Home » قصہ » حسرت ۔۔۔ کنور شفیق احمد

حسرت ۔۔۔ کنور شفیق احمد

زندگی کیا ہے؟پہلی سانس سے آخری سانس تک یادیں ہی یادیں!۔بس مجھے یاد آیا کہ میں لڑکیوں کے ایک سکول میں پڑھایا کرتی تھی۔ سٹاف میں، میں سب سے چھوٹی عمر کی اور ایک سب سے زیادہ عمر کی تھیں، بوڑھی تو نہیں لیکن بارونق مسکراتے چہرے کے ساتھ اور میں کبھی کبھی شرارتاً انہیں اَمّی کہہ لیا کرتی تھی جس پر وہ مسکرا لیتیں اور کچھ لفظی اظہار نہ کرتی تھیں۔

ایک دن ایسا ہوا کہ میں سکول پہنچی تو وہ پہلے سے موجود تھیں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے ہلکے سے سرہلا دیا۔حالانکہ وہ سلام کا جواب دیا کرتی تھیں۔میں ان کے قریب گئی اور کہا ”اَمیّ جی! آپ کچھ اداس لگ رہی ہیں“۔ وہ تھوڑا سا مسکرائیں اور کہا نہیں تو، اداس کیوں ہونا ہے؟۔ لیکن میں نے ان کی آنکھوں میں نمی تیرتی دیکھی، میں قریب چلی گئی اور ان کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر کہا ”پھر ان غزال غزال آنکھوں میں۔۔۔“ لیکن میرا جملہ مکمل نہ ہوا تھا کہ ان کی آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے اور آنسوؤں کا ایک سیلاب ہچکیوں کے بیج اُمڈ آیا۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔میں نے ان کا سر اپنے سینے سے لگایا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میری ماں رو  رہی ہے۔

کبھی کبھی مائیں بھی اولاد کی گود میں پناہ ڈھونڈتی ہیں جب وہ بالکل ہی ٹوٹ جائیں!۔اور مجھے لگا کہ وہ ٹوٹ گئی ہیں۔لیکن یہ کیفیت چند لمحوں سے زیادہ برقرار نہ رہی۔وہ سنبھل گئیں اور کہا ”ویسے ہی میرا جی بھر آیا تھا۔مجھے اپنے بچوں کی یاد آرہی تھی۔ پھر ”احمد“ سے بھی Skpsپہ بات نہ ہو سکی اور مجھے مایوسی کا دورہ پڑ گیاسوری۔ میں نے تمہیں پریشان کر دیا“۔ میں نے کہا سوری کس بات کی؟۔میں تو آپ کو امی بھی کہہ دیتی ہوں اور آپ نے کبھی برا نہیں منایا!۔ وہ مسکرائیں اور کہا کہ تم بیٹی کی طرح ہی ہو میرے لئے۔ مجھے تو خوشی ہوتی ہے جب تم مجھے امی کہتی ہو۔ کہتی شرارت میں ہو!۔ لیکن اچھی لگتی ہو!میں سوچ میں پڑ گئی کہ پتہ نہیں رب تعالیٰ نے عورت کو نامکمل کیوں بنایا کہ ساری زندگی اپنی تکمیل کی جدوجہد کرتی ہے اور پھر نامکمل ہی قبر میں چلی جاتی ہے۔ میں تو سوچ میں گم تھی اور نہ جانے کب وہ آنسو پونچھ کلاس میں چلی گئیں، بعد میں جب ملاقات ہوئی تو وہ ہشاش بشاش تھیں۔ آنسو تو درد کی دوا ہوتے ہیں آنکھوں میں بہیں تو ٹھیک لیکن دل میں بہیں تو درد کم نہیں کرتے سَوَا کر دیتے ہیں۔

بہت دفعہ وہ مجھے بتا چکی تھیں کہ اس کا خاوند برطانیہ میں تھا، بڑا بیٹا چین میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور چھوٹا بیٹا امریکہ میں اپنے چچا کے پاس تعلیم حاصل کر رہا تھا اور وہ یہاں قطر میں بھائیوں کے پاس رہ رہی تھی۔ دو بھائی اور باپ پاکستان سے یہاں بہ سلسلہ روز گار شفٹ ہوئے تھے۔ آبائی گھر پاکستان میں جہلم کے قریب تھا اور وہاں کی زمینیں گورنمنٹ نے ڈیم بنانے کے تھے لے لیں تھیں گرچہ معقول قیمت ادا کی تھی۔

لیکن زمین نہ رہے تو جڑ کہاں رہتی ہے؟۔ زمین میں جڑ اور بات ہے اور ہوا میں جڑیں کچھ اور بات!۔ میرے ذہن میں ان اوٹ پٹانگ خیالات کی یلغار تھی تو بیل کا دھماکہ ہوا اور میں کلاس کی طرف دوڑی۔ سارا دن کلاس در کلاس میں گزر گیااور چھٹی پر میں گھر آ تو گئی لیکن سوچ در سوچ میں اُلجھتی گئی اور رات کب نیند آئی کچھ خبر نہیں۔

آج دوسرا دن تھا اور میں وہ میں روزانہ مصروفیت کے مطابق جانے لگی تو ماں نے کہا آج ذرا جلدی آجا نا کچھ مہمان آرہے ہیں۔ ”اچھا!“۔میں نے پوچھا کہاں سے اور کون ہیں؟ ماں نے کہا جو کہا اس کا خیال رکھنا، میں نے کوئی زیادہ خیال نہیں کیا اور سکول میں مصروف ہو گئی۔ آج سب کچھ نارمل تھا لیکن پرنسپل نے میٹنگ بلائی اور کچھ نئی ہدایات سے فیض یاب کیا اور دل و دماغ میں کچھ ہلچل آئی۔کچھ زلزلہ اور میرا کیا ہر ایک کا یہی حال کیا تھا۔ میٹنگ ختم تو اطمینان شروع اور گھر کا رخ کیا لیکن گھر پہنچی تو یاد آیا کہ آج تو ماں نے جلد آنے کو کہا تھا، سوچا! ”اب بے عزتی ہووے ہی ہووے“۔ لیکن امی نے گھور کر دیکھااور کہا منہ ہاتھ دھوکر اس اسکول وردی کو صاف ستھرے لباس سے بدل لو، اتنے میں بڑی بہن آگئیں اور مجھے دیکھ کر ہنسیں اور کہا دیکھنے آ رہے ہیں۔ میں نے کہا کون؟۔ ”آئیں گے تو پوچھ لینا کہ آپ لوگ کون ہیں“؟

ماں نے کہا ”جلدی کرو“ اور مجھے جلد از جلد اپنا حلیہ ٹھیک کرنا پڑا اور مجھے میرے کمرے میں ملبوس حالت میں قید کردیا گیا تو ڈرائینگ روم میں کچھ آوازیں سی بلند ہوئیں، دُعا و سلام ہوئی اور بیٹھنے کی آوازیں آئیں اور بات چیت کا احساس سا ہوا اور میں سوچ میں پڑ گئی کہ یہ کوئی نری مصیبت ہے جو نمودار ہوئی ہے۔

اب بڑی بہن آئیں اور مجھے لے کر چل پڑیں اور کہا کہ دھیمے سے سلام کہنااور مجھ میں کپکپی سی ہونے لگی جیسے بخار ہونے کو ہے۔ لیکن بڑی بہن نے کہا کہ تم گھبراؤ نہ تم پر کوئی قاتلانہ حملہ نہیں ہوگا۔ عام حالات میں ممکن ہے میں ہنس پڑتی لیکن یہاں تو قدم رکھنا محال ہورہا تھا۔ آخر میں کمرے میں داخل ہوئی، سلام عرض کیا اور خالی کرسی پر بہن نے بٹھا دیا، میری نظریں نیچی اور دل کی دھڑکن تیز ہوئی تو نظراُٹھاکر دیکھاکہ سامنے تین عورتیں اور ایک مرد بیٹھے تھے۔ مرد کے ساتھ ابو موجود تھے اور خواتین کے برابر میری ماں اور بہن تھے، مجھے لگا جیسے مجھے گھورا جا رہا ہے۔ پھر میری بہن نے سب کے سامنے چائے اور  بسکٹ رکھے اور چائے شروع ہو گئی تو ایک خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ میری تعلیم کیا ہے؟۔میں نے کہا ”بی ایس سی، بی ایڈ“ تو انہوں نے پوچھاآپ سکول میں کس کلاس کو پڑھاتی ہیں؟۔میں نے کہا، پانچویں اور آٹھویں کو تو انہوں نے تنقید کی کہ اتنی چھوٹی کلاسز کو پڑھانے کا کیا فائدہ! میں نے کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

اور میٹنگ ختم ہوئی اور مہمان چلے گئے۔ میں نے شکر ادا کیا کہ مجھے Rejectکر دیا گیا ہے اور میں خوشی سے کھل اُٹھی لیکن میری ماں کو افسوس ہوا اور مجھے خوش دیکھ کر وہ مطمئن سی ہو گئی یہ کھیل کئی بار کھیلا گیا۔میں تکلیف دہ مراحل سے گزرتی رہی اور میری شادی نہیں ہوئی، میری آنکھوں میں کبھی کوئی نمی اور آنسو نہیں آئے۔

وقت گزرتا رہا اور میں سکول کی پرنسپل ہو گئی، میں نے سینکڑوں بچوں کو سنبھالا، علم کی دولت سے سنوارا وہ بڑے ہوئے اچھے مقامات تک پہنچے تو یہ مجھے ملنے آتے رہتے ہیں اور میں اب ہر لحاظ سے خوش ہوں۔لیکن آج مجھے یہ یاد آگیا ہے کہ میری منہ بولی اَمیّ کا لندن کا ویزہ آگیا تو میں اور کئی دوسرے انہیں ایئر پورٹ رُخصت کرنے لگے اور جب جہاز بلند ہوا تو میں نے اس جدائی کو ماں کی جدائی سے بھی زیادہ محسوس کیا تھا۔

وہ لندن ایئر پورٹ میں اُتریں اور باہر آئیں تو ان کے ”احمد“ وہاں موجود تھے، جنہوں نے انہیں اپنے بازوں میں لیا، گلے سے لگایا اور ابھی ایک بوسہ بھی نہ لیا تھا کہ وہ بازوں میں جھوم گئیں آخری سانس لیا اور دُنیا سے رُخصت ہوگئیں۔ آج میں ایک ہی حسرت میں مبتلا ہوں کہ میرے پاس کوئی بھی ایسے بازو نہیں ہیں جن میں جھول کر میں آخری سانس لے سکوں!۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *