سونا سنگھ منتظر تھا کہ حسب سابق کوئی رس کے گلابو کی ہم شکل لڑکی بال کھولے کمرے میں مسکراتے ہوئے داخل ہوگی او رچند لمحوں کے لیے ہی سہی بارڈر پر اذیت ناک پہرے کے نہ ختم ہونے والے دکھ بھلا کر مسرت کے چند لمحے پاسکے گا۔ کہ اچانک دروازہ کھلا اور چار تنومند نوجوان ہاتھ میں گنداسہ لیے داخل ہوئے۔ اور آتے ہی انہوں نے سپاہی سونا سنگھ کی تلاشی لی۔۔ رقم تو وہ پہلے ہی میڈل مین کو دے چکا تھا۔ جیب میں صرف لوکل بس کا واپسی کا کرایہ تھا۔ لیکن ان لوگوں نے اس رقم کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اس کے جیب میں موجود شناختی کارڈ اور انڈین بارڈر فورس کی فوجی IDکارڈ نکال لیے۔ سونا سنگھ نے سرکاری /محکمے کی کارڈ چھنتے وقت تھوڑی بہت مزاحمت کی، لیکن چار نوجوانوں میں اس کی احتجاج چے منفی دارد۔۔۔
سونا سنگھ مشرقی پنجاب کے دور افتادہ گاؤں کاباسی تھا۔ گھر والوں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم دلوائی۔ باپ ایک سکول میں نائب قاصد تھا۔ بھلا اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ سونا سنگھ اپنے علاقے کے لوگوں میں اپنے بھول پن اور معصومیت کی وجہ سے مشہور تھا۔ ایک بار اسے قریبی شہر میں کسی امیر گھرانے میں ملازمت کا موقع ملا۔۔۔ چھٹی پر گھر آکر اس نے بتایا ”جہاں میں ملازم ہوں وہاں ”میڈم“نام کی ایک خوبصورت عورت ہے اور صاحب نام کے ایک گھر کے مالک ہیں۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ کسی سے بچہ خرید کر اپنا بنالیں۔ بھلا بچے بھی خریدے جاسکتے ہیں؟ سونا سنگھ نے ایک بار محفل میں دوستوں کے سامنے کہا۔ میں نے آج تک اپنی گلابو کے علاوہ کسی کے ساتھ ”جنا“ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی گناہ کیا۔“ قریب بیٹھے کے ادھیڑ عمر کے تخض نے تبصرہ کیا۔ ”سنا تو ٹھیک کیندس اپنی جنانی نال 15،20سال گزارنا، جنا یا گناہ پس نہ ہور کیئے۔ اپنی بیوی کے ساتھ 15، 20سال تک گزارہ کرنا گناہ نہیں تو اور کی ہے۔ سونا سنگھ کا بڑا بھائی بھی بارڈر سیکورٹی فورس میں رہ چکا تھا۔ اس نے کوشش کر کے سونا کو بھی بھرتی کرادیا۔۔۔ بارڈر کے حالات کشیدہ رہتے تھے۔ فورس کے لوگوں کو چھ چھ ماہ چھٹی نصیب نہ ہوتی اوپر سے کشمیری امتن وادی ایک اور سردی تھی۔ آئے دن فورسز پر حملہ اور جنگ کا سا ماحول۔۔۔ سونا سنگھ جب بھی ڈیوٹی سے فارغ ہوتا، آفسروں کی ڈانٹ ڈپٹ، خطرہ ٹل جاتا تو اکیلے بیٹھ کر اپنے گلا بو ہی کو سوچتے۔ ایک بارا س نے اپنی بے چینی کا اظہار اپنے ایک ہانڈی وال سے بھی کیا۔۔ ویک انڈ پر انہیں دو گھنٹے کی آؤٹ پاس ملتی اور وہ لوگ قریبی کنٹین پر جاکر چائے بھی پیتے اور گھر بار کے حالات معلوم کرنے کے لیے وہاں موجود PCOپر فون بھی کر لیتے تھے۔۔۔ ایسے ہی ایک اتوار کو اس کے ہانڈی وال نے نہایت رازداری سے سونا سنگھ کو بتایا۔ کہ وہ جو سامنے سفید کار ہے نا اس کا مالک اپنی دوست ہے۔ اور تھوڑے پیسے لے کر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ غریب آدمی ہے۔ ہر طرح کی خدمت کرتا ہے۔ سونا نے جب گاڑی طرف غور سے دیکھا تو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی لڑکی نے منہ سے نقاب ہٹاتے ہوئے سونے کی طرف مسکرا کر دیکھتا اور آنکھوں آنکھوں سے توبہ شکن اشارے بھی یے۔۔۔گویا اس معصوم نوجوان نے دل ہی دل میں کہا۔ ناصح کو سنبھالو ہر ایمان سنبھالے“22سالہ سونا سنگھ کے لیے یہ سب کچھ بالکل نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔
شرما کر نظر میں جھکا ئیں۔ اتنے میں اس کے دو ست نے کہا۔ آئیے میں آپ کو اپنے دوست سے ملواتا ہوں۔ سونا کے ہاتھ پاؤں تو پہلے ہی پھول گئے تھے اب تو سانس بھی بے قابو ہوئے جاتے تھے۔ سونا نے ایک ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے ”گویا دل کو تھام رہا ہو“ کیا۔ لیکن یہ خوبصورت لڑکی؟؟ اس کے دوست نے اشارے سے اس کو ساتھ آنے کو کہا۔ کنٹین سے باہر آکر دونوں دوست ایک مقامی باشندے سے ملے۔۔۔ چند ہی لمحوں میں بے تکلفی ہوئی۔۔ سونا سنگھ جو تقریباً بے ہوش ہونے والا تھا۔ بار بار کار میں موجود لڑکی کی طرف دیکھ کر حیرت کی سمندر میں غوطے لگا رہا تھا۔۔۔ میرے مولا اتنی خوبصورتی وہ بھی اکٹھے اک جگہ؟ اگلے ہی لمحے پیسے طے ہوگئے؟۔ مقامی باشندے نے کہا کہ وہ اسے لینے کے لیے خود شام کو 6بجے اسی کنٹین پر آئے گا۔ اور اپنے ساتھ گھر لے کر جائے گا۔۔ اب سونا سنگھ کو گلابو وغیرہ سب بے کار لگ رہے تھے۔ یہ لش پش اور میک اپ، ایمان شکن لباس، اس پر دلربا اشارے۔۔ سونا سنگھ نے نہ جانے 6بجے تک وقت کیسے گزارا۔ اپنے انچارج کی منتیں کر کے دو گھنٹے کی اوٹ پاس لی اور باہر کنٹین پر آبیٹھا۔۔ ٹھیک 6بجے وہی کار لے کر حاضر ہوا اور سونا کو مہمان بنا کر اپنے ساتھ لے گیا۔ رات8بجے واپس اسی جگہ سونا کو اتار کر وہ شخص چلتا بنا اور اگلے ہفتے اتوار کے دن کا وعدہ اور ایڈوانس لے کے مقامی شخص نے سونا کو خیر اباد کہا۔ آج سونا کو اسے نئے گلابو کے پاس آتے ہوئے تیسرا ہفتہ تھا۔ لیکن اب وہ پریشانی میں گھرا تھا کہ ان لوگوں نے تو کھلی کھلی دھمکی دے دی کہ اگر دولاکھ روپے دے گا تو ٹھیک وگر نہ اس کا آئی ڈی کارڈ اور سروس کارڈ دونوں پوسٹ کمانڈر یا کرنل کمانڈ آفیسر کے پاس پہنچائے جائیں گے۔ اور انہیں رپورٹ بھی دی جائے گی کہ یہ سپاہی رِڈ لائیٹ ایریا میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔
سونا سنگھ ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی تنخواہ گھر بھیج دیا کرتا تھا۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کی تنخواہ سے ہی گھر کا چولہا جل رہا ہے۔ اور بوڑھے ماں باپ دوبہن بھائی اور سب سے بڑھ کر گلابو کا گزارہ اسی تنخواہ پر ہے۔ اس کے پاس 2لاکھ روپے کہاں سے آئے۔ الغرض مقامی مڈل مین نے تمام ڈاکومنٹ ثبوت کے ساتھ، جس میں سونا سنگھ اور ایک خوبرو کی اکھٹے لی گئی تصاویر بھی شامل تھیں، کمانڈنگ آفیسر تک پہنچا دیئے۔ پھر کیا تھا، سونا سنگھ پر قیامت ٹوٹ پڑی اسے حوالا ت میں بند کر کے انکوائری شروع کی گئی۔ سونا سنگھ معصوم تو تھا ہی اس نے ذرا سی دیر بغیر اپنے دوسرے ہانڈی والا دوست کا نام بتادیا کہ اسے ان لوگوں نے متعارف کرانے والا وہ شخص ہے۔ سپاہی الف خان کو شامل تفشیش کیا گیا، حقائق کھلتے گئے۔ سپاہی الف خان نے بتایا کہ اسے بھی ان لوگوں سے اسی طرح بلیک میل کیا تھا۔ اس کے پاس ایک لاکھ روپے موجود تھے وہ اُن مقامی دلال کو دے دیئے اور ساتھ ہی ایک اور سپاہی پھنسا نے کا بھی وعدہ کیا۔ یوں میں نے سونا سنگھ کو ان کے حوالے کر کے اپنے آئی۔ ڈی کارڈ اور سروس کارڈ واپس لیے۔۔ تادمِ تحریر سونا سنگھ اور الف خان کو رٹ مارشل کا سامنا کر رہے تھے۔۔ ادھر گھر والوں کو کسی دوست کے ذریعے اطلاع دی گئی کہ سوناسنگھ 6مہینے کے لیے ایک ٹرینگ کے سلسلے میں ٹرینگ سنٹر بھیجا گیا ہے۔۔۔ مقامی شخص کسی اور شکار کی تلاش میں کسی قریبی یونٹ کے باہر کنٹین پر۔۔۔۔