Home » پوھوزانت » بلوچی رسم الخط کی تاریخ ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

بلوچی رسم الخط کی تاریخ ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

یہ تو ہمیں بالکل معلوم نہیں کہ نو ہزار قبل مسیح کے مہر گڑھ کا بلوچستانی کیا بولتا تھا۔ اور آیا وہ لکھتا بھی تھا۔ یا پھر اپنی یادداشت پر ہی بھروسہ کرتا تھا؟۔ خواہ وہ قصہ، شعر یا تاریخی واقعات تھے…………۔

ہمیں اندازہ ہے کہ جب اولین بلوچ نے لکھنے کا رواج ڈالنا چاہا ہوگا تو اس کی کس قدر مخالفت کی گئی ہوگی۔ اُسے تو اعتقادات کی خلاف ورزی، رواج کی مخالفت اور روایات سے غداری کے الزامات سہنے پڑ ے  ہوں گے۔

اور پھر بھلا اُس نے لکھا کس طرح ہوگا۔ زیادہ قرینِ قیاس تو یہ ہے کہ اس نے بس زمین پر یا چٹان پر لکڑی یا پتھر سے لکیر نکال کر کوئی تصویر، کوئی نقل، کوئی عکس کھینچی ہوگی جو ارتقا بھی پاتی رہی ہوگی۔ مہر گڑھ کے برتن نقوش سے بھرے ہوتے تھے۔کیا انہیں علامات(تحریر)نہیں سمجھنا چاہیے!!۔  اوراس عکس کاری میں مسلسل  بہتری بھی آتی ہوگی۔ ابتدا میں یہ عکس اشیا کا رہا ہوگا اور اُن اشیاء کے متعلق خبر ہوتی ہوگی۔ گائے، مویشی، اونٹ اور مرغی، یا پھر گھرانہ، اُس کے افراد کی تعداد ظاہر کرنے کی ضرورت  اُن کا عکس بنواتی رہی۔ جو جلد ہی مٹ جاتا ہوگا۔ تبھی تو لکڑی کے جلے ہوئے کوئلے کی کالک بہترین اور دیر پا روشنائی(سیاہی) بنی۔ اور زمین کی بجائے ہموار پتھر تختی بنی۔ یا پھر کٹے ہوئے بڑے درخت کا بڑا تنا ہمارے اجداد کی تختی رہی ہوگی۔اُس درخت کی چھال، جانور کی کھال سب کچھ کاغذکا کام دینے لگے۔

اب جو سکول کی تختی ہے، جسے بار بار دھویا جا سکتا ہے اورپھر اس پر میٹ مل کراسے  لکھنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے………… شاید بلوچی تحریر کے مستقبل کی تاریخ ابد تک اسی تختی اور جلے ہوئے کوئلے کی احسان مندرہے۔یہی تو تحریر کی تاریخ کے ابتدائی زمانے رہے۔ اِن عکسوں نے چینیوں کے ہاں مستقل رسم الخط کی صورت اختیار کی مگر ہمارے ہاں یہ مختصر ہوتے گئے، کم جگہ گھیرتے رہے اور باضابطہ تحریر کے لئے راہ صاف کرتے رہے۔ یعنی عکس آہستہ آہستہ کم ہوتے گئے اور مظاہر ومدعاعلامتوں سے ظاہر ہونے لگے۔اسی طرح لکھنے کے اوزار بھی ارتقا پاتے رہے۔ اور یہیں سے تو درس و تدریس شروع ہوا۔علامتوں کی شُد بد دوسروں کو تو دینی ہی تھی نا!۔ فلاں علامت فلاں چیز کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی کو پڑھانا لکھانا کہتے ہیں۔ جو شخص اس علامت سے واقف ہوتا  خواندہ ہوتا۔

میرے گاؤں کے پاس ابھی حال ہی تک ایک پرچون کا دکاندار رہتا تھا۔ وہ اَن پڑھ آدمی تھا جبکہ گاہکوں کے قرض،کا پی پر لکھنے تو ضروری ہوتے تھے۔ لہٰذا وہ اُس شخص کے قد کا عکس نکالتا۔ گُڑ کی ڈلی(ٹکیا) کی تصویر بناتا اور سیر کے باٹ کا عکس بناتا۔ اگر گاہک دوسیر لے جاتا تو دو باٹ بنا لیتا۔ اگر آدھا سیر تو سیر کے باٹ کے درمیان ایک لکیر لگاتا اور اگر پاؤ تو سیر کے باٹ یہ ایک افقی اور ایک عمودی لکیر لگاتا۔ کچھ عرصہ کے بعد جب اس نے حروفِ ابجد سیکھ لیے تو جب بھی حیات خان کے نام کا کھاتہ لکھنا ہوتا تو وہ لکھتا”ح“،اور زور زور سے پڑھتا ”ح،حیاتا یک سیرے گُڑ بڑتہ“(حیات ایک سیر گڑ لے گیا)۔ سماج میں  اتنی بے اعتباری بے ایمانی توہوتی نہ تھی  کہ گاہک اس سے تاریخ پوچھ لیتا۔ لہٰذا تاریخ کے لکھنے کی ضرورت بعد میں پڑی جب میرا گاؤں ترقی میں مزید پیچیدہ ہوتا چلا گیا………… میرا گاؤں چالیس سال قبل‘ بلوچستان کا گیارہ ہزار سال پرا نا مہر گڑھ ہی تو تھا۔

علامتوں کو سمجھنا خواندگی تھی اور علامتوں کو بنانا، لکھائی تھا۔ یہی علامت نویسی رسم الخط بنی جس میں تغیر و تبدل جاری و ساری ہے اورلازم ہے کہ جاری و ساری رہے۔ورنہ موت ہے!۔

بلوچی ابھی ماضی قریب تک ایک غیر تحریری زبان تھی۔نہ صرف جدید بول چال میں غیر تحریری،بلکہ اس کا کلاسیکل اور فوک ادب بھی تحریری روپ اختیار کرنے سے ہزاروں سال قبل سے تخلیق   کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارا سار بان بغیرکاپی کتاب دیکھے اپنے لدے ہوئے اونٹ پر سفر کے دوران                                                           ”لیکو“اور ”ڈ یہی“گاتا رہا ہے۔ ہمارا چرواہا بغیر الف بے سیکھے محبوبہ کی جدائی میں کُوکتا رہا ہے۔ ہمارے کسان نے اپنے کھیت پہ ہل چلاتے وقت گنگنانا تختی نویسی سے صدیوں قبل شروع کیا تھا۔ ہماری مائیں مشقت بھرے دن کے ڈھلتے ہی اپنے بچوں کو ساتھ لٹا کر انہیں کہانیاں سنا سنا کر انھیں نیند کی وادیوں میں جھُلا دیتی تھیں، ابجد کی ایجاد سے قرنوں قبل۔مگر اس کے باوجود بلوچوں نے اپنی زبان کو برقرار اور محفوظ رکھا ہے۔

بلوچی کے ہمدردوں میں سے بہت لوگوں کو رسم الخط بہت بڑا مسئلہ نظر آتا ہے۔ ہماری نظر میں بلوچی زبان کا سب سے بڑا مسئلہ رسم الخط نہیں، بلکہ بلوچی میں نہ لکھنا ہے۔ جب لکھا ہی نہیں جائے گا تو رسم الخط والی بات تو بے معنیٰ رہ جاتی ہے۔

لیکن جو لوگ اس میں لکھ رہے ہیں وہ لکھ رہے ہیں۔ رسم الخط کبھی رکاوٹ نہ بنی۔ مصنف کی بات قاری تک بہر حال پہنچ ہی رہی ہے۔ ہاں، یہ بات درست ہے کہ ہمارا رسم الخط اب تک یکساں نہیں رہا ہے۔

اوپر سے نیچے، بائیں سے دائیں اور دائیں سے  بائیں لکھنے کا رواج  شروع ہوا۔بائیں سے دائیں سمت لکھنے کا کام انگریزوں نے بتایا۔انگریز محققین نے بلوچی کو رومن میں لکھنا شروع کیا‘ بائیں سے دائیں۔ اور سب سے پہلے ایک انگریز سیاح لیچ نے اِس تاریخی قوم کی زبان و ادب پر تحقیق شروع کی۔ اور اپنی رپورٹ جرنل آف ایشیا ٹک سوسائٹی آف بنگال میں چھاپ دی۔ اس تحریر نے بعد میں دوسرے انگریز سکالروں کی توجہ اور دلچسپی اِس طرف کھینچ دی جو بلوچستان کے دور دراز کونوں تک گئے اور اِس کی آبادی کی زبان اور ادب کو جمع کیا۔ یوں لانگ ورتھ ڈیمز، ہیتورام اور برٹنؔ کی عظیم خدمات کی بدولت بلوچ کلاسیکل نظمیں اور فوک  وقت اور بے حسی میں دھنس کر گم  نہ ہوئیں۔ اسی طرح میئر کی لکھی بلوچی کلاسیک (لندن 1900)، پیئرس کی“ اے ڈسکرپشن آف مکرانی بلوچی ڈائلکٹ“1877))، لارڈ بروس کی ”مینوئل اینڈو کابلری آف بلوچی لینگوئیج“ اور ”نوٹس آن بلوچی ٹرائبز آف ڈیرہ جات“ خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ان ساری تحریروں میں رومن رسم الخط استعمال ہوا  ہے۔

لیکن بہت پہلے ہم نے  اپنے پڑوسیوں کی طرح دائیں سے بائیں لکھنا چُن لیا تھا۔ہاں،بڑے پیمانے پر البتہ یہ کام مولانا محمد فاضل درخانی اور ان کے احباب سے پہلے محمد حسین عنقانے شروع کیا۔اس کثیرجہتی سکالرنے 1920 سے عربی اردو سکر پٹ میں بلوچی لکھنی شروع کی اورپھر لکھتاہی چلا گیا۔ شاعری، نثر، اخباری مضا مین واداریے۔عنقا صاحب کی طرح نسیم تلوی، یوسف عزیز مگسی، عبد العریز کرد، اور محمدامین کھوسہ اِس رسم الخط کی آبیاری اور شاخ تر اشی کرتے رہے۔ اِن لوگوں نے عربی فارسی اردو رسم الخط میں موجود حروفِ تہجی کو بلوچی طرزِ تحریر بنایا جو واحد دستیاب انتخاب تھا۔وہی بغیر کسی مخالفت کے رواج پاگیا اس لیے کہ متبادل تو تھانہیں۔ ترمیم و تنسیخ کے پیہم عمل سے بلوچی اب اسی رسم الخط میں لکھی جارہی ہے۔ مگر اس کی شاخ تراشی اور غیر ضروری جڑی بوٹیاں تلف کرتے رہنے کا کام جاری رہا۔پہلے زبر زیر، پیش اڑا دیے گئے، پھر، کھڑی زبراور زیر موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، بعد ازاں ڈبل زبرڈبل زیر اور ڈبل پیش اڑادئیے گئے اور اب ”ہمزہ“ کی یلغار میں کمی لانے کی طرف توجہ ہے۔

ہمارے سارے منطقے کی دیگر  زبانوں (سندھی، فارسی، اردو، پشتو اور بلوچی) نے بھی اپنی ضرورتوں کے پیشِ نظر عربی کے حروف میں کمی بیشی کرکے اپنا کام چلانا شروع کردیا۔ ہم نے سارے  اردو کے حروف کو اپنا لیا ہے، پشتو کے ساتھ بہت عرصے تک ”ڑ“،”گ“اور”ڈ“ والے مشترک طرزِ تحریر کو اب ہم نے  ترک کر دیا ہے، سندھی کے  تین یا چار نکتے بھی بلوچی میں نہ چل سکے، عربی والا ”ض“ بلوچی میں معدومیت کی طرف جاتے جاتے رک جاتا ہے،  ظ کے زندہ رہنے کے دن تو یقیناً تھوڑے لگتے ہیں۔یہ دونوں حروف صرف باہر سے آنے والے الفاظ یعنی ”ضیاء الحق ِ اور عبدالحفیظ“ جیسوں میں ہی استعمال ہوتے ہیں۔

ہماری زبان کے لئے رسم الخط پر بہت بحثیں ہوتی رہیں۔ پچھلی صدی کی پچاس کی دہائی میں بلوچ قلمکاروں نے کراچی میں ایک اجلاس منعقد کیا۔ اس میں فیصلہ ہوا کہ ”ءَ َ“، ”ءِِ“ اور ء ُ“ کو ترک کردیا جائے۔ اس کے علاوہ ءَ، ءِ، اور ء ُ کو بھی بہت کم کرنے پر اتفاق ہوا۔ اُن کے اس فیصلے پر عملی جامہ آزات جمالدینی نے پہنایا۔ وہ محنتی انسان اپنا رسالہ سارے کا سارا خود لکھ کر کاتب کو دیتا تھاتاکہ رسم الخط مصنف کے عادت کے بجائے کراچی فیصلہ کے مطابق بنایا جائے۔ اسی طرح محمد حسین عنقا  بھی تسلسل سے اس رسم الخط کے ارتقا کے ہر مرحلے پراس کی نوک پلک سنوارتا رہا۔ ایک بہت بڑا موڑ سید ظہور شاہ ہاشمی نے بھی دینے کی کوشش کی اور باقاعدہ بلوچی لکھنے کا ”صحیح“طریقہ بتانے کے لئے ایک کتاب تک لکھ ڈالی۔ مگراُس کی کتاب ایک انتہا سے نکلی تو دوسری انتہا تک چلی گئی۔ اسی لیے  بے سود رہی۔ پھر کچھ لوگوں نے کچھ الفاظ کے اوپر چھوٹا دائرہ لگا کر ایک اور مشکل پیداکردی۔ مگر پھر روانی کے سیلاب نے ہر ایسی بات کو بہا ڈالا جس نے بلوچی زبان کے ابلاغ میں دشواری پیدا کردی ہو …………اب بھی سب لکھنے والے عربی فارسی رسم الخط میں لکھتے رہتے ہیں۔

دلچسپ بات ہے کہ مذہب کے زیرِ اثر دنیا میں بے شمار زبانوں کو عربی میں لکھا جاتا ہے جو بہت مختلف خاندانوں سے ہیں۔ مثلاً سامی، ترکی، پھر انڈیورپین زبانیں مثلاً فارسی، پشتو، اردو، کردی اور بلوچی۔ بلوچی میں جس نے چاہا اپنے قبیلوی لہجے کی مطابقت میں عربی رسم الخط میں بلوچی لکھ ڈالی۔ عربی کا”ث“، عربی تلفظ دینے والا”ذ“ مشرقی بلوچی  میں بولنے اور لکھنے میں بہت استعمال ہونے والے حروف ہیں جبکہ یہ دونوں حروف مغربی بلوچستان اور رخشانی لہجوں میں استعمال ہی نہیں ہوتے۔ اسی طرح ”غ“اور”ف“ بھی مغربی بلوچستان میں نہیں بولے جاتے۔وہاں کے لہجے میں چاکرانڑیں اور قیصرانڑیں یعنی ”نڑیں“ بھی استعمال نہیں ہوتے۔مگر جس وقت ظہور شاہ  ہاشمی نے بغیر سوچے سمجھے قلم کے ایک ہی جھٹکے میں ث، ذ، ف، خ، ط، ظ، اور ض،غ کو بلوچی زبان کے ریوڑسے نکال باہر کردیا تو بلوچوں نے اِس انتہا پسندی کو قبول نہیں کیا۔ بلو چی بھیڑوں کو بھیڑیوں کے حوالے نہ کرنے کے نتیجے میں آج تک یہ سارے حروف استعمال میں ہیں۔ اسی طرح عبدالصمدولد فضل خالق کے نام کے نام کے ع،ص، ح،ف، ض، خ اور ق رہ جائیں گے۔

میر گل خان نصیر جب وزیر تعلیم تھا (ستر کی دھائی میں)تو ایک اور بحث نے بہت زور پکڑ لیا تھا۔وہ یہ کہ کیوں نہ رومن(لاطینی) رسم الخط کو اختیار کیا جائے۔ دلچسپ قسم کے رد عمل سامنے آئے۔ اُن دنوں موجودہ عربی رسم الخط کے حق میں بھی انتہا پسند دلائل دیئے گئے اور رومن رسم الخط اختیار کرنے پر بھی۔

واضح رہے کہ رومن رسم الحظ نے یونانی تحریرکی رسم سے ترقی کی۔بالکل اُسی طرح جس طرح رومن تمدن یونانی تمدن کی ترقی کے ستونوں پر کھڑا ہے(1)۔  رومن رسم الخط کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں لکھنا اور ٹائپ کرنا آسان ہے۔ ایک حرف کو دوسرے کے ساتھ ملانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

رومن رسم الخط پر تقریباً تقریباً عمومی اتفاق ہے۔ مگر ایک مسئلہ یہ ہے کہ اسے جاری کرے گا کون۔ ایسا کرنے کے لیے تو پوری ریاستی مشینری چاہیے۔ اورپھر اُس ذخیرے کا کیا جائے جو موجودہ عربی رسم الخط میں محفوظ ہے اور تیزی سے محفوظ کیا جارہا ہے(ایک سے زیادہ ممالک میں)۔

دوسر ا پر ابلم یہ ہے کہ بلوچ میں خواندگی بہت ہی کم ہے۔ عربی فارسی اردو تو پھر بھی مذہبی یار یاستی پشت پنا ہی کی وجہ سے پڑھی لکھی جاتی ہے مگر بائیں سے دائیں لکھے جانے والے رومن کے لیے ہماری خواندگی بہت ہی کم ہے۔ رومن تو پھر انگلش بھی نہیں بلکہ انگلش کے حروف پر عجیب قسم کے اعراب لگا نا ہے۔جواورمشکل ہے۔

لگتا ہے کہ رومن رسم الخط کے سائنسی ہونے اور بلوچی کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنے کی اہلیت کے باوجود‘ہم موجودہ  رسم الخط ہی کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔ اس لئے وہ انقلاب ابھی دھند و تاریکی کے دبیز تہہ کے پیچھے ہے جس سے نہ صرف قومیں نجات پایا کرتی ہیں بلکہ اُن کی زبانیں بھی ترقی کی زقندیں بھرا کرتی ہیں۔ ہمارا رسم الخط ہماری خواہشوں کے باوجود لگتا ہے‘ یہی رہے گا جو موجود ہے۔اس لیے کہ اتنے بڑے فیصلے کے پیچھے ریاست کے کھڑے ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جیسے کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ بلوچی زبان پاکستان افغانستان، ایران،خلیجی ممالک،ترکمانستان اور ہندوستان میں بولی جاتی ہے اور کچھ جگہوں میں تو پڑھائی بھی جاتی ہے۔ ان تمام ممالک میں اسے عربی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے۔لہٰذا حتمی بات یہ  ہے کہ بلوچی کا رسم الخط یہی عربی فارسی اور اردو والا رسم الخط ہی رہے گا اور اسی میں ترقی و ارتقاء جاری رہے گا۔

سنگت اکیڈمی آف سائنسزنے بلوچی اور براہوی سکرپٹ پہ اچھی خاصی محنت کی۔ اکیڈمی نے عربی اور اردو سے درامد شدہ تمام حروف کو بلوچی سکرپٹ میں رہنے دینے کا فیصلہ کیا۔ اکیڈمی نے ہمزہ پیش”ء ُ “اور حروف کے اوپر چھوٹے دائرے کو بالکل غیر ضروری قرار دیا۔ اسی طرح ”ءَ“ کو بھی”آ“،یا ”ہ“ نے پر ے دھکیل کر اُسے بھی بے فائدہ قرار دیا گیا۔ صرف ”ءِ“ کے کہیں کہیں استعمال کو روا قرار دیا۔

کمپیوٹر آیا تو امید پیدا ہوچلی ہے کہ اب بلوچی رسم الخط یکساں ہوجائے گی۔ گو کہ اس راہ میں بہت ساری رکاوٹیں ہیں مگر نئی ٹکنالوجی (فیس بک، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ) اِن رکاوٹوں کو ضرور توڑ دے گی۔

 

حوالہ جات

۔-1 جمالدینی، عبداللہ جان۔ رومن لکھوڑ و بلوچی۔ ماہنامہ اولس۔اگست1983صفحہ33

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *