Home » پوھوزانت » ٓآٹھویں کانگریس ۔۔۔ شاہ محمد مری

ٓآٹھویں کانگریس ۔۔۔ شاہ محمد مری

۔2019کا اواخر سنگت اکیڈمی کی دو سالہ کانگریس کا مقررہ وقت تھا۔ تقریباً دو دہائیاں ہوگئیں کہسنگت اکیڈمی کی دو سالہ کانگریس طے شدہ شیڈول کے مطابق ہر دو برس بعد نومبر کے ابتدائی ایام میں منعقد ہوتی ہے۔

سنگت رسالہ کی مطابقت میں سنگت اکیڈمی کا نیاسال بھی دسمبر کو شروع ہوتا ہے۔ اور ہم ستمبر سے اس دوسالہ کانگریس کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔

 

تیاریاں، میٹنگیں

 

حسبِ روایت اس سال ہونے والی کانگریس کے لیے بھی ستمبرسے تیاریوں کاسلسلہ شروع ہوا۔ ستمبر میں جنرل باڈی کا جو اجلاس منعقد ہوا تھا، اس میں کانگریس کا حتمی فیصلہ ہوا، اور تیاریاں شروع ہوگئیں۔

ایک فکری جمہوری تنظیم کو پے درپے میٹنگیں کرنی ہوتی ہیں۔ میٹنگیں ہی جمہوری تنظیموں کا کھاد پانی ہوتی ہیں، وہی اس کی بڑھوتری اور بلوغت کا سبب ہوتی ہیں۔ شیطان شِکرے اوربھیڑیا میٹنگیں نہیں کرتے۔ ڈکٹیٹر،بادشاہ اور سردار میٹنگیں نہیں کرتے۔

انسان ہی باہم میٹنگیں کرتے ہیں۔ باشعور اور منظم جمہوری تنظیمیں ہی میٹنگیں کرتی ہیں۔ میٹنگیں،جہاں انسان بولتا ہے، رائے دیتا ہے، اختلاف کرتا ہے، بحث مباحثہ کرتا ہے اور ایک مشترک فیصلے پر پہنچا جاتا ہے۔اور یوں آگے کا لائحہ عمل متعین ہوتا ہے۔ آگے کی راہیں سلیکٹ ہوتی ہیں اور داؤ پیچ مرتب ہوتے ہیں۔

کانگریس منعقد کرنے سے پہلے ایک لازمی شرط کے بطور سینٹرل کمیٹی کاپہلا اجلاس بروز ہفتہ13ستمبر 2019ء کی سہ پہر سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ساجد بزدارکی زیر صدارت مری لیب میں منعقد ہوا۔دو گھنٹہ طویل اس اجلاس میں چار اہم فیصلے ہوئے۔

*کانگریس نومبر کے پہلے ہفتے میں ہوگی۔ اس کے لیے تیاری کمیٹیاں بنا دی گئیں۔

*سیکریٹری جنرل رپورٹ کی تیاری اور اس پہ صلاح و مشورے شروع ہوں گے۔

*موجودہ ڈپٹی سیکریٹری کے آئندہ سیکریٹری جنرل بننے کی روایت کو آئینی شکل دینے کی تجویز کانگریس میں پیش کی جائے گی۔ الیکشن کے سلسلے میں موجودہ سینٹرل کمیٹی ہی آئندہ سینٹرل کمیٹی کے لیے نام تجویز کرنے کی آئینی ترمیم منظوری کے لیے کانگریس کے سامنے رکھی جائے گی۔

*اگلے دو سال میں کُل دس فیکلٹیاں بنانے کا ہدف مقرر ہوا۔

چونکہ سنٹرل کمیٹی کو اپنے طور پر یہ سارے کام کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے اس لیے ان فیصلوں کا جنرل باڈی کے پاس لے جانا ضروری تھا۔ نیز جنرل باڈی میں کانگریس سے متعلق اُن کی آرا بھی لینی ضروری تھی۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ اِن پُٹ آئے اور ایک جمہوری پراسیس سے گزرا جائے۔

چنانچہ جنرل باڈی کا اجلاس 6اکتوبر کی صبح کوئٹہ پریس کلب میں ہوا۔ کانگریس میں مقالے پڑھنے کے لیے وحید زہیر اور خالد میر کے نام طے پائے۔قراردادوں کے جمع کرنے، انہیں ترتیب دینے اور پھر متعلقہ فورموں سے منظور کرانے کے لیے وحید زہیر اور سرور آغا پر مبنی دو رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ مرکزی سیکریٹری جنرل کی ناسازی کی بنا پر ڈپٹی سیکریٹری جاوید اختر کے ذمے قرار پایا کہ وہ سیکریٹری رپورٹ کا ابتدائی مسودہ تیار کرے، جسے سیکریٹری جنرل فائنل شکل دے گا۔

ان ساری باتوں میں پیش رفت اور اُن کے فالو اپ کے لیے اگلااجلاس سینٹرل کمیٹی کا تھا جو 21 اکتوبر کوسہ پہر مری لیب میں ہوا۔ مرکزی سیکریٹری جنرل کی غیرموجودگی کے باعث ڈپٹی سیکریٹری جاوید اختر نے صدارت کی۔

ایجنڈا کے مطابق پروفیسر جاوید اخترنے ہی سیکریٹری رپورٹ کا مسودہ اور آئندہ کا لائحہ عمل پڑھ کر سنایا، جن میں ضروری ترامیم کی گئیں۔ قرارداد کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ قراردادوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ اِن میں اچھی خاصی تبدیلیاں کی گئیں۔

اب یہ سارے مسودے ”سنٹرل کمیٹی کے ڈاکیومنٹس“بن چکے تھے جنہیں کانگریس میں پیش کیا جانا تھا۔اُس لیے کہ سنگت اکیڈمی کا حتمی بااختیار فورم اس کی کانگریس ہوتی ہے۔

اس بار بھی سنگت کانگریس کودو روزہ رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک دن بندکمرہ اجلاس کے لیے وقف ہوا۔ اور ایک ہفتہ بعدایک دن اوپن جلسے کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ 27اکتوبر کو کلوزڈ سیشن کرنے اور 3نومبر کو کانگریس کا اوپن سیشن (جلسہ) منعقد کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔

 

۔27اکتوبر، کلوزڈسیشن

 

کانگریس (کا بند کمرہ اجلاس)فیصلے کے مطابق اتوار 27 اکتوبر 2019ء کی صبح پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ 36اراکین شامل ہوئے۔

یہ اجلاس طویل دور انیے کا تھا۔ اس لیے کہ ممبرز نے تنظیم کے بارے میں مفصل باتیں کرنی تھیں، اس کی  سنٹرل کمیٹی سے آنے والے ڈاکیو منٹس کے ایک ایک نقطہ اور کا ما فل سٹاپ پہ جھگڑنا، اَڑنا تھا، قائل کرنا تھا، اورقائل ہونا تھا۔ واضح رہے کہ سنٹرل کمیٹی کے منظور کردہ تمام مسودوں کو کچھ دن پہلے ارکانِ کانگریس میں تقسیم ہونا تھا تاکہ انہیں پڑھنے اور رائے دینے کے لیے ممبرز کو بہت وقت مل سکے۔

ایک ہلکی سی بحث کے بعد کانگریس کے کلوزڈ سیشن کے لیے موجود ممبروں نے اپنے لیے درج ذیل ایجنڈا متعین کیا۔

۔*آئین میں سنٹرل کمیٹی کی پیش کردہ ترامیم پہ بحث

۔ *            دو سالہ سیکریٹری جنرل رپورٹ پہ بحث

۔ *            نئی مرکزی کمیٹی کا انتخاب

۔ *            آئندہ دو سال کے لیے اکیڈمی کی پالیسی اور اہداف

۔ *            سنٹرل کمیٹی کی طرف سے پیش کردہ قراردادوں پہ غور۔

جن دوستوں کا خیال تھا کہ سارا ایجنڈہ گھنٹہ ڈیڑھ  میں نمٹ جائے گا، وہ غلط ثابت ہوئے۔ اس لیے کہ ایجنڈے کے پہلے نقطے پہ ہی بریکیں لگ گئیں۔

آئینی ترامیم کا مسودہ عابدہ رحمن نے پڑھنا تھا۔ اُس کا بھی خیال تھا کہ وہ مقالہ کی طرح اُسے فرفر پڑھ پائے گی،اور لوگ اُسے فوری طور پر باجماعت منظور کرلیں گے۔ مگر اُسے ہر ایک دو فقرے کے بعد لمبے وقفے کے لیے خاموش کھڑی رہنا پڑ رہا تھا۔ جیسے  ہانی نے پیاسے چاکر کے پانی  بھرے کٹورے میں تنکے ڈال دیے ہوں۔ اورہر دو گھونٹ پینے کے بعد تنکوں کو ہٹانے کا وقفہ کرنا پڑا ہوا۔دوستوں کی تجاویز پہ غور کرنے اور انہیں قبول یا رد کرنے میں اچھا خاصا وقت لگا۔ ہم آئین ومنشور کی ترامیم کو سنوارے نکھارنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگا بیٹھے۔ یوں بالآخر آئین و منشور کا مسودہ ترامیم، اضافوں اور کانٹ چھانٹ سے چیچک زدہ ہوکر منظور ہوگیا۔

 

آئین و منشور

 

آئین و منشور میں ترامیم کو حتمی شکل دینے کے بعدسیکریٹری جنرل ڈاکٹر ساجد بزدار نے دوسالہ رپورٹ پیش کی۔ہم اسے ویسے ہی سیکریٹری جنرل رپورٹ کہہ رہے ہیں۔ یہ دراصل سنٹرل کمیٹی سے گزر کر آئی تھی۔ اور سنٹرل کمیٹی کسی بھی مسودے کی خوب ٹیلرنگ کر کے آگے بھیجتی ہے۔ چنانچہ 36ارکان میں سے 9ممبرز تو تقریباًخاموش رہے اس لیے کہ وہ مرکزی کمیٹی کے رکن تھے جو پہلے ہی اس مسودہ کی خوب چھان پھٹک کر چکے تھے۔ باقی ہال میں ہاتھ کھڑا کرتے رہنے اور اپنی باری پہ ترامیم تجویز کرتے رہنے کا طویل سلسلہ اُس وقت تھما جب یہ رپورٹ بالآخر ترامیم کی پیوندوں میں ملبوس حتمی صورت لے چکی۔

۔*             قراردادوں پر تفصیلی بحث ہوئی۔ بعض قراردادوں پر اعتراضات کے بعد انھیں حذف کیا گیا، بعض نکات میں تبدیلی کی گئی اور چند نئی قراردادیں  شامل کر کے منظور ہوئیں۔

 

۔3نومبر،اوپن سیشن

 

کانگریس نے اپنے بند کمرہ اجلاس میں کیے گئے اِن تمام فیصلوں کا اعلان ایک اوپن سیشن میں کرنا تھا۔ اُسے ایک ہفتہ بعد رکھا گیاتا کہ اوپن سیشن یعنی جلسے کی تیاریاں بہتر انداز میں ہوسکیں۔

ایک پانچ رکنی وفد 200میل دور بلوچستان کے فیوڈل علاقے جھٹ پٹ سے کانگریس میں شرکت کے لیے پچھلی شام ہی کو پہنچا تھا۔ اسی طرح ایک دوست بھاگ ناڑی کے علاقے سے آیا تھا۔ اِن دوستوں کو دوراتیں کوئٹہ میں گزارنی پڑیں۔

چنانچہ 3نومبر بروز اتوار پروفیشنل اکیڈمی کے بڑے ہال میں یہ جلسہ منعقد ہوا۔ یہ بڑا ہال چونکہ تیسری منزل پہ واقع تھااس لیے سیڑھیاں نہ چڑھ سکنے والے ہمارے معمر ساتھی کانگریس کے اس سیشن میں شریک نہیں ہوسکے۔ یوں یہ سیشن نوجوانوں، جوانوں اور ”پوسٹ جوانوں“کا تھا۔

 

سنگت بک سٹال

سنگت اکیڈمی کے ہراجتماع میں بالعموم، اور اس کی کانگریس میں بالخصو ص کتابوں کا سٹال لگایا جاتا ہے۔ ہم یہ کام شعوری طور پر، ڈسپلن کی حیثیت میں ایک عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ پہلے پہل تو یہ کتابیں شہر کے بک سٹالوں سے لائی جاتی تھیں۔ مگر اب شکر ہے کہ اکیڈمی کی اپنی سو کتابوں کی اشاعت موجود ہے۔ اس لیے اِن سو کتابوں کی تین تین کاپیاں ایک بھر پور سٹال کے لیے کافی بھی سمجھی گئیں اور شافی بھی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں کتاب خوانی کے بارے میں ہمارے اندازے ہمیشہ”انڈرا سٹیمٹ“والے ہوتے ہیں۔ بہر حال احباب نے تین سو کتابیں میزوں پہ سجائیں۔ ماہنامہ سنگت کے تازہ شمارے اس کے علاوہ تھے۔

چونکہ یہ سٹال کانگریس شروع ہونے سے کافی گھنٹے پہلے لگایا گیا تھا اس لیے آنے والے شرکا ایک دوسرے سے معانقہ تو کرتے ہی تھے، وہ کتابوں سے اپنی بصیرت کی خد مت گذاری بھی کرتے جاتے۔

اپنے لیے منتخب کردہ ایک ہمہ جہت جدوجہد  میں کتاب کو مقبول بنانا بھی سنگت کا ایک اہم محاذ ہے۔ گرمستان و بارانی بلوچستان میں بادل نہ بھی برسیں تو اُن کا سایہ ہی فرحت عطا کرتا ہے۔ کتاب کی دید ہی وصلِ سائنس ہے، نویدِ شعور ہے۔ یہ ناتواں شئے رستم وسہراب تو کیا ایٹم بم سے بھی پہلوان تر ہے۔حجم اور جثہ میں کتاب سے کھربوں گنا بڑے پہاڑوں اور سمندر وں کو ریزہ ریزہ کرنے، اُن پہ کمندیں ڈالنے،اور انہیں قابو میں رکھنے والی قوت کا نام کتاب ہے۔

آئی ایم ایفی دنیا میں زندگی بڑی بد صورت اور کریہہ اور غلامانہ بنادی گئی ہے،ذائقہ اور معیار کمتر کردیے گئے ہیں۔ چوائس انگریزوں کے بقول poorبنادی گئی ہے۔ایسے میں کتاب ہی ہے جو آپ کے ذائقے کو پستی میں گرنے نہیں دیتی۔ جو آپ کو بشر اور انسان رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

کتاب مشکل زندگی گزرانے کی جرات و قوت دیتی ہے۔ کتاب انسان کو پیسہ کے مقدار کی ملکیت دیکھے بغیر انسان کی اہمیت جاننے ماننے کی بصیرت دیتی ہے۔کتاب بادشاہ سے ”تم کون ہو؟“ پوچھنے کی جسارت دیتی ہے، سیاست دان کو ”تم جھوٹ بول رہے ہو“کہنے کی جرات دیتی ہے۔ کتاب خوف مٹانے کی امرت دھارا ہے، حقارت اور حقیر پر لعنت بھیجنے کی طاقت دیتی ہے،کتاب انسان نما غیر انسانوں کا اندرون کھول کر عیاں کرتی ہے۔

کتاب گمراہی سے بچاتی ہے۔ گردو پیش اور دور نزدیک کی ساری کھڑکیاں، روشن دان کھولتی ہے۔پیتھا لوجیکل  اندرون بینی کو دھتکارتی ہے اور مقامی تحریکوں کو انٹرنیشنل کی ٹرین سے ”ہُک اپ“کردیتی ہے۔ تنگ نظری، رجعت، نسل پرستی، مہم جوئی اور دہشت گردی و فاشزم سے روکتی ہے۔۔ کتاب دل دماغ کو بدل ڈالتی ہے۔ کتاب برکت ہے۔ ایسی لطف و مسرت عطا کرتی ہے جو دولت سے نہیں ملتی۔کتاب ہمیشگی عطا کرتی ہے۔

کتاب سٹال پہ رونق، مجھے ہمیشہ پُر مُسرت بنالیتی ہے۔ بک سٹال ہمارا جنرل ہیڈ کوارٹر ہے۔ اسی جگہ کی رونق بڑھانے کے لیے  ہمارے بزرگوں کی زندگیاں گزری ہیں۔سماج میں اسی کتاب کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے بڑے پیمانے کی خون کی قربانیاں دی گئی ہیں۔ کتاب کلچر کے فروغ کے مشن کو سنگت اکیڈمی نے کبھی عام کام نہیں سمجھا۔

 

وقت کی پابندی

اتوار کا دن ہو تو شہری دانشور ایک عمومی سست روی سے اپنی صبح کا آغاز کرتے ہیں۔ البتہ سنگت کے دوستوں کو اندازہ ہے کہ جلسوں اجلاسوں میں ہماری روایت مقررہ وقت میں محض پندرہ بیس منٹ رعایت دینے کی ہے۔ اس سلسلے میں کبھی کبھی تو صدارت کرنے والے کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس لیے ہمیں دوستوں کی تاخیر سے آنے کا اندیشہ زیادہ نہیں ہوتا۔ آہی جاتے ہیں وقت پر۔

چنانچہ گیارہ بجے کے مقررہ وقت پر مطلوبہ تعداد کا نصف آچکی تھی۔ اگلے پندرہ بیس منٹ میں اور بھی کافی لوگ آگئے۔

ایک خصوصی وفد آرگنائزر زکے پاس اس دلیل سے آدھ گھنٹہ مانگنے گیا کہ تنظیم کی دوسالہ کانگریس ہے، کسی کو کسی سبب سے لیٹ ہو جانے سے تاسف میں مبتلا نہ ہونے دیا جائے۔ یوں 50ممبروں والی تنظیم کی کانگریس میں 130کی حاضری کے بعد کرسیوں کا سٹاک ختم ہوچکا تو کانگریس کی کاروائی شرو ع ہوئی۔

 

کلاس کمپوزیشن

آج کل سکور بورڈ کا زمانہ ہے۔ لوگ گنتی یعنی نمبرز میں  بات کرتے ہیں، کوانٹٹی پہ مظاہر کو بیان کرتے ہیں۔

میں بھی اپنی کانگریس میں شامل لوگوں کا طبقاتی تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ مزدور طبقے کی ترجمانی کا دعوی کرنے والے سوا سو، ڈیڑھ سو نمائندہ ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے اس اجتماع میں ایک بھی مزدور نہ تھا۔سنگت اکیڈمی کے اراکین کی واضح اکثریت مڈل اور اپر مڈل کلاس سے وابستہ لوگوں کی ہے۔ چنانچہ طبقاتی صورتحال کوئی حوصلہ افزانہ تھی۔ ہم نے اس طرف جانا ہے۔ موجود کو ذہنی طور پر ڈی کلاس کیے جانا بھی ایک ڈیوٹی ہے۔ مگر مزدوروں میں سے دانشوروں کی تلاش کر کے انہیں اپنی صفوں میں لانا بھی اہم فریضہ ہے۔ ناممکن کی حد تک مشکل کام، مگر بہت ضروری کام!!۔

شہری پیٹی بورژوا دانشور، اور این جی اوز وغیرہ سے وابستہ لوگ ایک دوسرا ایکسرے مشین اٹھائے پھرتے ہیں:عورت مرد تناسب کا ایکسرے مشین۔ سنگت کانگریس میں عورتیں، مرد، ٹرانس جینڈر، کالے، گورے، مہاجر اور بلوچ تناسب نظریاتی طور پر اہمیت نہ رکھتے ہوئے بھی نظر انداز کرنے کی بات نہیں ہے۔

بہر حال اُس زاویہ سے ہماری کانگریس حوصلہ افزا تھی۔ حاضرین میں عورتیں تیس فیصد تو قطعاً نہ تھیں لیکن پھر بھی ان کی تعداد مناسب تھی۔ ان عورتوں کی اکثریت کا تعلق سنگت اکیڈمی سے تھا۔ باقی عورتیں ہم فکر اور ہم خیال تھیں۔

جہاں تک پیرو جواں کے تنا سب کی بات ہے تو کانگریس میں صرف دو چار افراد سٹھیائے، سترائے ہوئے تھے۔ اکثریت 25سے پچاس برس کے لوگوں کی تھی۔ دوبچے بھی تھے جو حاضرین میں سے کسی کے ساتھ آئے تھے۔

نسلی لسانی تناسب معقول تھا۔ کثیر لسانی مشاعرہ اِس بات کا ثبوت تھا۔

بسم اللہ

اوپن سیشن کا جلسہ دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصے کی کارروائی پچھلی کابینہ کے احباب چلاتے ہیں۔ اور دوسرے حصے کی کاروائی نئی کابینہ کے حوالے ہوجاتی ہے۔

ہمارا پہلا آئیٹم ہی گڑ بڑ ہوا۔ دوستوں نے سنگت اکیڈمی کی سرگرمیوں پر مشتمل ایک ڈاکیومنٹری دکھانا تھی۔مگر عین کانفرنس کے شروع مین عہدیداروں کے بیچ آپسی کھسر پھسر میں معلوم ہوا کہ ٹیکنیکل خرابی کے باعث اب یہ ڈاکیومنٹری نہیں دکھائی جاسکے گی۔واضح رہے کہ اسی ڈاکیومنٹری کو واضح اور نمایاں دکھانے کے لیے ہم نے سٹیج پہ اپنا مین بینر نہیں لگایا تھا۔

اب جب یہ پہلا قدم ”چَپ“نکلا تو تیزی تیزی میں بینر آویزاں کیا گیا۔ اور کانگریس کی کاروائی شروع ہوئی۔

پہلے حصے کی نظامت سابقہ کابینہ کے پوہ زانت انچارج ڈاکٹر عطااللہ بزنجو کے ذمے تھی۔ چنانچہ اس نے کہا: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

ہال کے شرکا چونکہ باہمی گفتگو میں مصروف تھے، اس لیے اب کے سٹیج سیکریٹری نے کنگھار کر گلا صاف کیا اور مائیک کے قریب منہ لے جا کر زور سے دوبارہ پوری بسم اللہ پڑھی۔تب  ہال خاموش ہوا، اور جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔

وہی روایتی ابتدائی کلمات، وہی دھیمی شروعات اور تعارفی معلوماتی کلمات۔ اور اُس کے بعد تو صاحب ہم نے گل خان و عطا شاد و ساحر و فیض و جالب کو سمجھو دوبارہ پڑھا(سنا)۔ خواہش ہے کہ بزنجو صاحب اچھے سٹیج سیکرٹری کے ساتھ ساتھ ایک اچھا دانشور،راہنما اور استاد بنے۔ اس کا جذبہ دیکھ کر یقین ہے کہ ایسا ہوگا۔

اُس کی نظامت میں اس قدر زور شور اُس کی اپنی عادت بھی ہے مگر بڑھتے حاضرین اور بالآخر ہال کے بھر جانے نے بھی اپنا اثر دکھایا تھا۔ اس قدر کہ نظامت کے لیے ضروری ایک آدھ شعر کے بجائے وہ دو دو صفحوں کی پوری نظم سنا نے لگا۔

اس بار اضافہ یہ تھا کہ فہمیدہ ریاض کی نظم ”مجسمہ گرادیا“ بھی شامل ہوچکی تھی۔ اصل میں نومبر فہمیدہ کی رحلت کا مہینہ بھی تھا، اور اکتوبر سوشلسٹ انقلاب بھی اسی ماہ ہوا تھا۔ اس لیے یہ نظم بہت حسبِ حال تھی۔

یہ کانگریس فہمیدہ ریاض، ڈاکٹر خدائیداد، سائیں کمال خان شیرانی، ڈاکٹر سعید مستوئی اور اکتوبر انقلاب کے نام سے منسوب تھی۔لہذا اُنہی کی تصویروں سے مزین، مین بینر آویزاں تھا۔

صدارت کے لیے سیکرٹری جنرل ساجد بزدار کو بلایا گیا، اُس کے ساتھ والی نشست ڈپٹی سیکرٹری جاوید اختر نے سنبھالی۔

پچھلی دو سالہ کاکردگی رپورٹ کے لیے ساجد بزدار کو ایک برحق توصیفی تعارف کے بعد بلایا گیا۔ بزدار صاحب علیل تھے، کمزور ہوگئے تھے اور بہت نحیف نظر آرہے تھے۔ اس  نے علالت کے سبب پوری رپورٹ نہیں پڑھی۔ درمیان میں پیراگرافوں کے پیراگراف چھوڑتے ہوئے اس نے اپنی طرف سے منقش فقروں سے آمیزش کردہ رپورٹ ہانپتے کانپتے پڑھی۔

ہم سنٹرل کمیٹی کی اصل اور لکھی ہوئی پوری رپورٹ یہاں دے رہے ہیں:

 

سیکریٹری جنرل رپورٹ

 

۔”سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے دوستو! آج مجھے دو سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بہت فخر محسوس ہورہا ہے کہ ہم نے اپنے مشن کو آگے بڑھانے میں پوری تگ ودو کی ہے اور ہم بہت سی کامیابیوں سے ہم کنار ہوئے ہیں۔

عالمی سطح پر ہم پہ سرمایہ داری مسلط ہے اور اس کے اثرات دنیا کے ہر کونے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر شے اور ہر مظہر کماڈٹی کا روپ اختیار کر چکی ہے۔

اس کے مد مقابل دوسری قوت یعنی محنت کشوں کی تحریک کئی ایک شکستوں سے دو چار اور منتشر ہے، اور اس کی رہنما سیاسی پارٹی کہیں بھی مؤثر صورت میں دکھائی نہیں دیتی ہے۔  اس صورت حال میں جہاں محنت کشوں کی تحریک ابھرکر سامنے نہیں آرہی ہے، وہاں دانشوروں کی تحریکیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں کیوں کہ دانشوروں اور ادیبوں کی تنظیم و تحریک محنت کشوں کی تحریک کے ساتھ پروان چڑھتی ہے۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز چوں کہ دانشوروں کی تنظیم ہے لہٰذا اس پر بھی اس کیفیت کے اثرات سے بچنے ہی کی جدوجہد ہوتی رہی۔ اس نے اپنے قیام سے لے کر آج تک معاشرتی جمود، معاشی استحصال،سیاسی جبر اور رجعت پسندی کے خلاف دانشوروں، شاعروں ادیبوں اور اہلِ علم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا فریضہ ادا کیا ہے۔

اس نے روشن فکر اور انقلابی روایات کی پاسداری جاری رکھی۔ اور ہر اس دانشور کی طرف ہاتھ بڑھایا جو فکری و عملی طور پر ترقی پسند تھا۔ ہمارے دانشور ساتھی ہر ”پوہ زانت“میں اپنے مضامین، افسانوں، شاعری اور سائنسی نگارشات کی صورت میں انہی خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ اس سارے فکری وعملی کارواں میں مرد، عورتیں، بوڑھے اور نوجوان شامل ہیں۔

سنگت اکیڈمی آف سائنسز ہمیشہ انسان دوست، ترقی پسند اقدار و روایات کی امین رہی ہے۔ اس نے سماجی، سیاسی اور معاشی ناہمواریوں کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے اور کر رہی ہے۔

 

۔1۔ممبر شپ

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کا یہ دو سالہ دور بہت ہی مصروف اور عملی و ادبی سرگرمیوں سے مالا مال رہا۔ اس کی وجہ سے ممبر شپ میں عددی اور کیفیتی بہتریاں آئیں۔ نوجوان اور دانشور بڑی تعدادمیں ہماری صف میں شامل ہوئے۔ اس وقت تک ہماری ممبر شپ بڑھ پھیل کر 48تک ہوگئی ہے۔ممبران کی عملی شعور ی سطح میں بلندی آگئی اور یوں یہ ایک فکری تحریک بن چکی ہے۔

 

۔2۔فیکلٹیز

۔2018کو سنگت اکیڈمی نے بالآخر خو د کو محض ادب تک محدود نہ رکھنے کی بہت پرانی خواہش و ارادے کو عملی کیا۔ اور خود کو دانشوروں، محققوں، ادیبوں اور شاعروں کی ایک قومی تنظیم بنانے کی طرف پہلا قدم اٹھا۔ اکیڈمی نے خود کو مختلف علوم و شعبوں یعنی فیکلٹیز میں ڈھال دیا۔

ایجوکیشن فیکلٹی اس سلسلے میں پہلی فیکلٹی تھی۔اس فیکلٹی کے تحت تین اہم شعبے ہیں جس میں ہماری عوامی تنظیم نے کام کرنا ہوگا۔ ایک تو اساتذہ ہیں جن کی معیاری تقرری،ٹریننگ، سروس سٹرکچر اور اچھے تدریسی ماحول کے بغیر تعلیمی نظام ایک انچ بھی ترقی نہیں کرسکتا۔

اسی طرح سٹوڈنٹس ہیں۔ جن کے لیے تعلیم کو لازمی کرنے، اس کے سٹینڈرڈ کی بلندی کے ساتھ ساتھ فیسوں اور دیگر تعلیمی اخراجات میں زبردست کمی کرنے پہ زور دینا ہے۔ ہاسٹل، لیب، لائبریری، کھیلوں کے گراؤنڈز کی فراہمی پہ کام کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔

تیسری چیز تعلیم کا نصاب ہے جس کا مادری زبان میں ہونا، سائنسی ہونا، اور ہمہ وقت اپ ٹو ڈیٹ ہوتے رہنا ایک باوقار تعلیمی نظام کے لیے اہم ہوتے ہیں۔

جیئند خان جمالدینی کی قیادت میں ایجوکیشن فیکلٹی نے بہت محنت اور کنسلٹیشن کے بعد سنگت اکیڈمی کی ایک ”متبادل عوامی ایجوکیشن پالیسی“ تیار کی اور اسے شائع کر کے سیاسی پارٹیوں، تعلیمی اداروں، دانشوروں، صحافیوں اور پالیسی میکرز تک پہنچایا۔ اس فیکلٹی نے ا بھی تک بہت کام کرنا ہے۔

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی لٹریچر فیکلٹی وحید زہیر کی قیادت میں اب وہ سارے کام کرے گی جو اب تک پوری تنظیم کرتی تھی۔ ہم نے ملک اور بیرون ملک ادبی تنظیموں سے روابط قائم کرنے اور اُن کے ساتھ اشتراک و اتحاد کی راہیں تلاش کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ اُس کی صورت یہ ہے کہ ہم پاکستان سطح پر قائم ادبی تنظیم پراگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کا بلوچستان چیپڑ ہیں۔

اس کے علاوہ گذشتہ ایک سال سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی جینڈر فیکلٹی عابدہ رحمن کی سربراہی میں قائم ہے، اور اپنی ابتدائی میٹنگز کرچکی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر منیر رئیساانی ہیلتھ فیکلٹی کا سربراہ ہے۔ ایک متبادل عوامی ہیلتھ پالیسی دینا اس فیکلٹی کا اہم ترین کام ہے۔

لیبر فیکلٹی اکرم مینگل کی سربراہی میں صنعت، زراعت، ماہی گیری اور مائننگ کے شعبے میں کام کرے گی۔

میڈیا فیکلٹی اپنی پہلی دو میٹنگیں کر چکی ہے۔ایک عوامی میڈیا پالیسی مرتب کرے گی۔شاہ محمد مری کی قیادت میں کلچر فیکلٹی منظم ہوگی۔

یہ سب ایک ڈین فیکلٹیز کی معاونت سے اپنی بنیادی میٹنگیں کرچکی ہیں اور اپنی اپنی TOR بنا چکی ہیں۔

یہ اور مستقبل میں بننے والی دیگر فیکلٹیوں نے اپنے شعبے میں ریسرچ اور پبلی کیشن کرنے ہیں، اپنے شعبے سے متعلق ایک ”متبادل عوامی پالیسی“وضع کرنی ہے اور اُس شعبے سے متعلق پالیسی کو تنظیم کی مرکزی کمیٹی اور ڈیلی گیٹ کانفرنس سے منظور کروا کر اسے افراد، تنظیموں، گروپوں اور پارٹیوں کے سامنے رکھا جائے گا۔

یوں حتمی پالیسی سنگت اکیڈمی کی ”متبادل عوامی پالیسی“ کہلائے گی۔ پھر ہر دوسال بعد اس پالیسی کو اپ ٹو ڈیٹ کیا جاتا رہے گا۔

یہ فیکلٹیاں اپنے شعبوں میں ریسرچ پیپرز سنگت پوہ زانت میں بھی پڑھیں گی اور ان کی اشاعت کریں گی۔

 

۔3۔پبلی کیشنز

اس دوران پبلی کیشن اور تراجم کے سلسلے میں بھی اچھی خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ عشاق کے قافلے کے سلسلے میں چے گویرا، فہمیدہ ریاض، سوبھوگیان چندانڑیں، بابو شورش،اور ڈاکٹر خدائیداد کی اشاعت ہوئی۔ سنگت تراجم سیریز میں جارج جیکسن کے خطوط،دکھ کی مسافت، مری مزاحمت، ڈیفنس آف کاہان، کارل مارکس کی زندگی اور افکار، مزدور عورت، سماج میں عورت کا کردار اردو زبان میں ترجمہ کر کے اشاعت کی منزل تک پہنچائے گئے۔ بلوچی تراجم میں مرگ ئے وشی، کمیونسٹ مینی فیسٹو، پولٹیکل سائنس ئے ڈکشنری، گلڑو، کاشذ،اور گلیلیو، منظر عام پر آئے جبکہ انیمل فارم براہوئی زبان میں آئی۔ علاوہ ازیں دیگر کتب کے سلسلے میں تاریخی وجدلی مادیت، بلوچی زبان و ادب، آل انڈیا بلوچ کانفرنس، بلوچستان کی ادبی تحریک، سنگت ایجوکیشن پالیسی (انگریزی) میں شائع کی گئیں۔ ان سب کو ملا کر اِن دو برسوں میں 24کتابیں شائع ہوئیں۔

 

۔4۔بلوچستان سنڈے پارٹی

اس دوران سنڈے پارٹی کے اجلاس باقاعدگی سے ہر ماہ کے پہلے اتوار کو ہوتے رہے۔ جن میں حاضرین کی بہت بڑی تعداد شرکت کرتی رہی۔ یہ نشست غیر رسمی نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس میں حال حوال اور بحث ومباحثہ شامل ہوتا ہے۔سنجیدہ ادبی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی بحثیں اور حالات حاضرہ پر گفتگو ہوتی رہی۔ اس میں نوجوانوں اور خواتین کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ نیزاس کی ملکی وبین الاقوامی ساکھ میں بھی بہتری آئی ہے۔یہ سنڈے پارٹی اب جھٹ پٹ میں بھی قائم ہوگئی ہے اور باقاعدگی سے اس میں وہاں کے دانشور، ادیب، اورشاعر شرکت کر رہے ہیں۔

 

۔5۔اکیڈمی کے اداروں کے اجلاس

 

۔  سنٹرل کمیٹی:     دو سالہ مدت کے دوران سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی سنٹرل کمیٹی کے چار اجلاس ہوئے ہیں۔

۔ جنرل باڈی:جنرل باڈی کے بھی چار اجلاس ہوئے۔

۔ سنگت ایڈیٹوریل بورڈ: سنگت ایڈیٹوریل بورڈکے چہار ماہی اجلاسوں کی تعداد چھ رہی۔

 

۔6۔پوہ زانت

سنگت کے اس معروف ادبی سماجی سیاسی اجتماع کو ”سنگت پوہ زانت“ کا باقاعدہ نام جولائی 2008کو دیا گیا۔اُس وقت سے شعور و دانش کی یہ (پہلے  ہفت روزہ، بعد میں پندرہ روزہ اور اب کچھ سالوں سے ماہانہ)نشست ”سنگت پوہ زانت“ کے نام سے باقاعدگی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

اِن دو سالوں کے دوران پوہ زانت کی نشستوں کی تفصیل یہاں ضروری ہے:

 

2018

جنوری

سال کا پہلا پوہ زانت 28جنوری2018 کو ہوا۔یوسف عزیز مگسی کے اردو افسانے ”تکمیلِ انسانیت“ کی تکنیک پر عابد میر نے، تکمیل انسانیت کا اردو افسانے میں مقام بیرم غوری نے، جاوید اختر نے اس میں آٹو بائیوگرافیکل عناصر اور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے تکمیل انسانیت کا سماجی و سیاسی پس منظر پر اپنے مقالے پڑھے۔

فروری

فروری مادری زبانوں کے عالمی دن کا مہینہ ہوتاہے، اوراُس کے آخر میں خواتین کا عالمی دن آتا ہے۔ آٹھ مارچ بڑے شاعر ساحر لدھیانوی کا یومِ پیدائش بھی ہے۔ عطا شاد اسی فروری ماہ ہم سے بچھڑا تھا، فیض احمد فیض اور گوہر ملک کی وفات کا مہینہ۔

ہم نے وحید زہیر کی امامت میں فاتحہ خوانی کے ہاتھ اٹھائے اور ان اکابرین کو خیر کے جذبات و تمناؤں کے ساتھ یاد کیا۔اس کے بعد ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنا مضمون عورتوں کی جمہوری تحریک پڑھا۔ ڈاکٹر عنبرین مینگل نے گوہر ملک سے متعلق اپنی یادداشتوں پر مشتمل مضمون پیش کیا۔ عابدہ رحمن نے عاصمہ جہانگیر پر اپنا مضمون پڑھا۔

مارچ

ڈاکٹر عطااللہ بزنجو نے جام ساقی پر،۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کلچر پالیسی پر اپنے مضامین پڑھے۔ جاوید اختر نے سنگت ایجوکیشن پالیسی کے ڈرافٹ کا تعارف پیش کیا۔ عابد میر نے شاہ محمد مری کی کتاب ”بلوچستان کی ادبی تحریک“کا تعارف پیش کیا۔ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں، بلال اسود، زاہد دشتی، وصاف باسط، جمال بشیر اور فاضل بشیر اور دیگر شعرانے اپنی شاعری سنائی۔

اپریل

پوہ زانت 29اپریل 2018میں،وحید زہیر نے حضور بخش مستانہ پر اپنا مضمون پڑھا۔ نور خان محمد حسنی۔شاہد قیصرانڑیں،اور مصری خان مری نے سلطان قیصرانڑیں کی علمی، ادبی اور تعلیمی خدمات پر گفتگو کی۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے سلطان قیصرانڑیں کی شخصیت پر اپنا مضمون ”صبا و بل صبا“پڑھا۔  مقررین نے کہا کہ سنگت اکیڈمی جو عصرِ حاضر میں ترقی پسند دانشوروں، ادیبوں اورقلمکاروں کا پلیٹ فارم ہے اس کا گرینڈفادر”لوز چیدگ“تھا۔ سلطان نعیم قیصرانی اُس کا صدر تھا۔

 جولائی

جولائی 2018کاپوہ زانت ڈاکٹر امیر الدین کے حوالے سے تھا۔ جیئند خان جمالدینی، ڈاکٹر شاہ محمد مری، اکبر ساسولی اور سرور آغا نے امیر الدین کی شخصیت، تعلیمی خدمات اور سیاسی جدوجہد پر مقالے پیش کیے اور عابدہ رحمن نے امیر الدین کی بیٹی کا خط ابو کے نام پڑھ کر سنایا۔

اگست

یہ پوہ زانت سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی تاریخ پر تھا  ڈاکٹر عطااللہ بزنجو اور دیگر احباب نے اظہارِ خیال کیا۔

جبکہ اس کے دوسرے سیشن میں کثیر السانی مشاعرہ ہوا۔ جس میں اردو، بلوچی، براہوئی، پشتو، فارسی، سندھی، سرائیکی  اور پنجابی زبان میں شعراء نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔

ستمبر

ستمبر کے پوہ زانت میں احمد سلیم اور ڈاکٹر جعفر احمد نے شرکت کی۔ اس میں عابدمیر نے بلوچستان کے اردو ادب پر،ڈاکٹر لیاقت سنی نے معاصر براہوئی ادب پر، محمود ایاز نے پشتو ادب پر اورڈاکٹر ساجد بزدار بلوچی ادب پر مقالے پیش کیے۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے اعلان کیا کہ بلوچستان میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز ہی ہماری تنظیم ہے۔ اور احمد سلیم نے بھی اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔

نومبر

۔2018میں پوہ زانت کی اس آٹھویں نشست میں فہمیدہ ریاض پر وحید زہیر نے اپنا مضمون ”دکھی ماں، توانا آواز“پیش کیا۔ ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں نے فہمیدہ ریاض کی نظم ”مجسمہ گرادیا“ کا براہوئی منظوم ترجمہ پڑھا۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ساہیوال کی دو روزہ ثقافتی کانفرنس کا حال سنایا۔

دسمبر

دسمبر کی یہ نشست امین کھوسو اور کاکا جی صنوبر کی یاد میں منعقد کی گئی تھی۔ عابد میر نے جھٹ پٹ میں آل بلوچستان کانفرنس کے زیراہتمام امین کھوسو پر منعقد ہونے والی کانفرنس کی رپورٹ پیش کی۔

جاوید اختر نے امین کھوسہ پر اپنا مضمون پڑھا۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کاکا جی صنوبر حسین پر مضمون پڑھا۔

2019

جنوری

۔2019کی پہلی نشست 27 جنوری کومنعقد ہوئی۔ جس میں جاوید اختر، ڈاکٹر شاہ محمد مری اور دیگر ساتھیوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے مرکزی کنونشن میں شرکت کا حال احوال سنایا۔

فروری

پوہ زانت کی اس دوسری نشست میں ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں، وحید زہیر، عبداللہ شوہاز اور نجیب سرپرہ نے افسانے، شاعری اور مضمون پیش کیے۔

مارچ

مارچ 2019کا اجلاس  خیر محمد سمالانڑیں کی وفات پر ایک تعزیتی اجلاس تھا۔مرحوم کی یاد میں عابد میر، جاوید اختر، نذیر لہڑی، اورنجیب سرپرہ نے اپنے اپنے مضمون پیش کیے۔

اپریل

اس میں ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں، عابد میر، وحید زہیر، عبداللہ شوہاز اور نجیب سرپرہ نے اپنی تخلیقات پیش کیں۔

جون

عابدہ رحمن کے افسانے ”مائیخان“ پر ادبی تنقیدی نظر ڈالی گئی۔ ڈاکٹر سلیمان قاضی کا سائنسی مضمون ”ایچ آئی وی اور لاڑکانہ“ سناگیا اور جاوید اختر کے مضمون ”ادب اور طبقاتی جدوجہد“ پہ بحث کی گئی۔

جولائی

عطااللہ بزنجو نے بابا ئے بلوچستان پر اپنا مقالہ پڑھا۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے میر غوث بخش بزنجو کی شریک ِحیات جان بی بی پر اپنا مضمون پڑھا۔ نشست کے دوسرے سیشن میں کثیر اللسانی مشاعرہ ہوا۔

ستمبر

نجیب سرپرہ نے سنگت اکیڈمی پہ،خالد میر نے جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر، اور ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں نے جدید عہد میں ادب کے مسائل پر مضمون پیش کیا۔

اکتوبر

سنگت پوہ زانت کی اُس سال کی آخری نشست اکتوبر 2019 میں منعقد ہوئی۔ جس میں سنگت کا نگریس 2019سے متعلق اجلاس ہوا۔ اس میں سنڈے پارٹی بھی تھی اور سنگت کانگریس 2019سے متعلق تیاریوں پر مشتمل صلاح و مشورہ اور تجاویز تھیں۔

 

یوں 2018میں سنگت پوہ زانت کی 9اور2019میں 7نشستیں ہوئیں۔ مجموعی طور پر ان دو برسوں میں کل 16نشستوں کا انعقاد ہوا۔یہ تمام اجلاس پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوئے۔

 

۔8۔سنگت بک ڈونیشن کمپین

 

سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے ہمیشہ کتاب دوستی اور کتاب کلچر کو فروغ دیا ہے۔وہ کئی سالوں سے نئی لائبریریوں کے قیام میں مدد کر رہی ہے اور پہلے سے موجود لائبریریوں کو بک ڈونیشن کے ذریعے مالا مال کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں اس نے اس دوسالہ مدت میں میر گل خان نصیر لائبریری نوشکی کو 1400کتابیں عطیہ کیں۔سندھی کی عوامی تحریک لائبریری کو 50کتابیں، کوئٹہ جیل لائبریری کو 250کتابیں، گورنمنٹ گوادر گرلز ہائی سکول لائبریری کی 500کتابیں اور میر غوث بخش بزنجو لائبریری کو 70کتابیں، ڈگری کالج کوئٹہ کی لائبریری کو  50، ڈگری کالج ہاسٹل کی لائبریری کو 50، لوڑ کاریز لائبریری کو 100، بابو شورش لائبریری دشت کو 70کتابیں، سنگت لائبریری بھاگ  70، اور غازی ڈیرہ غازی خان لائبریری کو200کتابیں عطیہ کیں۔

۔9۔دوستی کے معاہدے

 

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ وہ ہم خیال ادبی تنظیموں سے دوستی کے معاہدے کر ے۔ اس سلسلے میں سکام اکیڈمی کوئٹہ، راسکو ادبی دیوان نوشکی سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے دوستی کے معاہدے کیے ہیں۔ جس میں مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

 

۔10۔دورے

 

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ستمبر2018میں ساہیوال میں دو روزہ ثقافتی کانفرنس میں شرکت کر کے اپنا مقالہ پڑھا اور سنگت کی نمائندگی کی۔ جنوری 2019میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے مرکزی کنونشن لاہور میں سنگت اکیڈمی کا وفد جس میں ڈاکٹر شاہ محمد مری، ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں ڈاکٹر عطااللہ بزنجو، عابد میر، وحید زہیر، اور جاوید اختر شامل تھے،اور بلوچستان کی طرف سے سنگت اکیڈمی کی رپورٹ پیش کی، مقالات پڑھے اور شاعری سنائی۔

***

نئی سنٹرل کمیٹی

 

یہ مرحلہ دراصل کانگریس کے کلوزڈ سیشن میں نمٹا دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ2006سے چلے آئے تنظیم کے بڑے عہدے ”صدر“ کا عہدہ نومبر 2011 کو ختم کیا گیا تھا اور اُس کی جگہ سیکریٹری جنرل کا عہدہ سب سے اہم عہدہ قرار پایا۔اور اُس کی معاونت کے لیے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کا عہدہ شامل کیا گیا تھا۔ 2011میں ہی باقی سارے عہدے مثلاً نائب صدر،جوائنٹ سیکرٹری، خزانچی اور پریس سیکرٹری کے عہدے ختم کردیے گئے۔

نئی سنٹرل کمیٹی کے انتخاب کے سلسلے میں چونکہ سارے ارکان کو سنگت روایت کا معلوم تھا، اس لیے کلوزڈ سیشن میں کوئی بھی امیدوارنہ بناتھا اور یوں  کانگریس نے سینٹرل کمیٹی کی جانب سے نئی سنٹرل کمیٹی اور کابینہ کے لیے ناموں  کے پینل کی منظوری دی تھی۔ چنانچہ اوپن جلسے میں آئندہ دو برس کے لیے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی سنٹرل کمیٹی کا حلف لیاگیا:

جاوید اختر(سیکریٹری جنرل)، ڈاکٹر عطااللہ بزنجو (ڈپٹی سیکریٹری)،شاہ محمد مری  (ڈین فیکلٹیز)۔ڈاکٹر ساجد بزدار، عابدہ رحمان، نجیب سرپرہ، نواز کھوسہ، آزات جمالدینی،اور چاکر میروانڑیں۔

نئے احباب کی حلف برداری کے ساتھ ہی کانگریس کے اوپن جلسے کا پہلا حصہ اختتام پذیر ہوا۔

***

دوسرا حصہ

 

کانگریس کا یہ حصہ نئی قیادت کے تحت جاری رہنا تھا۔بغیر وقفہ کیے سٹیج نجیب سرپرہ نے سنبھالا۔ وہ نئی کابینہ میں پوہ زانت فیکلٹی کا چیئرمین ہے۔ یوں اُس نے اگلے دو برس تک پوہ زانت اور دیگر تقریبات کی نظامت سنبھالنی ہے۔

چونکہ اسی سیشن میں بین السانی مشاعرہ بھی ہونا تھا اس لیے مشاعرے کا انچارج ڈاکٹر منیر رئیسانی بھی نجیب کے ساتھ سٹیج پہ موجود ہوا۔

نجیب سائر کی درخواست پر نومنتخب سیکریٹری جنرل جاوید اخترنے سٹیج پہ اپنی صدارتی نشست سنبھالی۔ ساتھ والی کرسی پہ نومنتخب ڈپٹی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو براجمان ہوگیا۔ قیادت کی اس تبدیلی کا تالیوں سے خیر مقدم کیا گیا۔

اس سیشن کے پہلے مقالہ نگار خالد میر کو بلایا گیا۔ اس نے ”جدید ٹکنالوجی کے سیاست پہ اثرات“ کے عنوان کے تحت اپنا پیپر پڑھا۔اس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ جدید ٹکنالوجی کا راستہ روکنا ناممکن ہے۔ اُس کے بے شمار فوائد اور مثبت پہلو ہیں۔ عوامی سیاست کرنے والوں کو اس کا بھر پور استعمال کرنا چاہیے۔

منیر رئیسانڑیں نے بین السانی مشاعرے کا پہلا حصہ کنڈکٹ کیا۔ بین السانی مشاعرے سنگت اکیڈمی کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں۔ البتہ مشاعرہ عام دعوت والا نہیں ہوتا۔ ہم بلوچستان میں بولی جانے والی ہر زبان سے پانچ پانچ شاعر منتخب کرتے ہیں اور انہی سے مشاعرہ پڑھواتے ہیں۔

پروفیسر منیر رئیسانڑیں نے مشاعرے کی ابتداخود اپنے کلام سے کی:

 

جیسے خزاں کی دھوپ میں اْڑتی ہوئی تھکن

کیسے حسین لوگ تھے کیسے اداس  تھے

 

پھر عابد میر کو بلایاگیا۔ اس نے سرائیکی زبان میں کلام سنایا۔

عنبرین مینگل آئی۔ اور علم کی اہمیت پہ شاعری کی:

علم سات اے نیاڑی نا

علم ایتک نشان کسر

مہدی ایناغ نے آزرگی میں اپنی شاعری پڑھی۔

اگلے مقالہ نگار کو بلانے کی باری تھی۔ اور تالیوں کے شور میں وحیدزہیر کو بلایا گیا۔ اُس کے پیپر کا ٹائٹل تھا: سرمایہ سورج، سوانیزے پر۔اس نے کپٹل ازم کی معراج یعنی سامراجیت کی وحشتوں کے تناظر میں آج کی دنیا کو دیکھا۔ اُس کے ہاتھوں دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کی تباہ کردہ زندگیوں کا تذکرہ کیا۔ اور ہر ہر جگہ پہ اُس کے خلاف عوامی مزاہمتوں کو بیان کیا۔

ڈاکٹر منیر نے شاعری کی ایک اورمحفل جمائی۔

اِس حصے میں علی تورانی نے آزرگی زبان میں شاعری سنائی۔

اس کے بعد بلال اسود آیا، اپنی اچھی اردو شاعری سنائی:

 

سفید شام ہوئی ہے سیاہ ہونے کے بعد

مجھے تھی خواہشِ بخشش گناہ ہونے کے بعد

 

پھر وصاف باسط نے اپنی شاعری پڑھی:

 

تمام ختم ہوئے خوش گمانیوں کے ورق

سراب کھا گیا تیری نشانیوں کے ورق

 

رفیق مغیری نے بلوچی شاعری سنائی۔ اور ترنم کے ساتھ سنائی۔ کیا خوبصورت آواز ہے اس کی۔ مسحور ہوگیا سارا مجمع۔

 

ایذا انساں بہا بیغاں

ایدا ایماں بہا بیغاں

قراردادیں۔۔ پہلا حصہ

 

۔جس کے بعد کلوزڈ سیشن میں منظور کردہ قراردادوں کا پہلا حصہ عابدہ رحمن نے پڑھ کر سنایا:۔

۔1۔                بلوچستان میں ادب کی ترویج کے اقدامات کیے جائیں۔

۔ 2۔    ملکی ادبی اداروں میں بلوچستان کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔

۔3۔                بلوچستان کے ادیبوں، شاعروں، دانش وروں کے مقام اور خدمات کا سماجی طور پر احترام کیا جائے۔

۔ 4۔    یہ اجلاس بے روزگاری اور مہنگائی کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے فوری خاتمے کے اقدامات کرے۔

۔5۔    ہم اٹھارویں ترمیم کے ساتھ ہیں۔ صوبائی حکومتیں اس کی حقیقی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ ہم اس ترمیم میں کسی قسم کی تبدیلی یا اس کو diluteکرنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کریں گے۔

۔6۔   دیہی علاقوں میں شہری سہولیات مہیا کی جائیں۔

۔7۔   پیرامیڈیکل اسٹاف، بے روزگار انجینئرز، فارماسسٹ سمیت تمام ہڑتالی طبقات کے مسائل حل کیے جائیں۔

۔8۔   بلوچستان کی بڑی بڑی شاہراہوں کو دو رویہ کیا جائے۔ ان حادثات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ طبی مراکز قائم کیے جائیں۔

۔9۔    دیہی علاقوں میں معیاری تعلیم کی سہولیات مہیاکی جائیں تاکہ وہاں کے کمسن اور غریب طلبا کو دو ر دراز شہروں میں دربدرنہ ہونا پڑے۔

۔10۔    ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بلوچستان کی یونیورسٹیز کے فنڈز میں کمی، عدم تعاون اور غیرضروری پابندیوں کی مذمت کی جاتی ہے۔ یونیورسٹیوں کے فنڈ فوری بحال کیے جائیں۔

۔11۔  صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فوری طور پر صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا قیام جلد از جلد عمل میں لایا جائے۔

۔12۔   بلوچستان میں نصاب کے اندر غیرمتعلقہ مضامین، اور متنازع شر پھیلانے والے مواد کو شامل کرنے کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے۔ بیورو آف کریکولم اور ٹیکسٹ بک بورڈ کو سنجیدہ ادارہ سمجھنا چاہیے اورنصاب جیسے حساس موضوع کوروایتی نظر اندازی کا شکار نہیں کرنا چاہیے۔

نصاب کو صوبائی سطح پر عوام کی ضروریات و خواہشات کے مطابق ترتیب دیاجائے۔

۔13۔   مادری زبانوں میں سائنسی، سماجی علوم کو بنیادی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ میٹرک تک تعلیم سائنسی اور لازمی قرار دی جائے۔

۔14۔   صوبے کے تعلیمی اداروں میں منشیات و دیگر جرائم کی روک تھام کے لیے چوکس رہنا چاہیے۔

۔15۔   طلبہ کو یونین سازی کی اجازت دی جائے۔

۔16۔  بلوچستان کے تعلیمی اداروں سے سکیورٹی فورسز کا انخلا یقینی بنایا جائے۔

اس کے بعد شاعری کا تیسرا دور چلا۔ جوہر بنگلزئی نے اپنی رواں براہوئی شاعری سے محظوظ کیا۔

دا خن تہ تک ٹی اْس

نی پاش لکھ ٹی اْس

 

رزاق کو ہزاد نے آزرگی زبان میں کلام سنایا۔

ڈاکٹر شائستہ درانی نے اپنا کلام سنایا:

آس کا ایک ہی جو در رکھا

عمر بھر اس نے در بدر رکھا

 

وہاب شوہاز:۔

یہ کیا کہ زندگی کو تماشا بنا دیا

اچھا بھلا وہاب تھا یہ کیا بنا دیا

 

عابدہ رحمن نے پشتو میں اپنی خوبصورت شاعری سنائی۔

 

نور محمد خان محمد حسنی:۔

سبھی رمزوں نگاہن میں بُداہیں ھا تہ چھا تھی ھا

 

پھر باقی بلوچ نے شاعری کی۔

دردے گیشتر خناس

ٹکر و  لتر  خناس

چاس ہمودے کنا

بے وس آ وطن

 

قراردادیں۔۔ دوسرا حصہ

 

عنبرین مینگل نے قراردادیں پڑھیں۔

۔1۔                بلوچستان میں پرائمری ہیلتھ پہ توجہ دینی چاہیے۔ ہر سب ڈویژن میں سپیشلسٹ ڈاکٹروں پہ مشتمل ہسپتال بنائے جائیں۔

۔2۔             صوبے میں لائف سیونگ ادویات اور ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور بڑے پیمانے پر جراثیم کش سپرے کی ذمہ دای پوری کی جائے۔

۔3۔   بولان میڈیکل یونیورسٹی میں طالبات اور ہاؤس آفیسرز کی رہائش کے مسائل حل کیے جائیں۔ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کی مذمت کی جاتی ہے۔

۔4۔                پی ایم ڈی سی کو بحال کیا جائے اور اس ادارے میں غیرجمہوری اقدامات کا خاتمہ کیا جائے۔میڈیکل کے شعبے کو پرائیویٹائیز کرنے کی مذمت کی جاتی ہے۔

۔5۔   میڈیکل سٹوڈنٹس کے لیے میڈیکل اخلاقیات کی تعلیم دینے پہ توجہ دینی چاہیے۔

۔6۔  حکومت پیٹرول کے کاروبار میں پیٹرول مسافر گاڑیوں میں لانے لے جانے کے دھندے میں ملوث حکام اور دیگر وابستگان کے خلاف سخت کاروائی کرے۔

۔7۔   بلوچستان میں طلباو طالبات کے ساتھ جنسی ہراسمنٹ کے بڑھتے ہوئے واقعات سے والدین اور شہری پریشان ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی و بولان میڈیکل یونیورسٹی سمیت تعلیمی اداروں و مختلف علاقوں میں رونماہونے والے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین پہ سختی سے عمل کرنا چاہیے اور مزید قوانین بنائے جائیں۔

۔8۔   بلوچستان میں بچیوں کے حقِ وراثت کے قانون پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

۔9۔   بلوچستان میں خصوصاً بچیوں کی میٹرک تک کوالٹی سائنسی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔

۔10۔   بلوچستان میں آنے والے برسوں میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے اکثر آبادیوں کوکہیں اور منتقل ہونے کے بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہیں۔ صوبے میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔

۔11۔          کانگریس نہری علاقوں میں سندھ سے پانی کی تقسیم پہ گھپلوں پہ شدید تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ خصوصاً بیرون اور اندرون کی بنیاد پر پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔

۔12۔  بلوچستان میں بڑے پیمانے پہ کارخانے قائم کیے جائیں تاکہ عوام دو وقت کی روٹی باعزت طورپر حاصل کرسکیں۔

۔13۔   ساحلی علاقوں کے ماہی گیروں کو بین الاقوامی ٹرالوں سے نجات دلائی جائے۔ اِن کے مسائل فوری طور پر حل کیے جائیں۔ ماہی کی فروخت کے لیے مارکیٹ ہمارے اپنے ساحلی شہروں میں قائم کیے جائیں۔

۔14۔              صوبے میں کان کنی سے وابستہ مزدروں کی جانوں کا بین الاقوامی معیار کے مطابق تحفظ کیا جائے۔ کان کن مزدوروں کی غیر انسانی زندگی کے متعلق عوام کو آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے۔اس شعبے میں حالات غلام داری کے زمانے جیسے ہیں۔

۔15۔             لیبر لاز کو صوبے اور اکیسویں صدی کے مطابق ازسرنو تشکیل دیا اور مزدوروں کو یونین سازی کا حق دیا جائے۔

محمود شکیب سنجرانی، افضل مراد اور بیرم غوری کے کلام سے مشاعرہ اپنے سر تک پہنچا۔

افضل مراد:۔

تنیا تنیا بے سما چپ چاپ تولنگ دی ونن

باروٹ نا سوچیسہ دْن شعر لکنگ دے ونن

بیرم غوری:۔

رہے وہ  صبح چمکتی کسی کے آنچل پر

رہے وہ شام سرِ چشمِ سرمگیں آباد

قراردادیں۔۔۔تیسرا حصہ          

 

قراردادوں کاتیسرا، اور آخری حصہ نور بانو نے پڑھا:۔

۔1۔   بلوچستان کلچر لی ایک امیر خطہ ہے۔ صوبائی حکومت اس کا ادراک کرکے صوبے میں کلچر کے فروغ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

۔2۔   کوئٹہ میں کلچرل میوزیم کو وسیع کیا جائے اور پبلک میں اس کی تشہیر کی جائے۔

۔3۔   صوبے میں آرکیالوجیکل میوزیم کا قیام عمل میں لایا جائے۔

۔3۔   تمام آرکیالوجیکل سائٹس کومحفوظ کیا جائے اور ان پہ ریسرچ کرنے کی سہولیات دی جائیں۔ نیز ان پہ ہونے والی ریسرچ کو شائع کرکے عام کیا جائے۔

۔4۔                بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں میڈیا پرسنز کو درپیش مسائل کو حکومت فوری طورپر حل کرے۔

۔5۔   بورژوا”مین سٹریم“میڈیا، بلوچستان سے متعلق اپنے رویوں پہ نظرثانی کرے اور یہاں کے مسائل کی حقیقی ترجمانی کا فریضہ ادا کرے۔

۔6۔   بلوچستان میں میڈیا کے امکانات کو وسیع کیا جائے تاکہ اس شعبے سے وابستہ سٹوڈنٹس اور عملی صحافیوں کے لیے روزگار کے ذرائع پیداہو سکیں۔

۔7۔غیرضروری، بلاواسطہ وبالواسطہ سینسرشپ کا خاتمہ کیا جائے۔

۔ 8۔               حکومت ِ بلوچستان آرٹسٹوں کی پذیرائی اورحوصلہ افزائی کرے۔ ان کے روزگار کا بندوبست کرے۔

۔9۔   آرٹ کے مختلف شعبوں کو نصابِ میں شامل کیا جائے۔

 

اعترافی شیلڈز

 

عوامی خدمت گزاری کے تسلیم کرنے کے بطور جلیلہ حیدر اور اے کیو قادری کو سنگت شیلڈ پیش کیے گئے۔

 

آئندہ کے عزائم

 

نو منتخب سیکریٹری جنرل کو خطاب کے لیے بلایا گیا تو اس نے حاضرین کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ دو سال کے لیے اپنے عزائم اور اہداف کا تذکرہ کیا۔

جاوید اختر کا کہنا تھا کہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ہر نئی قیادت اس کی سابقہ قیادتوں کا تاریخی تسلسل ہے۔ جس کی خصوصیات بورژوا اور پیٹی بورژوا تنظیموں کی قیادتوں کے برعکس یہ ہے کہ اس میں کوئی بیوروکریٹک رویہ اور ڈکٹیٹر شپ نہیں پائی جاتی ہے بلکہ وہ عوامی اور جمہوری ہوتی ہے۔ سنگت مزدوروں اور کسانوں کے انقلابی و جمہوری اتحاد میں یقین رکھتی ہے۔ قوموں کے حقوق بشمول حق خود ارادیت کی حمایت کرتی ہے۔ خواتین کے حقوق اور مرد وزن کے درمیان صنفی برابری کی دعوے دار ہے۔ اس کے پاس تنظیمی ڈسپلن اور عوامی نظریے کا ہتھیار ہے۔ اور مختصر یہ کہ اس کا نظریہ انقلابی ہے۔ تاریخ کی موٹر طبقاتی جدوجہد ہے نہ کہ شخصیات جو سماج میں کیفیتی و کمیتی تبدیلیاں برپا کرتی ہے۔ سنگت کی نومنتخب قیادت اس روایت سے اپنی گہری وابستگی کا اعلان کرتی ہے۔ اور خود کو ان مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا پختہ ارادہ رکھتی ہے۔ اس لیے وہ سنگت کو ان نظریات سے کمیٹڈ دانشوروں کی تنظیم بنانے کے لیے جدوجہد کرے گی۔ اس کا ہر رکن سنگت کے نظریے اور پروگرام سے متفق ہو، رکنیت کا چندہ دیتا ہو۔اور سنگت کی کسی فیکلٹی میں سرگرمِ عمل ہو۔ یہی تین اصول سنگت کے ممبروں کو دیگر تنظیموں کے ممبروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ کیوں کہ سنگت کا ہر رکن موقع پرستی، فکری تذبذب اور فکری وعملی تضاد سے مبرّا ہونا چاہیے۔ اس کی فکری وعملی وابستگی سرکار، دربار اور سردار سے نہیں بلکہ عوامی کاز سے ہو۔ اس میں موقع پرستی اور مفاد پرستی کے رویے اور رجحانات نہ پنپ سکیں۔

سنگت کی نئی قیادت بلوچستان میں شہری و تنظیمی سیاست (جس کی ابتدا 1920میں ینگ بلوچ کی تاسیس سے ہوئی) کا صد سالہ جشن منانے کا اعلان کرتی ہے۔اس لیے کہ وہ اسی روایت کا تسلسل اور اس کی حقیقی وارث ہے۔ لہذا وہ جنوری2020سے لے کر دسمبر 2020تک ہر ماہانہ پوہ زانت میں اس موضوع سے متعلق کوئی مضمون، نظم، افسانہ اور دیگر تخلیقات کو شامل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

علاوہ ازیں قومی وبین الاقوامی دن منانے اور قومی وبین الاقوامی عشاق پر پوہ زانت منعقد کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔

پوہ زانت کے معیار اور کام کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ مرکزی کمیٹی کے اجلاسوں کو بھی اور منظم،اور معیاری بنایا جائے گا۔

سنگت اکیڈمی کی فیکلٹیز کو فعال، منظم، معیاری بنانے، ان کے دائرہ کار کو مزید وسعت دینے اور نئی فیکلٹیز کے قیام کو یقینی بنایا جائے گا۔ ایجوکیشن پالیسی کی طرز پر لیبر پالیسی، جینڈر پالیسی، ہیلتھ پالیسی، کلچر پالیسی، اور لٹریچر پالیسی کو مرتب کر کے شائع کیا جائے گا۔

سنگت کی موجودہ قیادت سنگت کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے دیگر ہم خیال دانشوروں کی تنظیموں سے معاہدہ دوستی کے کام کو موثر اور فعال بنائے گی تاکہ ان سے مل کر سنگت اپنے دائرہ عمل کو وسعت دے سکے اور ہم آہنگی کی ایک ہمہ گیر فضا پیدا ہو۔ اس سلسلے میں ہم قومی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہم خیال تنظیموں سے رابطے کریں گے، اور ان سے معاہدہ دوستی کر کے اپنے مشن کو جاری رکھیں گے۔

سنگت کی نئی قیادت کتب اور تراجم کی اشاعت کے معیار اور میرٹ کو مزید بہتر بنانے کے لیے کوشش کرے گی۔  علاوہ ازیں سنگت کی کتابوں کی کھپت، تقسیم اور مارکیٹنگ کے لیے ایک پالیسی مرتب کی جائے گی۔ تاکہ سنگت کی کتابوں اور میگزین کی باقاعدہ ترسیل ہوسکے۔ اس سلسلے میں قومی زبانوں کے شہہ پاروں کو دوسری زبانوں میں ترجمہ کر کے انہیں بین الاقوامی قاری تک پہنچانا اور قومی زبانوں کو عالمی ادب کے تراجم سے مالا مال کرنا ہماری اولین ترجیح ہوگی۔ نیز اشاعتی کام کو تیز، باقاعدہ، موثر اور معیاری بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

سنڈے پارٹی کے اجلاسوں کو باقاعدہ،  معیاری، اور منظم رکھا جائے گا۔ اس کی بحثوں کو قومی، ملکی اور بین الاقوامی صورتِ حال،تعلیم، کلچر، ادب اور سیاست سے مربوط کیا جائے گا۔ نیز اس کے ڈھانچے کو مزید منظم کیا جائے گا اور اس کو قومی و عالمی سطح پر متعارف کرایا جائے گا۔

سنگت کی نئی قیادت کتاب کلچر کو فروغ دینے کی روایت کو ترقی دے گی اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں نئی لائبریریوں کے قیام اور پہلے سے قائم شدہ مستحق لائبریریوں سے بک ڈونیشن کے ذریعے تعاون جاری رکھے گی۔ تاکہ بلوچستان بھر میں ریڈرز پیدا ہوں اور ان پڑھی اور جہالت کی ظلمتوں کو ختم کیا جاسکے۔

سنگت کی یہ قیادت اپنی معین منزل کی طرف فکری صفائی کے ساتھ رواں رہنے میں یقین رکھتی ہے۔ اس لیے وہ ہرقسم کے عوام مخالف نظریات کے خلاف نظریاتی کام کا ذمہ اٹھانے کا عہد کرتی ہے۔ کیوں کہ عوامی نظریے کے صف بہ صف کئی قسم کے عوام مخالف نظریات بھی ہیں، جو اونچے طبقات کے طبقاتی مفادات، اورسٹیٹس کوکو قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی نظریات ادب میں ادب برائے ادب کے دعویدار ہیں، جنہوں نے ہمارے ارد گرد کئی ادبی تنظیموں اور دانشوروں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ان نظریات میں وجودیت، جدیدیت، مابعد جدیدیت اور بے مغویت ولغویت ایسے نظریات شامل ہیں۔ لہذا سنگت اس قسم کے نظریات کے خلاف اپنا فکری کام جاری رکھے گی۔ کیوں کہ سنگت کی جدوجہد دنیا بھر میں ہراُس عوامی دانشور کی جدوجہد ہے، جو معاشی استحصال، قومی غلامی،صنفی نابرابری اور سیاسی جبر کے خلاف برسرِپیکار ہے۔

سیکریٹری جنرل جاوید اختر نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور چائے کی طرف چلنے کی دعوت دی۔ اور لوگ چہچہاتے، ٹھہرتے چلتے ہال سے چائے کی طرف چل پڑے۔

کانگریس کے بعد چائے پہ گفتگو بذاتِ خود ایک ”منی کانگریس“ہوتی ہے۔ یہ بذاتِ خود ایک سول سوسائٹی تھی۔ میں نے ایک جگہ چند افراد کے اندر ٹکے رہنے کے بجائے گھوم پھرکر گروہوں گروپوں کی بحثوں اور تبصروں کو سنا۔کامیابی کی مبارکباد کی بغلگیریاں تو تھیں ہی، اصل اہمیت تو اس کے فیصلوں پہ تبصروں کی تھی۔ ”یہ کیا بات ہوئی؟“ ”یہ فیصلہ اچھا کیا“، ”وہ  بات سمجھ نہیں آئی“۔۔

موبائل فونوں کے کیمرے مارچ پاسٹ کرنے لگے۔ پوز بن رہے تھے، پوزیشنیں بن رہی تھیں، وٹس ایپ نمبرز کا تبادلہ ہورہا تھا۔پکچرز شیئر کرنے کی فرمائشیں ہورہی تھیں۔۔۔

۔۔اورچائے کیا تھی، یہ ایک بریک فاسٹ اور لنچ کی ملی جلی چیز تھی: برنچ تھا یہ۔ دن کے ساڑھے تین بجے تھے، زمستان کا موسم تھا، جوانوں کا اجتماع تھا، بھوک زوروں پہ تھی۔ اس لیے میزوں پہ زبردست غزنوی گیری تو ہونی تھی۔ لپک کے چھپکنے اور جھپک کے لپکنے کے دور چلتے رہے۔مگر وہ لوگ کتنا کھاتے۔۔ کافی کچھ بچ گیا۔

 

چادر اور پاؤں

ہم سب کو احساس تھا اور ہے کہ ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے رکھنے کی پالیسی پہ قائم رہنا ہے۔ ہمیں سادگی اپنانی چاہیے۔ ایک ”کشتہِ سلطانی وملّائی وپیری“ کے معاشرے میں بالادست طبقات کے خلاف نبرد آزمالوگوں کو آپے میں ہی رہنا چاہیے۔ ہم جیسی تنظیمیں کروفر اور شو، شاسے نہیں پہچانی جاتیں۔ بلکہ ہماری شناخت تو ہماری فکری کلیرٹی، طبقاتی وابستگی اور عجز ہونی چاہیے۔ ہم آئندہ بھی خیال رکھیں گے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *