Home » پوھوزانت » فزکس اور اس کے قوانین ۔۔۔ شاہ میر

فزکس اور اس کے قوانین ۔۔۔ شاہ میر

سچ اپنی حتمی شکل میں سائنس کہلاتا ہے۔سائنس وہ دریافت کردہ سچائی ہے جس کی تشریح کی جاسکتی ہو اور جو ہر جگہ تجربے سے یکساں نتیجہ دے۔ سائنس میں فلسفہ کے ہائپو تھیسز یا تھیوری پر تحقیق کرنے کی صلاحیت تو موجود ہے مگر اسے تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی اُس وقت تک صلاحیت موجود نہیں ہے جب تک کہ یہ”ایسے“ یا”ویسے“ثابت نہ ہو جائے۔ لہٰذا”ثابت شدہ سچائی کو سائنس کہا جاتا ہے“۔سائنس حقائق کی تلاش میں کبھی اپنے آپ کی بھی نفی کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے،اور کہیں اپنی پچھلی بات کی تصدیق کرتے ہوئے آگے چلتی جاتی ہے۔ سائنس ہمہ وقت نئے حقائق کھوجتی جاتی ہے اور نئے ادراک کے اعلانات کرتی جاتی ہے۔

سائنس کا کام اپنے دریافت کردہ حقائق کی درجہ بندی کرنا بھی ہے، اُن کی اہمیت کو تسلیم کرانابھی ہے۔

سائنس مروجہ عقیدوں، روایتوں، پیشن گوئیوں، خوابوں اور بشارتوں پر تحقیق تو خوب کرتی ہے اور انہیں حق یا باطل تو قرار دیتی ہے مگر خود کو اُن کی مطابقت میں ڈھالنے کی کوشش کبھی نہیں کرتی۔ اس کے برعکس یہ عقیدے، روایتیں، پیشن گوئیاں، خواب اور بشارتیں ہیں جو اپنی توضیح و تشریح کے لئے سائنس کے پیچھے بھاگتی رہتی ہیں۔ دنیا بھر کی روایات ہر وقت اِس جستجو میں رہتی ہیں کہ ”دیکھا؟ سائنسی فلاں حالیہ دریافت نے ہماری صدیوں پرانی فلاں روایت کو برحق ثابت کردیاہے“۔

دانائی، حکمت اور جاننے پہ عاشق ہونے کے عمل کو ”فلسفہ“کہتے ہیں۔یہ وجود اور زندگانی کے قوانین کی سائنس کا علم ہے۔ اور یہی تمام علوم کی یونیورسٹی کی ماسٹر چابی ہے۔

آج کی ترقی یافتہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے کی الگ سائنس اور الگ سپیشلٹی ہوتی ہے۔ ہماری ڈاکٹری کے متعلق تو مزاح بھرا فقرہ موجود ہے کہ ایک وقت آئے گا جب دائیں آنکھ کا سپیشلسٹ الگ ہوگا اور بائیں کا الگ۔ دائیں گھٹنے کا ماہر الگ ہوگا اور بائیں کا الگ۔ اِن ساری سپیشلٹیوں کے بنیادی عمومی قوانین میں ہم آہنگی پیدا کرنے والے علم کو ”فلسفہ“کہتے ہیں۔ فلسفہ سارے علوم (سائنسز)کے قوانین کے ہار کا دھاگہ ہے۔

بلاشبہ،سیاست بھی بے شمار سائنسوں کو ملا کر چلتی ہے۔مگر فلسفہ سیاست سے بھی زیادہ علوم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ موٹی موٹی بات کی جائے تو سیاست فلسفہ کے بغیر دُم بھی نہیں ہلا سکتی ہے۔ اِن دونوں کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔بلکہ فلسفہ کو کسی بھی علم وسائنس سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ چلیں ہم فقرہ کو یوں پیش کرتے ہیں: سائنس فلسفہ نہیں ہوتی۔ مگر فلسفہ سائنس ہوتا ہے۔

کائنات کو جاننے کے لیے دو باتوں کی ضرورت ہے۔

1۔ آپ کی بنیادیں میٹیریل ہوں۔ جاننے کے اِس طریقے کو ”میٹر یلزم“کہتے ہیں۔یہ ”اِزم“ گریک زبان سے قرض لی گئی وہ دُم ہے جو کسی تھیوری، ڈاکٹرائن یا کاز والے لفظ کے پیچھے لگائی جاتی ہے۔ مثلاً کپٹلزم، بدھ ازم، سیکسزم، کیوب ازم اور ریس ازم وغیرہ۔ یہ لفظ پانچویں صدی قبل مسیح کے یونانی فلاسفر ڈیموکرائی ٹس سے لیا گیا۔میٹریلزم کا مطلب ہوا میٹریل دنیا سے متعلق۔ وہ چیزیں جنہیں واضح طور پر ثابت کیا جاسکے کہ وہ میٹر میں وجود رکھتے ہیں۔

2۔کائناتی قوانین کا علم کیا کیوں، کیسے اور کب جیسے سوالات کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ بحث مباحثے کے بغیر علم نہیں ملتا۔                بحث مباحثے کے ذریعے حقائق تک پہنچنے کے طریقے کو”ڈائلیکٹکس“کہتے ہیں۔

مندرجہ بالادونوں لوازمات کو ملا کر اس سائنس کو”ڈائلیٹکل میٹیریلزم“کہیں گے۔

یعنی فطرت کے مظاہر کو سمجھنے کے لیے ڈائلیکٹکل طریقہ اختیار کیا جاتا ہو، اور اِن مظاہر کی تعبیر یا تصور میٹیرل ہو۔

مباحثہ کا ایسا طریقہِ کار جس میں موضوع کے حق میں اور اس کے خلاف پیش کیے گئے دلائل میں موجود تضاد کی نشاندہی کی جاتی ہے اور اس کی روشنی میں کسی نتیجے پر پہنچا جاتا ہے۔اس سے ایک اور بات بھی نکلتی ہے۔ خیال صرف لفظ کے میٹریل پیکر میں ہی وجود رکھتا ہے۔ انسان خود سوچے، یا اپنے خیالات کا بلند آواز سے اظہار کرے، یا انہیں تحریر میں لائے، خیال ہمیشہ الفاظ کے پیکر میں ہی ہوتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ گویائی اور تحریری زبان کے بغیر نسل ہا نسل کا بیش قیمت تجربہ رائیگاں چلا جاتا اور ہر نسل مجبور ہوتی کہ دنیا کے مطالعے کے مشکل سلسلہ عمل کو نئے سرے سے شروع کرے۔

یاد رکھیے کہ ہر میٹیرل چیز دوسرے سے نہ صرف جڑی ہوئی ہے بلکہ ایک دوسرے پر منحصر بھی ہے۔ مطلب یہ کہ آپ کسی مَیٹیریل چیز کو اس کے آس پاس سے کاٹ کر دیکھ ہی نہیں سکتے، جان ہی نہیں سکتے۔یعنی کائنات دراصل اشیا، مظاہر اور پراسیسوں کی ایک مربوط مجموعہ ہے۔ اس کے اندر موجودات ایک دوسرے سے متعلق اور منسلک ہیں۔ ایک دوسرے پراثر بھی ڈالتے ہیں اور ایک دوسرے سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی حد بندی بھی کرتے ہیں۔ اس لیے نیچر میں موجود کسی بھی چیز کی ذاتی حیثیت بھی اہم ہوتی ہے مگر اسے اس کے ماحول، اُس کے آس پاس سے کاٹ کر نہ دیکھا جاسکتا ہے نہ سمجھا جاسکتا ہے۔

فلسفہ کی دنیا میں ہمیشہ سے ایک ایسا بنیادی اور عالمگیر سوال موجود رہاہے جس پہ انسان صدیوں سے غورو فکر، بحث مباحثے نوک جھونک، جھگڑے پھڈے، حتی کہ ایک آدھ قتل سے لے کر لاکھوں کروڑوں انسانوں کے قتل ہوجانے تک کے مناقشے رہے ہیں۔ اسے فلسفے کا ”بنیادی سوال“ کہتے ہیں۔

لوگ اکثر کہتے ہیں اور ٹھیک کہتے ہیں کہ یہ دنیا میٹیریل دنیا ہے۔ بالکل یہاں موجود ہر چیز مَیٹر ہے اور مَیٹیریل چیز سے نکلی ہوئی ہرچیز میٹریل ہے۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اس میٹریل دنیا کا بنیادی عنصر یعنی میٹر (matter) کب پیدا ہوا؟۔ اس کے پیدا ہونے سے پہلے کیا کچھ تھا؟۔ کیا اُس کو فنا ہے؟۔اور اگر ہے تو اس کے فنا ہونے کے بعد کیاہوگا؟۔

بوڑھا فلسفہ اس گتھی کو سلجھانے ہزاروں برس تک مغز کھپاتا رہا۔ یہ مٹی کا ایساگھوڑا تھا کہ پاکستانی انقلاب کی طرح پاؤں پر کھڑا کرو بھی گر جاتا ہے، سر کے بل کھڑا کرنا چاہو تو بھی گر جائے۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔

تب فلسفہ کا فزکس نامی ہونہار بیٹا باپ کی مدد کو آیا۔ فزکس نے ثابت کر دکھایا کہ میٹر وہ ہے جو جگہ گھیر تا ہو، جس کا وزن ہو اور جو پانچویں حسوں میں سے کسی ایک یا زائد کے ذریعے محسوس کیا جاسکتا ہو۔۔۔یعنی مَیٹر ہمارے حواس سے آزاد اپنا وجود رکھتا ہے۔

اِدھر تک تو خیر تھی۔ ستے خیراں والی بات فزکس کی یہ ہے کہ اس نے یہ ثابت کیا کہ مَیٹر ازلی بھی ہے ابدی بھی۔ یہ مستقل طور پر موجود رہا ہے۔ لہذا اس کا ڈیٹ آف برتھ موجود ہی نہیں ہے۔ یعنی میٹر کے بارے میں ”اولین بات“،”اولین واقعہ“،”شروعات“ والے لفظ وتصورات موجود ہی نہیں ہیں۔

اسی طرح فزکس نے یہ بھی ثابت کیا کہ مَیٹر کا کوئی ایکسپائری ڈیٹ بھی نہیں ہوتا۔ یعنی میٹر کے لیے فنا کا لفظ اور تصور موجود نہیں ہے۔ اب جب بھی بلوچ کہتا ہے کہ دنیا فانی ہے یا دنیا چار دن کا کھیل ہے تو وہ اصل میں دنیا یا مَیٹر کی بات نہیں کر رہا ہوتا ہے، وہ تو اپنی زندگی کے بارے میں بول رہا ہوتا ہے۔ ”افسوس ہم نہ ہوں گے“ والا معاملہ ہے ورنہ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کبھی کم نہ ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ میٹر اور اُس سے بنی کائنات کسی روح سے پیدا نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ اُس کا سایہ ہے۔اگر ”سایہ“ کی تشبیہ کو قائم ہی رکھا جائے تو دراصل یہ حقیر و فقیر میٹر ہی ہے جس کا سایہ خیال، تصور، روح وغیرہ ہیں۔ یہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔  چونکہ میٹر ختم ہوہی نہیں سکتا لہذا آپ کہہ سکتے ہیں کہ میٹر اپنی شکل بدلتا ہے، اس کے اجزا ادھر اُدھر منتشر ہوجاتے ہیں، اپنے اجزا میں تقسیم ہوجاتے ہیں وغیرہ(1)۔

ہم مٹی ہیں، مرکر ہم مٹی،یعنی قبر کی مٹی سے مل جائیں گے اور انجام یہ کہ بالآخرمٹی۔ یہ مٹی پھر درخت پودا وغیرہ بنے گی جسے پھر مرکر مٹی بننا ہے۔ شکلیں بدلتے  رہنا۔ آپ کوئٹہ کے سریاب روڈ پہ واقع جی ایس پی (جیالوجیکل سروے آف پاکستان) کے دفترمیں جیالوجی والوں کا میوزیم دیکھنے ضرور جائیں۔ وہاں ایک ہال میں بڑے بڑے پتھر ترتیب سے فرش پر رکھے ہیں۔ مگر گائیڈ کو جب اندازہ ہو کہ آپ انہیں معمولی پتھر سمجھ رہے ہیں تو وہ فوراً کہہ اٹھے گا۔ ”صاحب یہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں تین کروڑ سال قبل کے 20میٹرک ٹن وزن والے بڑے جانور ”بلوچی تھیریم“کی ہڈیاں ہیں جو پتھر میں تبدیل ہوچکی ہیں“۔ ارے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟۔ جسم پتھر میں بدل گیا؟۔۔ اچھا اچھا، یعنی میٹر اپنی شکلیں سالڈ(ٹھوس)،لیکوئڈ (مائع)،پلازما، اور، گیس کی صورتوں میں بدلتا رہتا ہے۔

اندازہ ہوا کہ بلوچی تھیریم مرکر فنا نہیں ہوتا بلکہ اُس کے اندر موجود کیمیائی عناصر دوسری صورتیں اختیار کرتے ہوئے اس دنیا میں موجود رہتے ہیں۔ انہیں کوئی فنانہیں ہے۔ کائنات کو کوئی فنا نہیں ہے۔ع:

بگڑے گی اور بنے گی،دنیا یہیں رہے گی

سائنس ڈنڈے ماری کی اُلٹ چیزہے۔ اس میں سندھی زبان کے فقرے ”رکھ مرشد ءَ تے“ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سائنس اِس بات کو بھی نہیں مانتی کہ کائنات یا اُس کے مظاہر جامد وساکت حالت میں رہتے ہیں۔ سائنس صرف حرکت کو مانتی ہے، تغیر پذیری کو مانتی ہے۔ اور سائنس حرکت میں ہی اشیا اور مظاہر کا مطالعہ کرتی ہے۔ سائنس مادے کو نہ صرف اٹیم تک جان چکی ہے۔ بلکہ وہاں سے بھی آگے پروٹان اور بے آرام ومتحرک الیکٹرون تک اس نے دریافت کر لیے ہیں۔مطلب یہ کہ کائنات صرف حرکت میں وجود رکھتی ہے۔ میٹر متحرک رہتا ہے۔ ثبات اک تغیر کو ہے،بس۔دوسرے لفظوں میں مَیٹر اور حرکت لازم و ملزوم ہیں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ حرکت کے لیے جگہ یعنی سپیس ضروری ہوتی ہے اور وہ ٹائم کے اندر ہوتی ہے۔

یہ حرکت حتمی اور دائمی ہے۔ کبھی نہیں رکتی۔ اور اگر کہیں سکون نظر آبھی جائے تو سمجھیے کہ یہ اوپر کا سکون ہے، سطح کا سکون ۔حرکت ہی کے سبب تبدیلی،تجدید اور ترقی ممکن ہے۔نیچر میں کبھی سکوت جمود اور ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔بلکہ یہ مسلسل حرکت اور تبدیلی کے عمل میں ہوتی ہے۔اسی عمل میں پرانا تباہ ہوتا جاتا ہے اور کچھ نہ کچھ نیا پیدا ہوتا جاتا ہے۔ یہ مسلسل ابدی تبدیلی کا عمل ہے۔  حرکت ہی کے طفیل چیزیں پیدا ہوتی ہیں، بڑھتی ہیں، گھٹتی ہیں اور فنا ہوتی ہیں۔

مَیٹر کو سمجھا جاسکتا ہے۔    یہ حتمی بات ہے کہ پوری کائنات کچھ بنیادی سائنسی قوانین پر چل رہی ہے۔ یہ قوانین سائنسز کی ماں یعنی فزکس، فزکس کی بہن یعنی میتھ میٹکس اور کمیسٹری کے ہیں۔ اور یہ قوانین عالمگیر ہوتے ہیں۔ ان قوانین کا ایشیا، افریقہ الغرض پوری دنیا پہ اطلاق ہوتا ہے۔

اسی طرح یہ قوانین کسی ایک مذہب کے نہیں ہوتے، کسی ایک نسل کے بھی نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ یہ اسلامی فزکس ہے، یہ یہودی فزکس ہے۔ نہ ہی دوکا پہاڑہ مکران میں الگ ہوتا ہے۔ اور موز مبیق کے لیے الگ۔اسی طرح دولت ذاتی ہوسکتی ہے، اعتقاد ذاتی ہوسکتی ہے، پسند نا پسند ذاتی ہوسکتی ہے۔ مگر دنیا بھر میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کی ذاتی سائنس ہو۔

المختصر کائنات پہ لاگو قوانین صرف ارتھ اور مارس کے بھی نہیں ہوتے۔ یہ سارے سیاروں پہ یکساں لاگو ہوتے ہیں۔ کُل کائنات کے قوانین۔اس کے قوانین دریافت کیے جاسکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں جس کا علم حاصل نہ کیا جاسکے، جس کی تشریح نہ کی جاسکے۔اب تو سائنس اس قدر طاقتور ہوگئی کہ سب کو یہ بات منوا گئی۔ مگرماضی میں ایک بڑا کشمکش بھرا اور متشدد طویل زمانہ گزرا جب انسان اس بات پہ ایک دوسرے کا سر توڑتا رہا ہے۔

چنانچہ سماج میں کوئی کام، جی ہاں انقلاب سمیت کوئی کام اچانک، اتفاقیہ یا حادثاتاً نہیں ہوتا۔ چھینکنا کھانسنا، حتی کہ خود حادثہ بھی حادثاتاً نہیں ہوتا۔ ہر بات کے پیچھے سبب موجود ہوتے ہیں۔ کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ۔ ایسے ”سبب“ جو میٹیریل ہوں اور جن کی تشریح ہوسکتی ہو۔

اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سائنس نتائج نہیں طریقہ ِکار دیکھتی ہے، (میتھڈا لوجی، ناٹ رزلٹ)۔ لہذا بالخصوص سماجی سائنس میں کوئی ”اچانک“ کو دجانے والا فلمی ہیرو نہیں ہوتا۔کہ وہ آجائے اور ساری مشکل حل کردے۔ سائنس ہیرو کو نہیں مانتی، ہیرو گیری کو نہیں مانتی اور ہیرو پرستی کو نہیں مانتی۔

قانون ہے کہ سارے مظاہر ایک دوسرے سے متعلق ہیں اور ایک دوسرے پہ مبنی ومنحصر ہیں تو اس سے دونتائج نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی مظہر ”ابدی“ نہیں ہوتا، حتمی نہیں ہوتا۔ ابدی، حتمی اور ثبات والی چیزتو ”ہمہ وقت تبدیلی“ ہے،بس۔

ہم انسانوں کی طرح،ساری نیچر بھی تباہ ہوتی ہوئی چیز کا ساتھ نہیں دیتی بلکہ اُس چیز کو اہمیت دیتی ہے جو پیدا ہورہی ہے۔

نچوڑیہ ہے کہ بظاہر بے جان مَیٹر کے ارتقا میں جاندار تک آجانا ایک معراج تھی۔ اور پھر جانداروں کے ارتقاکی آخری اور قطعی جہت انسان ہے انسان کا دو پاؤں پر کھڑا ہونا ایک اور ترقی تھی۔ اور پھر دونوں ہاتھوں کا عجیب ترین ہونا تو کمال کا ارتقا تھا انہی ہاتھوں کی انگلیوں پوروں کی فنکاری ہی نے تو دماغ کو ماہر، فنکار اور استاد بنا لیا۔ ہاتھ کی انگلیوں کی پیچیدہ ترین صلاحیتوں، ہاتھ کے پنجے کی موومنٹ کی بہت طرفہ سمتیں،اور کہنی اور کندھے سے بازو کی ہمہ سمت حرکت کرنے کی صلاحیت نے انسانی دماغ کو بہت کچھ دیا۔ آج بھی اگر انسان کے ہاتھوں کی صلاحیتیں بکری کی اگلی ٹانگوں جیسی ہوجائیں تو انسان انسانیت کے عروج تو کیا اپنا منہ تک نہ دھو سکے۔ اور انسان میں دماغ کے مرحلے تک پہنچنا بلندیوں کی بھی بلندی تھی۔

دوسری بات یہ بھی طے ہوچکی ہے کہ مَیٹر بنیادی ہے اور شعور سے آزادانہ اپنا وجود رکھتا ہے۔ ازل  سے موجود میٹر سے ہی چند لاکھ برس قبل انسان اور دوسرے جانداروں اور مظاہر کا وجود ہوا۔پہاڑ دریا اوردشت انسان سے ملینوں سال پہلے سے موجود رہے، انسان تو بہت بعد میں آیا۔ اس کا ذہن اور وہاں پیدا شدہ شعور مَیٹرہی سے ڈویلپ ہوئے۔ اسی موجود میٹرنے انسانی عقل کی شکل میں غور فکر کر نے کی ایک مہان فیکٹری بنائی۔ شعور اور آئیڈیا مَیٹر ہی سے وجود میں آتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ شعور اور آئیڈیاز بھی میٹر ہیں، آواز و صدا بھی۔ارے بھئی عشق ومحبت بھی میٹر ہیں۔لہذا پھر دوہراتے ہیں کہ کائنات مَیٹریل ہے۔ میٹر ازل سے موجود ہے اور ابد تک موجودرہے گا۔ اسی (دماغ) میں سے آئیڈیا اور شعور نکلیں گے۔ یعنی میٹر(دماغ) شعور کو بناتا ہے نہ کہ اس کے برعکس۔

یہ سمجھنا بھی غلط ہوگا کہ دماغ سوچنے کی ایک آٹومیٹک مشین ہے۔ بھئی اسے اپنے جسم، اور جسم کے گردوپیش کی دنیا سے الگ کردو تو یہ ”مبارک ہوٹل“میں مغز کے نام سے سالن بن جاتا ہے۔ دماغ تو اپنے کارندوں کے بغیر بے کار ہے۔ حواس اُس کے لیے جاسوس بن کر گردوپیش کی اطلاعات اُسے فراہم کرتے ہیں۔ میٹریل دنیا کی اطلاعات۔ انہی شبیہوں کو پراسیس کر کے دماغ نئی نئی شکلیں صورتیں تخلیق کرسکتا ہے۔ کمپوٹر یاد رکھ سکتا ہے، محدود پیمانے کی چھان بین بھی کرسکتا ہے اور حل بھی۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سوچنا صرف انسان کا وصف ہے۔دماغ ہی کمپیوٹر کی ساری ”صلاحیتوں“ کی تعمیر کرتا ہے۔ خواہ یہ جتنی بھی پیچیدہ کیوں نہ ہوں۔ چلیں ایک فقرہ  یوں کہیں: کمپیوٹر،اور مشینیں دماغ اور دست و بازو کے کام کرنے کی صلاحیتوں کو سہولت فراہم کرنے کے محض اوزار ہیں“۔ اور دماغ کا کام ہے۔ سوچنا۔

سوچنا کیا ہے؟۔یہ دماغ کا کام،دماغ کی محنت ہے۔ تو یہ بھی طے ہوگیا کہ محنت صرف اور صرف انسان کی خاصیت ہے۔ اس لیے کہ اس میں دماغ شامل ہوتا ہے۔(بیارہاتھ وغیرہ)

فطرت کے دیگر اعضا کی طرح دماغ (نیوران جس کا یونٹ ہے) بھی ساکت و بیکار نہیں رہ سکتا۔ بازو اور ٹانگ کے پٹھوں اور سیلز کی طرح دماغ اور اُس کے سیلز کی یہ طبعی ضرورت اور مجبوری ہے کہ وہ حرکت کریں، ورزش کریں، صحت مندرہیں، اپنے آپ کو قائم رکھیں اور آگے بڑھیں۔

عام اصطلاح میں تجسس انسانی دماغ کا بنیادی اور مستقل مظہر ہے۔ اپنی نامیاتی صفت کے باعث دماغ کام کرنے پر مجبور ہے۔ یہ جب سرگرم ہوتا ہے تو خوش رہتا ہے اور جب بیکار ہوتا ہے تو خفا اور مرجھا جاتا ہے،غیر مطمئن رہتا ہے (2)۔

انسان میں دو عظیم تعقلی صلاحیتیں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک سائنس ہے دوسری آرٹ ہے۔ سائنس دیگر باتوں کے علاوہ طبعی کائنات کی گہرائیوں کا انکشاف کرتی ہے۔ آرٹ فطرت اور معاشرے میں انسان کی زندگی کے عمومی اصولوں پر روشنی ڈالتا ہے۔

 

حوالہ جات

۔1۔فہمیدہ ریاض۔ دنیازاد۔ سلسلہ 48گلشن اقبال کراچی۔ صفحہ111۔

۔2۔ اسلم اظہر۔ آرٹ کا جدلیاتی تصور درکتاب جدلیات، ادب وفن اور پائیدار ترقی۔ 2012۔ ایس ڈی پی آئی۔ صفحہ14۔

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *