Home » شیرانی رلی » اعجاز احمد بلوچ

اعجاز احمد بلوچ

خالی صحفہ  پر پڑا ہوا

خاموش قلم

پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا

پیاسا پرندہ

اسمبلی میں بیٹھے ہوئے

حکمران

اپنے منزل سے بکھرا ہوا

مسافر

جس نے خود سفر شروع کیا ہو۔

اور آدھے راستے میں

خود کو ڈھونڈتا رہا

سب ایک ہی داستان سے

وابستہ ہیں۔

مگر داستان کسی اور

سے آشنا ہے۔

اسی آشنائی سے ہم نا آشنا

ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔

ہم یوں بکھرتے رہے

کبھی  عدالتوں میں

تو

کبھی  بھوک کی ہڑتالوں میں۔

کبھی  شال کی سڑکوں پر

تو کبھی  تھر پار کے صحراؤں پر۔۔۔

مگر۔۔۔۔

میں ہمیشہ نا امید ہوتا رہا

یہ سب میرے لئے خواب تھے۔

جن کو میں ہمیشہ ڈھونڈتا رہا۔۔۔۔

ہمیشہ کی طرح۔۔۔!!!!۔

 

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *