Home » شیرانی رلی » افتخار عارف

افتخار عارف

جاہ و جلال, دام و درم اور کتنی دیر

ریگِ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر

اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف

گرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر

حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان

یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر

پل بھر میں ہو رہے گا حسابِ نبود و بود

پیچ و خم و وجود و عدم اور کتنی دیر

دامن کے سارے چاک، گریباں کے سارے چاک

ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر

شام آ رہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا

تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *