشاعروں اور سمیناروں میں ضرور موجود ہوتا۔ وہ کراچی میں منیر نیازی، احمد فراز، اور ستیہ پال آنند کا میزبان ہوتا۔ مشتاق احمد یوسفی، فہمیدہ ریاض اور لطف اللہ خان کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا۔ مشفق خواجہ نے اس کے بارے میں کہہ رکھا تھا کہ ”پہلی شاعرہ کا شوہر دیکھا جو شرمندہ شرمندہ نظر نہیں آتا“۔ جمال احسانی اسے ”دولہا بھائی“ کہتا۔ جون ایلیا کے نزدیک وہ ”اردو ادب کا داماد“ تھا۔

شوکت سفر کا بہت شوقین تھا۔ وہ بہت محتاط ڈرائیور تھا۔ سبی، نوشکی، گوادر، کوئٹہ حتی کہ ایران تک کے طویل سفر میں وہ تھکے بغیر گاڑی ڈرائیور کرتا تھا۔ اسی کی ڈرائیوری میں میں نے کینجھر جھیل دیکھی، جھوک شریف میں شاہ عنایت شہید کا مزار چوما اور کراچی کے ہر بزرگ ادیب و شاعر کی قدم بوسیاں کیں۔

وہ چھوٹا موٹا مکینک بھی تھا۔ ہر وقت خود کو مستری گیری میں مصروف رکھتا۔ پیشہ میں بلڈنگ انجینئر تھا۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال اسی کی نگرانی میں تعمیرہوا تھا۔اس کے علاوہ اردو باغ کی تعمیر کے سارے مراحل کی نگرانی اُسی نے کی تھی۔

شوکت سنگت رسالہ ریگولر دیکھتا تھا۔ اس کو سنگت اکیڈمی کی سرگرمیوں سے متعلق سننا اچھا لگتا تھا۔

مہر بھرے شوکت سے فون پہ بات ہوتی رہتی۔ بہت عرصہ کراچی کا چکر نہ لگتا تو فون پہ کہہ دیتا: مری صاحب بہت عرصہ ہوا کراچی کا چکر نہیں لگایا۔

۔4 جنوری 2022کو شوکت صاحب نہ رہا۔ اُسے کوئی خاص بیماری بھی نہ تھی۔ بیٹی کی شادی پہ انگلینڈ ہو کر کچھ دن دبئی ٹھہرا اور ہماری بہت محترم دوست ڈاکٹر ثروت زہرا کے ساتھ کراچی آیا۔ اور چند ہی دن بعد اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا۔

فاطمہ حسن اکیلی رہ گئی۔ شوکت صرف اس کا شوہر نہ تھا۔ اُن کی تو محبت کی شادی تھی۔ دونوں نے زندگی کی خوشیاں اور غم اکٹھے سہے تھے۔ مخالفوں حامیوں کو اکٹھا بھگتا۔ فاطمہ حسن کے دل اور دنیا شوکت صاحب کے بچھڑنے پہ ویران ہوگئے ہیں۔ بلوچی میں کہتے ہیں کہ اتنا بڑا درد (غم) تو زمین ہی سہہ سکتی ہے۔ اُس شریف انسان پہ کیا بیت رہی ہوگی، کوئی کیا جان سکتا ہے؟۔

میں اپنی طرف سے، اپنے خاندان اور دوستوں کی طرف سے، اور ادارہ سنگت کی طرف سے محترمہ فاطمہ حسن سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔

ہم شوکت صاحب کو یاد کرتے رہیں گے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *