Home » قصہ » ہوم ورک ۔۔۔ مصطفی مستور/شائستہ درانی

ہوم ورک ۔۔۔ مصطفی مستور/شائستہ درانی

شروع شروع میں سب کچھ بہت دھیرے دھیرے گذرتا تھا۔ہر کام کی جیسے برسوں کی عمر تھی۔جب اپنا ماتھا پونچھنے کے لئے ہاتھ اٹھاتا یوں لگتا گھنٹوں بیت گئے ہوں۔جب  بیٹھتا سوتادوڑتاتو لمبی شامیں تھیں جو ختم ہی نا ہوتیں تھیں۔  گلیاں کتنی طویل ہوا کرتی تھیں۔اور جب درخت پر چڑھتے تھے تو اتنا اونچا لگتا جیسے آسمان تک جا پہنچا ہو۔اور اماں تو یوں لگتا تھا کہ جب  ہا نڈی چولہے پر چڑ ھایا کرتیں گویا  ہزار سال بیت گئے ہوں۔یا برتن دھوتی اور جھاڑو لگاتی۔ہوم ورک لکھنے بیٹھتا تو کبریٰ کا رٹناسکھانا ختم ہی نا ہوتا۔ سکول کا کام ایسا لگتا تھا کہ سو صفحے ہوں۔لفظ کھنچنے لگتے تھے۔میرے چھوٹے چھوٹے ہاتھ جب ورق پلٹتے یا کاغذ کے کناروں کو صاف کرتے تو جلدی تھک جاتے تھے۔اب ایسا نہیں ہوتا۔میں نے ہزار مرتبہ یہ قصہ سنا تھا لیکن پتہ نہیں جب بھی پڑھتا کلاس میں یا گھر پہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔اکثر میری ماں مجھ سے سخت الفاظ کا املاء کرواتی یا میں خود ہی دس  دس دفعہ مشکل الفاظ لکھتاتب مجھے خواہ مخواہ رونا آجاتا۔اب ایسا نہیں ہوتا۔حسن کہاں غائب ہو؟؟   میں کہتامجھے بھوک لگی ہے۔

جب الیاس کا ابا فوت ہوا تو کتنی افسوسناک خبر تھی جیسے ہزار لوگ مرے ہوں۔ لگتا ہے ان دنوں کوئی مرتا نہیں تھااورصرف الیاس کا ابا فوت ہوا  ہو۔شاید بہت بوڑھا تھا اس لئے۔لیکن اسے مرنا نہیں چائیے تھا۔اور جب اس غلام کمینے نے طوبیٰ کی بے آبروئی کی تھی۔کس قدر نیچ حرکت تھی، لگتا تھا ہزار لڑکیوں کی۔۔۔  خبر نگاروں کے پاس کچھ اور  چھاپنے کو شاید نہیں تھا کہ انہوں نے غلام کی خبر اخبار میں چھاپی اور ہم سب غلا م کی تصویر دیکھنے ایسے اخبار پر جھکے تھے جیسے ہماری  انعامی لاٹری کا نتیجہ نکل آیا ہو۔

میں ماں کے ساتھ مجلس سننے بھی جاتا۔سب عورتیں زور زور سے روتیں۔ اور یہ مجلس  مرزا کے گھر کے صحن میں درختوں کے سائے میں ہوتی۔پھر ذاکر کے ساتھ دوسری مجلس میں جاتے۔میری ماں پہلے سے سنی ہوئی مجلس دوبارہ  سن کر پھر سے روتی۔میں بھی روتا لیکن ماں کی نظریں بچا کر تاکہ وہ مجھے نا دیکھ سکے۔اور میں مجلس کی وجہ سے نہیں روتا تھا بلکہ اپنی ماں کے رونے کی وجہ سے روتا تھا۔

پھر میری بہن فوت ہوئی منیزہ، بچے کی پیدائش پر فوت ہوئی میرا باپ سن کر لڑ کھڑایاتھا ، گرا نہیں صرف لڑکھڑایا تھا، میں نے خود اسے لڑکھڑاتے دیکھا تھا صرف ایک قدم۔لیکن اس نے خود کو سنبھال لیا۔اور گرا نہیں۔لیکن میری ماں گر گئی تھی۔زمین پر گری تھی اور اس کی چادر مٹی سے اٹ گئی تھی۔ ہم شاید سو رہے تھے، میں اور میری بہن مونس۔

مجھے ان دنوں ڈر نہیں لگتا تھا۔کسی چیز سے بھی نہیں۔صرف کتوں سے ڈرتا تھا۔میرے بہت سارے دوست تھے۔میری سائیکل۔میرے بنٹے۔رسول۔سدر کا درخت، عیدی اور مولن روزسینما۔اب مجھے بہت ڈر لگتا ہے بہت زیادہ۔حتیٰ ہوا سے۔بازار سے۔ریڈیو سے۔اپنے جوتوں سے۔گاڑی کے پیچوں اور نٹوں سے۔اپنے دانتوں سے اور سب سے زیادہ اپنے بچوں سے۔موت کی طرح ان سب چیزوں سے ڈرتا ہوں۔

ان دنوں میں بہت ہنستا تھا۔ دل سے ہنستا تھا۔ اب نہیں ہنستا۔ ان دنوں میں سب کی آوازیں اچھی طرح سنتا تھا۔دوسروں کو اچھی طرح دیکھتا تھا اب نا تو سنتا ہوں نا ہی دیکھتا ہوں۔

پھر سب چیزوں میں اچانک  تیزی آگئی۔جیسے ہوائی فائر کر کے دوڑکے مقابلے کے آغازکا اعلان ہو گیا ہو۔ سب نے دوڑنا شروع کردیا۔جو نہیں دوڑتاوہ روند دیا جاتا۔ عباس روند دیا گیا۔رسول بھی اور عیدی بھی۔لگتا ہے کہ زمین تپ رہی ہو ہمارے پاؤں جھلسنے لگے۔کچھ کے پاؤں جیسے جلتے ہی  نہیں تھے۔ہم سردیوں میں جلتے رہے۔گرمیوں میں جلتے رہے لیکن دوڑتے رہے۔اور تیز تر دوڑنا پڑتا۔مناظر برق رفتاری سے گذرتے رہے لیکن کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھاکیونکہ ہم بہت تیز دوڑ رہے تھے۔اور ہمیں خوف تھا کہ کہیں ہم روند نا لئے جائیں۔انہی مناظر میں سے ایک منظر میں ابا فوت ہو گیا۔میں نے نہیں دیکھا۔عیدی بھی مر گیا۔رسول نے مجھے کچھ کہا لیکن میں نے سنا ہی نہیں۔میں نے رسول کی بات پر کان نہیں دھرا۔کسی نے کہا اور تیز چلو۔میں نے اسے دیکھا نہیں بس، اس کی آواز  اچھی طرح سنی۔اس نے کہا اور تیز اور تیز۔رسول نے کہا میری آواز نہیں سن رہے ہو لامذھب؟؟؟ میں نے کہا۔کیا؟  اور رسول بھی لڑھک گیا۔ شاید کسی کنویں میں گر گیا۔پھرماں بھی مر گئی۔لیکن ابھی مونس تھی حالانکہ وہ میرے لئے نہیں تھی شاید وہ بھی مر چکی تھی۔پھر ساری آوازیں محو ہو گئیں۔حتیٰ رؤیا میری بیوی کی آواز حتیٰ میری ماں کی آواز۔پھر میں بھی تھک گیا۔لیکن پھر بھی دوڑتا رہا۔اپنے چاروں طرف دیکھا کوئی بھی نہیں تھا۔صرف ہوا تھی۔۔جو میرے چہرے سے ٹکرا رہی تھی۔میں چیخا۔کسی نے میری چیخ نہیں سنی حتیٰ میں نے خود بھی نہیں سنی۔

اب کبھی کبھار کوئی چیز جیسے کوئی لہر، کوئی سانپ، کوئی کیڑا میرے دماغ میں رینگتا ہے۔جومٹھی بھر الفاظ کے بیچ سے باہر نکلنا چاہتا ہو۔ اب میں تھک چکا ہوں ان لہروں سانپوں اور کیڑوں سے اور ہر دفعہ خود سے کہتا ہوں کہ شاید یہ آخری مرتبہ ہے۔میں انہیں ضحاک کے کاندھوں کے سانپوں کی طرح کاٹتا ہوں لیکن وہ پھرآجاتے ہیں۔ان الفاظ پہ لعنت۔لکھنے پہ لعنت اور اس پر لعنت جس نے پہلی مرتبہ فائر کیا۔یہ تھکا دینے والا میراتھن ختم کیوں نہیں ہوتا؟۔ فنش پوائنٹ کہاں ہے؟؟؟۔میں رکنا چاہتا ہوں۔مجھے رکنا چائیے۔رک جاؤں،ا ورکائنات کی بہترین کتاب اٹھاؤں۔اور مقدس ترین داستان کا انتخاب کروں۔اور کسی کونے میں آرام کروں۔لیکن آرام کہاں ہے؟  کوئی میرا گریبان پکڑ کر کیوں نہیں کہتا کہ نالائق!  رک جاؤ۔کھیل ختم ہو گیا  ہے؟؟  میرا دل چاہتا ہے رک کر اس کتاب کوپھر سے پڑھوں۔اس داستان کو جو تاریخِ بشریت کی بہترین داستان ہے۔ میری اب تک پڑھی جانے والی خوبصورت ترین، انسانی ترین،مقدس ترین، اور با معنی ترین متن ہے۔اور سالوں بعد اسے پڑھ کے دل کھول کے رو سکوں۔جہاں کبریٰ اپنی کتاب ڈھونڈ رہی ہوگی۔درخت کے نیچے کل رات کی بارش سے بھیگی پڑی۔

حسن کہاں کھوگئے؟؟؟ مجھے بھوک لگی ہے۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *