Home » قصہ » آنگن کا پیڑ ۔۔۔ شموئل احمد

آنگن کا پیڑ ۔۔۔ شموئل احمد

دہشت گرد سامنے کا دروازہ توڑ کرگھسے تھے اور وہ عقبی دروازے کی طرف بھاگا تھا۔ گھر کا عقبی دروازہ آنگن کے دوسرے چھور پر تھااور باہر گلی میں کھلتا تھالیکن وہاں تک پہنچ نہیں پایا….۔آنگن سے بھاگتے ہوئے اس کا دامن پیڑ کی اس شاخ سے اُلجھ گیا جو ایک دم نیچے تک جھک آئی تھی….۔

یہ وہی پیڑ تھا جو اس کے آنگن میں اُگا تھا اور اس نے مدتوں جس کی آبیاری کی تھی….لیکن بہت پہلے….۔

بہت پہلے پیڑ وہا ں نہیں تھا۔ وہ بچپن کے دن تھے اور اس کی ماں آنگن کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھتی تھی اور جنگل جھاڑ اُگنے نہیں دیتی تھی لیکن ایک دن صبح صبح اس نے اچانک ایک پودا اگاہوا دیکھا۔ پودا رات کی بوندوں سے نم تھا۔ اس کی پتیاں باریک تھیں اور ان کا رنگ ہلکا عنابی تھا۔ اوپر والی پتّی پر اوس کا ایک موٹا سا قطرہ منجمد تھا۔ اس نے بے اختیار چاہا اُس قطرے کو چھو کر دیکھے۔ہاتھ بڑھایا تو انگلیوں کے لمس سے قطرہ پتّی پر لڑھک گیا۔اس نے حیرت سے انگلی کی پور کی طرف دیکھا جہاں نمی لگ گئی تھی۔ پھر بھاگتا ہوا ماں کے پاس پہنچا تھا۔ماں اس وقت آٹا گوندھ رہی تھی اور اس کے کان کی بالیاں آہستہ آہستہ ہل رہی تھیں۔ اس نے ماں کو بتایا کہ آنگن میں ایک پودا اُگا ہے تو وہ آہستہ سے مسکرائی تھی اور پھر آٹا گوندھنے میں لگ گئی تھی۔

ماں نے پودے کو دیکھا۔ اس کو لگا کوئی پھل دار درخت ہے۔ باپ کو وہ شیشم کا پودا معلوم ہوا اور موروثی مکان کے دروازے پرانے ہوگئے تھے۔ باپ اکثر سوچتا اس میں شیشم کے تختے لگائے گا۔

وہ صبح شام پودے کی آبیاری کرنے لگا۔ سکول سے واپسی کے بعد تھوڑی دیر پودے کے قریب بیٹھتا، اس کی پتیاں چھوتا اور خوش ہوتا۔

ایک بار پڑوسی کی بکری آنگن کے پچھلے دروازے سے اندر گھس آئی۔ وہ اس وقت اسکول جانے کی تیاری کررہا تھا۔ پہلے تو اس نے توجہ نہیں دی لیکن جب بکری پودے کے قریب پہنچی اور ایک دو پتیاں چر گئی تو بستہ پھینک کر بکری کو مارنے دوڑا۔بکری ممیاتی ہوئی بھاگی۔ غم و غصے سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے آنگن کا دروازہ بند کیا اور روتا ہوا ماں کے پاس پہنچا۔ ماں نے دلاسہ دیا باپ نے پودے کے چاروں طرف حد بندی کردی۔

اس دن سے وہ بکری کی تاک میں رہنے لگاکہ پھر گھسے گی تو ٹانگیں توڑ دے گا۔ وہ اکثر گلی میں جھانک کر دیکھتاکہ بکری کہیں ہے کہ نہیں؟اگر نظر آتی تو چھڑی لے کر دروازے کی اوٹ میں ہوجاتااور دم سادھے بکری کے گھسنے کا انتظار کرتا رہتا….۔

ایک بار باپ نے اس کی اس حرکت پر سختی سے ڈانٹا تھا۔

پیڑ سے اس کا یہ لگاؤ دیکھ کر ماں ہنستی تھی اور کہتی تھی:

”جیسے جیسے تو بڑھے گا پیڑ بھی بڑھے گا۔“

ماں پودے کا خیال رکھنے لگی تھی۔ آنگن کی صفائی کے وقت اکثر پانی ڈال دیتی۔ پودا آہستہ آہستہ بڑھنے لگا…..دیکھتے دیکھتے اس کی ٹہنیاں پھوٹ آئیں اور پتّے ہرے ہوگئے لیکن پھر بھی پہچان نہیں ہوسکی کہ کس چیز کا پیڑ ہے۔ باپ کو شک تھا کہ وہ شیشم ہے۔ ماں اس کو اب پھل دار درخت ماننے کو تیار نہیں تھی لیکن پودا اپنی جڑیں جما چکا تھا اور ایک ننھے سے پیڑ میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اب پتوں پر خوش رنگ تتلیاں بیٹھنے لگی تھیں۔وہ انہیں پکڑنے کی کوشش کرتا۔ ایک بار تتلی کے پر ٹوٹ کر اس کی انگلیوں میں رہ گئے،اُس کو افسوس ہوا۔ اس نے پھر تتلی پکڑنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ بس تتلی کو دیکھتا رہتا اور جب اڑتی تو اس کے پیچھے بھاگتا….لیکن آنگن میں گرگٹ کا سرسرانا اس کو قطعی پسند نہیں تھا۔ اس کے سر ہلانے کا انداز اس کو مکروہ لگتا۔ ایک بار ایک گرگٹ پیڑ کی پھنگی پر چڑھ گیا اور زور زور سے سر ہلانے لگا۔ اس کو کراہیت محسوس ہوئی۔ اس نے پتھر اُٹھایا….پھر سوچا پتّے جھڑ جائیں گے….تب اس نے پاؤں کو زمین پر زور سے پٹکا….۔

”دھپ…..!“۔

گرگٹ سرک کر نیچے بھاگا تو اس نے پتھر چلا دیا۔ پتھر زمین پر اچھل کر آنگن میں رکھی کوڑے کی بالٹی سے ٹکرایا اور ڈھن کی آواز ہوئی تو ماں نے کھڑکی سے آنگن میں جھانکا اور اس کو دھوپ میں دیکھ کر ڈانٹنے لگی۔

وہ صبح شام پیڑ کی رکھوالی کر نے لگا۔ وقت کے ساتھ پیڑ بڑا ہوگیا اور اس نے بھی دسویں جماعت پاس کرلی۔

وہ اب عمر کی ان سیڑھیوں پر تھا جہاں چیونٹیاں بے سبب نہیں رینگتیں اورخوشبوئیں نئے نئے بھید کھولتی ہیں۔ پیڑ کے تنے پر چیونٹیوں کی قطار چڑھنے لگی تھی اور اس کی جواں سال شاخوں میں ہوائیں سرسراتیں اور پتّے لہراتے اور وہ اچک کر کسی شاخ پر بیٹھ جاتا اور کوئی گیت گنگنانے لگتا۔

پیڑ کی جس شاخ پر وہ بیٹھتا تھا،وہاں سے پڑوس کا آنگن نظر آتا تھا۔ ایک دن اچانک ایک لڑکی نظر آئی جو تار پر گیلے کپڑے پساررہی تھی۔لڑکی کو اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ اس کے نقوش تیکھے لگے۔ کپڑے پسارتی ہوئی وہ آنگن میں کونے کی طرف بڑھ گئی اور نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ فوراً اوپر والی شاخ پر چڑھ گیا جہاں سے آنگن کا کونا صاف نظر آتا تھا۔ لڑکی کا دوپٹہ ہوا میں لہرا رہا تھا….یکایک دوپٹّہ کندھے سے سرک گیا اور اس کی چھا تیاں نمایاں ہو گئیں…..ناگہاں لڑ کی کی نظرپیڑ کی طرف اٹھ گئی…..وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹھکی….دوپٹّہ سنبھالا اور ستون کی اوٹ میں ہوگئی….لڑکی صاف چھپی ہوئی نہیں تھی۔ اس کا ایک پیر اور سر کا نصف حصہ معلوم ہو رہا تھا۔ لڑکی نے ایک دو بار پائے کی اوٹ سے جھانک کر اس کی طرف دیکھا تو پیڑ کی جواں سال شاخوں میں ہوا کی سرسراہٹ تیز ہو گئی…..۔

اب وہ خواہ مخواہ بھی شاخ پر بیٹھنے لگا تھا اورلڑکی بھی پائے کی اوٹ میں ہوتی تھی۔ کبھی کبھی وہ بیچ آنگن میں کھڑی ہوجاتی اور اس کا دوپٹہ ہوا میں لہرانے لگتا اور……۔

اور آخر ایک دن اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ لڑکی کو خفیف سا اشارہ کیا۔لڑکی مسکرائی اور بھاگ کر ستون کی اوٹ میں ہو گئی۔وہاں سے لڑکی نے کئی بار مسکرا کر اس کی طرف دیکھا….اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی…..چیونٹیوں کی ایک قطار پیڑ پر چڑھنے لگی…..۔

اور وہ گرمی سے السائی ہوئی دوپہر تھی جب لڑکی نے ایک دن عقبی دروازے سے آنگن میں جھانکا۔ وہ بکری کے لیے پتّے مانگنے آئی تھی۔ وہ پیڑ کے پاس آئی تو اس نے پہلی بار لڑکی کو قریب سے دیکھا۔ اس کی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں جمع تھیں۔ ہونٹوں کا بالائی حصہ نم تھا اور آنکھوں میں بسنتی ڈ ورے  لہرا رہے تھے۔

وہ پتّے توڑنے لگا۔ اس کا ہاتھ بار بار لڑکی کے بدن سے چھو جاتا۔ لڑکی خوش نظر آرہی تھی۔ وہ بھی خوشی سے سرشار تھا۔ یکایک ہوا کا ایک جھونکا آیا اور لڑکی کا دوپٹّہ….۔

لڑکی کی آنکھوں میں بسنتی ڈورے گلابی ہوگئے،ہونٹوں کے بالائی حصے پر پسینے کی بوندیں دھوپ کی روشنی میں چمکنے لگیں۔ اس کا ہاتھ ایک بار پھر لڑکی کے بدن سے چھو گیا…..اور دوپٹہ ایک بار پھر ہوا میں لہرایا اور کچے انار جیسی چھاتیا ں نمایاں ہوگئیں….. اور وہ کچھ سمجھ نہیں سکا کہ کب وہ لڑکی کی طرف ایک دم کھِنچ گیا…..اس نے اپنے ہونٹوں پر اس کے بھیگے ہونٹوں کا لمس محسوس کیا…..پہلے بوسے کا پہلا لمس…..اس پر بے خودی  سی  طاری ہونے لگی۔

لڑکی اس کے سینے سے لگی تھی…..اور ہونٹوں  پر ہونٹ ثبت تھے…..اور پیڑ کی جواں سال شاخوں میں ہوا کی سرسراہٹ تھی……زندگی کے آتشیں لمحوں کا پہلا نشہ تھا….دل کی پہلی دھڑکن تھی…..کسی کے آجانے کا خوف تھا…..اور پیڑ پر چڑھتی چیونٹیوں کی قطار تھی….۔

لمحہ لمحہ لمس کی لذّت ہوا میں برف کی طرح اس کی روح میں گھل رہی تھی….اور شاخیں ہوا میں جھوم رہی تھیں…..اوربے خودی کے ان لمحوں میں پیڑ اُس کا ہم راز تھا….یہ شجر ممنوعہ نہیں تھا جو جنت میں اگا تھا…..یہ اس کے وجود کا پیڑ تھا جو اس کے آنگن میں اگا تھا….اس کا ہم دم….اس کا ہم راز…..اس کے معصوم گناہوں میں برابر کا شریک….۔

اچانک لڑ کی اس سے الگ ہوئی۔ اس کا چہرہ گلنار ہو گیا تھا اور بدن آہستہ آہستہ کانپ رہا تھا…..وہ بھاگتی ہوئی آنگن سے باہر چلی گئی…..اس نے پتّے بھی نہیں لیے…..وہ دم بہ خود اس کو دیکھتا رہ گیا…..۔

اس بار پیڑ پر پہلی بار پھول آئے۔

وقت کے ساتھ پیڑ کچھ اور گھنا ہوا۔ وہ بھی جوان اور تنومند ہوگیا اور باپ کے دھندے میں ہاتھ بٹانے لگا۔پیڑ کی موٹی موٹی شاخیں نکل آئیں اور پتّے بڑے بڑے ہو گئے لیکن پیڑ پھل دار نہیں تھا۔ صرف پھول اگتے تھے جن کا رنگ ہلکا عنابی تھا۔ ہوا چلتی تو پھول ٹوٹ کرآنگن میں بکھر جاتے۔ آنگن زرد پتّوں اور عنابی پھولوں سے بھر جاتا۔ماں کو صفائی میں اب زیادہ محنت کر نی پڑتی۔ شام کو اس کا باپ پیڑ کے نیچے کھاٹ بچھا کر بیٹھتا تھا۔ وہ ہمیشہ آلتی پالتی مارکر بیٹھتا اور جامے کو گھٹنے کے اوپر چڑھا لیتا اور آہستہ آہستہ بیڑی کے کش لگاتا رہتا۔ اس کی ماں پاس بیٹھ کر سبزی کاٹتی اور گھر کے مسائل پر بات چیت کرتی۔

اور ایک دن ماں نے اس کی شادی کی بات چھیڑ دی۔ باپ نے بیڑی کے دوچار کش لگائے اور ان رشتوں پر غور کیا جو اس کے لیے آنے لگے تھے۔

اور پھر وہ دن آگیا جب ماں نے آنگن میں مڑوا کھینچا اور محلّے کی عورتیں رات بھر ڈھول بجاتی رہیں اور گیت گاتی رہیں اور گیت کی لَے میں پتّوں کی سرسراہٹ گھلتی رہی….اس سال پیڑ پر بہت پھول آئے…..۔

اس کی بیوی خوبصورت اور ہنس مکھ تھی۔ آہستہ آہستہ اس نے گھر کا کام سنبھال لیا تھا لیکن پیڑ سے اس کی دل چسپی نہیں تھی۔ آنگن کی صفائی پر ناک بھوں چڑھاتی۔پتّے بھی اب بہت ٹوٹتے تھے۔ اس کی ماں آنگن کے کونے میں پتّوں کے ڈھیر لگاتی اور انہیں آگ دکھاتی رہتی۔

بیوی نے چار بچے جنے۔ بچوں کو بھی پیڑ سے دل چسپی نہیں تھی۔ وہ اس کے سائے میں کھیلتے تک نہیں تھے۔ نہ ہی کوئی اچک کر شاخ پر بیٹھتا تھا۔بڑا بیٹا تو پیڑ کو کاٹنے کے درپے تھا۔ پیڑ اس کو بھدا اور بدصورت لگتا۔ شاخیں اینٹھ کر اوپر چلی گئی تھیں۔ ایک شاخ اوپر سے بل کھاتی ہوئی نیچے جھک آئی تھی۔ تنے کے چاروں طرف کی زمین عموماً گیلی رہتی۔ بارش ہوتی تو وہاں بہت سا کیچڑ ہوجاتا،جس میں پھول دھنسے ہوتے۔ سوکھے پتّوں کا بھی ڈھیر ہونے لگا تھا۔ اس کی بیوی صفائی سے عاجز تھی۔ پیڑ بڑھ کر چھتنار ہو گیا تھا۔

گھر کی ساری ذمہ داریاں اس پر آگئی تھیں۔ باپ بوڑھا اور کمزور ہوچلا تھا اور زیادہ تر گھر پر ہی رہتا تھا لیکن وہ اب بھی پیڑ کے سائے میں کھاٹ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تھا اور بیڑی پھونکتا رہتا تھا۔ اس کو اب کھانسی رہنے لگی تھی۔ وہ اکثر کھانستے کھانستے بے دم ہو جاتا۔ آنکھیں حلقوں سے باہر اُبلنے لگتیں اور بہت سا بلغم کھاٹ کے نیچے تھوکتا۔پھر بھی اس کا بیڑی پھونکنا بند نہیں ہوتا۔

آخر ایک دن اس کا باپ چل بسا۔ ماں بین کرکے روئی….وہ مغموم اور اداس پیڑ کے نیچے بیٹھا رہا۔زندگی میں پہلی بار کچھ کھونے کا شدت سے احساس ہوا تھا۔

باپ کے مرنے کے بعد ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں۔ وہ اب خود باپ تھا اور بچے بڑے ہوگئے تھے جو کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹانے لگے تھے۔ وہ اب نسبتاً خوش حال تھا۔ اس کا دھندہ جم گیا تھا۔ اس نے موروثی مکان کی جہاں تہاں مرمت کروائی تھی اور دروازوں میں شیشم کے تختے لگوائے تھے۔ ایک پختہ دالان بھی بنوالیا تھا۔ اس کی بیوی نئے کمرے میں رہتی تھی جس سے ملحق غسل خانہ بھی تھا۔ وہ ماں کو بھی نئے کمرے میں رکھنا چاہتا تھا لیکن وہ راضی نہیں تھی۔ باپ کے گذر جانے کے بعد وہ ٹوٹ گئی تھی اور دن بھر اپنے کمرے میں پڑی کھانستی رہتی تھی۔ دیواروں کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ گیا تھا اور شہتیر کو دیمک چاٹنے لگی تھی۔ وہ اس کی مرمت بھی نہیں چاہتی تھی۔ مرمت میں تھوڑی بہت توڑ پھوڑ ہوتی جو اس کو گوارہ نہیں تھا۔ وہ جب بھی دوسرے کمرے میں رہنے کے لیے زور دیتا تو ماں کہتی تھی کہ اپنی جگہ چھوڑ کر کہاں جائے گی؟ ڈولی سے اتر کر کمرے میں آئی۔ اب کمرے سے نکل کر ارتھی میں جائے گی۔ ماں کی ان باتوں سے وہ کوفت محسوس کرتا تھا۔

وہ گرچہ خوش حال تھا لیکن بہت پر سکون نہیں تھا۔ اب آسمان کا رنگ سیاہی مائل تھا اور تتلیاں نہیں اڑتی تھیں۔ اب چیل اور کوّے منڈلاتے تھے اور فضا مسموم تھی۔ پہلے جب اس کا باپ زندہ تھا تو رات دس بجے بھی شہر میں چہل پہل رہتی تھی۔ اب علاقے میں دہشت گرد گھومتے تھے اور سر شام ہی دکانیں بند ہوجاتی تھیں۔ شہر میں آئے دن کرفیو رہتا اور سپاہی بکتر بند گاڑیوں میں گھوما کرتے۔

پیڑ پر اب کوّے بیٹھتے تھے اور دن بھر کاؤں کاؤں کرتے۔کوّے کی آواز اس کو منحوس لگتی۔ وہ چاہتا تھا اس کا آنگن چیل اور کوّوں سے پاک رہے لیکن اس کو احساس تھا کہ ان کو اڑانا مشکل ہے۔ وہ آنکھوں میں بے بسی لیے انہیں تکتا رہتا۔

پیڑ کے سائے میں اب بیٹھنا بھی مشکل تھا۔ پرندے بیٹ کرتے تھے اور آنگن گندہ رہتا تھا۔ ماں میں اب صفائی کرنے کی سکت بھی نہیں تھی اور بیوی کو یہ سب گوارہ نہیں تھا۔ وہ کبھی کبھی مزدور رکھ کر آنگن کی صفائی کرا دیتا۔

آئے دن کے ہنگاموں سے اس کی بیوی خوف زدہ رہنے لگی تھی۔ وہ کسی محفوظ علاقے میں رہنا چاہتی تھی۔ اس کے بچے بھی یہاں سے ہٹنا چاہتے تھے اور وہ دکھ کے ساتھ سوچتا کہ آخر اپنی موروثی جگہ چھوڑ کر کوئی کہاں جائے؟ اور پھر ماں کا کیا ہوتا؟  ماں اپنا کمرہ بدلنے کے لیے تیار نہیں تھی۔بھلا زمین جگہ کیسے چھوڑدیتی؟

لیکن ایک دن وہ اپنا خیال بدلنے پر مجبور ہوگیا۔ اس دن وہ نشانہ بنتے بنتے بچا تھا۔ بیوی کے ساتھ سودا سلف لینے بازار نکلا تھا کہ دہشت گردوں کی ٹولی آگئی اور دیکھتے دیکھتے گولیاں چلنے لگیں۔ ہر طرف بھگدڑ مچ گئی ……اس کی بیوی خوف سے بے ہوش ہوگئی اور وہ جیسے سکتے میں آگیا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے کھوپڑیوں میں تڑا تڑ سوراخ ہو رہے تھے…… اس سے پہلے کہ پولیس کا حفاظتی دستہ وہاں پہنچتا کئی جانیں تلف ہوگئی تھیں ……۔

دہشت گرد آناً فاناً اڑن چھو ہوگئے……شہر میں کرفیونافذ ہوگیا۔

وہ کسی طرح بیوی کو اٹھا کر گھر لایا۔ ہوش آنے کے بعد بھی رہ رہ کر چونک اٹھتی تھی اور اس سے لپٹ جاتی۔ وہ خود بھی اس حادثے سے ڈر گیا تھا۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ علاقہ چھوڑ دے گا لیکن ماں اب بھی گھر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس کو بس ایک بات کی رٹ تھی کہ کوئی موروثی جگہ چھوڑ کر کہاں جائے؟

وہ بھی اپنی وراثت سے محروم ہونا نہیں چاہتا تھا لیکن اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ کس طرح انسان کی چھاتیوں میں سوراخ ہوتے ہیں اور خون کا فوّارہ چھوٹتا ہے ……اور اس کے بعد کچھ نہیں ہوتا……بس شہر میں کرفیو ہوتا ہے …… اور بکتر بند گاڑیاں ہوتی ہیں۔

اس نے سوچ لیا کہ کہیں دور دراز علاقے میں پھر سے بسے گا ……لیکن ماں ……۔

ماں زار زار روتی تھی اور حسرت سے درو دیوار کو تکتی تھی۔ آخر ایک دن اس کی بیوی ہذیانی انداز میں چیخ چیخ کر کہنے لگی۔

”بڑھیا سب کو مروادے گی……۔“

ماں چپ ہو گئی……پھر نہیں روئی……اور کمرے سے باہر نہیں نکلی……کھانا بھی نہیں کھایا۔

وہ اداس اور مغموم پیڑ کے پاس بیٹھ گیا۔ پیڑ جیسے دم سادھے کھڑا تھا۔ پتّوں میں جنبش تک نہیں تھی۔ شاخوں پر بیٹھے ہوئے چیل اور کوّے بھی خاموش تھے۔ صرف ماں کے کھانسنے کی آواز سنائی سے رہی تھی۔ کبھی کبھی کسی بکتربند گاڑی کی گھوں گھوں سنائی دیتی اور پھر سنّاٹا چھا جاتا۔ایک گدھ پیڑ سے اڑا اور چھت کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ ایک لمحہ کے لیے اس کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ فضا میں ابھری اور ڈوب گئی…… اور اس نے جھر جھری سی محسوس کی ……جیسے گھات میں بیٹھا ہوا دشمن اچانک سامنے آگیا ہو……اس کو لگا گدھ،بکتر بند گاڑی اور بیمارماں ایک نظام ہے جس میں ہر اس آدمی کا چہرہ زرد ہے جو اپنی وراثت بچانا چاہتا ہے ……۔

ماں اچانک زور زور سے کھانسنے لگی۔ وہ جلدی سے کمرے میں آیا۔ماں سینے پر ہاتھ رکھے مسلسل کھانس رہی تھی۔ وہ سرہانے بیٹھ گیا اور ماں کو سہارا دینا چاہا تو اس کی کہنی دیوار سے لگ گئی جس سے پلستر بھربھراکر نیچے گر گیا اور وہاں پر اینٹ کی دراریں نمایاں ہوگئیں۔ دیوار پر چپکی ہوئی ایک چھپکلی شہتیر کے پیچھے رینگ گئی۔

وہ ماں کی پیٹھ سہلانے لگا۔کھانسی کسی طرح رکی تو گھڑونچی سے پانی ڈھال کر پلایا اور سہارا دے کر لٹا دیا۔ماں نے ایک بار دعا گو نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔

وہ کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا۔ پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آیا۔بیوی چادر اوڑھ کر پڑی تھی۔ اس کے قدموں کی آہٹ پر چادر سے سر نکال کر تیکھے لہجے میں بولی:

”تم کو ماں کے ساتھ مرنا ہے تو مرو……میں ایک پل یہاں نہیں رہوں گی۔“

وہ خاموش رہا۔بیوی پھر چادر سے منہہ ڈھک کر سو گئی۔

وہ رات بھر بستر پر کروٹ بدلتا رہا اور کچھ وقفے پر ماں کے کھانسنے کی آواز سنتا رہا ……آدھی رات کے بعد آواز بند ہوگئی……سنّاٹا اور گہرا ہو گیا……۔

اچانک صبح صبح ماں کے کمرے سے بیوی کے رونے پیٹنے کی آواز آئی۔ وہ دوڑ کر کمرے میں گیا۔ماں گٹھری بنی پڑی تھی۔ اس کا بے جان جسم برف کی طرح سرد تھا……وہ سکتے میں آگیا…… بیوی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی……۔

ماں کے مرنے کے بعد اس کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا۔کچھ دنوں کے لیے اس نے بیوی کو اس کے میکے بھیج دیا اور نئے شہر میں بسنے کے منصوبے بنانے لگا۔

وہ اداس آنگن میں بیٹھا تھا۔ آنگن میں خشک پتّوں کا ڈھیر تھا۔ہر طرف گہرا سنّاٹا تھا۔ ہوا ساکت تھی۔پتّوں میں کھڑ کھڑاہٹ تک نہیں تھی۔یکایک گلی میں کسی کتّے کے رونے کی آواز گونجی۔ سنّاٹا اور بھیانک ہوگیا۔اس کا دل دہل گیا۔ اس نے کانپتی نظروں سے چاروں طرف دیکھا۔پیڑ اسی طرح گم صم کھڑا تھا …… چیل اور کوّے بھی چپ تھے……اور دفعتاً اس کو محسوس ہوا کہ یہ خاموشی ایک سازش ہے جو چیل کوّوں نے رچی ہے اور پیڑ اُس سازش میں برابر کا شریک ہے…… تب شام کے بڑھتے ہوئے سایے میں اس نے ایک بار غور سے پیڑ کو دیکھا…… پیڑ اس کو بھدا لگا……”وہ اس کو کٹوا دے گا……“ اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا……تب ہی پتّوں میں ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی اور ایک کوّے نے اس کے سر پر بیٹ کردیا۔ اس نے غصّے سے اوپر کی طرف دیکھا۔ کچھ گدھ پیڑسے اڑ کر چھت پر منڈلانے لگے اور اچانک دروازے پر دہشت گردوں کا شور بلند ہوا اور گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں ……۔

وہ اچھل کر آنگن کے عقبی دروازے کی طرف بھاگا……لیکن اچانک کسی نے جیسے کَس کر پکڑ لیا …… اس کو ایک اور جھٹکا لگا اور اس کا دامن پیڑ کی اس شاخ سے الجھ گیا جو ایک دم نیچے تک جھک آئی تھی …… اس نے اسی پل دامن چھڑانا چاہا لیکن شاخ کی ٹہنی دامن میں سوراخ کرتی ہوئی نکل گئی تھی جس کو فوراً چھڑا لینا دشوار تھا……۔

دہشت گرد دروازہ توڑنے کی کوشش کررہے تھے اور وہ دامن چھڑانے کی کوشش کررہا تھا …… اس پر کپکپی طاری تھی …… حلق خشک ہو رہا تھا ……اور دل کنپٹیوں میں دھڑکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

اور پیڑ جو اُس کا ہم دم تھا …… اس کا ہم راز کسی جلّاد کی طرح شکنجے میں لیے کھڑا تھا ……ایک دم ساکت……اس کے پتّوں میں جنبش تک نہیں تھی……اور پھر دروازہ ٹوٹا اور دہشت گرد دھڑ دھڑاتے ہوئے اندر گھس آئے …… کوّے کاؤں کاؤں کرتے ہوئے اڑے اور آنگن میں روئے زمین کا سب سے کریہہ منظر چھا گیا……۔

کاؤں ……کاؤں ……کرتے کوّے ……منڈلاتے گدھ اور آدمی کا پھنسا ہوا دامن……۔

اس نے بے بسی سے عقبی دروازے کی طرف دیکھا جہاں تک پہنچنے کی کوشش کررہا تھا ……اور پھر حسرت سے یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا تھا کہ اگر وہ آنگن کے کنارے سے بھاگتا تو شاید ……تب تک دہشت گرد اس کو دبوچ چکے تھے……۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *