Home » قصہ » وبا ۔۔۔ سمیرا کیانی

وبا ۔۔۔ سمیرا کیانی

”آپی ہم کل سے کام پر نہیں آ  سکیں گی۔بڑی کلاس  ہے  اور پڑھائی  بھی بہت مشکل ہے۔“

”اچھا۔۔۔۔۔“

اس نے حیرت سے کہا۔امید جو نہیں تھی کہ وہ  ایسے جانے کے لئے تیار ہو جائیں گی۔

اصل مسئلہ  تو  یہ تھا  کہ اب وہ کوئی نئی  کام والی کہاں سے اور کیسے ڈھونڈے گی؟چوری  چکاری نہ کرنے والی  اور  صاف ستھری کہاں سے ملے گی؟  یہ  گاؤ ں اس کے لئے نیا تھا ۔وہ بیاہ کر یہاں آئی  تھی۔ ساس کی رکھی ہوئی اور سکھائی ہوئی تھیں۔ اب ساس  نہ رہیں تو انہیں بھی بہانہ مل گیا۔  ایک لمحے کے لئے خیال آ یا  کہ انہیں روک لے۔ اس لئے اس نے کہا

” تمہاری پڑھائی کا خرچ کیسے پورا ہو گا؟.اس دن تم  نہ  صرف تم  اپنے  بلکہ اپنی چھو ٹی بہنوں  کے تعلیمی اخراجات کے لئے  بہت فکر مند تھیں۔ میں نے تم سے ہر طرح کے تعاون کا وعدہ کیا تھا۔جتنی ہو سکے گی تمہاری مدد کروں گی۔پہلے بھی تو تمہیں کتابیں  اور کپڑے وغیرہ دئیے تھے۔ اب بھی جو ہو سکے گا۔ کر وں گی۔“

”آپی سائرہ یہ سب تو ٹھیک ہے  مگر ہماری بھی مجبوری ہے. میں ورچوئل سے بی۔ایس اور چھوٹی  ایف۔اے کر رہی ہے۔

میں ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ سکول میں نوکری بھی کروں گی۔“

”کتنی تنخواہ دیں گے؟“

” پانچ ہزار“

” صرف پانچ ہزار؟“

” جی “

”اتنی تو میں بھی دے سکتی ہوں۔  روز کرایہ لگا کے کسو وال جاؤ گی۔ہزار روپیہ تو کرائے کی نذر ہو جایا کرے گا۔“

پر آپی میرے ابو چاہتے ہیں کہ میں ٹیچر بنوں تو  ہماری مجبوری ہے۔“

”چلو جیسے تمہاری مرضی“

اس نے بے دلی سے انہیں رخصت کیا۔معاون اس کی مجبوری تھی۔گھر کا صحن بہت بڑا تھا۔اسے تو اس میں جھاڑو دینا ہی  عذاب لگتا تھا۔کپڑا مارنا اور کپڑے دھونا بھی  بہت مشکل تھا۔ہفتے میں ایک چھٹی کا دن وہ بھی  ایسے تھکا دینے والے کاموں  میں گزارنااسے  بالکل نا پسند تھا۔ان سارے کاموں کا سوچ کر ہی وہ رنجیدہ ہو گئی۔میاں کا سر کھانے لگی۔

”آپ تو یہاں کے مقامی ہیں کوئی تو ہو گی آ پ کی نظر میں۔“

”ہاں  ہاں  میں کسی سے کہوں  گا ۔“

دو ماہ مشقت اور دقت میں گزارنے کے بعدآخر ایک نسرین نامی خاتون اس کے پاس بھیجی گئی۔

” باجی پتہ وا گل کی آ؟“   ( باجی پتہ ہے بات کیا ہے؟)

” ہاں دس “  (ہاں بتاؤ )

” میں رہنی آں ہن بمار شمار متھوں کم نہیں ہندا  میں کسے ہور نوں کل داں گی۔“(میں رہتی ہوں بیمار شمار میں کسی اور کو بھیج دوں گی۔)

”چل ٹھیک آ پر کسے چنگی جی نوں کلیں۔کوئی چورنی نہ ہوئے۔“  ( چل ٹھیک ہے۔کسی اچھی سی کو بھیجنا۔کوئی چورنی نہ ہو)

اس کے بعد بھی چارماہ جیسے تیسے گزر گئے۔پھر اسے خیال آیا کہ شوہر کے ماموں کے بیٹے کی شادی میں اس نے کام والیاں دیکھی تھیں۔

کیوں نہ انہیں بلا لیا جائے۔اس نے شوہر سے کہا  ”سنیں عثمان کو فون تو کریں کہ وہ اپنے گھر  کام کرنے والی کو بھیج دے۔“

”اچھا کہہ دوں گا۔“

”ہمیشہ کی طرح اب اچھا سے بات نہیں چلے گی۔فون کریں۔“

”کر دوں گا۔صبر تو کرو۔“

انہوں نے فون تو نہ کیا مگر ایک دن ان کے ماموں کا بیٹا عثمان  کسی کام سے خود ہی  اس کے گھر آ گیا۔  اس نے اس سے کہا۔اس وقت تو وہ حامی بھر کے چلا گیا مگر بھیجی اس نے بھی نہیں۔چند دن بعد وہ پھر آیا تو اس کے شوہر نے کہا

”عثمان یار تیری بھر جائی نے تینوں کوئی کم کیا سی؟“  (عثمان یار تیری بھابھی نے تجھے کوئی کام کہا تھا)

”جی بھائی منو ں یاد آ۔ پر او بڑی لالچی جی آ۔آ دے دو  او دے دو۔ جیڑی  بھورا چنگی آ او فون نہیں چکدی۔“

(جی بھائی مجھے یاد ہے مگر جو آتی ہے وہ بڑی لالچی ہے۔کبھی یہ مانگتی ہے کبھی وہ۔ جو اچھی ہے اس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔)

”جھوٹ سراسر جھوٹ ۔وہ بھیجنا ہی نہیں چاہتا۔“

” صحیح کہنی آں بڑی منافق آ دنیا۔“  (ٹھیک کہتی ہو بڑی منافق ہے دنیا)

”اس  گاؤں میں کہنے کو سارے زمیندار ہیں مگر چھوٹے چھوٹے ۔انتہائی غریب  مگر اپنی ذات برادری کے گھمنڈ میں مبتلا۔

منہ پھاڑ کے مدد کے طلب گار بن جاتے ہیں وہ ان کا حق ہے مگر کسی کا کام کرنا انہیں گوارا نہیں۔ ان کی شان گھٹتی ہے۔“

سائرہ نے جھلا کر کہا تو  شوہر بولا

”یہ بات نہیں ہے کچھ کمی عورتیں بھی ہیں  وہ کھیتوں میں مزدوری سے  زیادہ کما لیتی ہیں۔اس لئے گھروں میں کام کی بجائے

اسی کو ترجیح دیتی ہیں۔“اسی طرح کہتے کہلاتے سال  ختم ہونے والا ہو گیا۔پچھلے رمضان میں وہ چھوڑ کے گئی تھیں۔اگلا رمضان آنے میں صرف ایک مہینہ باقی تھا۔

اب  دنیا کورونا جیسی وبا کا شکار ہو گئی۔ پاکستان بھی اس وبا سے محفوظ  نہ رہ سکا۔اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے باقی ملکوں کی طرح لاک ڈاؤن کرنا پڑا۔بازار بند، دفاتر بند، تعلیمی ادارے بند لوکل ٹرانسپورٹ بند۔جو جہاں ہے وہیں  اس کا قرنطینہ ہے۔خود کو بچاؤ۔خود کو بچاؤ۔

زرداروں اور سرکاری ملازموں کو تو اس سے کوئی فرق نہ پڑا مگر  دہاڑی دار غریب طبقہ بھوک  سے بے حال ہو گیا۔

زیادہ محتاط لو گوں نے اپنے گھریلو ملازمین کو بھی چھٹی دے دی۔ سائرہ نے شکر کیا کہ اس  کے گھر تو کام والی پہلے ہی نہیں ہے۔

مگر ابھی لاک ڈاؤن کو  ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کی سابقہ خدمت گزار اس کے گھر آئیں وہ کچن میں بیٹھی ہنڈیا بنا رہی تھی کہ انہوں نے  سلام کے لئے ہاتھ بڑھایا۔اس نے منہ سے جواب دیتے ہوئے کہا

”میرے ہاتھ خراب ہیں تمہارے ہاتھ بھی خراب ہو جائیں گے۔  کہو آج خیر سے آئی ہو۔اس دن تو تم ایسی گئیں کہ پھر نظر ہی نہ آئیں۔“

”آپی! اس کورونے نے تو زندگی حرام کر دی ہے۔“

”تمہاری نوکری کیسی جا رہی ہے؟“

”بند پڑا ہے۔“

”آپی! کیا آپ ہمیں پھر سے کام پر رکھ سکتی ہیں۔“

”میں تمہارے بھائی  سے بات کروں گی۔ پھر جواب دوں گی۔تم ایسا کرو کل آنا۔“

اس  کا دل چاہ تو نہیں رہا تھا مگر یہ سوچ کر کہ چلو وہ بھی اس وقت مجبور ہیں اور ضرورت مجھے بھی ہے  تو  کیا کیا جائے؟ وہ خود فیصلہ نہ کر پائی تو شوہر سے ذکر کیا۔ انہوں نے کہا  ”دیکھ لو جیسے تمہیں مناسب لگتا ہے ویسے کر لو۔“

”میں نے آپ سے مشورہ مانگا ہے۔“

”مشورہ  یہ ہی ہے کہ رکھ لو۔اچھی لڑکیاں ہیں اور اس وقت مشکل میں ہیں۔“

”اچھی تو ہیں مگر  حالات ٹھیک ہوتے ہی پھر چلی جائیں گی۔“

”چلو جتنے دن سکھ سے گزرتے ہیں وہ تو گزار لو۔“

اگلے دن وہ دونوں آئیں تو اس نے انہیں چند احتیاطی تدابیر کا بتاتے ہوئے کام پر آنے کی اجازت دے دی۔انہوں نے ایڈوانس کا مطالبہ کیا اس نے وہ بھی  تین ہزار دے دیا۔

جیسے ہی وہ آتیں تو پہلے  ان کے ہاتھ دھلواتی  پھر دوسری بات کرتی۔ ایک  صبح جھوٹے برتن دھوتے ہوئے انہوں نے حسرت سے پلیٹ میں پڑے سالن کو دیکھا اور پھر  پراٹھوں کے بچے ٹکڑے دیکھے۔  پراٹھوں کے متعلق سائرہ کی ہدایت تھی کہ یہ چھپر پر ڈال دئیے جائیں۔ میرے روز کے مہمان کوے بہت شوق سے کھاتے ہیں۔انہیں دی گئی ہدایت کے مطابق ٹھکانے لگا تے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔جو سائرہ نے دیکھ لیے۔

”کیا بات ہے؟ روز تو تم دونوں بہنیں ہنس ہنس کے کام کرتی ہو مگر آج اداس کیوں ہو اور تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟

کیا ہوا ہے؟ مجھے بتاؤ

”کچھ نہیں، کچھ نہیں وہ ٹال گئیں۔“

کچھ دیر بعد بڑی کہنے لگی ”آپی اس  کورونے نے تو زندگی عذاب کر دی ہے۔بے چارے غریب دہاڑی دار کیا کریں؟کدھر جائیں۔گھروں میں آ ٹا نہیں  ہے۔ روٹی کہاں سے کھائیں۔ آپ لوگوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہم جیسے کیا کریں؟“

وہ انہیں  بچی کھچی کوئی چیز کھانے کو نہ دیتی کہ کہیں ان کی عزت نفس نہ مجروح ہو۔

”پڑھی لکھی سمجھدار لڑکیاں  ہیں۔“ وہ ہمیشہ ان کے بارے میں یہ ہی کہتی مگر اس نے دیکھا کہ ایک صبح وہ اس سے نظر بچا کے  بچا ہوا کھانا کھا رہی تھیں۔

یہ بات اسے سوچ میں ڈال گئی ۔

”میں بھی کتنی نا سمجھ ہوں ، کچھ سمجھ ہی نہ پائی ۔ اس وبا نے بھی انسان کو کتنا لا چار کر دیا ہے۔“

وہ بھی ایک انسان تھی۔  اس لئے کبھی کبھی اسے خیال آتاکیسے  مجھے  مشکل میں چھوڑ کے خود غرض بن کے چلی گئی تھیں۔اس لئے ان پر زیادہ مہربان ہونے کو جی نہ چاہتا مگر اب اس نے فیصلہ کیا

”کل سے تم دونوں ناشتہ یہاں آ کر کیا کرو۔“

اس کے علاوہ  جو بچا  کھانا ہوتا وہ بھی وہ ساتھ تھما دیتی۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *