کل ساری رات اُسے نیند نہیں آئی۔ بھیڑوں کے ممیانے سے اُس نے اپنا سر رضائی سے ذرا باہر نکالا۔ خیمے میں اندھیرا تھا مگر اُسے معلوم ہوا کہ صبح کا ذب ہوگئی۔اس نے اپنے سرہانے کے نیچے ہاتھ لگایا، اپنی چادر اٹھالی۔اورسرپہ اوڑھ کر اُٹھ بیٹھی اور ایک لمبی انگڑائی لی۔ گزنامی درخت کی گیلی لکڑیوں کے دھوئیں کی بونے اس کی انگڑائیتوڑ دی: ”یہ دُرناز ہے جو ساری رات دھواں مچاتی ہے، اس کی بہو کو کل بچہ ہوا، جتنی چاہے آگ اور دھواں کرے مگر خیمہ کبھی گرم ہوا؟۔تو بہ خدا توبہ۔ چرواہے کی کیا عذاب زندگی ہے“۔ اس نے دل میں کہا۔ لحافوں کو اکٹھا کیا اورتہہ در تہہ کر کے دیوار کے ساتھ ”بروک“ پر ترتیب سے رکھ دیا اور خیمے سے باہر نکلی۔ لوٹا اٹھایا اور مشک رکھنے والی جگہ گئی۔ مشک سے لوٹا بھرا۔ وضو کیا اور پھر خیمے کے سامنے نرم ریت پر کھڑی ہوگئی اور صبح کی نماز کے لیے نیت باندھ لی۔
ماہونے خیمے سے سرباہر نکالا۔ دیکھا کہ نیک بی بی نماز پہ ہے۔ اُس نے سر پھر اندر کر لیا۔
نماز ختم کردی۔ ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے: ”یاوسیلہ ساز، تو خود میرے لیے وسیلہ بنالے۔میں بے بس اور کمزور ہوں، عورت ہوں۔ اپنے حبیب کے آبرو کے لیے مجھے بھیڑیوں کے منہ سے نکال“۔
ماہو نے دونوں ہاتھوں سے اپنے شال کو سر سے بلندلے جاکر جھاڑ لیا اور خیمے سے نکلی۔ سامان اٹھایا اور لسی بلونے کے مشک یعنی ہیزک کو سیٹ کردیا۔کہا:”بس کر نماز سے، اوملّا کی بیٹی۔ سورج نکل گیااور تیری نماز اور دعائیں ختم نہیں ہوتیں۔ جو دعائیں تم مانگتی ہو انہیں خدا کبھی قبول نہیں کرے گا۔ کیا میری بیٹی ریوڑ کی لاغر مویشی تھی کہ اسے ہم نے تم لوگوں سے وٹہ سٹہ کر لیا؟۔ اس نے تیرے بھائی کے لیے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا کی۔ اس نے تم لوگوں کو سرسبز کرلیا۔ تمہارے بھائی کا گھر بچوں سے آباد کردیا۔ قربان کردوں تیری بانجھ بہن کو اپنے بیٹے پر،جو سرو کے درخت کی طرح تنہا کھڑی ہے، نہ اُس پہ بُور لگتے ہیں نہ بر۔ اُسے طلاق کسی صورت نہیں ملے گی۔خواہ منہ کے سفید دانتوں کی طرح اس کے سر کے بال سفید ہوجائیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ عورت کی نسل ختم ہوگئی۔ میں اپنے بیٹے کو اور بیوی لا دوں گی مگر سانوؔ دوسرے کی بغل میں نہ ہو گی، تسلی کرلو“۔
”آجاؤ، اب ہیزک بلولو“۔
نیک بی بی نے کلمہ پڑھا، دونوں ہاتھ چہرے پہ مل دیے، اورگریبان کے اندر چُف کرلیا۔ وہ اٹھ گئی، لسی بنانے والے مشکیزے (ہیزک) کے سامنے بیٹھ گئی۔ اس نے ہیزک کے منہ کی رسی کھولی۔ دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں ہیزک کے منہ میں ڈال دیں اور کھلی رکھیں اور دوسرے ہاتھ سے ڈوری پکڑلی اور ہیزک کا منہ بلند کردیا۔ ہیزک ہوا سے بھر گئی۔ اس نے ہیزک کا منہ باندھ لیا اور اسے بلونے لگی۔
ماہونے چائے دان کو مشک کے گدلے پانی سے بھر لیا اور آگ پر رکھ دیا۔ وہ دوبارہ خیمے میں گھس گئی۔ نیک بی بی جلدی جلدی اپنا پراندہ آگے لائی اور اُس کی ڈوری کو ایک اور گرہ دے دی۔جلدی جلدی بال پیچھے پھینک دیے۔ ماہوکٹورے کے اندر گڑ ڈالے خیمے سے باہر آئی، بڑے سے پیالے میں چائے ڈال دی اور گڑکا ایک ٹکڑا اٹھا کر نیک بی بی کو تھما دیا۔ پیالہ زمین پر رکھ دیا اور کہا ”لو چائے پی لو“۔
نیک بی بی نے دانت سے گڑ کا کنارہ توڑا اور گرم چائے کی چسکی لی۔”آج مجھے پورے بیس دن ہوگئے“۔ اس نے دل میں کہا۔ گرما گرم چائے گڑ کے چوسے بغیر گلے سے اتر گئی اور اُسے اچھو آئی۔ اس نے پیالہ زمین پہ رکھا اور کپڑے کے کنارے سے اپنی آنکھوں کے آنسو صاف کیے جوکہ اچھو آنے سے نکل آئے تھے۔
ماہو اور بچے اُس کے لیے بیگانے نہیں تھے۔ اُس کے عزیز ورشتہ دار تھے۔ نیک بی بی اُس وقت بہت چھوٹی تھی جب اس کی بڑی بہن سام بی بی کو بنگل کی بہن ماہ خاتون سے وٹہ سٹہ کردیا گیا۔ ماہ خاتون بہرام کے ساتھ خوش تھی۔ مگر سام بی بی رات کہیں تو دن کہیں، ننگے پیرریوڑ کے پیچھے بنگل کے ساتھ چل نہ سکی۔ دیہات شہر کی برابری نہیں کرسکتے۔ چرواہی زندگی بہت مشکل ہے۔ سام بی بی گاؤں میں بڑی ہوگئی تھی۔ قرآن پاک پڑھ چکی تھی اور گاؤں کی لڑکیوں کو قرآن پاک پڑھاتی تھی۔ اس کا باپ بلوچ ہے، اُس کی ماں بنگل کے باپ کی چچازاد تھی۔ سرحد کے اُس پار کا پٹھان تھا۔ بنگل اور اس کے بھائی سال بارہ ماہ بارش اور چراگاہوں کا پیچھا کرتے ہوئے خانہ بدوشی کرتے رہتے۔ کبھی سرحد کے اُس پار کبھی اِس طرف۔ سردیوں میں گرم علاقوں میں اور گرمیوں میں سرد علاقوں کی طرف۔
سال دو سال کے بعد سام بی بی آکر باپ کے پاس بیٹھ گئی کہ قتل ہوجاؤں گی پر بنگل کے پاس نہ جاؤں گی۔ اُس وقت ماہ خاتون ایک بیٹی کی ماں تھی۔ بہرام دس جماعت پاس تھا اور سکول میں ماسٹر تھا۔ بیوی چھن جانے کے خوف سے اُس نے اپنا تبادلہ نوکنڈی کروایا۔خود کو خاندان سے لاتعلق کرلیا اور بیوی بیٹی کو لے کر کنڈی چلا گیا۔
بنگل اپنی مویشی بانی میں ایک مالدار شخص تھا۔ دو تین سو بھیڑوں کا مالک تھا۔ اسے میرو سردار، عالی جناب و اقتدار والے ہر جگہ پسند کرتے تھے۔
سام بی بی کا دل بنگل پہ نہ آیا۔ وہ خاوند پہ کئی کئی بہتان لگاتی تھی۔ کہتی تھی وہ خود میری طرح عورت ہے مجھے کیا کرے گا؟۔ بنگل یہ کہتے ہوئے بہرام کو ڈراتا تھا کہ میری بہن کو تمہارا بھائی طلاق دے گا تو میں بھی تمہیں چھوڑ دوں گا“۔
سردار نے ایک روز ملّا کو بلایا اور کہا:”بیٹی خاوند کو دے دو۔ اگر نہیں جاتی تو اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دے دو۔ورنہ میرے گاؤں سے باہر نکلو۔ میں تم جیسے بے غیرتوں کو اپنے گاؤں میں نہیں چھوڑوں گا۔ تین چار لڑکے بھیجوں گا۔ وہ تمہاری جھونپڑی گرادیں گے اور تیرا سامان گاؤں سے باہر پھینک دیں گے“۔
سردا رجیسا کہتا وہی کر ڈالتا۔لہذا ملا وہاں سے چلا گیا اور ایک دوسرے گاؤں میں میر کاباہوٹ (پناہ گزیں) ہوگیا۔اُس گاؤں کے آخر ی سرے پہ ملا نے اپنا گھر بنایا۔
ملّا اور اس کی بیٹی یہ بات بھول بھال گئے۔ اس درمیان میں کئی ماہ و سال گزرے۔ گرمیوں کی رات تھی۔گاؤں کے لوگ گہری نیند میں تھے کہ گاؤں پہ ہوائی فائرنگ کی آوازیں گونجیں۔ کوئی جاگ گیا کوئی نہیں۔ صبح میر نے پوچھ گچھ کرالی۔ معلوم ہوا کہ بنگل نے میر کے ڈرانے کو ایسا کیا تھا تا کہ عورت اُسے دی جائے،یا وہ ملّا کو گاؤں سے باہر کردے۔ میر نے ملا کی مزید پشت پناہی کی۔
اب سردیوں کے آخری دن تھے۔ زمستان جاتے جاتے ایک زور دار حملہ کرتا ہے،اُس کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ اسی لیے لوگوں نے اِن دنوں کی سردیوں کو دو تین نام دے رکھے تھے جیسے کہ آش وہوش، خرکُش و گاؤکُش، باگ بروبوگ بر۔
یہ موسم کی یخ اور تاریک رات تھی۔ بارشیں بہت ہوگئی تھیں۔ قندہاری یخ ہوائیں زور سے چل رہی تھیں۔ ملا کی دونوں جھگیوں میں سے ایک میں ملّا اور بیٹا سوئے ہوئے تھے اور دوسری میں سام بی بی اور نیک بی بی بیٹھی لالٹین کی روشنی میں ایک کپڑا کشیدہ کر رہی تھیں۔ ماں کے بغل میں چھوٹی بہن رضائی میں سوئی ہوئی تھی۔ انگھیٹی میں آگ بجھ چکی تھی۔ انگارے بھی راکھ ہو کر چھوٹے رہ گئے تھے۔ باری باری بہنوں میں سے ایک لکڑی اٹھاتی، راکھ ادھر ادھر بکھیرتی اور انگاروں کی گرمی کے اوپر اپنے ہاتھ تاپتی۔
اچانک جھونپڑی کا دروازہ کھلا اور بنگل اپنے کچھ ہٹے کھٹے بھائیوں کزنوں کے ساتھ جھونپڑی میں داخل ہوا۔ سام بی بی نے وہ لوگ پہچان لیے اور پنجوں کے بل چلتی ہوئی مردوں کے پیروں میں سے جانے کیسے نکلی۔ مردوں نے دونوں جھگیاں ڈھونڈیں۔ اُن کی ماں کو تو ڈھونڈ نکالا مگ سام بی بی نہیں ملی۔ وہ نہ ملی تو وہ نیک بی بی کو گھسیٹنے لگے۔ ماں نے فریاد کی، مردوں کے پیر پڑی لیکن وہ سرننگی اور پاؤں ننگی نیک بی بی کو اونٹ پر باندھ کر لے گئے۔ تب سام بی بی فریاد کرتی آوازیں دیتی میر کے گھر چلی گئی۔
جب تک میر کے لوگ حملہ آور لوگوں کے پیچھے جاتے وہ پتہ نہیں کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ میر کے لوگ صبح کو اونٹوں کو ایڑ لگاتے واپس آئے۔
آج نیک بی بی کو پورے بیس دن ہوگئے ہیں۔ ہر روز وہ اپنے پراندے پہ ایک گرہ دیتی۔ آج یہ گرہیں پراندے کے آخری سرے تک پہنچ گئیں۔وہ ہر روز یہ دعا کرتی کہ آج آخری گرہ ثابت ہو۔ اُس نے آج بھی یہ دعا مانگی۔ اورپھر ہیزک بلونے لگی۔
کل میں نے ایک آدمی دیکھا۔ وہ دور تھا۔ مگر میرے خیال میں رضا تھا۔ ہوسکتا ہے میر نے رضا کو مجھے لینے کے لیے بھیج دیا ہو۔مگررضا مجھے کیسے لے جائے گا۔ یہاں ایک نہ ایک ہر وقت مجھ پہ پہرے داری کرتا ہے۔ پھر ان کے ریوڑ کے بڑے کتے ہیں جو باہر کے آدمی کو قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔ اس کا ہاتھ ہیزک پہ جامد ہوگیا۔ وہ فکروں میں چلی گئی او رہیزک بلونا بھول گئی۔ ”لسی ابھی تیار نہیں ہوئی“۔ ماہو کی کرخت آواز نے اُسے خبردار کیا اور وہ پھر زور زور سے ہیزک بلونے لگی۔ ”ابھی تک مکھن جمع نہ ہوا ہوگا“۔ ماہو کٹورے میں تھوڑا ٹھنڈا پانی لائی اور ہیزک میں ڈال دیا۔
”بے کار لڑکی،تم سے مکھن کہاں اکٹھا ہوسکے گا۔ تمہاری تو کمردرد کرنے لگتیہے“۔وہ ہاتھ ہیزک پہ پھیرتے ہوئے اُسے آہستہ آہستہ ہلاتی رہی۔ اس نے ہیزک کا منہ کھولا اور دیکھا۔ جب مکھن جمع ہوگیا تو اس نے ہیزک اٹھایا اور چلی گئی۔
آج نیک بی بی کی نظروں کے سامنے رضا ہی تھا۔”ہوسکتا ہے میر نے کہا ہوگا کہ جاؤ نیک بی بی کو لاؤ۔ میرا باپ اُس کا باہوٹ (پناہ گزیں) ہے۔ میں اس کی عزت ہوں، اُس کے گاؤں کی عزت ہوں۔ وہ کچھ نہیں کرے گا تو کل تو ہر ایک آئے گااور گاؤں کی لڑکی اٹھاکر لے جائے گا۔خدا نہ کرے!۔ وہ شاید لکڑیاں چننے آیا ہوگا۔ نہیں نہیں،مجھے یقین ہے کہ وہ میرے لیے آیا۔ جونہی موقع ملے مجھے لے جائے گا“۔ وہ بیٹھی انہی فکروں میں تھی۔
پھر اس نے پکارا ”لعل جان کیا کر رہی ہو؟“
”کیوں؟“ لعل خاتون نے خیمے کے اندر سے جواب دیا۔
”جلو سبزی چُننے جائیں“۔
”سبزی کہاں ہے۔میں نہیں آتی۔ اپنا لباس کشیدہ کر رہی ہوں۔ ایک ہی لباس میں سڑ گئی ہوں“۔ لعل خاتون نے خیمے میں سے جواب دیا۔
”نہیں میں کہتی ہوں شاید ہمیں گربست نامی سبزی مل جائے“۔
لعل خاتون خیمے سے باہر نکلی۔ ہنسی اور بولی۔”تم کہاں ہو؟ تمہارا خیال ہے کہ یہ نوشکی کے نہری پانی اور ہل کی ہوئی زمین ہے۔ جہاں شہزادی صاحبہ گربست چُننے جائے گی۔ کیاخواب دیکھ رہی ہو آج؟“۔
”نہیں نہیں“۔ نیک بی بی شرمندگی سے ہنسی۔”میرا مطلب ہے کہ سردی سے جلی جھاڑیوں کی اوٹ میں ایک سالن جتنی سبزی مل جائے“۔
”ان بارشوں اور سردیوں نے تمہارے لیے سبزہ چھوڑا ہے؟۔ سورج نکلے تو سبزہ اُگے۔ تمہارا دماغ ٹھیک ہے آج؟“۔
آج اس کا ہوش ٹھکانینہ تھا۔ اس کے دل میں یہ بات تھی کہ کسی نہ کسیطریقے سے میدان چلی جاؤں اور کل کے آدمی کو دیکھوں۔ کیا واقعی وہ رضا ہے یا کوئی اور؟“۔
لعل خاتون دھوپ پہ بیٹھی اپنا لباس کشیدہ کاری کر نے لگی۔ اس نے کہا”تمہارا دل کر رہا ہے تو چلی جاؤ“۔
”میں اکیلی جاؤں؟“۔
”کیوں تمہیں بھیڑیے کھائیں گے کیا؟“۔
”یہ نہیں کہہ رہی۔ میں کہتی ہوں تم لوگ اپنے دل میں کہو گے کہ۔۔۔“۔
”جاؤ جاؤ“۔ یہاں سے نوشکی تمہارا باپ بھی تنہا نہیں جاسکتا“۔
نیک بی بی روانہ ہوگئی۔ لعل خاتون پیچھے سے پکار اٹھی ”ارے چھری کے بغیر جارہی ہو تو سبزی کیسے جمع کرو گی؟“
”زمین گیلی ہے ہاتھ سے اکھاڑ لوں گی“۔
چونکہ کسی جاتے ہوئے کو پیچھے سے پکارنا (پدگوانک) منحوس سمجھا جاتا ہے اس لیے اُس نے اپنے دل میں کہا: ”اس نے مجھے پدگوانک کیا“۔
آج وہ یک و تنہا تھی۔ اس کے دل میں ایک انجانا خوف اور وہم تھا۔ چاروں طرف دیکھتے ہوئے چلتی رہی۔ بڑی ریت سے جب نیچے اتری تو دیکھارضا ہے جو پگڑی سے نقاب لگائے چادر پہ ریت پہ بیٹھا ہے۔اُس نے جب نیک بی بی کو دیکھا تو کھڑا ہوگیا۔ نیک بی بی کا دل دھڑکنے لگا۔ خوشی اور خوف کے ملے جلے جذبات سے اس کے ہاتھ پیر یخ ہوگئے، جسم پہ پسینہ آیا۔
”مت ڈر، میں رضا ہوں“۔
”میں تمہیں پہچانتی ہوں“۔
اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا”یہ پہچانتی ہو؟“۔
نیک بی بی اس تسبیح کو فوراً پہچان گئی۔ ”ہاں یہ میرے باپ کی تسبیح ہے‘۔‘
”بس یہ نشانی ہے جو میرے پاس ہے تمہارے لیے کہ میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ مغرب کی نماز کے وقت جب وہ مویشیوں میں مصروف ہوں گے تو کسی طرح خود کو وہاں سے نکالو اور یہاں تک پہنچو۔ باتوں کا وقت نہیں ہے۔ میں تمہارا انتظار یہیں کروں گا۔آگے تمہاری قسمت۔ اسی ریت کے پیچھے۔ بھول نہ جانا“۔
رضا نے چادر جھاڑلی اور اچھی طرح ڈھانپ کر روانہ ہوا۔ وہ وہاں بیٹھی رہی۔ اس کا دل اِس زور سے دھڑک رہا تھا کہ وہ اپنے دل کی آواز سن رہی تھی۔ درھک۔ در ھک۔ اس نے ہاتھ دل پر رکھا اور وہاں کافی دیر تک بیٹھی رہی جب تک کہ اس کی حالت برابر ہوگئی۔ پھر خیمے کی طرف واپس ہوئی۔ لعل خاتون نے دور سے دیکھا اور پکاری ”ارے خالی ہاتھ جلد ہی واپس آگئی ہو“۔
”تم نے جو مجھے پدگوانک کیا تھا۔ مجھے کچھ نہ ملا، واپس آئی“۔
”اچھا ہوا خود جا کر دیکھ لیا۔ میری بات کا تمہیں اعتبار نہ ہوتا“۔
ماہو بہت مشکل سے تیار ہونے والی ایک ڈش تیار کرنے لگی۔
”اماں خواہ مخواہ کیوں خود کو اتنا خوار کرتی ہو“۔ لعل خاتون نے کہا۔
”میں تمہارے لیے نہیں بنا رہی کہ تم اُسے زہر مار کر لو۔ میں اپنے بیٹوں کے لیے بنارہی ہوں تاکہ وہ اپنے ساتھ لے جائیں۔ سارا دن مویشی کے ساتھ خوار رہتے ہیں۔ اپنی روٹی گڑ، پیاز یا خرما کے ساتھ کھاتے ہیں۔انہی کے لیے تیار کر رہی ہوں، تمہارے لیے نہیں۔ مٹی دوں گیتجھے۔ خیرات کروں تم بہنوں کو اپنے بیٹوں پہ“۔
لعلو نے دیکھا کہ ماں کا پارہ آج بہت اونچا ہے تو چپ ہوگئی۔
”تیری بلا سے اگر میں خوار خراب ہوں“۔ ماہو چپ نہ ہوئی۔”تم بیٹھ کر اپنے لباس کی کشیدہ کاری کرو۔ جیسے کل تمہاری شادی ہے۔ بی بی نیکو تو جانی ہے تمہاری۔ تمہارے پہلو میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اُسے بھی کہو تمہارے ساتھ کشیدہ کاری کر ے۔ کیا اُس کے ہاتھ ٹنڈ منڈ ہیں یا آنکھیں اندھی ہیں؟۔سارا دن ہاتھ سر پہ لیے بیٹھی اپنے باپ اور بھائیوں کا ماتم کرتی رہتی ہے“۔
”بہت طیش میں ہے آج“۔ لعلو زیر لب منمنائی۔
دور سے گھنٹیوں کی آواز آئی۔ نیکو جان گئی کہ ریوڑ کو اپنے لیلوں کو دودھ پلانے لایا جارہا ہے۔ وہ اٹھی اور خیمے کے اندر جاکر بیٹھ گئی۔ ٹھیک ہے کہ بنگل اُس کا داماد ہے مگر وہ تو وہی ہے جو اُسے اٹھا کر یہاں لایا ہے۔ وہ اُس کے سامنے بالکل نہیں آئی۔ لعلو بھی اٹھی، اپنا کام سمیٹا اور مویشی کی جھونپڑی کے اوپر رکھ دیا۔
بھیڑوں سے تھوڑا تھوڑا دودھ دوہ لیا گیا۔اس کے بعد اُن کے لیلوں کو دودھ پینے چھوڑ دیا گیا۔ ماہو نے کٹوروں میں گاڑھی لسی ہیزک سے نکالی اور تافغ (توے) کی چار موٹی روٹیاں بیٹوں کے سامنے رکھ دیں۔ اور خود اُن کے پاس بیٹھ کر کھسر پھسر میں باتیں کرنے لگی۔
”ایسانہ ہو یہ شوم ماہو،رضا کے بارے میں جان گئی ہو اور اب اپنے بیٹوں کو بتا رہی ہو۔ ماہو بد بخت تمہارا گلہ بند ہوجائے۔ تمہاری آنکھیں اندھی ہوجائیں“۔
بنگل اور بھائیوں نے کھانا کھا لیا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ ”اچھا اماں دعا کرو“۔
ماہو نے دعاؤں کی ایک پوری قطار باندھی۔”خدا کی امان میں۔ خدا تم لوگوں کو زمین اور آسمان کی آفتوں سے امان دے۔ خواجہ خضر تمہارے ساتھ ہو“۔
لعلو پھر اپنا لباس کشیدہ کرنے لگی۔ نیک بی بی بھی آئی اور اس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ ماہو کٹورے میں لسی اور ایک روٹی لائی اورنیک بی بی کے سامنے ڈال دیا۔ اُس نے لعلو کی طرف منہ کر کے کہا”لعل جان تم نہیں کھاؤ گی؟“۔
”میں نے کھا لیا“۔
”تم کھالو بی بی تیار خور“۔
”تم لوگوں نے خود مجھ سے کام نہیں لیا“۔ اس نے روٹی اٹھائی۔ اُس کی نظر سامنے قطار میں موجود کتوں پر پڑی۔ ”خدا کرے بنگل کے کتے مرجائیں۔ بنگل کو درندہ چیر کر رکھ دے،یا وہ جھیل کے گہرے پانی میں ڈوب مرے“۔اس نے دل میں بددعا کی۔
آج کا دن بہت طویل تھا۔ اگر اس کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ سورج کورسی سے باندھ کر کھینچتی اور ریت کے پیچھے او جھل کردیتی۔
اس نے مغرب کی طرف منہ کر لیا۔ بایاں پنجہ کھول دیا اور چھوٹی انگلی زمین پر رکھ دی اور دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا سایہ ناپنے لگی۔
لعلو ہنس کر بولی ”آج خیر سے سایہ ناپ رہی ہو“۔
اس کا دل ڈوب سا گیا۔وہ جھینپ کر ہنسی اور کہنے لگی: ”ویسے ہی بیکاری میں دیکھ رہی تھی کہ دن کا کونسا پہر ہے؟“
”تو پھر؟“۔
”سورج نے بتا دیا نماز کا وقت قریب ہے۔جا کر وضو کرلوں“۔ ماہو دور بیٹھی ہیز کوں کے لیے ڈوری بنارہی تھی۔ وہیں سے آواز دی ”محترمہ مویشیوں کی جھونپڑی میں جاؤ۔ مینگنیاں ایک طرف جمع کرلو۔ کیا توے کے نیچے تمہارے پاؤں ڈال دوں؟۔لکڑیاں ویسے ہی آگ نہیں پکڑ رہیں۔ سبز گندم کی طرح گیلی ہیں۔ اب تم جا کر مینگنیاں تیار کرلو“۔
”وہ میں نے پہلے ہی اکھٹی کیں اور دھوپ میں پھیلا دیں“۔
آج وہ ہر کام اور ہر بات پہ خوفزدہ تھی۔ لیکن ہر کوئی اپنے کام میں مصروف تھا۔کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔
”میں اپنی ماں کا پہلا بچہ ہوتی تو سورج سے التجا کرتی کہ جلدی چلا جائے“۔ اُسے اپنے اس خیال پر ہنسی آئی۔”بوڑھوں کی جھوٹی باتیں ہیں۔ سورج التجا سے کیسے جائے گا۔ ہم خود کو دھوکہ دیتے ہیں“۔
آخر سورج ڈوب گیا۔ شام ہوگئی۔ ریوڑ آگیا۔ بھیڑوں کی بارو بیر کی آوازیں، انسانوں کی چیخ و پکار۔ اِسے پکڑو اُسے چھوڑدو۔ اسی ہڑا دھڑی میں اس نے پانی اٹھایا اور وضو کر نے کے بہانے بھیڑوں کی جھونپڑی چلی گئی۔ پانی وہاں رکھ لیا اور جھونپڑی کے پیچھے سے نکلی اور بڑی ریت کی طرف روانہ ہوئی۔ رضا اپنے قول کے مطابق گھوڑی کے ساتھ پہلے ہی وہاں کھڑا تھا۔ دونوں سوار ہوگئے۔
سورج طلوع ہونے سے پہلے وہ سید کے کھیتوں تک آگئے۔
رضا نے اسے گھوڑی سے اتار دیا اور کہا۔”اب آگے تم خود جاؤ“۔ اس نے جیب سے تسبیح نکال کر اسے دے دی۔ ”یہ میر کو دے دینا اب یہ میری نشانی ہے“۔ وہ گھوڑی پہ سوار ہوا اور واپس ہوا۔ نیک بی بی ریت پہ بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھیں نیند سے اندھی ہور ہی تھیں۔ اس نے وہیں سر رکھ لیا۔ ایسا سوئی کہ دنیا کی خبر نہ رہی۔ اب کون ہے جو اسے جگائے۔ سارا راستہ وہ سوار نہیں ہوئی تھی۔ کبھی سوار کبھی کیچڑ اور مٹی میں پیدل چلتی رہی۔
وہ پاؤں گھسیٹتے مغرب کی نماز کے وقت گھر پہنچ گئی۔ جو نہی خیمے کے قریب پہنچی تو ایک بچے نے اُسے دیکھا جو بوتل لیے ملا کی دکان پر مٹی کا تیل خرید رہا تھا۔ بچہ زور زور سے کہنے لگا۔”نیک بی بی آگئی،نیک بی بی آگئی“ وہ یہی پکارتے پکارتے گاؤں پھر میں دوڑتا رہا۔ اُسی وقت گاؤں کی ساری عورتیں،چھوٹے بڑے امڈ آئے۔ سوال جواب ”کیسے آئی ہو؟۔ کون تمہیں لایا؟۔ راستہ کیسے معلوم کیا؟۔ کتنے دن سفر کیا؟۔ دریا سے کیسے گزریں؟۔ تمہیں وہ لوگ کہاں لے گئے؟۔ تم سے کیا کیا؟“۔ وہ جیسے گنگ تھی۔ اس نے کسی کا جواب نہ دیا۔
وہ بس روتی رہی روتی رہی۔ اس کے پیرننگے تھے اور انگلیوں کے بیچ کیچڑ بھرا ہوا تھا۔ کوئی پیروں سے کیچڑ اور مٹی صاف کررہا تھا، کسی نے پھٹی ہوئی شلوار کے پانچے بلند کیے، کوئی اس کے سوجھے پیر دیکھ رہا تھا اور اس کی حالت پر افسوس کر رہا تھا۔ رات تک عورتوں کی آمدورفت جاری رہی۔ چالاک سام بی بی اٹھی اور ساری عورتوں کے بیچ سے اس کا ہاتھ پکڑا، اور کہا ”اٹھو، اٹھو۔ تم نے خود کو تماشا بنادیا۔چلو تمہیں میرکے گھر لے جاؤں“۔
دوماہ کے قاصد اور پیغام رسائی کے بعد میر صاحب نے اچھا فیصلہ کیا۔ بنگل کو بھائیوں اور معتبر ین کے ساتھ بلوایا۔ سام بی بی کو بنگل سے طلاق دلوائی۔ اور اس کے عوض بہرام کی دو بیٹیاں انہیں دے دیں۔ نیک بی بی کا رشتہ بنگل سے کردیا اور لب لے لیا۔
ہر شخص نے کہا کہ آقا نے بہت اچھا فیصلہ کیا۔ اُس نے ملّا کا سیاہ چہرہ سفید کردیا۔ اُسے سونے کی ناک دے دی۔ ہر شخص میر صاحب کی تعریف و توصیف کررہا تھا۔
نیک بی بی حیران ہر کسی کا منہ دیکھتی اور پوچھتی۔ ”مگر میرا گناہ؟“