Home » کتاب پچار » سنگت ریویو جولائی 2021۔۔۔ عابد میر

سنگت ریویو جولائی 2021۔۔۔ عابد میر

سنگت کا ایک قاری ہوا کرتا تھا جس کا دعویٰ تھا کہ سنگت کے سرورق سے لے کر پس ورق تک مع اشتہارات وہ نہایت عرق ریزی سے اس کا مطالعہ کرتا ہے (ماما عبداللہ جان جمالدینی)۔ پھر جب تک خط نویسی کا چلن تھا لوگ رسالہ پڑھنے کے بعد خط لکھ کر اس سے متعلق اظہارِ خیال کرتے تھے جو ایڈیٹر کی ڈاک کے بہ طور شائع ہوتا۔ یہ فیڈ بیک جہاں ایک طرف رسالے کی اشاعت و مطالعے کو جواز دیتا، وہیں بہتری کی راہیں بھی سْجھاتا۔ آج جدیدڈیجیٹل عہد کا قاری اس سے یکسر بے نیاز ہو چکا ہے۔ اسی بے نیازی کے ختم کرنے کو ’سنگت‘ پر ہر ماہ تبصرے کی تجویز دی گئی ہے، یہ مضمون اسی سلسلے کی کڑی ہے اور ہمارے پیشِ نظر سنگت کا جولائی2021 کا پرچہ ہے۔

سنگت جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ خالص ادبی پرچہ نہیں، بلکہ ادب کو سماجی تبدیلی کا ایک ٹول سمجھتا ہے۔ یہ ایسا جنرل سٹور ہے جہاں ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے مگر ایک خاص ذائقے اور ٹیسٹ کے ساتھ۔ تو آئیے اس مہینے کے جنرل اسٹور میں داخل ہوتے ہیں۔… …  ایک سوشو لٹریری جریدے کے بہ طور سنگت کا سب سے اہم حصہ ’پوہ وزانت‘یعنی مضامین کا ہوا کرتا ہے، جو ایک عرصے سے کافی کمزور نظر آ رہا ہے۔ اس پرچے میں بھی یہ حصہ مقدار ومعیار ہر دو لحاظ سے قلیل ہے۔ آغاز میں پروفیسر عزیز بگٹی پر فاروق کبدانی کا اور یوسف عزیز مگسی پر عطااللہ بزنجو کا مضمون کچھ نیا تو نہیں بتاتے، البتہ بزرگوں کی یاد تازہ ضرور کرتے ہیں۔ اس کے بعد جام دْرک پر شاہ محمد مری کا مضمون مختصر مگر خاصے کی چیز ہے۔ اس میں زیادہ حصہ جام کی شاعری کے اردو ترجمے پر مشتمل ہے، جو شاید اتنی مقدار میں پہلی بار ترجمہ ہو رہی ہے، اس لیے بلوچی نہ جاننے والے قارئین کے لیے بالخصوص یہ قابلِ توجہ ہے۔ ڈاکٹر ساجد بزدار کا مضمون ’بلوچ معاشرہ اور اس کے متھ‘ اس پورشن کا سب سے اہم اور خاص مضمون ہے جو بلوچ سماج کے ایک ایسے پہلو کو زیربحث لاتا ہے، جس پہ شاید نہایت کم بات کی گئی ہے۔

حال حوال میں سنگت پوہ زانت کی نجیب سائر کی رپورٹ اور کتاب پچار یعنی بک ریویو میں مصباح نوید کے افسانوں کی کتاب ’چندن راکھ‘ پر زکریا خان کا تبصرہ شامل ہے، جو کتاب کا تعارف تو کرواتا ہے، کتاب پڑھنے پر مائل کرنے والایا تجسس ابھارنے والا ریویو بہرحال نہیں۔ کچھ ایسا ہی ریویو شاہ محمد مری کی کتاب ’پری ہسٹاریکل بلوچستان‘ پہ عابدہ رحمان کا ہے۔ البتہ یہیں ایک کونے میں ڈاکٹر انوار احمد کا سنگت پر تبصرہ مختصر مگر شاندار ہے۔

اس کے بعد افسانوں کا حصہ شروع ہوتا ہے جو نصف سے زائد رسالے پر مشتمل ہے۔ اور نصف درجن سے زائد یعنی سات افسانے اس میں شامل ہیں۔ اس حصے کی بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس میں سوائے امر جلیل کے ایک افسانے کے تمام افسانے خواتین کے ہیں، امرجلیل کا یہی ایک افسانہ، رسالے کی جان ہے۔ سندھی سے ہی ننگر چنا کا ترجمہ کیا ہوا جہاں آرا سومرو کا افسانہ ’ببول کا جنگل‘ غربت اور رومانس کے روایتی قصے کے گرد بنی سادہ مگر دل موہ لینے والی کہانی ہے۔ ثانیہ منظور کا افسانہ ’مسخ شدہ کہانیاں‘ البتہ نیم علامتی انداز میں ہونے کے باوجود اپنا تاثر قائم نہیں کرپایا، کہ اس میں کہانی جیسا بنیادی فیکٹر غائب ہے۔ ماہ جبیں آصف کا افسانہ ’میں جدا گریہ کناں‘ کسی حد تک اس خامی سے مبرا کہا جا سکتا ہے۔ نسیم سید کی کہانی ’بیکا‘ گو کہ حاشیے پہ ڈال دیے گئے نچلے طبقے کے دکھ بیان کرتی سادہ بیانیے کی کہانی ہے مگر اس کی طوالت خاصی کم ہو سکتی تھی۔ اور ظاہر ہے یہ کام ایڈیٹر کا نہیں، افسانہ نگار کا ہے۔ زہرا تنویرکا ’عباس کی دلہن‘ ایک تانگہ بان کے جذبات کی کہانی ہے۔ ایک ایسے طبقے کی کہانی جو اَب اردو افسانے سے ناپید ہی ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ نبیلہ کیانی کی مختصر کہانی ’چنگ و رباب اول چنگ و رباب آخر‘ کوئی تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

الغرض افسانے کا حصہ میگزین میں معیار و مقدار میں بھرپور ہے۔ مگر ایک سوشو لٹریری میگزین کو بہرحال یہ حصہ ایک خاص مقدار میں ہی رکھنا چاہیے۔ 80روپے یا اپنے دو چار گھنٹے سنگت پہ صرف کرنے والا قاری، اس جنرل سٹور سے بہرحال اس سے بہتر مال کی توقع رکھتا ہے۔

اس جنرل سٹور کا ایک خوب صورت حصہ شاعری کا بھی ہے۔ عام طور پر بیک یا انر ٹائٹل پہ جو شاعری دی جائے، اسے منتخب شدہ موادسمجھا جاتا ہے۔ اس بار مگر سوائے وصاف باسط کی بیک انر پہ موجود نظم کے باقی نظمیں ایسا تاثر نہیں رکھتیں۔نسیم سید کی’چلو تم ہی بتاؤ‘ سادہ و شاندار نظم ہے جس کی قرات بارہا فہمیدہ ریاض کی یاد دلاتی رہی۔ ثروت زہرا کی ’گوشہ نشینی‘ بھی خاصے کی چیز ہے۔ شاعری میں اس کے علاوہ تنویر انجم کی نظم ’وہ ہمیں رلا سکتا ہے‘ اور ڈاکٹر منیر رئیسانی کی غزل قابلِ مطالعہ اور قابلِ داد ہیں۔

رسالے میں ایک اور اہم چیز ایک مختصر کلینڈر ہے جس میں ہر ماہ کی مناسبت سے اس مہینے میں پیدا ہونے اور وفات پانے والے اکابرین کی تفصیل دی جاتی ہے۔ سفارش یہ کی جاتی ہے کہ یہ کلینڈر مکمل صورت میں سنگت میں شائع ہونا چاہیے۔ ’مطالعے کا مجوزہ نصاب‘ کا صفحہ بھی نہایت اہم ہے، البتہ اس میں نظرثانی کی اور مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

اب آخر میں ذکر کرتے ہیں اس جنرل سٹور کے سب سے اہم آئٹم شونگال یعنی ایڈیٹوریل کا۔ ایڈیٹوریل کسی بھی ادارے کی ادارتی پالیسی اور نکتہ نظر کا اظہار ہوتا ہے۔ سنگت کا ایڈیٹوریل بھی اس کی فکری اساس کا عکس پیش کرتا ہے۔ جون میں پیش ہونے والے بجٹ پہ ’جھوٹ موٹ کی رونق‘ کے عنوان سے یہ اداریہ بلاشبہ نہ صرف عوامی جذبات کا عکاس ہے بلکہ نظری و فکری رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ سنگت میں اور کچھ نہ بھی چھپے تو صرف اس کا ایڈیٹوریل لگا کر کر رسالہ چھاپا جا سکتا ہے۔

البتہ میری تجویز ہو گی کہ ایک زمانے میں شاید نوکیں دور یا سنگت کے آخر میں ایک ’آخری صفحہ‘ ہوا کرتا تھا۔ اس عنوان سے آخری صفحے پہ ہلکے پھلکے انداز میں ایک انشائیہ نما تحریر ہوا کرتی تھی جو ایک طرح سے اداریے کا تسلسل ہی ہوتی تھی۔ یوں شروع سے آخر تک رسالے کا ایک مجموعی تاثر بنتا تھا۔یہ سلسلہ بحال ہونا چاہیے۔اداریے کی صورت اس جنرل اسٹور کا ’اِن‘ جتنا خوب صورت ہے، اس کا ’آؤٹ‘ بھی ویسا ہی دلکش و دلنشیں ہونا چاہیے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *