Home » شونگال » نئی دنیا

نئی دنیا

پچھلے برس نومبر سے پھیلنے والی کورونا وبا ابھی تک زوروں پہ ہے۔ اس کا غصہ، دہشت اور قہر بالخصوص یورپ اور امریکہ پہ ہے۔ وہاں بیماری اور اموات تصور سے بھی بڑھ کر ہیں۔ چونکہ امریکہ اور یورپ پوری دنیا کو چلا رہے ہیں۔ اس لیے کورونا نے اُن کا گلہ دبا کر دراصل پوری دنیا کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ کپٹلزم تو ہلچل، ریل پیل،اور جگمگ کا نام ہے۔ اور یہ ساری ہلچل،ریل پیل اور جگمگ تقریباً دس ماہ سے مکمل یا جزوی طور پر ٹھپ ہے۔

مگر ساتھ ساتھ تیزی کے ساتھ سنبھلنے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ویکسین کا استعمال چین اور روس میں شروع ہوچکا ہے، کیوبا، آکسفرڈ اور دیگر ممالک اور کمپنیوں کے ویکسین تجربات کے آخری مراحل میں ہیں۔ امید کا چراغ روشن تر ہوگیا۔

ساتھ میں ایک نئی دنیا کی صف بندیاں تیزی سے ہورہی ہیں۔ اپنے اپنے مفادات اور بقا کے لیے تگ ودو جاری ہے۔ پچھلی دنیا کی باتوں اور مسائل سے جان چھڑانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ اور چیزیں نئے سرے سے ترتیب دی جارہی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ابھی پروگریسو قوتوں کی صفیں منتشر ہیں۔ ہر ملک کے الیکشنوں میں قدامت پرست کا مقابلہ پرست ہی سے ہورہا ہے۔ بالخصوص امریکہ میں دونوں صدارتی امیدوار جنگی مجرم، انٹی پیپل اور ماحولیات دشمن ہیں۔ دوسرے ممالک میں بھی بورژوازی بمقابل بورژوازی ہی ہے۔ عوامی قوتیں تاریکی کے انہی دو لوگوں میں سے ایک کی تعریفوں میں لگی ہوئی ہیں۔ اپنی قوت جوموجود نہیں ہے۔

ہمارے خطے میں دنیا کے تین اہم ترین برننگ پوائنٹس موجود ہیں۔ کورونا سے پہلے ہی اُن سے ایک بہت ہی سلوڈوزیج میں نمٹاجارہا تھا۔ اب اُس میں خوب تیزی آرہی ہے۔ وہ تین معاملات ہیں:افغانستان،کشمیر اور فلسطین۔ یہ تینوں سب سے زیادہ پاکستان کے معاشرے کے لیے اہم رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ یہاں سیاسی نہیں بلکہ مذہبی حوالوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ اور لہذا یہ تقریباً تقریباًبنیادی عقائد میں شامل معاملات بن گئے۔

عقائد اور سیاست کو گڈ مڈکر نے کے کام کو ہمارے ہاں بھٹو نکتہِ عروج پر لے گیا تھا۔ اور اس کی کوششوں سے سماج میں مذہبی معاملات اور سیاسی اشوز کو ویلڈ کر کے تقریباًایک کردیا گیاتھا۔ اس نے ایک ہزار سال تک جنگ کرنے اور گھاس کھانے کی بات کر کے کشمیر پہ پنجاب کے جذبات ابھارے۔ اسی طرح اسلامی سربراہی کانفرنس کر کے فلسطین پہ مڈل کلاس کے جذبات اور امنگوں کو بڑھاوا دیا۔اور نصیر اللہ بابر کے ذریعے افغانستان میں بنیاد پرستی کی راہ ہموار کرنے والی پارٹی بھی اُسی کی تھی۔افغان طالبان اور پاکستانی طالبان دراصل سرسید احمد خان سے لے کر بھٹو تک اور وہاں سے ضیااورحمید گل تک مکمل طور پر ایک ریاستی پیداوار تھے۔

اسی طرح بھٹو ہی کے زمانے میں ریاستی سطح پر وطن سے یاری غداری،اور کافری مومنی کے کام کو بڑھاوا دیا گیا۔اسی زمانے میں ریاستی سطح پر نیپ کو غدار قرار دیا گیا اور ریاستی سطح پر کادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا تھا۔

مگر،اب پچیس تیس برس ہونے کو ہیں کہ کپٹلسٹ دنیا کو ہمارے خطوں کے اندر سیاست میں مذہب کو استعمال کرنے کی ضرورت نہ رہی۔ چنانچہ اُس نے اپنے تخلیق کردہ ڈاکٹر ائن کوخود مسمار کرنا شروع کردیا۔

ابتدا افغانستان کے معاملہ سے ہوئی۔ ایک وسیع، طویل مدتی اور نئے ڈیزائن کے مطابق افغانستان میں طالبان کوپاکستان اور سعودی کی پُر زور حمایت سے کُند کردیا گیا۔یہ کتنی بڑی قوت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ صرف پاکستان میں ساٹھ ستر ہزار آدمی مرے۔ بہر حال بالآخرافغانستان اور پاکستان دونوں کے اندر طالبان ”گڈ طالبان“بننے لگے۔ آپ تصور کریں کہ اگر بین الاقوامی سطح کی ایک مکمل منصوبہ بندی نہ ہوتی تو بھلایہ ممکن ہوتا؟۔ یہاں بنیاد پرست مڈل کلاس اور ادارے سب کچھ کی اینٹ سے اینٹ نہ بجادیتے؟۔

کشمیر کے ہندوستان جانے پر پاکستان میں خاموشی کا ایک سال گزر گیا۔کوئی بڑا ردعمل بنیاد پرست عوام اور بنیاد پرست اداروں کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔ یعنی کشمیر  رلیٹڈ بنیاد پرستی ایک سال سے خاموش ہے۔

اسرائیل وفلسطین کے مسئلے نے توسو سالوں سے پوری دنیا کو بے آرام کیے رکھا۔ عقیدے کی بنیاد پر اسرائیل گھڑ لیا گیا تھااور اسے عربوں کے دل میں پیوست کیا گیا۔ اسرائیل تو تھا ہی بنیاد پرست، اس نے زایونسٹ بن کر ردعمل میں پورے مڈل ایسٹ، سنٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا میں ایک ملی ٹنٹ بنیاد پرستی ابھارنے میں اہم رول ادا کیا۔اس اسرائیلی ملی ٹینسی اور اس کے جواب میں ابھرنے والی ملی ٹنسی نے جو جو شکلیں اختیار کیں اور جو جوخون بہائے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔

فلسطین کے مسئلے پر اِن سو سالوں سے عوام الناس بالخصوص بنیاد پرست مڈل کلاس کے اندر تو شدید جذبات اور غصہ ابلتا رہا۔ مگر مڈل ایسٹ میں شاہوں شیخوں کا طبقاتی مفاد اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ عوام میں کوئی جنبش، کوئی تحریک نہ ہو۔ بس سرکاری سطح پر فلسطین کے مسئلے پر لفاظیاں ہی چلتی رہیں۔ چنانچہ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ گذشتہ ایک دو دہائیوں سے مڈل ایسٹ کے سارے کنگ ڈم، شیخ ڈم، امیر ڈم، اور مَلک ڈم اسرائیل سے رابطے میں رہے۔ کبھی کونوں کھدروں میں، درختوں جھونپڑوں کی اوٹ میں، ان کے راز ونیاز جاری رہے،اور کبھی سامنے سامنے۔ پھر پہلے مصر کھل کر اسرائیل سے دوستی میں آیا،اُس کے بعد اردن، اور اب کے یو اے ای نے اسرائیل سے تعلقات قائم کر لیے۔

اچھا یا برا ہوا، کی بحث تو چلتی رہے گی۔مگر ایک بات واضح ہے ان کے اس معاہدے سے پورے خطے کے حالات بدل جائیں گے۔

سب سے بڑھ کر تو یہ ہوگا کہ اب دوسرے شیخ اور شہزادے بھی اوپنلی ایسا کر نے لگیں گے۔72سال کی جھوٹ موٹ کی دشمنی، مگر اندرون ِ خانہ دوستی کے سارے دکھاووں کی ضرورت نہ رہے گی۔فلسطین کا تذکرہ محض”نظرِ بد“ سے بچنے کے لیے ہوتا رہے گا۔باتیں بڑھکیں ہوں گی، نعرے دھمکیاں بھی ہوں گی، اصولی باتوں کی جگالی بھی ہوگی۔ مگر ان ساری باتوں کوکوئی بھی سنجیدہ نہ لے گا۔

دیریا سویر،بحرین،اومان اور کئی افریقی ممالک بھی ایسا ہی کریں گے۔تصور کیجیے کہ مڈل ایسٹ کی صورت کیا ہوگی۔ عربوں کا پیسہ اور اسرائیل کی فوج،عربوں کا رقبہ اور اسرائیل کی ٹکنالوجی مل جائیں تو خطہ تو بدل جائے گا۔اُس پورے علاقے سے امریکی اور دیگر ممالک کی فوجیں بے کار ہوجائیں گی اور اپنے اپنے ملکوں کو واپس جاکر وہاں کے بحران کو شدید کرتی جائیں گی۔

مڈل ایسٹ سے باہر بڑا ملک ترکی تو پہلے ہی اسرائیل سے قریب ترین دوستی میں ہے۔ رہ جاتے ہیں پاکستان اور ایران۔ پاکستان کے ہزاروں لوگ یو اے ای میں مزدوری کرتے ہیں۔ اس لیے ہم اُس کے خلاف نہیں جائیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان چونکہ سعودی کے زیر اثر ہے۔ اور سعودی بھی اسرائیل سے سمجھوتہ کرنے کے حق میں ہے۔اس لیے شاید پاکستان ابھی کچھ عرصہ تک اسرائیل سے معاملات کرنے میں ہچکچانے کا دکھاوا کرے گا۔ مگر حکمرانوں کی طرف سے بہر حال یہ طے ہے کہ یہودو ہنود کے فلسفے کا انہدام شروع ہوچکا ہے۔

افغانستان جلد یا بدیر بورژوا دانشوروں کے الفاظ میں ”مین سٹریم“ بن جائے گا۔

بنیاد پرستی کے لیے لگتا ہے کہ دنیا میں بہت کم محفوظ قلعے رہیں گے۔ ہمارے ہاں روایتی ملا،ملٹری اور فیوڈل الائنس ختم تو شاید نہ ہو۔ اس لیے کہ یہ بہت مضبوط طور پر باہم پیوست ہیں۔ اور بنیاد پرستی ہی اُن کا قدر ِ مشترک ہے۔ لیکن وقت و حالات سے مجبور ہو کر التوائی حربے کر کر کے یہ بالآخر اُسی سمت جائیں گے جس سمت مصر، اردن، یو اے ای گئے ہیں، اور سعودی، بحرین، اور اومان جائیں گے۔

اچھے لوگوں کا کام طعنہ زنی نہیں ہے۔ البتہ انسانی معاملوں میں سیاست کو اولیت ملنے پہ اطمینان تو ہوتا ہے۔ اس لیے کہ پون صدی بعد ہی سہی، بنیاد پرستی اور رجعت کو(بادلِ ناخواستہ ہی سہی)، سٹیٹ لیول پر ترک کیا جارہا ہے۔

ہم جیسے معاشروں کو پتہ ہے کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے انہیں خون اور آگ کی ندیاں پار کرنی پڑیں۔ مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے۔یہ تو ہمارے خطے کے لیے، جیلوں، ٹارچر سیلوں اور پھانسی گھاٹوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے والوں کی آدرشوں کی تکمیل جیسی بات ہوگی۔

مگر عالمی کپٹلسٹ نظام میں یہ آگے کی طرف محض ایک قدم تصور ہوگا۔ بہت بڑے ”ڈومور“ وہاں ہمارے استقبال کے لیے موجود ہیں۔

———————————————

ادارتی نوٹ:۔

قہر ٹوٹا حیات بلوچ کی ماں پہ

 

کراچی یورنیورسٹی کا سٹوڈنٹ حیات بلوچ،فریاد کرتی گڑگڑاتی ماں کے سامنے مین روڈ پر گھسیٹا گیا۔ اور اُس کے بھرپور جواں بدن پہ آٹھ گولیاں ماری گئیں۔ بغیر وکیل وعدالت کے، بغیر گناہ کے، بغیر ثبوت کے۔ اور یہ قیامت عام گلی کے غنڈوں کے ہاتھوں برپانہیں ہوئی بلکہ ترقی یافتہ اور بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھنے والی صدی یعنی اکیسویں صدی کی ریاست کی فوج کے ہاتھوں ہوئی۔ اس قدر سفاکیت، اس قدر فسطائیت!۔

الحفیظ والامان

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *