Home » شیرانی رلی » رخسانہ فیض

رخسانہ فیض

آئینہ سنگ پر کرچھیاں ہر طرف

ضعف جاں اک طرف، تلخیاں ہر طرف

زخم پھر کھل گئے بھیگتی رات میں

یاد کی کھل گئیں کھڑکیاں ہر طرف

آنکھ حیران ہے، حلقہِ خواب میں

پر کٹی رہ گئیں تتلیاں ہر طرف

پھر کوئی عکس ہے دل کی دیوار پر

فرش سے عرش تک سسکیاں ہرطرف

مقتل ِعشق میں روح جب تھی لہو

جل رہی تھیں وہاں کشتیاں ہر طرف

معتبر جان کر ہم گئے تھے جہاں

بے ضمیروں کی تھیں ٹولیاں ہر طرف

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *