Home » شونگال » کرونا، اور اس کے بعد کی دنیا

کرونا، اور اس کے بعد کی دنیا

           عالمِ انسان ایک بہت بڑے بحران میں سے گزررہاہے۔ کورونا نامی  وائرس  نے بڑے پیمانے پر بیماری اور موت پھیلا رکھی ہے۔یہ ہولناک دشمن نہ رنگ دیکھتا ہے، نہ نسل میں فرق کرتا ہے اور نہ کسی خاص زبان وعقیدہ رکھنے والے کو نشانہ بناتا ہے۔ یہ انسان کے بنائے ہوئے سارے ”جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں“ کو ملیامیٹ کرتا ہوا انسان ذات کو تباہ کرتا جارہا ہے۔ اس کا نہ کوئی علاج موجود ہے اور نہ ہر جگہ اس کا ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔ بار بار ہاتھ دھونے، جمگھٹے میں نہ جانے، معانقہ وہاتھ ملانے سے گریزکرنے،گھر میں ہی رہنے، اور سراسیمگی سے بچنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سمجھیے ”تیسری عالمی جنگ“ہے۔

          ایک فرد، قوم اور ملک کی طرح کسی معاشی سماجی نظام کی اصلیت بھی اُس وقت دیکھی جاسکتی ہے جب اُس پہ کوئی آفت اور آزمائش آتی ہے۔

          خوفناک کورونا وائرس نے عالمی کپٹلزم کو اسی طرح کی آزمائش میں بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ ابھی حال تک معمولی سی نسلی،لسانی، یا عقیدوی اختلافات پرزور آور انسان کمزور انسان کو قتل کرتا پھرتا تھا۔ انسانوں کاوہی قاتل اب اپنے اس ہیڈکوارٹرکو اُس کے تقدس اور برتریوں کے ساتھ ترک کر گیا۔ جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔اب روحانی پیشوامیڈیکل سٹوروں میں جراثیم کش ادویات ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ مگر جراثیم کش ادویات کوتوکپٹلزم نے ذخیرہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح اب وہ اپنے مخصوص برتری والے لباس و چوغہ کے بجائے اپنے نورانی کردہ چہرے پہ ماسک ونقاب چڑھانے دوڑا۔ مگر اب پیسوں پہ بھی ماسک نہیں ملتا۔یہ اب بلیک میں دس بیس گنا زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہا ہے۔

          کپٹل ازم کی ساری ترقیاں،جدیدیاں، اورآزادیاں بے بس ہوگئیں۔ سب بی بی سیاں، سی این اینیں، ساری شہری آزادیاں، بنیادی انسانی حقوق، اور دیگر خالی خولی جملے دوہراتے سارے نشریاتی ادارے منہ چھپائے شرمسار آئیں بائیں شائیں میں ہیں۔ ساری منافع خوریاں، سونے چاندی کی سوداگریاں، عقائد،ذخیرہ اندوزیاں، اخلاقیات، اجارہ داریاں،سُپرپاوریاں،دوستیاں دشمنیاں، منڈیاں،تیل کے کنوئیں، سٹاک ایکسچیج  اور پھنے خانیاں خوف کے جبڑوں  میں تھر تھر کانپ رہی ہیں۔

          دنیا کے سارے بڑے مذاہب کے ہیڈ کوارٹر بند ہوگئے، علم گاہیں تالہ کی نذرہوگئیں، شیطانی اور حکمرانی کے دفاتر بندہوگئے، پارک، سینماہاؤس، اور کلب ویران ہوگئے۔ سوگ کا عالم ہے کلیساؤں،مندروں، گردواروں، خانقاہوں، مزاروں پہ۔کھیل کے میدان سنسان، سیاسی جلسے اور شادی ہا ل مقفل۔اور یہ محض خوف وہرس کے بیوپاریوں کی کارستانیاں نہیں، یہ سب کچھ باقاعدہ سائنس کے احکامات کے تحت ہورہا ہے۔

          یک دم ہزاروں سالوں سے قائم واہمے اور عقیدے ہوا ہو گئے۔اور کورونا کے وائرس، اُس کی عادات  وخصوصیات اور اُسے روکنے کے طریقوں کے لیے سائنس کی طرف دیکھا جانے لگا۔ دنیا کا ہر”پیرخانہ“ مقفل ہوگیا۔ دعا،دوامانگتی پھرتی ہے۔ سائنس مظلوم کی آہ، بے دل دنیا کا دل، بے روح حالات کی روح، اور اتاہ ناامیدی کی امید بن چکی ہے۔ بارود نہیں میڈیسن، اور ”بم نہیں ڈاکٹر“کا نعرہ دلوں کو چُھوچکا ہے۔ اِس عالمی وبا کے ہاتھوں اخلاقیات تک کو سائنس کے تابع کردیا گیا۔ اور سائنس نے حکم دیا ہے کہ وائرس نے تو تبدیل نہیں ہونا، ”تم“ بدل جاؤ۔اوریکدم بدل جاؤ۔ ایسا بدلو کہ تمہاراسارا اٹھنا بیٹھنا وائرس کی خصلتوں عادتوں  اور پسندیدگیوں کے الٹ ہو۔ ایسا انتظام کروکہ وائرس تم تک پہنچے ہی نہ۔ اُس دشمن کے لیے اپنے بدن کو میزبان نہ بننے دو۔ بس اسی طریقے سے غصے سے بپھرے برق رفتار وائرس کے پھیلاؤ سے بچا جاسکتا ہے۔چنانچہ وائرس کی پسندیدگیوں کو دیکھ کر سائنس کی طرف سے حکم ہوا کہ ہاتھ ملاؤ مت، ہاتھ دھوتے رہو۔

          یوں صدیوں بعد اب انسانی سماجی اجتماع، یک دوسرے سے میل جول، اورنشست وبرخاست کے فیصلے سائنس کو دیے گئے ہیں۔ سیاست، معیشت اور سوشالوجی سب کچھ اُس ہنگامی حالت کے تابع ہوگیا جو محض ایک وائرس کی پتھالوجی نے مسلط کردی ہے۔اب تک کے سارے قومی، کلاسیکی، مذہبی اور روایتی رواجی گیت خواہ کتنے ہی گداز کیوں نہ ہوں،ترک کر دیے گئے ہیں۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ ماوشماسب سائنس کی امامت کے پیچھے چل پڑے ہیں۔

          ثابت ہواکہ جو بھی اس کی سیٹی پہ اٹنشن نہ ہوا برباد ہوا۔

          وبا ختم ہونے کے بعد کوئی آپ سے پوچھے کہ کرونا نے انسانیت کو کیا دیا، تو کہہ دیجیے ”اس نے ہمیں سائنس پہ اعتماد“ دے دیا۔ پہلی بار سائنس پہ اعتماد نہ کرنے پر اکسانے والے مورکھ اپنے مورچوں سے بھاگنے پہ مجبور ہوئے۔

           ہمارے سامنے ایک بہت بڑا انسانی اخلاقی ڈرامہ سج رہا ہے۔ پچھلے سارے وبائی امراض کے زمانے میں سائنس اور انسانی شعور دونوں آج کی سطح سے کم بلند تھے۔ مگر وہاں بھی ”ڈاکٹرز  ودِآؤٹ  بارڈرز ”تخلیق ہوئے جنہوں نے اپنے کیریئرز،اپنے گھر بار، اور  اپنی زندگیاں کمزوروں یعنی بیماروں پہ واردی تھیں۔ آج کے اخلاقی معرکے میں تو اب تک چین اور کیوبا ہی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ چین اور کیوبا کے ڈاکٹراپنے تربیت یافتہ عملے، مشینوں اور انٹرفیران انجکشنوں کے ساتھ اٹلی اور دیگر نیم درجن متاثرہ ممالک میں پہنچ گئے۔600مسافروں سے بھراہوا ایک برطانوی کروز شپ سمندر میں ہیجانی صورت میں ممالک کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا تاکہ اُسے ختم ہوتے پانی روٹی کے لیے ساحل سے لگنے کی اجازت ملے۔ ہر ملک نے دھتکار کر انکار کردیا، اس لیے کہ اس شپ میں کورونا کے پانچ مریض تھے۔ کیوبا نے انسانیت کا معاملہ قرار دیکر اُسے اپنا ساحل پیش کردیا۔کیوبائی حکومت کا بیان:”یہ آپس میں یک جہتی کی گھڑی ہے۔ صحت کو ایک انسانی حق کے بطور سمجھنے کی گھڑی ہے، ہمارے مشترک چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو لاگو کرنے کی گھڑی ہے، اُن اقدار کی دوبارہ بحالی کی گھڑی ہے جو ہمارے عوام اور انقلاب کے انسانیت دوست عمل کا ورثہ ہیں“۔۔۔۔۔

          ابھی ایسی بہت سی اچھی کہانیاں جنم لیں گی، ابھی بہت سی انفرادی اور اجتماعی مقدس کہانیاں معرضِ وجود میں آکر انسانوں کو ملتی جائیں گی۔ایک پورا نیا ادب سامنے آنے والا ہے۔

          پہلی بار بڑے پیمانے پر پتہ چلا کہ انسانی نسل میں کوئی گروہ بھی الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ کوئی بلندی، اب جزیرہ نہیں رہ سکتی۔ کشتی ڈوبے گی تو بھی سانجھی ہوگی، اور اگر پار لگے گی تو بھی ساری انسانیت پار لگے گی۔اب کوئی ٹرمپ منہ ٹیڑھا کر کے ”گاڈبلیس امیر یکا“ نہیں بولے گا، اب انسان ذات کی سلامتی ہر لیڈر کا نعرہ ہوگا۔ وبا سے ایک گروہ کے زد میں آنے کااحتمال رہ جانے کا مطلب پوری انسانیت کے زد میں آنے کا احتمال ہے۔ اب سماج کے کسی بھی حلقے،طبقے،اور خطے کے زد میں آنے کے احتمال کو ”ناگزیر“ سمجھنا ترک کرنا ہوگا۔ انسان بہر حال بطور نوع،ایک ہے۔ اسے یونٹس میں بانٹنا اور بانٹے رکھنا پوری بیٹری کو ڈبو دینا ہے۔ کورونا نے یہی بتادیا۔کورونا ایک لحاظ سے، مائنڈ سیٹ بدلنے کے لیے آیا ہے۔ مائنڈسیٹ کی یہ تبدیلی کتنی سست یا سبک  رفتار ہوگی، کہا نہیں جاسکتا۔ مائنڈسیٹ کو بہر حال بدلنا ہے۔  ایک ایسا چیلنج جو سب کو درپیش ہے۔ ایک ایسا چیلنج جو دوسرے چیلنجوں سے ملا ہوا ہے۔ ایک ایسا چیلنج جس سے نمٹنا ہوگا۔

             ہم نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں دنیا کو بدلتے دیکھا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کپٹلسٹ نظام کے دائرہ کو توڑنے کا باعث بنی، دنیا میں اولین سوشلسٹ ملک کا قیام ہواتھا۔ دوسری عالمی جنگ نے نوآبادیاتی نظام کوتہہ وبالا کردیا اور ایشیا افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بے شمار ملک آزاد ہوئے۔ہم اس تیسری عالمی جنگ جیسے بحران کے بعد بھی دنیا کو تبدیل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔حالیہ تیسری عالمی جنگ محض ہیلتھ بحران نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک بہت بڑا معاشی بحران ہے۔ سماجی بحران ہے، ماحولیاتی بحران ہے، اور یہ حتمی طور پر ایک دیر پا سیاسی بحران ہے۔

          سیاسی میدان تیز رفتاری سے بدل رہا ہے۔کئی کپٹلسٹ حکومتوں نے پہلے ہی ہیلتھ سیکٹر کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ حکومت ہی نے ٹرانسپورٹ، ہوٹل انڈسٹری، ٹوراِزم،اور تعلیمی ادارے بند کردیے ہیں۔ مطلب پرائیویٹ سیکٹر حتمی طور پر حکومت کے حکم میں آگیاہے۔ دو چار ماہ تک سمجھیے”نجی“ اور ”پرائیویٹ“ والی بادشاہی ختم ہوگئی۔ ریاست کو پرائیویٹ پہ بالادستی حاصل ہوگئی۔

          انسان کے لیے یہ ایک مشکل گھڑی ہے۔ زندگی سے جڑنے کی گھڑی ہے۔ یہ زندگی کی حفاظت اور وائرس کی شکست کی جنگ ہے۔ ایسی جنگ جو سراسیمگی سے نہیں بلکہ بہت سکون سے، اعتماد سے اور ڈسپلن سے لڑی جائے۔ سوائے سائنسی احکامات کی بجا آوری کے، سوائے  ایک دوسرے کی جان بچانے کی فکر کے، سوائے محبت کے،  اور سوائے فتح پاکر وقار ِ انساں کی بحالی کی جدوجہد کے، کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

           کورونا کے کائنات ہلا ڈالنے والے جھٹکوں نے نظام کی فرسودگی پہلے ہی واضح کردی۔ آئی ایم ایفی قرضوں کی ادائیگی میں دیوالیہ پن دراصل پورے کپٹلزم کا دیوالیہ پن ہے۔ دنیا کا موجودہ معاشی اور سیاسی انتظام اب پیروں پہ کھڑا نہیں ہوسک رہا۔۔ کورونا وائرس وبا تو کپٹلزم کے اونٹ کو گرادینے والے بوجھ کا آخری تنکا ثابت ہوگا۔ کورونا وہی آخری تنکا ہے۔ کپٹلزم کے اختتام کی شروعات کی گرداب کا بھنور ہے کورونا۔ کپٹلزم پہ ایک گہرا بحران واجب تھا۔انسانیت کو آگے کی طرف ایک جمپ لگانے کے حالات پک چکے تھے۔ وائرس نے اس  کام کو تیز کرنا ہے۔ زندہ بچ جانے والے محنت کش انسانوں کی  دنیا  کورونا سے پہلی والی دنیانہ ہوگی۔

          یہ طوفان، یہ وبا انسانیت کے ہر شعبے کو متاثر کرے گا۔ پتہ ہے کہ یہ وبا سارے انسانوں کو نہیں مارے گا۔ محض متاثرہ دو فیصد انسان مر جائیں گے۔ باقی زندہ رہیں گے۔ مگر وہ باقی زندہ لوگ اب ایک مختلف دنیا میں زندہ رہیں گے۔ آج کے فوری اور مختصر عرصے کے لیے اٹھائے ہنگامی اقدامات، ہنگامی نہ رہیں گے۔ یہ شاید زندگی بھر ساتھ رہیں گے۔ پتہ چلا کہ انسان کو خطرات اب ہنگامی نوعیت کے ہی ہوں گے۔ اسی لیے ہنگامی صورتحال اب انسان کی زندگی کا حصہ رہیں گے۔ موسمیاتی ہنگامی صورتحال، صحت کے ہنگامی صورتحال، یا، معاشی ہنگامی صورتحال، انسان کو اب ہنگامی صورتحال کا اندازہ لگانے، اس کی پیش بندی کرنے اور اس نے نمٹنے پہ زور لگانا ہوگا۔اب انفارمیشن ٹکنالوجی کی آمدورفت گھروں کے بیڈروموں میں سوئے انسان اور فیصلہ ساز عالمی مرکز کے بیچ بلاروک ٹوک جاری ہوگی۔ سمارٹ فون صرف ٹمپریچر، نبض اور بلڈپریشر ہی نوٹ نہیں کرے گا، جسم کی بیماری میں اعضا کی تصویریں ہی نہیں بھیجے گا بلکہ وبا کی دوری نزدیکی کے لوکیشن بھی بتادے گا۔ وبا اور ناگمان، سمجھوبین الاقوامی ٹیررسٹ ہے۔ اس کی لوکیشن اور بچاؤ سے ہر بشر آگاہ رہے گا۔ناول، شاعری، کلچر،  مزاح، پیر، گدی، ملا، ٹکنالوجی، غلامی، آئی ایم ایف، اقوام متحدہ،تجارت، پاسپورٹ، ایوی ایشن، سپورٹس،رویے، اقدار،اور روزمرہ معمولات، الغرض ہر انسانی چیز متاثر ہوگی۔ اور طویل المدت طور پر متا ثر ہوگی۔ایسے سیاسی دھماکے ہوں گے جو سماجی اور معاشی دھماکوں کے ساتھ سُرتال ملائیں گے۔۔۔اور اہل حشم کے سراِن دھماکوں کے میدان ہوں گے۔ فاسل فیول انڈسٹری کے مالک رجعتی کھرب پتیوں اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے اتحاد نے دنیا میں جوفاشسٹ حکمرانی قائم کر رکھی ہے، وہ تو ڈھے ہی جائے گی۔سب سلیکٹڈ ون یونٹی بت انسانی آزادیوں میں غرق کیے جائیں گے۔

          عالمی وبائیں انسانیت کو بڑے معاملات پر سوچنے پہ مجبور کرتی ہیں۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ وباانسان کوسماجی اور سیاسی معاملات کو از سرِ نو دیکھنے پہ اکسا ئے گی۔نئی دنیا روز گار دیے بغیر قائم نہیں ہوسکتی۔ اجرتیں بڑھانی ہونگی۔ معیارِ زندگی بلند کرنا ہوگا۔ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم دینا ہوگا، ہاؤسنگ مہیا کرنی ہوگی۔ صحت کی سہولیات بہت وسیع کرنی ہونگی، تعلیم اعلیٰ سطح تک مفت کرنی ہوگی۔ جنگ کو جرم قراردینا ہوگا۔ قبضہ گیری کے خلاف زیرو ٹالرنس دکھانی ہوگی۔ ماحولیات وموسم سے دوستانہ رہ کر انسانی بہبود کی مطابقت پیدا کرنی ہوگی۔

          اور یہ سب کچھ تیز رفتاری سے کرنا ہوگا۔ کورنا سے بھی سبک رفتار۔

          اس وبا کا ” ترقی یافتہ“  کپٹلسٹ دنیا میں پھیل جانا بالخصوص تیز رفتار تبدیلیوں کا باعث ہوگا۔اس لیے کہ وہ دنیا بہت بڑی قربا نیوں کے بعد موجود ہ سائنسی اور ٹکنالوجیکل سطح تک پہنچ پائی ہے۔ چنانچہ وہ دنیا اپنی حاصلات سے بے حد پیار کرتی ہے۔ اُسے پہلی بار احساس ہوا کہ یہ حاصلات اب بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کو ناکافی ہیں۔ مغربی دنیا اس میں خامیاں ڈھونڈے گی۔وہ صرف صحت کے موجودہ نظام میں خامیاں نہ ڈھونڈے گی بلکہ انہیں پورے معاشی سیاسی نظام میں خامیاں نظر آئیں گی۔ اوروہ کپٹلسٹ نظام کو سب سے بڑی خامی کے بطور پائے گی۔ وہ اس کا حل ڈھونڈ نے نکلے گی۔ متبادل کی تلاش ہوگی اور متبادل ممکن ہے۔ مگر ظاہرہے کہ کپٹلزم کا متبادل کپٹلزم تو نہیں ہوگا۔ متبادل تو کوئی ایسا نظام ہوگا، جوایٹمی اور وائرل جنگوں کا وارث نہ ہو، جو سفید فاموں، کرسچینوں اور مغرب کی امتیازی بالادستی سے پرے ہو، جس میں کمزور طبقات موجود نہ ہوں۔بنی نوع انسان ایک ایسا متبادل ضرور تلاش کرے گا۔ وہ اُس کا کوئی نیا نام رکھے گا:

                   بچے کی معصوم مسکراہٹ جیسا نام!!۔

 

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *