Home » قصہ » دو وقت کی روٹی ۔۔۔ محمد طارق علی

دو وقت کی روٹی ۔۔۔ محمد طارق علی

مَیں بی اے کی ڈگری ہاتھ میں لئے شہر میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ ہر دَر بند، ہر چوکھٹ پر دربان، ہر افسر بد زبان ”چلے جاؤ، کوئی نوکری نہیں ہے“۔

”مگر صاحب میرے پاس ڈگری ہے“

”تو ہم خالی ڈگری کا کیا کریں؟“

”صاحب ڈگری نہیں، میرا پیٹ خالی ہے۔“

”تو ہم کیا کریں، جاؤ، موٹی سی رشوت یا پھر کسی موٹے کی سفارش لاؤ۔“

”صاحب، یہ سب میرے پاس نہیں ہے۔“

”تو پھر بھاگو یہاں سے ہمارا وقت ضائع نہ کرو“ ہر ترچھے ہیٹ، ہر موٹے پیٹ اور منہ میں دبے ہر ٹیڑھے سگار نے مجھے یہی بات کہی۔

یوں کئی سال تک ناکامیوں نے مجھے گھیرے رکھا۔ تاہم ہر ناکامی پر میں اپنی ہمت کو بڑھا دیتا اور نوکری نام کی ہر چڑیا کے پیچھے بھاگتا رہا لیکن اس چڑیا کے پَر گننے کے فن سے میں ناواقف ہی رہا۔ غریب کا بچہ تھا نا، اس لئے۔

ایک روز گرما کی جھُلسا دینے والی دوپہر میں ایک سایہ دار درخت کے نیچے کھڑا ہو کر میں پسینہ خشک کر رہا تھا کہ زمین پر لیٹے ہوئے ایک ملنگ نے اپنی نیم وا آنکھوں سے مجھے دیکھا اور کہا:

”کیوں پریشان پھرتا ہے بچہ؟“

”نوکری ڈھونڈتا ہوں، بابا!“

”ہا ہا ہا، نوکری؟ وہ تو تجھے نہیں ملے گی، کبھی نہیں، جا، خود اپنا کوئی کام کر، چھوٹا ہی سہی، لیکن اپنا کام“

”بہت بہت شکریہ بابا“ ملنگ بابا کی بات میرے دل کو لگی اور میں اپنی پرانی سی سائیکل پر سوار ہو کر گھر کی طرف چل دیا۔

پھر مَیں نے اگلے کئی دن اِسی سوچ میں گزار دیئے۔ ”اپنا کام، چھوٹا سا کام لیکن کون سا؟“

اپنے بڑوں سے، دوستوں سے مشورے کئے، بھانت بھانت کی بولیاں سُننے کو ملیں، ہر بات میں لاکھوں کا ہیر پھیر تھا اور اپنے پاس لاکھوں روپے تو کیا لاکھ ”پیسے“ بھی نہ تھے۔

اور پھر اچانک ایک نئی مصیبت میرے سَر پر آن کھڑی ہوئی جس گھر میں میری ”مانگ“ بیٹھی تھی وہ پورا گھر میرے پیچھے پڑ گیا۔

”آؤ اور اپنی امانت کو عزت کے ساتھ ڈولی میں بٹھا کر گھر لے جاؤ۔“ یہ تقاضا کئی بار ہُوا، مَیں ٹالتا رہتا لیکن پھر بار بار ہونے لگا، ہر ہفتے بل کہ قریباً ہر روز، یہاں تک کہ میرے بوڑھے ماں باپ بھی اس تقاضے کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوئے۔

”ہمیں مرنے سے پہلے اپنی بہو کا منہ دیکھنا ہے اور اپنے پوتوں اور پوتیوں کا بھی، تم جلدی کرو“۔

”لیکن میں تو خود مرنے کے لئے کونا ڈھونڈ رہا ہوں۔“ میں دل میں سوچتا لیکن سب کو جواب میں کہتا ”ہاں کوشش تو کر رہا ہوں، آپ دُعا کریں، کہیں میرا کام بن جائے۔“

ماں باپ تو دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیتے لیکن لڑکی والے منہ بنا کر چل دیتے اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ انہوں نے میری مستقل بے کاری اور کنگلا پن دیکھ کر منگنی توڑنے کی دھمکی دے دی، گو اس منگنی کی ڈور سے میرا دل بھی بندھا ہوا تھا لیکن اُن دنوں میں اپنے آپ سے اور حالات سے بہت آوازار تھا۔ سَو میں نے جی کڑا کر کے کہہ دیا۔

”جناب! یہ تو بہت اچھی بات ہے اور اچھی بات میں دیر کیسی؟“ پھر سبھی لڑکی والوں نے مجھ پر خوب لعن طعن کی۔ میں چُپ کا چُپ رہا۔

اور ایک روز میری نہ ہونے والی بیوی نے مجھے ایک لفافہ بھیجا۔ میں نے کھولا تو اس میں کچھ چوڑیاں تھیں اور ایک رقعہ بھی اس نے سخت زبان میں لکھا تھا:

”دُر فِٹے مُنھ، کیا تم مرد ہو؟ اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ ریڑھی لے کر پھیریاں ہی لگا لو، اب بھی وقت ہے، یہی کرلو، میں تمہارے ساتھ ہوں، تم سے کچھ بھی نہیں مانگوں گی۔ تم سے دُور، تمہاری چاند“

یہ خط نہ تھا گویا تازیانہ تھا۔ سو میں نے ریڑھی تو نہیں اپنی سائیکل اُٹھائی اور اسی کے ذریعے سپلائی کا کام شروع کر دیا۔ گلیوں، بازاروں میں ہر کریانے کی دکان پر میں حاضری دیتا رہا، کام چل پڑا اور دو وقت کی روٹی ملنے لگی۔ مَیں نے ڈگری تہہ کر کے ایک بکس میں ڈال دی اور ہر موسم کی شدت اپنے اوپر لے لی، میرا رنگ اور رُوپ بگڑ گیا لیکن میرا ”یار یعنی منگیتر“ اب مجھ سے بگڑی ہوئی نہ تھی بلکہ بہت خوش تھی کہ میں نے اس کی بات کی لاج رکھ لی اور اس نے بھی اپنی بات اس طرح نبھائی کہ ہر کڑوی، کسیلی بات کو رَد کر کے میرا ساتھ دیا۔ اور بالآخر ایک دن میرے گھر میں ایک چھوٹی سی محفل سجی اور میرے والدین کی آس مراد والا ”چاند“ میرے گھر میں اُتر آیا، ایک سجی سجائی ڈولی میں بیٹھ کر ”چاند“ کے لبوں پر کوئی شکوہ نہ تھا بلکہ وہ خوش تھی، میرا حوصلہ دوچند ہو گیا۔ میری سائیکل کا پہیہ چلتا رہا، سپلائی کا کام جاری رہا اور دو وقت کی روٹی ملتی رہی۔

ایک روز میں سائیکل پر گھومتے گھماتے شہر سے کچھ دُور چمن کالونی میں جا نکلا، یہ ایک نئی بستی تھی، یہاں بیشتر پلاٹ خالی تھے لیکن تعمیر کا کام زور و شور سے جاری تھا۔ میں نے ایک چھپر ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی اور آنکھیں بند کر کے سستانے لگا۔ اُسی ملنگ بابا کی شکل میرے سامنے آ گئی۔

”شاباش‘  تُو ٹھیک جا رہا ہے بچہ، لیکن اب تو اپنا کام بدل دے، سپلائی کا کام چھوڑ اور ٹھیکیداری شروع کر دے، یہیں، اِسی جگہ، گھبرانا بالکل نہیں، ہمت بڑھا لے۔“ میں نے خیال ہی خیال میں ملنگ بابا کا ہاتھ چوم لیا ”ہاں! ایمانداری پہلی شرط ہے“ میں نے ان کا یہ فرمان دل پر لکھ لیا۔

 

اور چند ہی روز میں مَیں نے اپنا سپلائی والا کام سمیٹ لیا۔ چمن کالونی میں آ گیا۔ ایک ناپختہ سڑک کے کنارے دو کمرے کا ایک ادھورا مکان کرائے پر لے لیا۔ بیٹھک میں کرسی میز لگا کر ایک دفتر کھولا، بورڈ لگایا اور اس پر نام لکھا ”ملنگ کنسٹرکشن آفس“ مجھے جلد ہی دو جڑواں مکانوں کے ٹھیکے مل گئے۔ اللہ کا نام لے کر کام شروع کر دیا۔ مجھے کنسٹرکشن کی الف بے بھی معلوم نہیں تھی۔ سو چند دوستوں نے اچھے فنی مشورے دیئے۔ میں نے ہمت دکھائی اور پھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔

مجھے اچھی ایڈوانس رقم مل گئی تھی۔ گھر کے اخراجات کے علاوہ میں نے اپنے کام سے متعلق کچھ ضروری چیزیں مثلاً سیمنٹ، ریت، بجری، سریا، شٹرنگ کا سامان خرید کر اپنے آفس کے عقبی حصے میں رکھ لیا۔ باعزت کام تھا، لوگ مجھے ٹھیکیدار صاحب کہنے لگے۔ سبھی گھر والے مطمئن ہو گئے تھے، گھر میں دو وقت کی روٹی میسر آ گئی تھی، خوشی کا سماں آ گیا تھا، کبھی کبھی چاند، میری گھر والی موقع پا کر میرے ہاتھ چوم لیتی، ایک مرتبہ میں نے کہا:

”تم ایسا کیوں کرتی ہو، یاد ہے ایک بار تم نے تحریراً مجھ سے پوچھا تھا، کیا تم مرد ہو؟“

”وہ غصے کی بات تھی، لیکن تم نے ثابت کر دیا کہ تم واقعی مرد ہو محنت کش مرد، اسی لئے میں تمہارے ہاتھ چومتی ہوں۔“

میں مُسکرایا: ”یہ سب کچھ تمہارے اسی غصے کی ’برکت‘ ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایک پہنچے ہوئے ملنگ بابا کی مجھ پر خاص نظر کرم ہے۔“

انہی دنوں ایک بڑی خوشی کی بات یہ معلوم ہوئی کہ چار پانچ ماہ سے چاند کا پاؤں بھاری تھا۔ اب اسے گھر کے طویل اور بوجھل کاموں سے بچانے کی ضرورت تھی۔ میں نے محلے کی ایک غریب لڑکی ”نوراں“ کو کام کاج کے لئے ماہانہ تنخواہ پر رکھ لیا، وہ چند ابتدائی جماعتیں پڑھی ہوئی، کافی سمارٹ اور تیز سی لڑکی تھی۔ اس نے فوراً کام شروع کر دیا۔

ایک روز میں اپنے آفس میں بیٹھا ضروری حساب کتاب میں مصروف تھا کہ ایک اجنبی شخص اجازت لے کر اندر آ گیا۔ کچھ منفرد سی شخصیت تھی۔ مندرا قد، گول مٹول چہرہ، گھنگریالے بال، رنگ سانولہ، کنجی آنکھیں، کانوں میں بالیاں، گلے میں سرخ ڈوری والا تعویز، ہونٹوں پر پان کی مستقل لالی، ایک سلگتی سگریٹ مٹھی میں دبائی ہوئی، وہ سلام اور پرسشِ حال کے بعد گویا ہوا!

”مجھے اختر سیاّں کہتے ہیں، یہیں آپ کے پڑوس میں پچھلی گلی چھوڑ کر میرا گھر ہے، اسی گھر میں میرا آفس ہے اور ایک سٹور بھی، کسی بھی چیز کی طلب ہو، موبائل پر رنگ کیجئے، فوراً مال آپ تک پہنچے گا، اعلیٰ سٹینڈرڈ کی گارنٹی کے ساتھ۔“

اس نے اپنا تعارفی کارڈ میرے سامنے میز پر رکھ دیا۔ میں نے کاروباری انداز میں خوشی کا اظہار کیا اور کہا ”اکثر مال کی ضرورت پڑتی رہتی ہے یقیناً آپ سے رابطہ کروں گا۔“ میرے آفس کے سامنے چھپر ہوٹل تھا، لڑکے کو آواز دے کر چائے منگوا لی۔

”آپ کا نام اختر ہے لیکن آپ ”سیاّں“ بھی ہیں، کِس کے سیاّں؟“

وہ ہنس پڑا ”لوگ مجھے سیاّں کے نام سے ہی جانتے ہیں جبکہ اختر نام کاغذوں والا ہے۔“

”آپ یہاں کب سے ہیں؟“

”کوئی تین چار ماہ سے، پہلے میں حسن ابدال میں یہی کام کرتا تھا۔“

وہ چائے کی پیالی لئے اِدھر، اُدھر کی باتیں کرتا رہا، اُسی کی زبانی معلوم ہوا کہ مختلف عمارتی سامان خصوصاً سیمنٹ کی قیمتیں بڑھنے والی ہیں۔ چند منٹ بعد وہ رخصت ہو گیا۔ کافی چرب زبان اور تیز آدمی لگتا تھا جبکہ اس کا حلیہ کاروباری لوگوں جیسا نہ تھا، مجھے وہ کچھ اچھا نہ لگا۔

میں نے چار پیسے خرچ کر کے آفس کی شکل بہتر بنا لی۔ کارپٹ، عام کرسیوں کی جگہ نئے صوفہ سیٹ، نئی آفس ٹیبل، چھوٹا فریج، ریموٹ والا پنکھا، چھوٹا ٹی وی اور لینڈ لائن والا ٹیلیفون، ایک آفس بوائے بھی رکھ لیا۔ دراصل آفس اور اس کا ماحول اچھا ہو تو کاروبار پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔ سو جلد ہی مزید کلائنٹس آنے لگے۔

میرے ٹھیکے والے دونوں مکانوں پر کام کی رفتار ٹھیک جا رہی تھی لیکن اچانک مارکیٹ میں سیمنٹ شارٹ ہو گیا، پہلے کچھ زیادہ داموں پر ملا، پھر غائب ہو گیا۔ اِدھر برسات کا موسم قریب تھا اور میرا دونوں سیٹوں کی ڈبل سٹوریوں پر چھتیں ڈالنے کا پروگرام کھٹائی میں پڑ گیا۔ مختلف معلوم ذرائع سے بھی کچھ نہ ملا، اب کیا کروں؟ مسئلہ الجھ گیا تھا۔

ایک دن میں کافی پریشان بیٹھا تھا کہ اختر سیاّں میرے آفس آ دھمکا، منھ میں پان، ایک مٹھی میں دبی، سلگی ہوئی سگریٹ، کرتے شلوار میں ملبوس، وہی مخصوص انداز، غیر کاروباری سا، خاصا شُہدا پن لئے ہوئے۔

”سیاں جی! آپ بہت دنوں بعد آئے ہو، کہاں تھے؟“میں نے مسکرا کر پوچھا۔

”بس کاروباری مصروفیات، کئی جگہوں پر جانا پڑتا ہے، مال لینا اور مال دینا۔“ اس نے مٹھی میں دبی سگریٹ کا ایک بھرپور کش لگایا۔

”اس کا مطلب ہے کہ آپ کا سپلائی کا کام بہت اچھا جا رہا ہے۔“

”جی اللہ کا شکر ہے، دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے۔ آپ نے آفس بہت اچھا بنا لیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ کام آپ کا بھی ٹھیک جا رہا ہے۔“

”جی اللہ کا کرم ہے، ہاں یاد آیا، آج کل مارکیٹ سے سیمنٹ غائب ہے اور مجھے چھتیں ڈالنے کے لئے اس کی سخت ضرورت ہے۔“

وہ ہنس پڑا ”واہ سیٹھ صاحب، میرے ہوتے ہوئے آپ پریشان، آپ نے رِنگ بھی نہ کیا، کہیے کتنا چاہئے؟“

”یہی کوئی سو توڑے“

”بس؟ میں سمجھا، آپ نے ہزار پانچ سو توڑا لینا ہوگا، آیئے میرے ساتھ“

ہم نے ایک گلی کراس کی تو اس کا مکان آ گیا۔ اس پر ”اختر بلڈنگ مٹیریل سپلائی سٹور“ کا چھوٹا سا بورڈ لگا تھا۔ فرنٹ پر گودام اور پیچھے رہائشی حصہ۔ ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے اس نے اے سی کھول دیا اور بیل بجائی۔ چند سیکنڈ میں ایک نوخیز لڑکی اندر آ گئی، بہت اچھی شکل و صورت، خوب بنی ٹھنی۔

”کچھ چاہئے صاب؟“

”یہ میری ملازمہ ہے، ہمارے ہاں ہی رہتی ہے۔ سلمہ! تم سیٹھ صاحب کی خدمت کرو، مَیں پک اپ میں سیمنٹ کے توڑے رکھواتا ہوں۔“

وہ اُٹھ کر گودام کی طرف چلا گیا۔ لڑکی کولڈ ڈرنک لے آئی، میں نے گلاس خالی کر دیا، وہ مسکرائی۔

”صاب، کچھ اور بھی لیں گے؟“ لہجے سے وہ کسی پہاڑی علاقے کی لگتی تھی۔

”نہیں شکریہ“

اختر سیاّں بل لے آیا، س نے فی توڑا قیمت سو روپے زیادہ کے حساب سے چارج کی تھی، میری توقع سے کہیں بڑھ کر، بہرحال مجبوری تھی، میں نے رقم اس کے حوالے کی اور چلنے کے لئے اُٹھا۔

”سیٹھ جی یہ بھی آپ ہی کا گھر ہے، جب جی چاہے آیئے، کولڈ ڈرنک، چائے، کافی یا کوئی اور ڈرنک“ اس نے آنکھ دبا کر کہا۔ ”جیسا آپ چاہیں گے ویسی ہی خدمت ہوگی، اگر کچھ بھی نہ لینا ہو، آپ کو تھکن زیادہ ہو، تب بھی آ جایئے، یہاں اے سی کی ٹھنڈی ہواؤں میں آرام کیجئے۔“ اس نے عمدہ کاروباری اخلاق ظاہر کیا۔

”بہت بہت شکریہ“۔

”نہیں میں رسماً نہیں حقیقتاً کہہ رہا ہوں۔“ اس نے میرا ہاتھ دبایا۔

”بہتر، میں مال لینے آتا رہوں گا۔ مجھے دونوں مکان جلد مالک کے حوالے کرنے ہیں۔“

مَیں اُٹھ کر چلنے لگا تو وہ بھی گیٹ تک میرے ساتھ چلا آیا۔

”دیکھئے! اِس پڑوسی کو بھولئے گا نہیں، بہت کام کا ہے۔“ اس کے پان والے سرخ ہونٹ پھیل گئے اور اس نے سگریٹ کا لمبا سوٹا لگا کر دُھواں اُگل دیا، شوخی والے انداز میں۔ میں پک اپ میں بیٹھ کر اپنے آفس پہنچ گیا اور مال اتروا لیا۔

گھر میں وائف کی طبیعت خاصی نڈھال تھی۔ اس کی پہلی پریگنینسی تھی، اس لئے بہت احتیاط کی ضرورت تھی۔ کام کرنے والی لڑکی ”نوراں“ پچھلے ماہ سے جانے کیوں غائب ہو چکی تھی، شاید کوئی اسے اچھی جگہ مل گئی ہو، زیادہ تنخواہ والی، بہرحال میں چاند کو اس کے میکے چھوڑ آیا، بہتر دیکھ بھال کے لئے۔

رم جھم کی تال پر برسات کا آبی رقص شروع ہو گیا، ہر سُو پانی ہی پانی۔ میں اس چھما چھم سے پہلے دونوں مکانوں کی ڈبل منزلوں پر چھتیں ڈال چکا تھا اور پھر برسات کے بعد ہونا تھا پلستر اور فنیشنگ اور یوں دونوں مکان ہینڈ اوور کے لئے تیار۔ میری طبیعت میں ایک سکون اور ٹھہراؤ آ گیا تھا اور اب میں ایک دو نئے کنٹریکٹ فائنل کرنے کا سوچنے لگا تھا۔

اس دفعہ برسات کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی، ہر سُو جھل تھل، ہر کام معطل اور جی میں ہل چل، میرا کام رُکا پڑا تھا۔ تاہم میں روٹین کے مطابق اپنی مہران میں ٹائم پر آفس آ گیا تھا۔ رقص باراں دیکھتا رہا، پورا اخبار کھنگال ڈالا اور ٹی وی بھی دیکھا، پھر موبائل پر ایک دو دوستوں سے باتیں کیں، دوپہر کے وقت ٹفن کھولا، چھپر ہوٹل والی چائے پی، آفس بوائے پہنچا ہی نہیں تھا، شام کے چار بج گئے، موبائل پر پہلے چاند کی کال آئی، خوش باش تھی، اس کے بعد اسی خاص الخاص شخصیت سیاّں جی نے موبائل پر مجھے یاد کیا۔

”سیٹھ جی! اس رنگین موسم میں بھی آپ آفس میں بیٹھے دو اور دو چار کرنے میں لگے ہیں“ اس نے قہقہہ لگایا۔

”آپ ہمارے غریب خانے پر تشریف لایئے، چائے کا وقت ہو چکا ہے، یہاں اچھے اچھے مہمان بھی آئے ہوئے ہیں، گیت چل رہے ہیں، آپ کا دل بہلے گا، نہ بہلا تو میرا ذمہ“ ایک اور لمبا قہقہہ۔

میں بھی ویلا بیٹھا، اُباسیاں لے لے کر تنگ آیا ہوا تھا۔ سوچا چلو اس سے مل ہی آؤں، ہے تو وہ عجیب سی بلا …… اپنی مہران میں اس کے گھر پہنچ گیا۔ قدرے اونچی آواز میں ڈیک لگا ہوا تھا۔ سیاّں جی نے خوش دلی سے مجھے ریسیو کیا اور ڈرائنگ روم میں لے گیا۔ میز پر کھانے کے لئے بہت کچھ تھا، پکوڑے، سموسے، کیک، ایک دو سویٹ ڈشیں، چائے، کولڈ ڈرنکس وغیرہ۔

”بس سیٹھ جی شروع ہو جایئے، سوچنا کیا“ اس کے پان زدہ ہونٹ پھیل گئے۔

”صاب جی سلام“ لڑکی کی آواز کچھ مانوس سی لگی، لیکن اسے فوراً نہ پہچان سکا۔ اس نے گھونگھٹ پلٹا، چہرہ بہت میک اَپ زدہ تھا، مگر پہچانا گیا۔

”ارے نوراں تم، یہاں کیسے؟“ میں حیران حیران اُسے دیکھتا رہا۔

”سیاّں جی نے دو ماہ پہلے اخبار میں اشتہار دیا تھا، میں ان سے ملی، انہوں نے فوراً مجھے پرائیویٹ سیکریٹری رکھ لیا، چھ ہزار تنخواہ، کھانا اور پک اینڈ ڈراپ، بس تب سے میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کے کلائنٹس کا دِل بہلاتی ہو۔ دو تین اور لڑکیاں بھی ہیں، بس صاب یہ دو وقت کی روٹی کا چکر ہمیں یہاں لے آیا۔“ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

اُسی وقت سیاّں بھی آ گیا۔ ”ارے آپ ابھی تک ویسے کے ویسے ہی بیٹھے ہیں، نوراں میں تمہیں کچھ کہہ کر گیا تھا؟“

”اسے رہنے دیجئے، اُسے بخار ہے“ میں نے کہا۔

اُس نے بیل بجائی، اُسی سائز اور عمر کی تین لڑکیاں اور آ گئیں۔“  ”پسند کیجئے تینوں پن پیک ہیں“۔ اُس نے شُہدی آنکھ دبائی۔

”مگر سیاّں تم تو کہتے تھے کہ سپلائی کا کام کرتے ہو، مگر یہ سب کچھ کیا ہے؟“ میں نے پوچھا۔

”سیٹھ جی! میں نے غلط تو نہیں کہا تھا، یہ وہی کام ہے، میری دو وقت کی روٹی اسی سے نکلتی ہے۔ بلڈنگ مٹیریل والا تو میرا کور بزنس ہے، وہ سارا مال دوسروں کا ہوتا ہے، کمیشن پر بیچتا ہوں، سو کے پیچھے صرف ڈیڑھ دو روپے، اس سے کیا ہوتا ہے۔ مشکل سے میرے سگریٹ پانی کا خرچ نکلتا ہے۔“

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *