Home » کتاب پچار » چلتے رہو  !۔۔۔۔عابدہ رحمان

چلتے رہو  !۔۔۔۔عابدہ رحمان

کتاب:  منتخب سوویت افسانے

مصنف:             ڈاکٹر شاہ محمد مری

صفحا ت:           350

قیمت250             روپے

مبصر:             عابدہ رحمان

 

ڈاکٹر شاہ محمد مری سوشلزم کے محب، سوویت انقلاب کے عاشق،اس نظریے کو پھیلانے،اس فکر کی خاموش دعوت میں بڑی جانفشانی سے لگے ہوئے ہیں۔ ان کی ساری تحریریں چاہے وہ ان کی اپنی تخلیقات ہوں یا پھر تراجم، سب اسی نظریے کے گرد گھومتی ہیں۔ ’منتخب سوویت افسانے‘ بھی جو نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ سوویت یونین یا پھر کہنا چاہیے کہ روسی انقلاب کے دور کے افسانوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں شامل 18 افسانے 15مختلف لکھاریوں کے قلم سے نکلے ہیں،جن میں لونا چرنسکی، شولو خوف، ویرا ان بر، لاورن یوف، اے زورچ اور دوسرے شامل ہیں۔

طبقاتی نظام جہاں ہوگا، تقسیم ِ پیداوار جب تک تمام انسانوں میں برابری کی بنیاد پر نہیں ہوگا، غریب کی محنت کا سارا پھل جب تک سرمایہ دار ہڑپ کرتے رہیں گے، تب تک پرولتاری جدجہد پروان چڑھتی رہے گی اور سوشلزم کی راہ میں ہی انسانوں کی نجات کا تعین ہوتا رہے گا۔ ہر دور اور ہر معاشرہ انھی حالات سے گزرتا رہا ہے اور گزر رہا ہے۔ اس لیے اس کتاب کی ہر کہانی کو پڑھتے ہوئے آپ کو اس میں اپنے ہونے کا گمان ہوتا رہے گا۔ مثلاً ویرا ان بر کا افسانہ ’نور بی بی کا جرم‘ جب میں پڑھ رہی تھی تو اپنے وطن کی ہی کہانی لگی کہ جس میں نور بی بی کی شادی ایک نہایت ہی چھوٹی عمر میں خود سے دگنی تگنی عمر کے شخص سے کی گئی اور اس پر آزادی اور خوشیوں کے دروازے بند کر دیے گئے کہ وہ شخص بوڑھا ہونے کے ساتھ ہی غریب اور پھر شکی مزاج آدمی تھا۔ غربت، بوڑھے سے شادی، شک کی بنیاد پر قتل، نظرِ بد کی بیماری، عورت کے شناختی کارڈ پر پابندی، عورت کی محنت کی قیمت مرد وصول کرتے، کیا یہ سب ایک حبس زدہ معاشرے کی عکاسی نہیں؟ اور کیا تقریباًیہی سارے مسائل آج بھی اس دور میں ہمارے معاشرے میں موجود نہیں؟ ایک گھٹن زدہ ماحول کہ جو افسانے کے معاشرے میں سانس لے رہا تھا اور جس کے چار مالک تھے، اب بھی تو کچھ نہیں بدلا۔ بالکل ویسا ہی سب کچھ ہے۔ ریشم کے کیڑے پالنا، میں تو اس کو ایک استعارہ سمجھوں گی کہ جو گرمی اور سردی کی شدت سے مر جاتے تھے۔ بالکل ایسے ہی عورت بھی اس شدت کو سہہ نہیں پاتی۔اور دوسری طرف ان کے پالنے کی محنت کا حصول مرد کرتے تھے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری کو بھی اسی لیے اس کہانی نے متاثر کیا اور انھوں نے اسے ترجمہ کیا کہ یہ ہماری اپنی کہانی ہے۔

کمیونسٹوں کے ساتھ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا سلوک ہمیشہ سے ہی برا رہا ہے کیونکہ کمیونسٹ سوشلزم کے داعی ہیں جس میں سرمایہ داروں کی موت ہے، مزدوروں اور سوشلسٹوں کی۔ ان کے خاندان کی قربانیاں، سرمایہ داروں سے زمینیں، غلہ چھین کر غریبوں میں تقسیم کرنا کمیونسٹ کا کام ہے اور جاگیردار و سرمایہ دار جو دوسروں کا حق کھا تے ہوئے، حرام کھاتے ہوئے،حرامی اس سوشلسٹ کو کہتے ہیں جو اپنے بوڑھے والدین، جوان بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر شہید ہو جاتے ہیں، یہ ہے موضوع اس کتاب کے افسانے ’حرامزادہ‘ کا۔

سوشلزم کی راہ پر چلنے والے میرے خیال سے کچھ پاگل سے ہوتے ہیں کہ انھیں اپنے درد کا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا۔ ’حرام زادہ‘ جس میں مشا کا باپ شہید ہوا اسی طرح ایک اور افسانہ ’اکتالیسواں‘  پڑھنے سے پتہ چلا کہ اس راہ میں تو صرف خونی رشتوں کی قربانی ہی لوگوں نے نہیں دی بلکہ اپنی محبت کی قربانی بھی دی ہے اور نجات دہندہ قرار پائے۔اس افسانے’اکتالیسواں‘ میں ماریوتکا جو ایک مچھیرے کی بیٹی اور کامریڈ تھی، وہ انقلاب کے رضا کاروں کی فوج میں بھرتی ہوئی۔ ماریوتکا انقلابی شاعری بھی کرتی تھی۔ کسی مہم میں جب جزیرے پر وہ جب لیفٹیننٹ کے ساتھ کئی دنوں تک اکیلی رہی تو اس کی نیلی آنکھوں کے سمندر میں ڈوب گئی لیکن آخر میں یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ جب ان کی مدد کو لوگ آئے اور ماریوتکا چونک گئی کہ لیفٹیننٹ تو دشمنوں میں سے ہے تو اس نے اپنے محبوب کو گولی مار دی۔ یہ کہانی پڑھ کر میرے کچھ عجیب سے احساسات تھے۔ کیوں آخر انسانوں میں برابری کا رویہ نہیں اپنایا جاتا؟ کیوں کچھ انسان قربانی اور مسلسل قربانی دیے جاتے ہیں اور باقی صرف زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔

اے زورچ کا افسانہ ’ہتک‘ ایک اور ہی رنگ لیے ہوئے ہے کہ یہ انسانوں کا دھیان ایک اور زاویے کی طرف موڑتا ہے۔ اس میں لکھاری سائنس کو انسان کا نجات دہندہ سمجھتا ہے اورکہتا ہے کہ سائنس کو نہ اپنانے والی قومیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ہم سائنس اور نئی ٹیکنالوجی کو اپنائیں گے تو وہ ہمیں اپنا کر ہماری زندکی کو سہل بنا دے گی۔ اس افسانے میں سائنسدان جو سائنس کو انقلاب کہتا تھا، نے اپنی زندگی انسانیت کے لیے تج دینے کے بعد لوگوں کے رویے سے توہین کے احساس سے دوچار تھا لیکن افسانے کا خاتمہ بہرحال مستقبل کی خوش کن امید پر ہوا۔

اس کتاب میں ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ان تمام موضوعات پر مبنی افسانوں کا ترجمہ کر کے اس کتاب میں شامل کیا ہے جو دراصل انقلاب کے مندرجات ہیں۔ اور میرے خیال میں انھیں پڑھ کر بھی وہ قاری جو اگر سوشلزم سے واقفیت نہیں رکھتا، وہ بھی سوشلزم سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ولادیمیر بونچ بروئے وچ کی کہانی’لینن نے فرمانِ زمین لکھا‘اہم ہے۔اس افسانے میں جو کہ دراصل ایک حقیقت ہے، لینن نے سوشلسٹ انقلاب کے بعد جو سب سے پہلا بڑا کام کیا وہ فرمانِ زمین یعنی زرعی انقلاب تھا جو کہ تاریخ میں ایک اہم سند کی حیثیت رکھتا ہے اور جس کے جاری کرنے سے کسانوں اور محنت کشوں نے سکھ کا اک طویل سانس لیا۔

انقلابیوں کی آدھی سے زیادہ زندگیاں جیلوں میں گزرتی ہیں جو ان کے جسموں کے ساتھ ساتھ ان کی روحوں کو زخمی کر دیتے ہیں۔ جیلوں کے تعفن میں گھرے وہ تازہ ہوا کو ترستے ترستے اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ ایسی ہی کہانی یوری جرمن کی ہے ’چہل قدمی‘ جس میں انقلابی قیدی مقدمہ چلائے بنا جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے اور جو کھڑکی کی سلاخوں سے جھانکتے ہوئے بارش کی آواز سنتا رہا۔بارش میں چہل قدمی اس کا خواب بن گیا تھا۔وہ خواب جو صرف اپنا منہ کھلنے کے عوض شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

اس کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ’انسانی حیا،وقاراور شرف کا قافلہ بہت نحیف و لاغر سہی، رواں دواں تو ہے۔ اس کارواں سرائے کی جلتی بجھتی آگ میں ایک پتلی، گیلی، بے کار ٹہنی ہم بھی ڈال رہے ہیں‘۔ ان کی یہ بات ظاہر ہے کہ بالکل ٹھیک ہے کہ ہم سب کو اپنے حصے کا کچھ نہ کچھ ڈالتے رہنا چاہیے اور اس مقدس کارواں کا حصہ بنے رہنا چاہیے۔

کبھی تو گل کھلیں گے، کبھی تو بہار آئے گی! ۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *