Home » پوھوزانت » بلوچوں میں مظاہر پرستی ۔۔۔ غلام نبی ساجد بزدار

بلوچوں میں مظاہر پرستی ۔۔۔ غلام نبی ساجد بزدار

(بلوچ متھالوجی کا جائزہ)

قدیم اقوام میں فطرت کے معاملے میں یکساں رویہ پایا جاتا ہے۔ اور وہ ایک جانب فطرت سے دست و گریبان ہے تو دوسری جانب اس سے خائف بھی۔ ایک جانب اسے اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق ڈھالنے کے لیے بھی کوشاں ہے تو دوسری جانب اس کی بے رحم طاقتوں کو پوجاپاٹ سے خوش کرنے کے لیے بھی کوشش جاری رکھتا ہے۔

فطرت پرستی کا آغاز دراصل اس دور میں ہوا جب انسان فطرت کی تمام اشیاء کو اپنے ذات سے مشابہ مان کر انہیں جسم و جان کا مالک سمجھتا ہے۔ انسانوں کے لیے فطرت کے بعض اشیاء اور قوتیں شخصی انداز میں مقام رکھتی تھیں۔ اور ان کو نادیدہ طاقتوں کا سر چشمہ سمجھ کر ان کی عبادت کی جانے لگی۔ اس پوجا پاٹ اور انسانی تصورات کے بابت ایڈورڈ کار پینٹر نے لکھا ہے۔

”ان فطرت پرستیوں میں مذہبی جذبات کے تین الگ الگ دھارے بہ آسانی شناخت کیے جاسکتے ہیں۔

1۔ آسمان کے مظاہر، سورج سیارے اور ستاروں کی حرکات اور ان سے پیدا ہونے والی ہیت اور حیرت سے    متعلقہ عوامل۔

2۔ موسموں اور زمین پر نباتات و اناج کی افزائش کے نہایت اہم معاملے سے متعلقہ اور۔

تیسری بات کا تعلق جنس و تولید کے اسرار سے متعلقہ۔

پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر تینوں دھارے کافی حد تک آپس میں مدغم ہوگئے۔ لیکن جس حد تک بھی قابل علیحدگی ہیں اس کے مطابق پہلا دھارا شمسی ہیروز اور سورج کی اساطیر تخلیق کرنے کی جانب مائل ہے۔ دوسرا دھارا نباتات کے دیوتا اور فطرت وزمینی زندگی میں تجسیم کی جانب رجحان رکھتا ہے جبکہ تیسرے دھارے نے تمام قسم کی جنسی اور لنگی رسوم کے ساتھ معبودوں یا شیطانوں کی پرستش کو فروغ دیا“۔(1)

دیوتاؤں کی بات ہوتی ہے تو انسان نے آسمانی دیوتاؤں کے بارے میں زیادہ کھوج لگانے سے پہلے زمینی دیوتاؤں پر خاص توجہ مرکوز رکھی۔ زمین کو ایک مدت تک سب سے زیادہ قابلِ قدر ماں کی طرح پوجا گیا اور دنیا کی اکثر اقوام میں آج بھی زمین، اپنی سرزمین کو ماں کا درجہ حاصل ہے۔ بلوچ شعراء نے بھی ماں اور سرزمین کے بابت ایسے ہی دعوے کیے۔

”ماثیں وطن ماثیں وطن، پھڑ تو مراں۔ زیندا گزا۔

گوں  دو شیاء عشقیں مناں، یکے وطن دومی زوان۔“

مومن بزدار

زمین کی پرستش قدیم ایمیرندیوں کے مذاہب میں بنیادی حیثیت رکھتی تھی مشہور مصنف E.j payneنے لکھا ہے۔

”ہمہ گیر طور پر یہ یقین کیا جاتا تھا کہ زمین فطرت کی قدیم ترین چیز ہے۔ سورج، چاند، اور ستارے نسبتاً بعد کے دور کے خیال کیے گئے۔ سبھی کا انحصار زمین پر ہے، سبھی انجام کار خاک بن جاتے اور زمین پر واپس آتے ہیں۔ قدیم امریکہ میں زمین کی ممتا محض زبانی کلامی بات نہیں بلکہ مثبت عقیدے کا جز تھی“۔(2)

ایک جانب انڈین زمین کی دیوی ماما(دھرتی) اور کونیکا کی پوجا کرتے تھے۔ پنسلوانیا کے لینی لینا نے دھرتی کو کائناتی ماں قرار دیا۔ اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے اجداد دھرتی کے اندرون میں تخلیق کیے گئے اور سطح پر آنے سے قبل وہیں رہتے تھے۔ کچھ ایمیرندی قصہ گوؤں کے مطابق ان کے آبا واجداد زمین ماں کی آنتوں میں رہتے تھے۔ جب کہ دیگر کا کہنا تھا کہ ان کے باپ دادا زمین کے نیچے رہنے والے کیڑوں کی طرح زیر زمین موجود تھے۔ (3)

 

زر تشتیت اور بلوچ عقیدہ:

آج کی بلوچ سوسائٹی میں بھی بعض شواہد ایسے ملتے ہیں کہ بلوچ زرتشتیت کے پیروکار رہے ہیں اور بلوچوں میں آگ یاروشنی کی وہی اہمیت اور احترام ہے جو مجوسیوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ متھ کے لیے نام نہاد ملا اور مذہب کے نمائندوں نے جواز تراشنے شروع کیے۔ لوگ جو اپنے ارد گرد کے جغرافیہ سے تقریباً ناواقف تھے ان عقلِ کل حضرات کی ہر بات کو من وعن مانتے رہے۔تحریمِ شمال یا شمال پرستی کو ایک اوررنگ دے کر مشرف با اسلام کیا گیا۔ کہا گیا کہ شمال میں پیرانِ پیر حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی یا گیلانی کا مقبرہ ہے اس لیے ہم شمال کا احترام کرتے ہیں۔ آج اس گلوب (گولہ) زمین کے بابت معمولی سدھ بدھ رکھنے والا طالب علم بھی جانتا ہے کہ شمال میں چین ، سائبیریا اور روس ہیں۔ عبدالقادر جیلانی کا مزار عراق میں ہے جو مغرب میں واقع ہے۔دراصل ہم لوگوں کی سرشت میں موجود شمال کا یہ احترام انہی ستارہ پرست قوموں کی نشانی ہے جو قطبی ستارے کی پوجا کرتے تھے۔

بلوچ بھی ستارہ پرست رہے اور اس کے اثرات اور آثار آج بھی بلوچوں میں موجود ہیں۔ بلوچ شمال کا احترام کرتے ہیں بلکہ قطبی ستارہ سے ایک خاص تعلق رکھتے ہیں۔

(مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے والد صاحب کا ایک سید خاندان کا دوست اکثر ہمارے ہاں آیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ بزرگ ہمارے ہاں تشریف لائے اور یہ دن ساون کے مست بادلوں کے راج کے ایام تھے۔ سلیمان کوہ کے آسمان پر گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ہر طرف بادل گھن گرج اور بادِ باراں کا سماں تھا۔ شاہ صاحب نے پریشانی کے عالم میں کئی مرتبہ مہمان خانے سے باہر نکل کر شمال کی طرف حسرت بھری نظر سے دیکھا اور پھر بھیگتے ہوئے واپس اندر آگے، والد محترم تو جانتے تھے، لیکن مجھے یہ بات عجیب لگی آخر کار میں نے پوچھا۔ ”شاہ صاحب اس تیز بارش میں کیا دیکھنے باہر جاتے ہیں؟

شاہ صاحب نے بتایا کہ میں ہر رات قطبی ستارے کی زیارت کر کے ایک خاص دعا مانگتا ہوں اور اس وقت تک نہیں سوتا جب تک ستارے کو اپنی آنکھوں دیکھ کر زیارت نہ کر لوں۔ موصوف نے مزید بتایا کے قطبی ستارہ وہ واحد ستارہ ہے جو دنیا میں ہر جگہ ایک بار رات کو ضرور نظر آتا ہے۔ خواہ بادل کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر متواتر چالیس راتوں تک باوضو ہو کر قطبی ستارے کی زیارت کیا جائے اور اس لمحے جو بھی دعا مانگی جائے قبولیت کا درجہ حاصل ہوجاتی ہے۔

تحریم ِ شمال کا یہ عالم ہے کہ لوگ کبھی بھولے سے بھی مغرب کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف پاؤں کر کے نہیں سوتے۔چار پائی بستر وغیرہ اس انداز میں بچھائی جاتی ہیں ان میں خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ شمال کی طرف پاؤں نہ ہونے پائیں۔

کوہِ سلیمان میں پیر بہلول کے مقبرے پر سالانہ تازہ جنگلی مخصوص گھاس (گیشتر) ڈالا جاتا تھا لیکن عین اس جگہ کو خالی چھوڑا جاتا تھا اور لوگوں کا ماننا تھا کہ پیر صاحب اپنے آخری آرام گاہ سے قطبی ستارے کا زیارت کرتے ہیں۔ بعد میں جب وہاں کمرہ تعمیر گیا تو بھی عین شمال میں کھڑکی چھوڑی گئی ہے۔ ایسی بھی روایات ملتی ہیں کہ جب کسی وقت اس مقبرے پر جھوپڑے پر گھاس ڈالتے وقت شمال کی طرف کا حصہ خالی نہیں چھوڑا گیا تو اگلے دن وہاں کی گھاس دور پڑی ہوئی ملی۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس جگہ کا گھاس پیر صاحب خود ہٹا دیتے ہیں۔ قطبی ستارہ کے گرد گھومنے والے سات ستاروں کے جھرمٹ کو بلوچ ’کھٹ‘ کہتے ہیں اور ساتھ ہی چوکور ستاروں کے کھٹ کے قریبی ستارے کو”گُرانڈ“ د نبہ اور ساتھ والے کو کتا اور ساتویں ستارے کو بھیڑیا کہتے ہیں۔

اس کھٹ کے چونکہ صرف چار پاوے ہی نظر آتے ہیں اس لیے اس کے بارے میں بعض پہیلی ”بجھارت یا چاچ“ مشہور ہیں۔

کولرے دیما پلنگے ایشی اے کھوٹھغے گاریں پچھے؟

کل نئیں دراکھانا نہ گھڑے کلیں واژ ہاغر ضو ہمے؟

بلوچ معاشرے میں برگزیدہ ہستیوں کو ہمیشہ قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ مشرقی بلوچستان میں کوہِ سلیمان کے مشرقی ڈھلان پر واقع حضرت سخی سرور کا مشہور دربار ہے۔ یہ دربار عین اس مقام پر واقع ہے جہاں دریائے سندھ کا مغربی ریگستانی ڈیلٹا کوہِ سلیمان کی عظمتوں کو اس کی بنیادوں یعنی دامن میں آکر سلام کر رہا ہوتا ہے۔

دربار کے مجاور مختلف قسم کے ترشول ہر وقت اپنے پاس رکھتے ہیں۔ (4)

سخی سلطان باہو کا دربار اور بیری کا درخت۔

دربار کے صحن میں ایک پیری کا درخت ہے اور کمال یہ ہے کہ اس بیری کے درخت پر سارا سال بیر لگے رہتے ہیں۔ زائرین اور خاص کر بے اولاد جوڑے اس درخت کے نیچے اپنی اپنی چادر بچھا کر سو جاتے ہیں اور صبح اٹھ کر دیکھتے ہیں جس کی چادر پر ثابت بیری کا دانہ پڑا ہو اس کو سب لوگ اولاد ِ نرینہ کی خوش خبری سناتے ہیں اور یہ دانہ اپنی بیوی کو کھلا دیا جاتا ہے۔ اور اگر دانہ ثابت نہ ہوا اور اس کا کچھ حصہ کٹا ہوا ہو تو سمجھا جاتا ہے کہ اس کے ہاں لڑکی کی پیدائش ہوگی۔ میری چادر پر بھی ایک کاٹا ہوا دانہ گراتھا اور تمہیں معلوم ہے کہ میرے گھر میں بیٹی پیدا ہوئی تھی۔(5)

تیغ بندی اور بلوچ متھالوجی

”بلوچ اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ چند ایک بزرگان ِ دین اور خاص کر سادات میں یہ طاقت ہے کہ وہ مختلف قسم کے چلے کاٹ کر لیلتہ القدر کی رات کو پانی میں کھڑے ہو کر تعویز لکھتے ہیں۔ اور جن جن احباب کو یہ تعویز عنایت کی جاتی ہے ان پر آتشیں اسلحہ کا اثر نہیں ہوتا۔ البتہ کار توس  اگر ناپاک کر کے استعمال کیے جائیں تو نقصان پہنچا سکتے ہیں“۔(6)

 

ریفرنسز

Carpenter, Edward, Pagan and Christan creeds, Harcourt, Brace & co.Newyork, 1920. p 19.20

Payne, E.j-History of the New world called America. 2 Volumes, the Clarendon Press, Oxford, 1892.99 p 464

۔جیکسن، جان جی، انسان، خدا اور تہذیب، نگار شات پبلشرز 24مزنگ روڈ لاہور 2012 صفحہ 100۔

۔            بحوالہ، منصور آفاق، روزنامہ جنگ، اداریاتی صفحہ8مارچ22،2015۔

۔انٹرویو اللہ داد لوہار، کوہِ سلیمان اپریل،15،2014

۔انٹرویو اللہ داد لوہار، کوہِ سلیمان اپریل،2015

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *