Home » قصہ » اپنا دادا بھی ایک کردار ہوتا ہے ۔۔۔ نبیلہ کیانی

اپنا دادا بھی ایک کردار ہوتا ہے ۔۔۔ نبیلہ کیانی

دینہ سٹیشن کے قریب ہی ہمارے ایک میزبان چچا کا گھر تھا۔ گاؤں کہ جس کا نام گڈاری ہے جاتے ہوئے میں اور ابی ان کے پاس چند دن کے لئے ٹھہرے تھے۔ شام کا وقت ابی کو گھر میں پابند نہیں رکھ سکتا تھا۔ ان کے لئے شام کا وقت تھا سسر کے لئے، دوستوں سے ملنے کے لئے اور کسی رشتہ دار کے گھر جانے کے لئے۔ شاید ابی کی نسل نے شام کو شاندار اور پُر لطف بنانے کا سلیقہ سیکھ لیا تھا۔ ہم تک آتے آتے شام اپنے ساتھ خوف و ہراس لے آئی۔ ادھر مغرب کی اذان ہوئی، چڑیاں گھونسلوں میں جانے سے پہلے اس دن کے لئے الوداعی ترانہ گانے لگیں، ادھر ماں نے ہم پر گھر سے باہر نکلنے کی پابندی لگا دی۔ اگر ہم میں سے کوئی مغرب کے بعد گھر آیا تو ساتھ اپنی شامت بھی لایا۔

شام ہوئی اور ابی نے اپنی چھڑی پکڑی، ساتھ مجھے لیا اور دینہ ریلوے سٹیشن چل پڑے۔ ابی کو اس اسٹیشن سے بہت محبت تھی۔انہیں اس اسٹیشن پر اپنے بہت سے رشتہ دار یاد آتے جو انہیں لاہور حصول تعلیم کے لئے اسی سٹیشن پر الوداع کہنے آئے تھے۔ اس سٹیشن کی طرف آتی ہوئی گاڑی کی کوک پہلے سنائی دیتی تھی اور گاڑی اپنے پورے طمطراق سے بعد میں اسٹیشن پر نمودار ہوتی اور جانے والی گاڑی جونہی چلتی ساتھ ہی کہیں غروب ہو جاتی۔ شاید سٹیشن کی کوئی ڈھلوان ایسی تھی۔

دوران سیر و گفتگو میں اپنے آپ کو ماضی میں رکھ کر دیکھتے۔ شاید دینہ سٹیشن پر ٹہلتے ہوئے اپنے ماضی کی طرف سفر کر جاتے۔ اپنی ناکامیاں، اپنی ذہنی ترقی، معاشرے کی پس ماندگی ان کی گفتگو کے موضوعات تھے۔ ابی چاہتے تھے کہ لوگ جلد از جلد اپنی ذہنی پس ماندگی سے نکل کر سوچ کی نئی عادتیں اپنائیں، نئے رویے بنائیں اور زندگی کو نئے علم کی روشنی میں جئیں۔ ابی کے ذہن میں انسان کا ایک ہی تصور تھا اور وہ تھا جستجو کے لئے ہمہ وقت پُر عزم انسان۔ جب وہ یہ باتیں کر رہے ہوتے تو میں سوچتی کہ جو گاؤں جی ٹی روڈ سے سترہ میل دور پہاڑوں کی آغوش میں صدیوں سے ایک ہی ڈھنگ میں جی رہا ہے، اس گاؤں میں ابی کا پیدا ہونا فطرت کا عجیب اور انوکھا تجربہ تھا۔ ابی ایک ایسا ذہن تھے جو اپنی ساخت میں ہی اپنے ارد گرد کے سماجی ماحول کے بارے میں ایک تنقیدی رویہ رکھتا تھا اور سب اچھا کہہ کر اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں سرگراں نہیں رہا۔

ابی کی نسل اور ان کے نمائندہ دانشور بھی سوچ کے نئی ڈھنگ کی نشوونما اور نئے انسان کی حوصلہ افزائی میں مصروف تھے۔ نئے انسان کی تخلیق کی کوشش اور تصور نے کتنے انسانوں کی زندگی کا ڈھنگ بدل دیا تھا۔ علم کا حصول نئے انسان کے تصور تک پہنچنے کا وسیلہ تھا۔ ابی کے خیال میں علم ان خیالات کا مجموعہ ہے جو تبدیل کر دینے کی طاقت رکھتے ہیں جو انسان کے ذہن میں سوچ کی نئی ترتیب بنا سکتے ہیں۔ چنانچہ جب سے میں نے آنکھیں کھولی تھیں ان کی یہی تلقین تھی کہ علم حاصل کرو۔ ہر روز کوئی نیا خیال سوچو۔ کسی نئے خیال کے بارے میں پڑھو اور باقی سب خرافات ہے۔ خرافات ان کا پسندیدہ لفظ تھا جو وہ عام طور پر پس ماندہ رویوں  اور خیالات کے لئے استعمال کرتے تھے۔ ابی کے خیال میں صرف علم ہی ہے جو اس نظام فنا میں ایک ہمیشگی ہے۔ اس لئے اسی سے تعلق رکھنا ضروری ہے۔

دینہ سٹیشن پر دوران سیر ایک شام انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں سے منگلا ڈیم جاتے ہوئے یہی کوئی پانچ چھ میل کے فاصلے پر دریا کے کنارے ایک گاؤں ہے، پنڈ وڑی جہاں میرے دادا جان نے اپنا گھر بنایا ہے اور وہاں سب سے دُور اس میں رہتے ہیں۔

میں نے جب سے آنکھیں کھولی تھیں اپنے دادا جان کو نہیں دیکھا تھا۔ سنا تھا کہ وہ زندہ ہیں، مجذوب ہیں، گھر بار مدّتوں سے ترک کر چکے ہیں اور اپنی زندگی میں مست و مگن ہیں۔ کبھی کبھی خاندان کی شادی بیاہ یا کسی مرگ پر اکٹھ ہوتا تو ان کا ذکر ضرور سننے کو ملتا۔ ان کے جملے کو ٹیشن کی طرح پیش کئے جاتے، کبھی ہنسنے کے لئے اور کبھی ان کی گہرائی پر سر دھننے کے لئے۔

ابی  نے جب یہ بتایا کہ ہم دادا سے ملنے ان کے پاس جا رہے ہیں تو میں بہت خوش ہوئی، کیونکہ میری خوشی میں تجس بھی شامل تھا اور تجسس خوشی کا اہم جزو ہے۔ اگلے دن ہم دینہ سے روانہ ہو کر خوبصورت گاؤں پنڈوری پہنچے۔ سڑک کی ایک طرف دریائے جہلم اپنی مست شان و تمکنت سے بہہ رہا تھا اور دوسری طرف یہ گاؤں تھا جہاں میں اور ابی آن پہنچے تھے۔ انگلش حرف ایل کی طرح ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ ایک بڑی سی چٹان اس کی ایک دیوار تھی اور باقی ہر سُو کھلا تھا۔ ایک طرف کنواں تھا، ایک طرف صحن میں کمرے کے باہر دو، دو فٹ کی دیواریں بنا کر ایک رسوئی سی بنی ہوئی تھی۔ چولہوں کے ارد گرد دیواریں اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ ہوا کی تیزی سے چولہے میں جلتی آگ محفوظ رہے اور رسوئی اتنی بڑی بھی ہو کہ چوکی رکھ کر دو تین لوگ بیٹھ کر یہاں کھانا بھی کھا سکیں۔ خاص طور پر مغرب کے وقت کا کھانا۔

ایک بڑا سا پیپل کا درخت اس سارے گھر کو اپنے مہربان سائے کے آغوش میں لئے لہلہا رہا تھا۔ مجھے اس چھوٹے سے گھر کا آنگن بہت ہی خوبصورت مناظر سے بھرپور پینٹنگ کی طرح لگا۔ کنواں،پیپل کا درخت، رسوئی سے اُٹھتا دُھواں، ایک چٹان کی محفوظ فصیل۔

اس گھر کے چھوٹے چھوٹے پانچ کمرے تھے۔ ایک کمرہ میرے دادا جان کا تھا۔ جب میری پہلی نظر دادا جان پر پڑی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے سامنے کسی کا سایہ کھڑا ہے۔ چھ فٹ قد، دُبلے پتلے، پاؤں سے ننگے، تہبند اور کرتا پہنے ہمیں ملنے کے لئے آگے بڑھے۔ ان کی آنکھیں میرے چہرے پر پڑیں اور ساتھ ہی مجھ سے ماورا ہو گئیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ صرف مجھے نہیں دیکھ رہے بلکہ اس ارد گرد کے مانوس ماحول میں مجھے رکھ کر دیکھ رہے ہیں۔ ان کی نگاہ ایک آرٹسٹ کی نگاہ محسوس ہوئی جو contextمیں دیکھتی ہے۔ یہ یقینا ایک دادا جان کی نظر نہیں تھی جو پہلی دفعہ اپنی پوتی کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ مجھے یوں لگا میں ایک ایسے انسان سے مل رہی ہوں جس نے زندگی میں روایت سے کٹھن لڑائیاں لڑ کر اپنے آپ کو بطور انسان زندہ رکھا۔ اپنے پر محنت کی اور اپنی شخصیت کو نکھارا، دریافت کیا۔ ان کی ساری توجہ اور لگن اپنے پر ہی مرکوز تھی اور وہ ایک شاندار اور حسین انسان تھے۔

میرے لئے یہ تجربہ اس لئے غیر معمولی تھا کہ وہ دادا ہو کر مجھے دادا نہیں لگے۔ وہ مجھے ایسے نہ لگے جیسا میں اپنے دیگر بزرگوں کے تجربے سے ایک تشکیل شدہ توقع لے کر آئی تھی۔ وہ میرے دادا سے زیادہ ایک فن پارہ تھے جن کو سمجھنے کے لئے میری آنکھیں اور ذہانت کو اپنی بھرپور قوت کا استعمال کرنا پا۔

میں ان کے کمرے کو چاروں طرف سے دیکھ رہی تھی اور یک دم مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھے جائزہ لیتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور پھر مجھے آواز آئی۔

”تم نے کبھی حافظ شیرازی کو پڑھا ہے؟“  ”جی تھوڑا تھوڑا۔“ ”کوئی شعر سناؤ“ وہ بولے۔ میں نے ابی کی طرف یکھا۔ چونکہ ابی کا خیال تھا کہ میں شعر پڑھتے ہوئے شعر کی موسیقیت کا خیال نہیں رکھتی۔

فاش  میگوئیم  و  از  گفتہ  دل  شادم

بندہ  عشقم  و  از  دو   جہاں  آزادم

میں نے شعر کیا پڑھا کہ میرے دادا جان پررقت طاری ہو گئی۔ وہ حافظ شیرازی کا کوئی اور شعر بہت ہی خوبصورت آواز میں گانے لگے۔ ساتھ ہی آواز دے کر کسی اقبال کو بلایا۔ اقبال کے آنے پر اسے ہارمونیم، طبلہ نواز کو بھی لانے کو کہا۔

محفلِ موسیقی سج گئی۔ میرے دادا جان کے چہرے پر ایک فنکار کے چہرے کے نور کا ہالہ تھا۔ وہ حافظ کوگا بھی رہے تھے اور کبھی کبھی طبلے کی تھاپ پر نرت کی مدرائیں بھی دکھا رہے تھے۔ ایسے خوبصورت بھاؤ بتا رہے تھے کہ مجھے پہلی دفعہ سمجھ آئی کہ رقص کسے کہتے ہیں۔ وہ منجھے ہوئے رقاص اور گلوکار تھے۔ حافظ شیرازی ان کی روح میں رچے بسے تھے۔

دادا جان کی دنیا میرے لئے کسی اور سیارہ پر بسنے والے کی دنیا تھی۔ کچھ دیر بعد مجھے دو نئی باتوں کا علم ہوا۔ ایک یہ کہ ابی دادا جان کو جب بھی مخاطب کرتے، خواجہ صاحب کہتے۔ دوسری یہ کہ دونوں لڑکے جو ہارمونیم اور طبلہ بجا رہے تھے انہیں خواجہ صاحب نے اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی۔ ان لڑکوں کو ان کی موسیقی سے محبت کی وجہ سے گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ بیسویں صدی کے پاکستان میں ہو رہا تھا۔ وہ دن بھر مزدوری کرتے اپنے کھانے کے لئے پیسے کماتے اور رات رقص اور موسیقی کے لئے تھی۔

میں خواجہ صاحب کے گھر یوں بیٹھی تھی جیسے ”ایلس اِن ونڈر لینڈ“۔یہ ایک ایسے انسان کا گھر تھا جو زندگی اپنے ضمیر کے مطابق گزار رہا تھا۔ میرے لئے حیرت انگیز اور حیرت کدہ تھا یہ گھر۔

میں اور میری ہم قدم نسل جس ماحول میں پل کر بڑے ہوئے تھے وہاں رقص و موسیقی موجود تو تھا لیکن بہت ہی گھٹیا معیار کا۔ ڈکٹیٹر شپ فن اور فن کار کو ختم تو نہیں کر سکتی لیکن اسے گھٹیا اور بازاری بنا دیتی  ہے۔

ہم نے جب بھی بڑے فن کا تجربہ اور تجزیہ کرنا چاہا اپنے بزرگوں کی نسل سے ہی تربیت ذوق پائی۔ جہاں ماردھاڑ، قتل و غارت اور ہر خوبصورتی کو فنا کر دینے والی جن طاقتوں کو بے لگام کردیا گیا تھا وہاں ہمارے دادا اور باپ ایک تربیت یافتہ ذوق کے نمائندہ تھے، حالانکہ یہ آزادیئ وطن سے پہلے پیدا ہونے والے لوگ تھے۔ یہ لوگ فن کو آزاد اور باضمیر سوچ اور نقطہئ نظر کو پناہ دینے والے جزیرے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ ایک حسین جوان عورت دروازے میں آکھڑی ہوئی۔ ہم پر محبت آمیز نظر ڈالی اور پوچھا۔

”کھانا لے آؤں۔“

اس آواز، اس سرخ رونے یک دم میرے سارے حواسِ خمسہ بیدار کر دئیے۔ مجھے یوں محسوس ہو کہ میرے پانچوں حواس اپنی اپنی جگہ حسن کا تجربہ کر رہے ہیں۔ کان آواز کے حسن میں کھوئے ہیں، آنکھیں رنگ اور خدوخال کے حیرت کدہ میں گھوم رہی ہیں، سونگھنے کے لئے تمکنت سے بہتے دریا کے ارد گرد نباتات کی مہک سے لے کرکھانے کی خوشبو تک کا ایک سلسلہ تھا اور ”کھانا لے آؤں“ کی آواز نے مجھے وہ سارے کھانے یاد دلائے دئیے جو میں کھا چکی تھی اور جو میں نے کھانے بھی ہیں۔ میں ذائقے کے تنوع کے حسن میں کھو گئی۔

مجھے اپنے دادا کے چھوٹے سے گھر میں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے حسن اور نور کی ایک پھوار پڑ رہی ہے جس میں مَیں شرابور ہوئی جا رہی ہوں۔

کھانا آگیا۔ خاتون حسین تو تھی ہی، سلیقہ شعار بھی بہت تھی۔ اس کے جانے کے بعد ابی کے سوال پر دادا جان نے بتایا کہ ”سرحد کے کسی گاؤں سے بھاگ کر یہ نوجوان حسین جوڑا بس قریب ہی بھٹک رہا تھا۔ میں سیر کے لئے دریا کی طرف جا رہا تھا۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو سب کچھ سمجھ گیا۔ مجھے بہت خوف محسوس ہوا کہ یہ حسین نوجوان اپنے نازک خوبصورت جذبوں سمیت کسی بے حِس اژدر کا نوالہ نہ بن جائیں۔ میرے پاس ایک کمرہ خالی پڑا تھا، میں نے ان کو دے دیا۔ اب نوجوان صبح مزدوری پر چلا جاتا ہے اور یہ گھر گرہستی سنبھالتی ہے، مجھے بھی کھانا بنا دیتی ہے۔“

ابی یہ سن کر سخت پریشان ہوئے۔”یہ آپ نے کیا کیا؟ یہ پولیس کیس ہے۔ وغیرہ“۔ ابی نے اپنے اندیشے کا اظہار کیا۔

میرے دادا کو پولیس سے کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ عمر کے اس حصے میں تھے جب انسان اپنی قدریں دریافت کر چکا ہوتا ہے اور جہاں فیصلے ہر قسم کے خوف سے آزاد ہو کر کئے جاتے ہیں۔ کھانا ہو چکا تو ہم نے ان سے اجازت چاہی۔ چلتے ہوئے مجھے ایک دو قریبی عزیزوں کو جن کی وجہئ شہرت گول مال تھا، کے گھر جانے سے ان الفاظ سے منع کیا ”ان کے گھر کسی صاحب بصیرت کو نہیں جانا چاہئے“۔

”یہ ہر مسئلے کے بارے میں کتنی شفاف رائے رکھتے ہیں اور کتنے شفاف الفاظ میں اظہار کرتے ہیں۔“ میں نے ان سے رُخصت ہوتے ہوئے سوچا۔ ہم پنڈوری سے دینہ واپس آئے تو شام ہو رہی تھی۔ ابی نے چھڑی اُٹھائی اور ہم حسبِ معمول دینہ کے ریلوے سٹیشن پر سیر کر رہے تھے۔

ابی مجھ سے میرے دادا کے بارے میں میری رائے جاننا چاہتے تھے اور میں صرف یہی کہہ سکی کہ آج اس شعور سے ملاقات ہوئی جو شاید ہر زمانے میں Achieveable idealہو سکتا ہے۔ شاید وہ برصغیر کے اس ضمیر و شعور کے نمائندہ ہیں جو عشق اور اپنی اقدار پر کی گئی بغاوت کی حمایت کرتا ہے اور باغیوں کو پناہ بھی دیتا ہے۔

ابی میرا یہ جملہ سن کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے”تمہارے دادا نے rejectکیا  ہر اس ادارے ہر اس انسان کو جو طاقت کی علامت بن گیا۔ اپنی تھوڑی سی زرعی زمین میں سے چند  ایکڑ اپنے بھائی کو دے دئیے کہ اس کا کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا باقی چند ایکڑ اور ایک گھر ہمیں دے کر تیاگ لے لیا۔ فوج سے استعفیٰ دے دیا۔ اپنی تھوڑی سی پنشن میں گزارا کرتے ہیں۔ عہدہ، جائیداد سب طاقت کے منبعے ہیں اور تمہارے دادا میں طاقت سے محبت بالکل ہی نہیں ہے۔

اور میں سکتے کے عالم میں یہ سب سن رہی تھی کہ میں نے جس ملک اور معاشرے میں آنکھیں کھولی ہیں وہاں ہر امیر و غریب طاقت کی محبت اور لالچ میں مبتلا ہے اور طاقت ہی کی زبان بولنے کی کوشش کرتا ہے او ر اسی معاشرے میں دریائے جہلم کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں پندوری بھی ہے۔ جہاں میرے دادا بھی ہیں اور ان کا گھر بھی۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *