Home » شیرانی رلی » پو ۔۔۔ سبین علی

پو ۔۔۔ سبین علی

میں گروی رکھی گئی آنکھوں میں

بسا  خواب ہوں

لا محدود سمندر میں تیرتے

جزیروں کا

جہاں مہاجر پرندے گھڑی بھر

بسیرا کرتے ہیں

نیلگوں پانیوں کا

ساحلوں کے کنارے

چمکتی رہت کا

وہ خواب

جو بہہ نکلتا ہے

نمکین قطرے کی صورت

میں وہ آزاد روح ہوں

جو غلام جسموں کے اندر

تڑپتی ہے

بھٹکتی پھرتی ہے

درد سے پھٹتے سر کی

درز سے

نکلنے کو بے تاب ہوتی ہے

میں وہ مہمل صحیفہ ہوں

تہ در تہ لپٹا ہوا

جس کے معنی کی سلطنت

آشکار نہیں ہوتی

مگر کتاب پو کی مانند

روز پھٹتی ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *