Home » قصہ » گواہی ۔۔۔ ڈاکٹر منزہ مبین

گواہی ۔۔۔ ڈاکٹر منزہ مبین

                ایسا معلوم ہوتا ہے زمین گھوم رہی ہے اور مجھے بھی ساتھ ساتھ گھما رہی ہے یوں ں ں ں۔۔۔۔۔۔میں اڑ رہا ہوں ہوا میں اوپر،اور اوپر۔۔۔۔ مجھے دیکھو میں آسمان کی طرف جا رہا ہوں۔ماں!!مجھے پکڑو،زور سے پکڑو۔۔۔۔ماں مجھے جانے نہ دینا۔۔۔۔ مجھ کوتھام لو ماں۔۔۔۔۔۔

                ابے رک جا!!اتنی سمع خراشی،تجھے تو میں ایسا پکڑوں گی کہ تیرا سارا پاگل پن رفو چکر ہو جائے گابدذات!!!۔

کیا ہو جاتا اگر میں پیدا ہوتے ہی مر جاتی،یوں ذلیل و رسوا تو نہ ہوتی سارے زمانے میں۔۔۔۔گاؤں کے ہر گھر میں یہی مثال دی جاوے ہے کہ سنہریؔ کے کرموں کی وجہ سے اللہ دتہ پاگل  ہے۔شاکر الدین دنیا میں نہیں ہے۔اب بتاؤ میرے کرم مجھ پر تو رنگ نہ لائے ان پر کیسے رنگ چڑھاگئے۔۔۔۔پیدا ہونے کی سزا،جوانی کی سزا،شادی کی سزا،بچے کی سزا،سنہریؔ دونوں ہاتھوں سے سر کو زور زور سے پیٹنے لگی اور زار و قطار رونے لگی۔۔۔۔اللہ دتہ کے ابا خود تو جنت کی ٹھنڈی ہوا کھاوے ہے اور مجھے اکیلا چھوڑ گیا دنیا کی بھٹی میں جلنے کے لیے۔۔۔۔سنہریؔ پر غشی کے دورے پڑنے لگتے تھے۔

                ناں سنہریؔ تو اپنا دل کیوں جلاتی ہے؟تیرا کیا قصور ہے اللہ دتہ تو بچپن ہی  سے سر پھرا ہے۔خدا لگتی کہوں۔یہ پاگلوں کی نسل میں سے ہے۔خدا بخشے اس کی پڑدادی پاگل تھی  اور وہ اس کا چچا زاد بھی توخالی کھوپڑی والا ہے۔ تو بیچاری تو نوکرانی بن کر خدمت کر رہی ہے ایسے ناہنجار کی۔۔۔۔آسمان والا تیری لاج رکھے۔ ہائے رئے میری سنہریؔ میں تو اپنے دکھڑوں کی گٹھڑی تیرے پاس اٹھا کے لائی تھی کہ شاید کچھ غمگین و بے سہارا  دل کو سہار آئے لیکن۔۔۔۔کہہ کر رخصت ہو گئی۔۔۔۔

                یہ سن کر سنہریؔ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اللہ دتہ کوبھول بھال  کر دل ہی دل میں حیران ہو رہی تھی کہ اس گاؤں میں شاکرالدین کے خاندان کے بعد سنہریؔ کا اگر کوئی دشمن ہے تو وہ اماں زینت ہے۔وہ اس کے گھر میں کیسے؟؟؟کیوں کہ سنہریؔ اس  کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔اماں زینت کا بیٹاصابر جو گھر کا واحد کفیل تھاجوانی میں سنہریؔ کے سانولے لیکن پر کشش  حسن پر فدا تھا۔تپتی دوپہروں میں دونوں دھان کے کھیتوں میں ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔ سنہریؔ ابھی چند دنوں کی تھی جب اس کے باپ کا چوہدری زمان  کے ہاتھوں قتل ہوا۔گاؤں کی بڑی بوڑھیوں کی چہ میگوئیوں میں سنہریؔ کی پیدائش اور باپ کا قتل طویل عرصہ تک موضوع بحث رہا۔سنہریؔ کی ماں اپنی پانچ بیٹیوں کے ساتھ تنہا رہ گئی۔گاؤں کے درندوں کی غلیظ،چبھتی،ہوس بھری نگاہوں سے بچ بچا کر اس نے اپنی بیٹیوں کی پرورش کی۔اکیلی تنہا عورت کے لئے یہ بہت بڑا امتحان تھا۔پیٹ پالنے،تن ڈھانپنے کے  ساتھ ان کے جوڑ کی فکر ہوئی لیکن غریب ماں جہیز میں بیٹی کو اچھی تربیت کے علاوہ کیا دے سکتی تھی۔وقت کے گزران کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کی ڈھلتی ہوئی عمر کسی آزمائش سے کم نہ تھی۔سنہریؔ کو اپنی ماں کی ہمت اور بوجھ  کا بہت خوب اندازہ تھا۔بڑی بیٹیاں جوان تھیں انہیں ماں نے گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دی۔ البتہ سنہریؔ ماں کے ساتھ مدد کے لئے حویلی جایا کرتی تھی۔سنہریؔ کی رانو سے ملاقات بھی حویلی میں ہوئی۔ سنہریؔ اگرچہ رانو سے عمر میں بڑی تھی  لیکن تجربے میں کم تھی اس کے باوجود  دونوں میں  گاڑھی چھننے لگی۔رانو بہت چالاک تھی حویلی کے تمام بند کواڑوں کے بھیدوں سے نہ صرف واقف، بلکہ اہم حصہ تھی۔حویلی کی شاہانہ زندگی نے سنہریؔ کے جذبات میں تلاطم پیدا کرنا شروع کر دیا۔ دونوں سہیلیاں سر جوڑے ہنستی  دوڑتی، حویلی میں  مٹر گشت کرتی  نظر آتیں۔ رانو کی شہرت حویلی میں کچھ اچھی نہ تھی۔ سنہریؔ کی ماں ہمہ وقت اپنی بیٹی کو رانو سے دور رکھنے کی کوشش کرتی تھی لیکن حویلی کا کام زیادہ ہونے کی وجہ سے  مصروف رہتی تھی۔ رانو کے ملبوسات،زیورات عام نوکرانیوں جیسے نہ تھے۔کوئی بھی پہلی نظر میں یہ نہ سمجھ پاتا کہ یہ مالکن ہے یا نوکرانی۔۔۔ رانو کی اترن سنہریؔ بہت شوق سے پہنتی تھی۔۔۔۔صابر بھی ان میں سے ایک تھا۔۔۔۔  صابر سے سنہریؔ کی محبت کی پینگیں رانو کے ذریعے  ہی پروان چڑھی تھیں۔ان کی ملاقاتیں حویلی کے تہہ خانوں میں ہوتی تھیں۔سنہریؔ کی ماں کو کچھ شکوک و شبہات نے گھیرنا شروع کر دیا کہ کچھ ایسا ہو رہا ہے جو اچھا نہیں ہے۔ماں کا دل ہے  ناں۔۔۔ایک ہوک سی اٹھی تواس نے فوراً  تیز تیز آواز میں سنہریؔ کو   پکارنا شروع کیا لیکن سنہریؔ ندارد۔۔۔۔

سنہریؔ کہاں ہے رانو؟؟؟مجھے بتاؤ۔۔۔۔وہ تیرے بغیر سانس بھی نہیں لیتی۔۔۔بتا مجھے۔۔۔۔

رانو ہڑبڑاہٹ سے بولی۔۔۔۔ماسی وہ گھر چلی گئی تھی۔۔۔۔

لیکن کیوں؟۔۔۔مجھے بتائے بغیر کیسے؟سنہریؔ کی ماں گھر بھاگی۔۔۔۔

کہاں ہے سنہریؔ؟۔۔۔۔ماں سنہریؔ  تو تیرے ساتھ گئی تھی۔گھر تو نہیں آئی۔۔۔۔ہوا کیا ہے؟وہ کہاں گئی ہے ،جو تو اتنی پریشان ہے؟گھر میں گھمسان کا رن پڑ گیا۔

                اتنے میں سنہریؔ گھر میں داخل ہوئی،ماں نے دیکھتے ہی جوتی اٹھائی او ر مار پیٹ شروع کر دی۔ابے، او بے حیا  تجھے میں کہاں کہاں ڈھونڈتی رہی اور تو آوارہ گردی کر تی رہی۔میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔میں کہہ کہہ کے تھک گئی تجھے وہ رانو برباد کر دے گی اور تو اس میں گھسی رہتی تھی۔آج یہ حرکت کی کل کو کچھ اور کرے گی۔۔۔۔ناں بھئی ناں۔۔۔تو اب گھر بیٹھے گی،مجھے نہیں چاہیے تیری مدد۔۔۔۔سنہریؔ  بہت روئی دھوئی  لیکن اس کا حویلی جانا بند ہو گیا۔۔۔۔سنہریؔ حویلی سے زیادہ صابر کے لئے بے چین تھی۔صابر اس کی پہلی محبت تھا جب کہ صابر کی پہلی محبت رانو تھی۔صابرکے نزدیک محبت ایک گلشن تھا جہاں صرف اہل دل ہی کو جانے کی اجازت ملتی ہے لیکن بہت جلد اس کو جب یہ معلوم ہوا کہ و ہ اس پھول کی چاہت میں ہے جس کی خوشبو ہر خاص و عام کے لئے ہے لہذا اس نے اس گلشن کو خیر باد کہہ دیا۔ حویلی کے ہولناک شب و روز میں صابر کو ایک معصوم سنہریؔ دکھائی دی،اول اول خواب سمجھا بعدازاں اس خوبصورت خواب کو اپنی زندگی کی حقیقت میں بدلنے کی سوجھی۔لیکن اس بار گلشن میں قدم بہت گھبراہٹ اور لرزتے دل کے ساتھ رکھا۔سنہریؔ نے صابر کی محبت کو کلمہ حق سمجھ کر من و عن قبول کر لیا جو رانو سے برداشت نہ ہوا۔ملاقاتوں کی منتظم رانو ہوا کرتی تھی اور  موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ہر ملاقات کا سنہریؔ کی فرمائش پر کمیشن وصول کیا جس سے در حقیقت سنہریؔ لاعلم تھی۔

                رانو نے جب دیکھا کہ اب اسے سنہریؔ سے کچھ حاصل نہیں تو اس نے دونوں کا نہ صرف راز حویلی میں کھول دیا بلکہ سنہریؔ کی کردار کشی کی انتہا کر دی۔سنہریؔ کی ماں اور صابر دونوں نے شرمندگی کے سبب کام چھوڑ دیا۔ گھروں میں فاقے  پڑنے لگے تھے لیکن دونوں پریمی اس حقیقت سے بے خبر رات دن ملن کی تدبیریں سوچتے رہتے۔۔۔۔ جب صابرنے گھرکے  راشن کی رقم میں الم غلم کرنا شروع کیا تو اماں زینت کا ماتھا ٹھنکا اور فوراًسے شک سنہریؔ پر گیا۔ اس نے صابرکا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ جوانی کے جوش میں ڈوبی ہوئی اس جوڑی کو  اماں زینت نے دیکھ لیا اور خوب دْرگت بنائی۔ اماں زینت اپنی خود ستائی اوربد زبانی کی بدولت پورے گاؤں میں مشہور تھی۔سنہریؔ کے منہ پر کالک لگا کر پورے گاؤں میں گھمایا کہ یہ رذالہ میرے بیٹے کے پیچھے پڑ گئی ہے،لوٹ کر کھا گئی ہمیں۔۔۔۔عین سنہریؔ کے گھر کے سامنے جا کر وہیں باہر سے سنہریؔ کی ماں پر آوازیں کسنے لگی۔ ان کی جو رہی سہی عزت تھی اس کا  بھی جنازہ نکال دیا۔ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ   تجھے بیٹیوں کی کمائی کھانی ہے تو شہر جا کر دھندا شروع کر۔۔۔۔پانچوں بیٹیوں کے اچھے دام ملیں گے۔شریفوں کے گاؤں میں تجھ کم ذات کی کوئی جگہ نہیں۔محلے داروں نے بھی خوب ہاں میں ہاں ملائی۔ اماں زینت اسی لے میں پکار پکار کر کہہ رہی تھی  کہ یہ سنہریؔ پورے گاؤں کے لڑکوں کو اپنے پیچھے لگائے بیٹھی ہے۔سب اپنے اپنے لڑکوں کو بچا لو۔

                چند روز بعد گاؤں بھر میں یہ خبر گونجی کہ سنہریؔ کی شادی پچاس  برس کے ادھیڑ عمرشاکرالدین کے ساتھ کر دی گئی۔ لیکن بدنامی کا داغ شادی سے بھی نہ دھل سکا۔ جس کی پہلی دو بیویوں سے اولاد نہ تھی۔اس نے یہ شادی اولاد کے لیے کی تھی۔ لوگوں نے شاکر الدین کے خوب کان بھرے کہ اس کی بیوی قابل بھروسہ نہیں۔جبکہ شاکرالدین  نے سنہریؔ کو آنکھوں کا تارا سمجھا اوراسے لوگوں نے دیوانہ۔۔۔اللہ دتہ کی پیدائش کے فوراً بعد شاکرالدین دنیا ئے فانی سے رخصت ہو گیا۔دوسری  جانب صابر نے ماں کے سامنے ہار مان لی اور خاموشی سے ماں کی پسند کی شادی کر لی۔اماں زینت  جوصابر کی عاجزی اور خوش عنانی کا تذکرہ کرتے تھکتی نہیں تھی،چند ماہ بعد ہی  اس کے لیے سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اوروہ کبھی ایک دروازے کبھی دوسرے دروازے پرپناہ مانگتی نظر آنے لگی(خودی اور خدائی میں بیر ہے)۔صابر کی عاجزانہ طبعیت اور خوش عنان ہونے کی پہلے ماں گواہی دیتی تھی اور اب بیوی۔۔۔۔۔۔۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *