Home » قصہ » انجیر کی کھڑکی ۔۔۔ عابدہ رحمان

انجیر کی کھڑکی ۔۔۔ عابدہ رحمان

مورت تنگ سی گلی میں چلتے چلتے موڑ مڑ گئی۔ اس گلی میں زیادہ تر خواجہ سراؤں کے گھر تھے۔ گلی کے موڑ پر فردوس گرو جی کا گھر آتا ہے۔بڑی سی بنا پٹ کی کھڑکی سے اس کو جاتے ہوئے افشاں نے آواز دی،’’جمعرات مانگنے جا رہی ہے؟“

”ہاں جمعرات مانگنے جارہی ہوں ……  خدا کے نام پر کشکولِ محبت میں دید کے چند سکے ڈال دے“ مورت نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے مستی میں جواب دیا۔

”پاگل …… رک میں بھی آتی ہوں“۔ افشاں جو کسی کام سے فردوس گُرو کے گھر آئی تھی، وہیں سے مورت کے ساتھ چل دی۔

تنگ سی گلیوں میں دور سے قوالیوں کی آواز آ رہی تھی اور ساتھ ہی اگر بتیوں کی مہک ان کا ساتھ دیتی رہی۔نالی ٹاپتے ہوئے کہیں سے ایک مرغی آکر افشاں کے قدموں سے بچتے ہوئے کٹ کٹ کرتے ہوئے دور جا اڑی۔

”مر جانئے مرنا ہے تو سیدھا سیدھا بول میں ابھی تیری چٹنی بنا دوں“۔افشاں تالی بجاتے ہوئے غصے سے بولی۔ مورت کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

گلی سے نکل کر بازار تک آتے آتے افشاں مورت کی طویل خاموشی سے چونک گئی،رک کر مورت کا چہرہ تکنے لگی، تالی بجا کر کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ”کیا ہوا؟ بوتھا کیوں سُجھایا ہے خیر تو ہے ناں؟‘‘

”کچھ نہیں ……‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’کچھ نہیں تو پھر ٹھیک ہو جا، کاہے کو دل ہولائے دے رہی ہے“۔ افشاں نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔

چلتے چلتے جوں ہی وہ مین روڈ پر نکل آئے،اُس کے بعد جب تک وہ جمعرات کے گھر پورے کرتے رہے، مورت کی حالت بگڑتی چلی گئی اور آخری چند گھر چھوڑ کر ان کو واپس آنا پڑا۔

”افشی‘‘ مورت اپنے لمبے ناخنوں پر نیل پالش لگاتے ہوئی بولی۔

”ہاں بول بھی دے اب ،تجھے آخر ہوکیا جاتا ہے؟ جلدی بتا دے پھر تیار بھی ہونا ہے گرو جی نیچے انتظار کر رہی ہے۔“

”میں جمعرات مانگتے مانگتے تھک گئی ہوں افشی…… لوگوں کی شادیوں میں تماشا …… کسی کا کاکا پیدا ہونے کی خوشی ہو،ہم ناچنے جاتے ہیں، میں اس سب سے تنگ آگئی ہوں“۔ مورت  پر آج پھر دورہ آیا تھا۔ اس نے افشی کا بازو زور سے پکڑتے ہوئے بے چینی سے کہا۔

”تو لیونی ہو گئی ہے مورت۔ ہوش کر خواجہ سرا اور کیا کرے گا رے۔ گرو جی کو خبر ہوئی ناں تو تیری بوٹی بوٹی کردے گی“  افشی حیرانی اور گھبراہٹ سے کلائیوں میں کڑے کھنکھاتے تالی بجاتے تیز تیز چلتے سیڑھیاں اتر گئی۔

مورت باقی خواجہ سراؤں سے بہت مختلف تھی۔ ایک بہت حساس طبیعت اسے سکون لینے نہیں دیتی تھی۔اپنوں کی بے اعتنائی اور اس کی شخصیت کا ادھورا پن اسے بے چین کیے رکھتا تھا۔ وہ خواجہ سراؤں کی طرزِ زندگی مزید گزارنے کو تیار نہیں تھی اور یہی احساس اسے سونے نہیں دیتا تھا۔ گرو جی کی چہیتی چیلی تھی لہٰذا بالآخر وہ گرو جی سے اجازت لینے میں کامیاب ہو کر’دوام تھیٹر‘ کا حصہ بن گئی۔

خواجہ سراؤں کا یہ پرانا سا گھر امام بارگاہ سے قریب تھا۔ جہاں محرم میں سارا دن، رات گئے تک مرثیوں کی آوازیں آتی رہتیں۔ انجیر کا ایک بہت بڑا پرانا پیڑ گھر کے دروازے کے ساتھ ہی تھا جس کی شاخیں دیوار کے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے نازش گُرو کے گھر میں جھانک رہی تھیں۔ انجیر کے درخت کا سایہ آدھی سیڑھیوں پر رہتا تھا۔ بڑے سے کمرے کی کھڑکی جہاں مورت کا پلنگ تھا، درخت کی شاخیں اندر جھانک رہی تھیں۔

کچھ ہی دن ہوئے تھے مورت کو تھیٹر میں کام کرتے ہوئے۔ ایک مختلف سا کام کرتے ہوئے اسے مزہ آنے لگا تھا۔ نازش گرو بھی خوش تھی کہ ایک آمدنی تواتر سے آنے لگی۔ مورت معاشرے کے مختلف کرداروں کا روپ دھار کر سمجھتی تھی کہ جیسے وہ ان لوگوں کے درد بانٹ رہی ہے۔ڈرامہ ختم ہونے پر بھی وہ کئی کئی دن تک اس کردار کے ٹرانس سے نہیں نکل پاتی تھی۔ کردار اس کا پیچھا کرتے رہتے تھے۔

ٌٌٌٌٌ۰۰۰۰۰۰

آخری سین کے بعد پردہ گرا۔ہال روشن ہوا۔ تالیاں گونجنے لگیں۔ وہ سٹیج سے چینج روم میں چلی آئی۔ باہر کافی ٹھنڈ تھی۔ چینج کرنے کے بعد وہ اپنا لمبا سا کوٹ پہن کر نکل آئی۔ تیز تیز گیٹ کی جانب رواں دواں تھی پیچھے سے آواز آئی ”مس ناجیہ“ ۔

وہ رک گئی۔ مڑ کر دیکھا۔ایک نسبتاً فربہ جسامت گہرا سانولا لڑکا ڈرامے کے کردار کے نام سے اسے بلارہا تھا۔

”جی …… میں مورت“۔مورت نے اپنا تعارف کرایا۔

”میرا نام فریدون ہے۔ میں بھی یہاں تھیٹر میں کام کرتا ہوں“  فریدون نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”جی“۔ یہ کہتے ہوئے مورت نے آگے کو قدم بڑھائے۔

گلی کا موڑ مڑتے ہوئے اس نے نہ چاہتے ہوئے مڑ کر دیکھا، لڑکا اب تک وہیں کھڑا اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

۰۰۰۰۰۰

مورت نے کئی بار محسوس کیا کہ فریدون اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن اپنے ادھورے پن کا خیال آتا تواپنی خوش فہمی پر مسکرا کر سر جھٹک دیتی۔اور اسی خیال کو لے کر مورت کبھی فریدون سے بات نہ کر پائی۔

کل شام چھ بجے اس کا ڈرامہ تھا: ”معاشرے کا نا سُور“۔ جس میں پہلی بار فریدون اس کے مدِ مقابل تھا۔ وہ جلدی جلدی تیار ہونے لگی۔ بلو جینز اور سفید کرتا پہن کر اس نے بال باندھے۔گہری سرخ لپ اسٹک لگا کر وہ وقت سے کافی پہلے پہنچ گئی۔ اس نے اپنے کردار کا کاسٹیوم پہنا، میک اپ کیا اور اپنا سکرپٹ لے کر ریہرسل کرنے لگی۔ وہ اب تک دو تین ڈراموں میں کام کر چکی تھی لیکن اس کردار نے اسے پریشان کر کے رکھ دیا تھا۔ جانے کیوں اس سے ہو ہی نہیں پا رہا تھا۔ایک لمبی سانس کھینچ کر وہ سب کچھ پھینک کر باہر نکل آئی۔سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ فریدون خاموشی سے اس کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔ٹھنڈی ٹھڈی ہو اچل رہی تھی۔ مورت سوچوں میں گم چہل قدمی کر رہی تھی۔

” پریشان ہی ہو گئیں مس مورت؟“ فریدون نے آتے ساتھ کہا۔

”جی …… پتہ نہیں کیوں، ہو نہیں پا رہا مجھ سے“۔کہتے کہتے وہ کرسی پر بیٹھ گئی۔

”ہو جاتا ہے ایسا کبھی کبھی کہ کچھ بن نہیں پا رہا ہوتا۔ اس میں پریشانی والی کوئی بات نہیں“۔ اس نے ایک لمحے کو توقف کیا۔”میں دو منٹ بیٹھ سکتا ہوں؟“

”جی جی بیٹھ جائیں“ ۔مورت نے جلدی سے کہا۔

”مورت …… میرا مطلب ہے مس مورت …… آپ ایک فنکار ہیں اور فنکار کیا کرتا ہے؟ اپنی ذات کی نفی…… سمجھی …… خود کو مارو گی تب کہیں جا کر آپ میں سنی کی ماں زندہ ہوگی…… جب تک آپ میں آپ زندہ رہو گی آپ کبھی بھی یہ کیریکٹر نہیں کر پاؤ گی……! سوچو اس بات کو …… سمجھو اس بات کو ……“  فریدون اس کے چہرے کو دیکھنے لگا جو خاموشی سے سن رہی تھی۔

”دیکھو مورت …… ڈرامے میں آپ کا بیٹا جنسی زیادتی کا شکار ہوا ہے۔ اس درد کو تم اپنے اندر اتارو  …… اس درد کو اس غم کو اپنی روح تک لے جاؤ…… ماں بن جاؤ سنی کی……اس …… اس جنسی شکار بچے کی ……“  جذبات سے فریدون کی آواز لرز گئی اور جانے کب وہ آپ کو چھوڑ کر تم پر آگیا۔

”میں کیا کروں؟ میں کیسے کروں؟“ مورت بے بسی سے بولی۔

”سنو  …… قدرت ہمیں جو غم کے ……خوشی کے …… جو Epressions دیتی ہے اس کو پوری طرح Expressکرو…… جب ہنسی کی بات ہنسی آسکتی ہے اور ہم ہنستے ہیں تو رونے کی بات پر روؤ…… غم کی بات پر چیخنا سیکھو …… تمھیں اتنا بڑا غم ملا ہے مورت …… اپنے اندر کی چیخ کو نکالو……اسے اندر مت روکو ……  چیخو چیخو …… ایسا کہ تمھارے دل کا درد چیخ بن کر نکل آئے …… اور سننے والوں کے دل تک سیدھا پہنچ جائے“  فریدون کی گردن کی نسیں پھول گئی تھیں اور وہ لمبی لمبی سانسیں لے کر اٹھ کر تیز تیز واک کرنے لگا۔ مورت کا بدن کانپ رہا تھا۔

کافی دیر تک دونوں بالکل خاموش رہے اور پھر ”چلو دس منٹ رہ گئے“  فریدون نے کہا اور وہ اس کے ساتھ ساتھ ہال کی جانب چل پڑی۔

آخری سین پر ہال تالیوں کے شور میں گونج اٹھا۔ پردہ گرا۔ہر طرف روشنی پھیل گئی۔ مورت ہال کے بیرونی گیٹ پر لوگوں کے جھرمٹ سے دور مسکراتے فریدون کی طرف چلی آئی اور پہلی دفعہ دونوں ساتھ ساتھ گیٹ سے نکل گئے۔

۰۰۰۰۰۰

وقت کی تہیں کھلتی چلی گئیں۔موسم کی شدت میں کمی آئی۔ خفتہ کونپلوں نے پلکیں وا کرتے ہوئے درختوں کی شاخوں کو سجانا شروع کر دیا۔ فضا بہار کی خوشبو میں مہکنے لگی۔مورت محبت کے پھولوں کا امرت رس چُوسنے لگی۔ زندگی دکھوں کی کینچلی اتار کر خوشیوں کی اوڑھنی اوڑھ کر آگے بڑھنے لگی۔

ساحل پر چلتے چلتے وہ بہت دور تک نکل گئے تھے۔ شفق کی سرخی کسی دلہن کے ہونٹوں کی مانند آسمان کے دامن پر پھیل گئی۔ وہ ٹھنڈی ٹھنڈی نم ریت پر بیٹھ گئے۔

”اندھیرا ہو گیا“ مورت نے کہا۔

”نہیں …… کہاں ……! تمھاری آنکھوں کی روشنی ہے ناں ……!“ فریدون نے گردن موڑ کراسے دیکھا۔ مورت خاموش ہو گئی جانے کیوں۔

پھر کہنے لگی، ”فریدون تم جانتے ہو …… میں خواجہ سرا ہوں“ اداس لہجے میں بولتے ہوئے وہ سمندر میں لہروں کی اچھال کو دیکھنے لگی۔

”تمھیں پتہ ہے مورت کہ میں تمھاری طرف کیوں Attract  ہوا؟“ مورت سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔”اس لیے کہ تم Typical  خواجہ سرا نہیں ہو…… وہ خواجہ سرا جو گھنگھرو پہن کر لوگوں کی شادیوں میں ناچتے ہیں یا پھرسڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں ……! تم نے ایک طرح سے اپنی کمیونٹی سے بغاوت کی ہے…… اس معاشرے سے بغاوت کی ہے کہ…… کہ خواجہ سرا بھی دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہوتے ہیں …… کہ زندگی اس طرح بھی گزاری جا سکتی ہے……  جینے کا قرینہ بدلا بھی جا سکتا ہے…… اور باغی لوگ تو میرے دل میں اتر کر میرے دل کے ننگے فرش پر بیٹھ جاتے ہیں مورت“  فریدون مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولتا چلا گیا۔

مورت اسے حیران حیران دیکھ رہی تھی۔ فریدون اٹھا اور ہاتھ اس کی طرف بڑھایا جسے مورت نے جھجکتے ہوئے نے تھام لیا۔

۰۰۰۰۰۰

”جادوگر سیاں ……بیاں …… اب جانے دے رے ے ے“

”اری او مورت! تیری کوٹھڑی سے گئی رات بڑا گانے کی آواز آ رہی تھی،اڑئیے خیر تو ہے ناں ……؟“ اور پھر یہ کہتے ساتھ ہی افشاں تالی بجا تے گلی کا موڑ مڑ کر کھلے دروازے سے اندر آئی اور دھپ دھپ کرتی سیڑھیاں چڑھ گئی۔

مورت ایک لمحے کو افشاں کی بات پر جو خاموش ہو گئی تھی،پھر سے گانے لگی ”جادوگر سیاں …… بیاں“

”افشی کیا تو نے کبھی عشق کیا ہے؟“۔

”ہا ئے مر گئی …… ہم جیسیوں کو بھی عشق ہوتا ہے؟“ افشاں نے تالی بجاتے ہوئے اپنے تازہ شیو کیے ہوئے گال پر شہادت کی انگلی ٹکاتے ہوئے کہا۔

”ارے ے ے ے تونے تو انسان ہونے کے درجے سے بھی گرا دیا…… جادو ہے نشہ ہے…… مدہوشیاں ……!‘‘۔مورت ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے پھر سے گانے لگی۔

”اب تو دو ماہ ہو گئے افشی کہ جب سے میں ایمان لے آئی ہوں ڈاکٹر فریدون پر“  مورت مسکراتے ہوئے افشاں کا چہرہ تکنے لگی۔

”ڈاکٹر فریدون ؟ ارے کون ہے یہ تیرا ڈاکٹر؟  وہ جانتا ہے کہ تُو خواجہ سرا ہے؟“

”اس سے کیا فرق پڑتا ہے…… آہ……عشق توانائی ہے…… طاقت ہے…… ہممم۔میں تو تن من کی سدھ گنوا بیٹھی…… پیا ایسو جیا میں سما گیو رے“ مورت جو کھڑکی میں بیٹھی تھی۔اتر کر ناچتے ہوئے گنگنانے لگی۔

پچھلے پہر کے چاندکی روشنی اندر آرہی تھی۔ گرو اور باقی سب سے دور کھڑکی کے پاس ہی مورت کا بستر تھا۔ مورت نے گریبان میں ہاتھ ڈال کر موبائیل نکالا۔کروٹ بدلتے افشاں کی آنکھوں سے موبائیل کی روشنی ٹکرائی جو اس کے پاس رات رک گئی تھی۔

”تو بات کرتی ہے اپنے ڈاکٹر بابو سے؟“

”اور توکیا نہیں؟وہ تو میری کھڑکی میں روز آتا ہے …… انجیر کی کھڑکی میں …… میر ا چاند……!‘‘

”کیسا ہے اور کہتا کیا ہے؟“ افشاں نے پلکیں موندتے ہوئے پوچھا۔

”تم کبھی صبح سویرے جاگ کر صحن میں گئی ہو افشاں؟ ہم جنھیں محبوب بنائیں …… وہی صبح کی تازگی ہے وہ ……کہتا ہے سچ بتاؤ تم نے آج بھی گڑ کھایا ہے کیا‘‘مورت قہقہہ لگاتے ہوئے گانے لگی۔’’یوں ہی تو نہیں اس کے انگ میں رنگی، میں پیا انگ لگ لگ کے بئی بانوری میں“ جواب سننے سے پہلے ہی افشاں کے خراٹے گونجنے لگے۔ مورت نے اپنے گال کے ڈمپل کو چھوا اور مسکراتے ہوئے چاند کی اَور کروٹ لی۔

مورت جلدی جلدی تیار ہو رہی تھی اور ساتھ ساتھ گا رہی تھی ”جادو ہے نشہ ہے …… مدہوشیاں!“

”تھیٹر جارہی ہے مورت؟‘‘  نازش گرو جو نیچے فردوس گرو جی کے ساتھ بیٹھی تھی، اپنی بھاری آوازمیں پوچھا۔

”ہاں گرو جی آج میرا نیا ڈرامہ ہے، دعا کر بس ہٹ جائے“۔  مورت نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔

”ہاں اور تو پھر اپنی اس نگوڑ ماری کوساتھ گھر لا کے روتی رے۔ ارے خبردار جو اسے گھر کی دہلیز پار کرائی ہو تو“ گرو جی نے ناراض ہو تے ہوئے کہا۔

”تیری قسم جو میں لائی اسے بس، وہیں سٹیج پر ہی چھوڑ آؤں گی“ مورت قہقہہ لگاتے ہوئے بولی۔

”افشی اس نے مجھے ابھی ویڈیو کال کی تھی …… وہ کہتا ہے’مورت مجھے کسی نے نہیں چاہا کبھی…… بس ضرورت تھا سب کی،برس بیت گئے …… میں اپنوں سے دور پرائی فضاؤں میں اپنوں کی خوشبو ڈھونڈتا رہا…… میرے کان اس انتظار میں تھک جاتے کہ میرا فون بجے اور میرے رشتے بے چین ہو کر مجھ سے پوچھیں ……! کہہ رہا تھا میں نے ساری عمر محبت کی بھوک میں گزار دی۔ کوئی میری زندگی میں ایسا نہیں آیا جو مجھے سیراب کرتا …… کسی نے مجھ سے کبھی نہیں پوچھا،فریدون کیسے ہو؟ تمھاری یاد آرہی ہے……کبھی جو ایسا ہو کہ میرے موبائیل کی سکرین چمکے اور میرے باپ میرے بھائی میرے اپنوں کا میسیج آیا ہو …… بیٹا تمھارے لیے بے چین ہوں، کب آؤگے……!‘۔۔۔”افشی پتہ ہے کیا کہ جب وہ یہ بات کرتے دریچے کے اس پار درختوں سے پرندوں کو اڑتا ہو ادیکھ رہا تھا تو جانے کیوں اس کی آنکھوں میں محرومی کی لکیر گہری ہو گئی تھی …… اور ایک لمحے کے لیے تو وہ انہی  پرندوں کے ساتھ کہیں دور آسمانوں میں اڑان اڑنے لگا اور …… اور میں  وہیں اکیلی کھڑی رہ گئی“ مورت خیالوں میں گم اپنے بُندے سے کھیلتے ہوئے انجیر کی کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔”اور افشی اس لمحے وہ پوری طرح میرے دل میں اتر گیا ……ہمیشہ کے لیے……!“ مورت نے گھڑی کی طرف دیکھا اور چیخی ”اف وہ انتظار کر رہا ہوگا“ اور چپل پاؤں میں اڑسی، بیگ اٹھا کے دودود سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے اتر گئی۔

”ہائے ہائے پاگلئے تیرا کیا بنے گا، تو کن چکروں میں پڑ گئی ہے۔ ارے ہم خواجہ سرا ہیں نا کسی کو گھر دے سکیں نہ اولا د۔ سنبھال لے اپنے آپ کو“ افشاں زور سے تالی بجاتے ہوئے چیخی۔

۰۰۰۰۰۰

”ویسے مورت تم بہت کنجوس ہو تصویروں کے معاملے میں“  فریدون نے اس کے قریب بیٹھ کر پیار سے کہا۔

”میں اور کنجوس ……؟ آج صبح تو بھیجی تھی“ مورت آنکھوں میں حیرت لیے بولی۔

”تم صبح ناشتہ کرتی ہو ناں؟“

”ہاں!“

”دوپہر کو کھانا بھی کھاتی ہو؟“  فریدون شرارت سے مسکرایا۔

”ہاں، یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟“

”رات کا کھانا بھی کھاتی ہو؟“

اور مورت نے اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے قہقہہ لگایا جس میں فریدون کا قہقہہ بھی یہ کہتے ہوئے شامل ہو گیا،”جانِ من ہزاروں نہیں کروڑوں بھی بھیجو، تب بھی کم ہیں۔تمھاری تصویریں مجھے مدہوش کر دیتی ہیں“۔

فریدون اس کے مزید قریب ہو گیا۔

”سنو“ مورت نے اسے پکارا۔

”ایک تو یہ جو تمھاری سنو ہے ناں …… تم مست ہو دلبر“  فریدون نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کیے۔

”سنو“  فریدون نے مورت ہی کے انداز میں کہا اور دونوں نے ایک اونچا قہقہہ لگایا۔

”تم اس لکیر کے بارے میں بھی بہت کنجوس ہو“ فریدون نے اس کے بڑے سے گلے میں سے جھانکتی لکیر کو چھوا تو اس کے ماتھے پر پسینہ موتی بن کر چمکنے لگا اور فریدون نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا،”چلی جاؤ ورنہ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔“

کچھ دیر ساحلِ سمندر پر خاموش بیٹھے رہے۔پھر فریدون نے کہا،”میری چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں۔ میں کچھ دن میں واپس کینیڈا چلا جاؤں گا۔“

”چھٹیاں؟ کینیڈا؟“ مورت گھبرا گئی۔

”ہاں میں آرٹ اینڈ کلچر میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔ چھٹیوں پر آیا تھا“ کافی دیر تک خاموشی رہی اور پھر وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ساحل سے نکل گئے۔

۰۰۰۰۰۰

افشی اوپر آئی تو مورت گھنگھرو باندھے ناچ رہی تھی اور افشی اسے حیرت سے دیکھنے لگی ”اری او مورت خیر تو ہے بڑی خوش نظر آرہی ہے؟“۔ مورت نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا اور جواب دیے بنا ڈانس کرتی رہی۔

”ہاں میں بہت خو ش ہوں“ کچھ دیر بعدوہ اس کے سامنے کھڑے ہو کر لہرانے لگی۔”افشی میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے کبھی کوئی چاہے گا لیکن وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے پتہ نہیں مورت جب سے تم سے بات کرنے لگا ہوں مجھے کیا ہو گیا ہے …… درد کی طرح ہے پر درد جیسا بھی نہیں …… مجھ کو خود خبر نہیں کیا ہے یہ……“ مورت کھوئی کھوئی بولی۔ ”ساری رات میں جاگتا رہتا ہوں اب …… جاگنے میں مجھے کیا تکلیف بھلا …… کچھ بھی تو نہیں پراس جاگ میں درد بہت ہے مورت  …… اور افشی۔۔۔“اس نے ایک اونچا قہقہہ لگایا تھا‘ افشاں بس اسے دیکھ کے رہ گئی۔

”یار وہ ایک بات کی تکرار بہت کرتا ہے کہ تو نے مجھے شروع میں کیوں لفٹ نہیں کرائی،جب تم شروع میں تھیٹر آئی تھی۔کل بھی کہہ رہا تھا کہ ’کل تیری تصویر دیکھی تو آنکھوں میں مجھے وہی معصومیت نظر آئی جوپہلے دن سے ہی میرے من کو بے چین کر دیا کرتی تھی…… تب تم نے مجھے نہیں دیکھا مورت …… تم ایک بار دیکھتی تو مجھے دیکھ لیتی……‘’کہتا ہے میں پہلے گھر واپس آکر دو تین گھنٹے کوئی کتاب پڑھ لیا کرتا تھا …… اب نہیں پڑھ سکتا …… یہ مورت مست ہے،میں غرق ہو جاؤں گا اس کی مستی میں“۔ مورت بولتے بولتے جیسے نشے میں جھوم گئی۔

نیچے گرو اور باقی لڑکیوں کی ہنسی مذاق اور قہقہوں کی آوازیں آنے لگیں جو کسی شادی میں تماشا کر کے واپس آئی تھیں۔ ”اری لڑکیوں، کیا حال ہے۔ مورت تیری طبیعت کیسی ہے؟ کسی کوساتھ تو نہیں لے آئی؟“ گرو جی نے تالی بجاتے ہوئے مورت کوچھیڑتے ہوئے کہا اور پھر ساتھ ہی افشاں سے کہا ”چل افشی میرا بچہ اچھی سی چائے تو بنا دے، بڑا ہی تھک گئے“ گرو جی بڑے بڑے جھمکے کانوں سے اتارتے ہوئے بولی۔

”کسی کو تولائی ہو ں ساتھ گرو جی“ مورت زیرِ لب مسکراتے ہوئے  افشاں کے کان کے قریب آکر کہنے لگی اور وہ گھنگھرو اتارتے ہوئے اسے گھورنے لگی۔

۰۰۰۰۰۰

پردہ گرا۔ لوگوں سے کچھا کھچ بھر ے ہال میں اندھیرا ہو چکا تھا۔ تمام روشنیاں بجھ چکی تھیں۔ سپاٹ لائٹ نمودار ہوئی اور سٹیج پر آتے آتے اک نقطے پر آکر رک گئی۔ بینچ پر بیٹھی لڑکی نے آہستہ سے سر اٹھایا۔چہر ے پر آئے بال ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹاتے ہو ئے اک تلخ لہجے میں کہنے لگی، ”کون ہوں میں جانتے ہیں آپ لوگ مجھے؟ میں ستارہ ہوں ا یک بہت بڑ ے سردار کی بیٹی“ …… وہ ایک دم سے اٹھی اور سٹیج کے آخری کنارے پر آکھڑی ہوئی۔ سپاٹ لائٹ اسی تیزی سے اس کے ساتھ گھومتی رہی؛”…… میں …… میں اس کے لیے اپنے باپ کے سامنے ڈٹ گئی…… جو غیر قوم سے شادی کو گناہ کبیرہ سمجھتا تھا…… آں ں ں ں ……“ ستارہ اونچی آواز میں رونے لگی۔ وہ گالوں پر بہہ آنے والے آنسو بازو سے صاف کرنے لگی۔ ”میں نے اس کے لیے اپنا گھر چھوڑا……“ وہ سپاٹ لائٹ میں تیزی سے سٹیج کے دوسرے حصے میں آکر آڈینس کی جانب دیکھ کر چیخی، ”سنا تم لوگوں نے، میں گھر چھوڑ آئی اس کے لیے…… لیکن مجھے کوئی پچھتاوا نہیں تھا …… نہیں تھا پچھتاوا کیونکہ وہ میرے ساتھ تھا“ وہ جا کر خاموشی سے بینچ پر واپس بیٹھ گئی۔ ایک لمحے کو آنکھیں بند کر لیں۔پھر آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اور ہولے ہولے کہنے لگی، ”لیکن اس کی بے وفائی مجھ سے میرا ایمان لے گئی …… رشتوں پر سے میرا اعتقاد اٹھ گیا…… محبت پر اعتبار نہ رہا……!“ ستارہ اٹھی چلتے چلتے سٹج پر سامنے آئی۔ سپاٹ لائٹ میں نقطہ بن کر کھڑی ہوگئی اور زورزور سے روتے ہوئے چیخی، ”عشق میں مشرک ٹھہرا وہ …… اس نے عشق میں شرک کیا ……!  وہ صرف میرا نہ تھا ……! اس کی زندگی میں عورتوں کی ایک لمبی فہرست تھی …… اور میری فہرست اس ایک شخص پر مشتمل تھی ……!  میں نے اس کی پہلی نہیں تو آخری محبت ضرور بننا چاہا تھا“ دردناک چیخ کے ساتھ وہ گھٹوں کے بل گر گئی …… ”اس جیسوں سے تو دنیا بھری پڑی ہے ……!!“  ستارہ نے سر گھٹنوں پر رکھ دیا۔پردہ گر گیا۔

۰۰۰۰۰۰

ڈرامہ ختم ہو اتو مورت بہت مضمحل تھی۔ آنسو اس کی آنکھوں میں بھر بھر آتے تھے اور وہ بار بار انھیں ہتھیلی سے صاف کرتی رہی۔

کپڑے بدل کر جب وہ گھر جانے کے لیے نکلی تو کالے بادل آسمان کا طواف کر رہے تھے۔

فریدون نے پیچھے سے آواز دی ”مورت تم میرے ساتھ چل رہی ہو“  اور وہ رک گئی۔

 

ساحلِ سمندر پر آج رش کافی کم تھا۔ فریدون ریت پر بیٹھ گیا۔

”مجھے تمھارے پاس بیٹھنا ہے …… بالکل پاس  ……!“ مورت نے کہا۔

”آ ؤ، آجاؤ“ فریدون نے مسکراتے ہوئے اپنی بائیں طرف اشارہ کیا۔

”صرف میں،تم، بارش اور تنہائی“ بارش قطرہ قطرہ برسنا شروع ہوئی تو فریدون نے آسمان کو دیکھا اور نم ریت پر لیٹ گیا۔

”آؤاس نے بازو پھیلایا“ مورت نے ایک لمحہ سوچا اور پھر اس کے بازو پرسر رکھ دیا۔ فریدون اس کے بال اس کے کانوں کے پیچھے اڑسنے لگا۔

”تمھاری آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی ان آنکھوں کو اور حسین بنا دیتی ہے“ وہ اس کی آنکھوں پر اپنی انگلی پھیرنے لگا۔مورت کی سانس رک گئی۔ ”اور میری محبت تمھارے لبوں کی سرخی کو“ فریدون اس کے ہونٹوں پر جھک گیا۔ بارش کی چادر نے اس انوکھی داستان کو ڈھانپ لیا۔

۰۰۰۰۰۰

”نا جاؤ سیاں، چھڑا کے بیاں ں ں ں …… قسم خدا کی میں رو پڑوں گی…… میں رو پڑوں گی ……“ مورت سردی کے باوجود کھلی کھڑکی میں اندھیرے میں جانے کس کو روک رہی تھی۔پیچھے سے آہٹ ہوئی تو خاموش ہو گئی۔

”افشی“ کافی دن سے وہ اداس تھی۔گاتے گاتے اچانک مڑ ے بنا اس نے افشاں کو پکارا۔ آنسوگلے میں اٹک رہے تھے۔

”ہاں۔۔۔“ افشاں اس کے پاس آکر رک گئی۔ وہ اس کمیونٹی میں کچھ عرصہ پہلے ہی شامل ہوئی تھی۔ اپنے ہی گھر والوں نے اسے گھر سے نکال دیا تھا کہ ایک خواجہ سرا کو وہ گھر میں نہیں رکھ سکتے تھے۔ اپنوں کے دیے گئے درد کو بٹانے کا کام مورت نے کیا تھا، اس لیے وہ اکثر اس کے پاس آبیٹھتی تھی۔اور یوں ان میں کافی دوستی ہوگئی تھی۔

ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی۔ مورت کچھ بھی کہے بناکھلی کھڑکی میں واپس آکر کھڑی ہو گئی اور بارش کو اپنے اندر اتارنے لگی۔ سحر کسی غم کے قاصد کی طرح ایک دردناک خبر کے ساتھ نمودار ہوئی۔

”تجھے کیا ہو گیا مورت؟ تُو تو سچ میں ستارہ کو اپنے ساتھ ہی اٹھا لائی۔جب سے تو وہ ڈرامہ کر کے آئی ہے تیری حالت ٹھیک نہیں۔ کتنی واری تجھے سمجھایا ہے کہ ادھر ہی سٹیج پر چھوڑ آیا کر توُ اپنی یہ ستارہ ستورہ۔“ افشی غصے سے بولی۔

”وہ چلا گیا کینیڈا افشی ……! میری روح کی ساری توانائیاں سمیٹ کر ……!میری مستی مجھ سے چھین کر“ اداسی نے مورت کا احاطہ کیا ہوا تھا۔

”اس نے جانا ہی تھا۔ تجھے میں سمجھاتی رہی کہ خواجہ سرا سے کون محبت کرتا ہے ……! تیری طبیعت پہلے سے خراب ہے،چل ہٹ مورت، کھڑکی بند کر دے‘‘ افشاں نے اسے وہاں سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،لیکن وہ وہیں جمی رہی۔

”بارش……؟ یہاں کہا ں ہوتی ہے بارش افشاں ……! لگتا ہے …… لگتا ہے کہ میں تو تشنہ لوگوں کے ٹولے سے ہوں …… بارانی علاقہ ہے میری روح …… بارش ہوگی تو تب ہی میں سیراب ہوں گی‘‘ مورت پلنگ کے پاس رکھے جگ سے گلاس بھرکرصدیوں سے پیاسے کی مانند غٹا غٹ پی گئی۔”پیاس کی نوعیت کیسی بھی ہو …… پیاس کا ذائقہ ایک سا ہوتا ہے ……!“

اور پھر مورت نے افشی کو وہ سارا کچھ بتا دیا جس کے بعد وہ مورت نہیں رہی تھی …… زندگی کا ایک ایسا ذائقہ اس نے چکھا کہ جس نے اسے وہ بنا دیا جو وہ کبھی نہیں تھی“ اور افشی دوپٹہ منہ میں ٹھونس کر چیخ کو روکے حیرت اسے دیکھتی رہی۔

”ارے یہ کیا ہوا؟ کب ہوا؟“

”ازل سے …… میری روح ازل سے رقصاں ہے…… صدیاں بیت چکیں اب تو …… تجھے نہیں پتہ چلا افشی؟“ مورت نے حیران ہو کر افشاں کو دیکھا اور پھر خلاؤں میں گھورنے لگی۔ ”یہ فقرہ کتنا تکلیف دہ ہے …… خیال رکھنا پڑتا ہے ناں جی ……! ایسا لگتا ہے افشی …… ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم اپنی زندگی جی نہیں سکتے……!“ وہ خاموش ہوئی۔ ”اسے پتہ نہیں کیوں ہر وقت یہ دھڑکا رہتا ہے کہ میں کچھ غلط کروں گی اور اس کا نام خراب ہوگا……!!‘‘ مورت کے منہ سے ایک سسکی نکلی۔افشاں گھبرا گئی۔

”عشق اگر بیماری ہے جس میں تیری جیسی حالت ہو جاتی ہے تو میں توبھئی ڈرنے لگی اس سے‘‘۔ افشاں اس کی عجیب عجیب باتوں پر حیران ہوتے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔

”لیکن میرا دکھ یہ نہیں ہے افشی…… میرا غم یہ نہیں ہے کہ یہ سب کیوں ہوا ……! دکھ تو یہ ہے کہ وہ ایک دم بہت بدل گیا ہے افشی۔ وہ تو بالکل وہ نہیں رہا۔ وہ مجھے جواب تک اتنے دن سے نہیں د ے رہا تھا۔ اس نے فون کرنا چھوڑدیاافشی…… اور پھر اتنے ڈھیروں دن بعد اس نے مجھے میسیجز کیے …… کیا ایسا بھی ہوتا ہے افشی؟ کہ محبت کرنے والا محبت سے ہی اکتانے لگے؟ عشق تو ایک عجیب سی پھانس ہے افشی …… جو اگر ایک بار دل میں چُبھ جائے تو ساری تکلیف کے باوجود وہ پھانس نکالنے کو من نہیں کرتا…… اک میٹھی سی عجیب سی تکلیف ہے اس میں۔ کیسے بندہ اپنے ہی دل کی نفی کرنے لگتا ہے؟ کیسے؟“

”رے بتا موا کہہ کیا رہا تھا؟ ایک تو تُو باتیں بڑی مشکل مشکل کرتی ہے“ فشی نے جلدی سے پوچھا۔

”جانے کتنی محرومیاں اس کے اندر ٹوٹتی رہیں افشی …… اور اس ٹوٹ کی آواز اس کے لہجے میں در آئی تھی، اس طرح افشی کہ وہ ایک دم سے مجھے اجنبی لگنے لگا۔ ان سارے رشتوں سارے لوگوں کی خود غرضی، ان کی بے اعتنائی کا بدلہ مجھ سے لینے لگا۔ مجھے ان سب کی لائن میں کھڑا کر دیا۔ وہ ایک دم سے بدل گیا۔ کہنے لگا محبت کیا ہوتی ہے میں نہیں جانتا…… مجھے محبت کرنا ہی نہیں آتی…… میں محبت کو نہیں مانتا…… سب کو غرض ہے بس  …… محبت کسی کو نہیں …… کوئی کہتا ہے مجھے پیسے دو، کوئی کہتا ہے مجھے ٹائم دو …… کسی نے اپنے بچے کو اچھے کالج میں داخلہ دلانا ہو تو میں یاد آجاتا ہوں …… شادی کرنی ہو تو فریدون کی یاد تڑپاتی ہے …… تمھیں تھوڑی دیر جواب نا دوں تو تم لکھتی ہو کیا ہوا؟ میں آخر کس کس کو ٹائم دوں …… کس کس کو پیسے دوں ……؟؟! کیا میری اپنی کوئی زندگی نہیں ……؟بس غرض ہے……! کوئی محبت نہیں ……مجھے محبت میں اپنا آپ قیدی لگتا ہے …… پابند لگتا ہے!‘‘۔

”تم خواجہ سرا ہو مورت …… کیا ہو سکتا تھا ……!“ افشاں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ سے کہا۔

”اور وہ؟ وہ خواجہ سرا نہیں تھا؟ احساسات کا خواجہ سرا؟ ہاں اور نہیں کے بیچ کا خواجہ سرا…… انکار اور اقرار میں معلق…… اپنی ذات میں کنفیوز خواجہ سرا…… کہ جسے میں کہا کرتی تھی ’مورت کی کتابِ محبت کے ہرباب میں تمھارے لیے ایک بک مارک رکھا ہے۔ جگہ جگہ تمھیں محبت کے، عشق کے ٹکڑے ملیں گے…… سمیٹتے جاؤ …… ان میں سے کوئی ٹکڑا گمنے نہ پائے ورنہ مورت ادھوری رہ جائے گی۔ پتہ ہے کیا کہا تھا اس نے؟ ’بے فکر رہو یہ ٹکڑے مجھے جان سے پیارے ہیں‘‘ مورت کھڑکی میں کھڑے ہو کر بارش میں بھیگتی رہی۔

اس نے خود کو اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لے کر زور زور سے دبانا شروع کر دیا …… پورے کمرے میں تیزتیز چلتے ہوئے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگایا۔ لمبا کش لے کر جیسے وہ سارا درد دھویں میں نکال دینا چاہتی تھی اور افشاں اسے بے بسی سے دیکھتی رہی۔

”سچ بتا دے مورت کس درد کی ہُوک نکل رہی ہے تیرے دل سے۔ بتا دے کس بات نے تیرا دل دکھایا ہے؟“ افشاں ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعداپنے ہونٹوں پر انگلی پھیر کر سرخی برابر کرتے ہوئے پوچھنے لگی۔

”فشی وہ عجیب عجیب باتیں کرنے لگا۔ کہہ رہا تھا کہ تمھیں شروع میں مجھ سے محبت کیوں نہیں ہوئی تھی، اب کیوں ہوئی؟۔اس وقت جب ہم ساتھ تھے، جب ساتھ کام کرتے تھے۔اب اتنی دور سے کیوں محبت ہو گئی؟ مجھے بتاؤ افشی میں اس کو اس کا کیا جواب دوں؟ تمھیں پتہ ہے افشی اس نے مجھے آخری دفعہ کیا کہا  …… اس نے کہا …… محبت میری غلطی تھی …… یا شاید غلط فہمی …… مجھے تم سے محبت نہیں ہے!  اور تمھیں بھی مجھ سے محبت نہیں ……۔ لفظوں کی حرمت کا بھی پاس نہیں کیا افشی ……  بس یوں ہی پھینک دیے ہوا میں  ……وہ تو کہا کرتا تھا…… ساہ مورت میرے لیے کافی ہے۔ بس وہی میرا نشہ ہے …… مجھے کسی اور نشے کی چاہ نہیں‘‘  مورت کی آنکھیں صبر کے جام سے بھر چکی تھیں۔ ”افشی میں کیسے بتاؤں اس کو کہ مجھے تو خود اس کی محبت میں اپنے ہونے کا احساس جاگ اٹھا تھا …… میں جو اچھوت ہوں …… جسے اپنا ہی خاندان قبول کرنے سے انکار کرتا ہے …… جس کا جنازہ پڑھتے ہوئے بھی لوگ گھبرا تے ہیں ……!  جسے ڈاکٹر بھی چھونا نہیں چاہتے ……! افشی جس طرح شاہ دُولے کے دربار پر چڑھاوا چڑھتا ہے ناں، ہم جیسوں کا چڑھاوا یہاں چڑھتا ہے……میں کیسے اس کو بتاؤں افشی ……  اس کی محبت میں پہلی بار زندگی میں، میں خو د کو لوگوں کی نظر بندی سے…… گندی نظر کی ……  میں خود کو آزاد محسوس کرنے لگی تھی“۔

دھول مٹی اڑنا شروع ہو گئے۔ جانے کیا کیا کچھ گرد و غبار کے ساتھ آسمان کی اَور اڑ اڑ کر واپس زمین کی طرف آتے رہے۔کمرے کی کھڑکی کے پٹ زور زور سے بجنے لگے۔ اندر اندھیرا چھا گیا۔

”میرا قصور بتا دیتا ……! دل کے تار چھیڑ دیے بس …… روشنی کی کرن تھا ……  جانے کہاں کھو گیا وہ دھارا  ……! افشی! میں ایک دم سے کس قدر سستی ہو گئی…… بالکل پھٹے پرانے ان بے وقعت کاغذوں کی طرح…… جن کی کوئی منزل نہیں ……! مورت بے وقعت ہو گئی!!“

دھول مٹی اڑتی رہی، مورت اس کا حصہ بنتی رہی!!۔

”نا جاؤ سیاں چھڑا کے بیاں ں ں ں …… قسم خدا کے میں رو پڑوں گی۔۔۔۔“

اورآنسو مورت کے گالوں پر بہتے چلے گئے!۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *