Home » پوھوزانت » سردار جعفری کی لکھنو کی پانچ راتیں ۔۔۔ نسیم سید

سردار جعفری کی لکھنو کی پانچ راتیں ۔۔۔ نسیم سید

                بمبئی سے ڈیڑھ ہزار میل دو ر، پندرہ بیس ہزار کی آبادی پر مشتمل قصبہ بلرام پور کی ایک سڑک کے سا تھ سرخ اینٹوں کی قدآدم دیوار روں کا ایک احا طہ ہے، جس کے دونوں طرف لوہے کے پھا ٹک مستعد اور چوکنے کھڑے پہرہ دے رہے ہیں۔ مہندی کی باڑھ میں سمٹی سرخ بجری کی روش، ان دونوں پھاٹکوں کو ملا تی، لہراتی بل کھاتی دورتک چلی گئی ہے۔احا طے کے اندر گل مہر کے جھومتے درخت، ہری ہری دوب کا قالین بچھائے ٹینس کورٹ، عشق پیچان کی بیلیں بدن سے لپیٹے ستون، بر آمدے میں بچھے برد بار تخت اور اونچی اونچی پر غرور چھتون والے کمرے، اس حویلی میں ایک ننھا سردار بلرام پور کی نیک نامی اور اردو ادب کی خوش بختی کی نوید ہیں گویا۔ اس کے چھو ٹے چھو ٹے قدم جہاں جہاں پڑتے ہیں ستا رے سے ٹانکتے چلے جاتے ہیں۔ننھے ننھے ہاتھ تتلیاں پکڑ تے اور گل مہر کی ہری ہری کلیوں سے فال نکالتے جب قلم پکڑنے کے قابل ہوئے تو ……قلم گوید کہ من شا ہ جہانم… اتنی بار تختی پر لکھا کہ ذہن پر نقش ہو گیا اور پھر اس ذہن نے قلم کو ہی اپنا ہتھیار اور اسی کو اپنا دلدار بنا کے آخری سانس تک سا تھ نبھایا۔

                ماں باپ کی زمیں دار آنکھوں میں تو شا ید کو ئی اور ہی خواب ہونگے جب انہوں نیبڑے چاؤ سے سردار نام رکھا ہوگا لیکن شاید تختی کی مشق کا نتیجہ تھا یا نام ہی کا اثر ہوگا کہ ننھی سی عمر سے ہی اپنے فیصلے خود کرنے کی ٹھا نی اور جب مذہبی روایات کے پا بند گھرانے نے ابتدا ئی تعلیم کے لئے لکھنؤ کے اسکول سلطان المدارس کا انتخا ب کیا تو انکی ساری کو ششیں نا کام ہو گئیں اور علی سردارجعفری نے تین بار سکول سے بھا گ کے گھر والوں کو یقین دلا دیا کہ انکی شخصیت اور مولویت کا کو ئی میل نہیں۔ چھوٹی سی عمر میں منبر پر بیٹھا یا گیا تو بجا ئے وعظ کی طرف نکل جا نے کے اپنی ذہانت اور یاد داشت سے لوگوں کو حیران کردیا۔ چھ، سات سال کی عمر میں ذہانت کا یہ عالم تھا کہ میرانیس کے پورے پورے مرثئے، با پ اور چچا کا سر فخر سے بلند ہوجاتا۔ ماں علم کے پٹکے پکڑ کے بیٹے کی زندگی کی دعا ئیں مانگتیں، بہنیں نظر اتارتیں یوں علی سردار جعفری میں خود اعتما دی کی جڑیں اور گہری ہو کے ان کے وجود میں پھیلتی چلی گئیں۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں شخصیت کے دو پہلو جگمگا اٹھے۔

                ایک خطابت اور دوسرا شا عری۔ فکر میں گو اب بھی انیس کیلہجے کی گونج ہے لیکن سوزنئی طبع کا یہ عالم کہ سا ٹھ سا ٹھ اور ستر ستر بند پہ بھی اپنا کہا ہوا مرثیہ ختم نہیں ہوتا اور یوں گویا فکری شا عری، اور بہاؤ کی قوت کا خمیر تیار ہورہا ہے۔

آتا ہے کون شمع اما مت لئے ہوئے

اپنے جلو میں فوج صداقت لئے ہوئے

اللہ رے حسن فا طمہ کے ما ہتا ب کا

ذروں میں چھپتا پھرتا ہے حسن آفتا ب کا

                علی سردار کے اندر کا شا عر اپنی تلا ش میں ہے۔ تخیل اور مطا لعہ فکر کو نئی راہ سجھا رہے ہیں۔سولہ سال کی عمر اور یہ جلا ل فکر کا۔

آتا ہے ابن فا تح خیبر جلا ل میں

ہلچل ہے شرق و غرب،جنوب و شمال میں

کروٹ بدل رہی ہے زمیں درد و کرب سے

ہلتا ہے دشت گھوڑو ں کی ٹا پوں کی ضرب سے

                سردار جعفری کے بچپن کا احوال پڑھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ مجا لس میں سو ز خوانی اور مرثیوں نے کس طرح لا شعوری طور پر الفا ط کی نشست و برخاست انکی برت میں انکے مزاح و مقام کا تعین اور ان کی اثر انگیزی سے آشنا کیا کہ ہوش آنے سے بھی پہلے میرانیس اور میر دبیر جیسے اعلی پا ئے کے شعرا کا کام کان میں انڈیلا جا نے لگتا ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں یا د کہ اس وقت میری عمر کیا ہوگی جب سے انیس کا معروف مر ثیہ

جب قطع کی ”مسا فت شب آفتا ب نے“ کے چند بند رٹے ہوئے تھے مجھے جبکہ نہ قطع کا مطلب معلوم تھا نہ ہی مسا فت شب کا۔

                علی سردار جعفری کی ذہنی آبیاری بھی لگتا ہے کہ واقعات کربلا اور انیس کی مراثی نے کی کہ پندرہ سولہ سال کی عمر میں فصاحت و بلا غت سے مزین مراثی کہہ رہے تھے۔بچپن کی ذہنی تر بیت اور مرثیہ سے رغبت نے انہیں ایک نڈر اور بے باک ادیب اور شا عر تو بنا یا فکری بلوغت نے انہیں الگ را ستے پر ڈال دیااور نمرود و خلیل کی داستان سے لے کے شہادت حسین تک کے واقعات نے خون میں ایک تا زہ حرارت پیدا کردی۔انکے اندر کو ئی صدا کررہا تھا کہ حق وصدا قت کے لئے جان کی با زی لگا دینا ہی انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔شا ید یہی سبب تھا کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ارد گر د پھیلی نا انصافیوں سے بھی انکی نفرت بڑھتی گئی۔صد یوں سے حق کے نام پر ہونے والے مظالم انکے گرد سوالا ت کا ڈھیر لگا تے گئے۔اسی عمر میں حویلی کے حسن میں اضا فہ کرتے کسی حسن کی ست رنگی انکے خیالوں میں دھنگ رنگ بکھرا گئی اور وہ بے سبب مسکراتے ورانڈوں اور راہداریوں کے چکر لگا تے پا ئے جاتے لیکن اس مسکراہٹ سے وہ آنکھیں الجھتی رہیں جو اپنے اطراف غم زدہ ہجوم کو دیکھ رہی تھیں۔یہ ہرواہوں، اور پرواہیوں کی بے زمنی کا غم تھا۔ پیڑوں سے لٹکی ہوئی مار کھاتی عورتوں کا غم تھا، یہ دنیا ایسی کیوں ہے؟ سوالا ت، دل و دما غ کی الجھن، پریشانی، وحشت تھی کہ بڑھتی گئی۔

                ا س نو جوانی کے عالم میں جبکہ عمو ما ً جا گیر داروں کے لڑکے اپنی طاقت اور امارت کے سبب وقت سے پورا پورا خراج وصول کرتے ہیں سر دار جعفری کا دل حق و صداقت کی تلا ش میں کتا بوں میں اپنے سوالوں کا جواب ڈھونڈ رہا تھا۔ انہیں کبھی مہا تما گا ندھی کی تلا ش حق میں سچا ئی نے لبھایا اور کبھی مشاہیر یونان وروما نے راستہ دکھایا۔ اسی ادھیڑ بن میں پہلی مرتبہ ایک نظم کی صورت میں سردار جعفری نے اپنے احسا سا ت رقم کئے…

خدا نہ تو غرنا طہ و بغداد کے ایوانوں میں ہے

نہ امیروں کے محلوں میں

خدا جو کی روٹی میں ہے

پیوند لگی چا در میں ہے

اور زخموں سے چور

صدائے استغاثہ بلند کرتی آواز میں ہے

                کو ئی اضطراب تھا، کو ئی بے چینی تھی جسے سردار جعفری اپنے وجود میں سا نس لیتا محسوس کررہے تھے۔

                اسی زمانے میں ایک وقت ایسا آیا کہ اچھی غذا لینا چھوڑ دی، ٹینس کھیلنا چھوڑ دیا، شکار کرنا ترک کردیا اور اب بس کتا بوں کی سنگت میں وقت گزرتا ہے۔حق کے را ستے او رفن کی منزلیں آسانی سے ہا تھ نہیں آتیں بڑی تپسیا سے گزرنا پڑتا ہے۔بڑے دکھ بھوگنے پڑتے ہیں۔ علی سردار جعفری نے بھی اپنے پورے وجود کو اس اضطراب کی نذر کردیا۔اقبال کی بانگ درا اتنی بار پڑھی کہ رٹ گئی۔اسی دوران نگار کے کچھ پرچے کہیں مل گئے اور پہلی بار انقلا ب روس کے کا تذکرہ اس پرچے میں پڑھ کے چونکے اور بقول انکے انہیں ایسا لگا جیسے اندھیرے میں ایک چراغ جل اٹھا ہو۔

                علی سردار جعفری اپنے ذہن میں خوابوں کی دنیا سجا ئے۔ کچھ الجھے، کچھ تھکے سوالات میں گھرے بیس برس کی عمر میں علی گڑھ پہنچے۔ اس وقت علی گڑھ میں ترقی پسند تحریک کے اولین نقش اجا گر ہو رہے تھے۔ سبط حسن، اختر حسین رائے پوری، حیات اللہ انصاری، سعادت حسن منٹو، مجا ز، جان نثار اختر، آل احمد سرور جیسے نو جوان ترقی پسندوں کی ٹولی، حسا س بھی بے باک بھی جنکے پاس خواب بھی تھے اور انکے اظہار کا سلیقہ بھی، دل تھا تو اس کی دھڑکنوں میں سو ز یقیں بھی اور سردار کو یوں لگا جیسے انکی تلا ش نے انہیں اصل منزل تک پہنچا دیا۔ وہ تنہا جس منزل کی تلا ش میں نکلے تھے اب ہمسفر ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ ہم خیال دوست اور راہ نما کتا بیں۔ انسان کو اس سے بڑھ کے اپنی آبیاری کو اور کیا چا ہئے۔ لہذا سردار جعفری کے بھی دن ورات انہی دو میں تقسیم ہو گئے۔انکے ذہن میں کتا بوں کی کوء فہرست یا ترتیب موجو دنہیں تھی بس جو کتاب ہا تھ لگتی اسے پڑھ ڈالتے۔ کبھی آسکر وائلڈ نے متاثر کیا تو کبھی گو ئٹے دل کو بھا یا۔ کبھی بھگت سنگھ لہومیں حرارت پیدا کرتا توکبھی وکٹر ہوگو اور گورکی کی انقلا بی سو چوں کو اپنے اندر جذب ہوتا محسوس کرتے۔ اسی زمانے میں گو ئٹے کا شا ہکار فا ؤسٹ پڑھا اور سردار جعفری کی فکری کا ئنا ت میں ایک انقلاب آگیا۔

 انسان اپنی ذات میں کا ئنا ت ہونے کے با وجود کچھ نہیں اگر اس عالم سمعا رات سے اس کا کوئی ذہنی اور جذباتی تعلق نہ ہو –

 انسانی برادری کے دکھ درد کے رشتے مشترک ہیں لہذا اگر غم جاناں کے سلسلے غم دوراں اور غم زمانہ سے نہ ملتے ہوں تو بات نہیں بنتی۔

                سردار جعفری نے اپنی حویلی میں دیکھا تھا کہ چا ول صاف کرتے ہوئے ایک نوکرانی نے ایک مٹھی چا ول اپنے منہ میں ڈال لئے تو اس کے منہ پر ایسا مکا پڑا کہ اسے خون کی کلی کے ساتھ چا ول تھوکنے پڑے۔ اس وقت بھی آج ہی کی طرح کسان اور انکے بچے ایک مٹھی انا ج کے لئے خون تھوک رہے تھے۔ یورپ میں فا شزم خون کی ہولی کھیل رہا تھا۔ ہٹلر نے جر منی میں ان مفکروں، ایدیبوں اور سیاست دانوں پر عا صۂ حیات تنگ کردیا تھاجن کی آواز میں جمہوریت کی پکار تھی۔

                عالمگیر کسا د با زا ری کے سبب ہماری دنیا اقتصادی بحران کا شکار تھی۔ ہندوستان کی معیشت پر اس بحران کے اثرات کچھ ذیا دہ ہی گہرے تھے۔ ایک طرف معا شی بحران دوسری طرف آزا دی گفتار پر پابندی لہذا اس دور کے حسا س اور بے باک ادیبوں میں اپنی ذمہ داری کا احساس شدید تر ہو گیا اور سر دا ر جعفری کی انقلا بی سو چ کا آ تش فشاں لا وا اگلنے لگا۔

تمنا ؤں سے کب تک زندگی بہلائی جا ئے گی

کھلونے دے کے کب تک مفلسی بہلا ئی جائے گی

 نیا چشمہ ہے پتھر کے شگا فوں سے ابلنے کو

زمانہ کس قدر بے تاب ہے کروٹ بدلنے کو

                یہ نوجوان ترقی پسند جن کی آنکھوں میں صبح کے اجا لے اور آواز میں زندگی کی بشا رت تھی، جدھر سے گزرتے لوگ ان پر محبت کے پھول نچھاورکرتے۔

                یہ طالبعلم بھی تھے اور ان کا عمل دخل سیا ست میں بھی تھا۔شا عر اور ادیب بھی تھے اور فا قہ مست بھی، اور انکا نعرہ کبھی مجا ز کی آواز تھی۔

بول اری او دھرتی بول

را ج سنگھا سن ڈانوا ڈول

اور کبھی سردار جعفری کی نظم

پیشا نی افلا ک سے جو پھوٹ رہی ہے

اٹھتے ہوئے سو رج کی کرن ہے کہ نہیں ہے؟

                تعلیم، ادب، سیاست، شا عری، احباب، کوچہِ جاناں کا طواف، لیلی وطن کی آزا دی کے خواب، فا قہ مستی کے دن، جیل کی سفا ک دیواروں میں قید بیجان اور اداس شب وروز، سردار جعفری کے ان تمام لمحات، تما م واقعات کے رنگ میں جیسے جیسے ” لکھؤکی پا نچ راتوں ” کے اوراق الٹتی گئی مجھ پر واضح ہوتے گئے اور سا تھ ہی سردا ر جعفری کی شخصیت کا ہر روپ اور انکے بچپن سے لیکے جوانی اور پھر معروف سردار،ادب کا قد آدم کے مجسمہ سے شنا سا ئی، اس ایک کتاب نے مجھے کیا کچھ نہیں دیا۔

                اکثر خیال آتا تھا کہ سردار جعفری نے اپنی آپ بیتی کیوں نہیں لکھی۔ان سے جب جب ملا قات ہوئی ہمشہ اتنی مختصر رہی کہ اس سوال کا مو قع ہی نہیں ملا۔لیکن دہلی میں عالمی اردو کانفرنس کے مو قع پر گویا انہوں نے میرے ذہن کو پڑھ لیا اور لکھنؤ کی پا نچ راتیں… چند جملے اس کے پہلے صفحہ پر لکھ کے میرے ہاتھ پر رکھ دی۔ کا نفرنس کی مصروفیات، دوستوں کا سا تھ،، کو ئی گھڑی فرصت کی نہ تھی۔ اور کتاب کو جلد از جلد پڑھنے کی خواہش بھی بے چین کئے تھی۔ میرا ذہن اس دوران قیاس آرائی کرتا رہا۔

                شا ید سجا د ظہیر کی لندن کی ایک رات یا شام اودھ جیسی طلسماتی کتا ب ہو۔لیکن ایسا نہیں ہے۔ دراصل یہ وہ البم ہے جس کی تمام تصاویر کو یکجا کر دیں تو علی سردار جعفری کی شخصیت کی تصویر مکمل ہو جاتی ہے اور قلم پکڑ نے سے قلم کی سرداری تک کی سب کڑیاں زنجیر ہو جاتی ہیں –

                اگر ہم سردار جعفری کی دیگر تخلیقات کا جا ئزہ لیں تو انکی قلبی و ذہنی کیفیات، شا عری کی قوت، فکر کا بہاؤ، نثر کی بلا غت و شگفتگی ان سب سے واقفیت کے با وجود یہ معلوم نہیں ہوتا کہ زندگی کے کونسے واقعات، حادثات یا نشیب وفراز نے سردار جعفری کے فکری رحجان کی پرورش کی۔ اس تما م کو سمجھنے کے لئے ہمیں ہر حال میں لکھنؤ کی پا نچ راتوں کا مطالعہ کرنا لا زم ہوجا تا ہے۔

                سردار صاحب کی شخصیت کے یوں تو کئی پہلو ہیں لیکن بحیثیت شا عر، نقاد اور مقرر انکا مرتبہ بہت بلند ہے اس شاعر اس نقاد اور اس مقرر کو جاننے کے لئے ان کی یادوں کے کھنڈرات میں ہی انہیں تلا ش کرنا ہوگا جس کا نقشہ لکھنؤ کی پا نچ راتوں کے علا وہ ان کی کسی کتاب میں درج نہیں ہے۔

                سردار جعفری کا پہلا مجموعِہ کلام پرواز کے نام سے شا ئع ہوا۔ جس کا تذکرہ اب کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد سردار جعفری کے نو مجموعے شا ئع ہوئے، امن کا ستا رہ، نئی دنیا کو سلا م، ایشیا جاگ اٹھا، ان کی تین طویل نظموں کے مجموعے ہیں۔ ان کے علا وہ خون کی لکیر، پتھر کی دیوار، ایک خواب اور پیراہن شرر، لہو پکارتا ہے، پا نچ نظموں کے مجموعے ہیں۔

                سردار صاحب کی طویل نظموں میں سب سے زیادہ مقبول اور اہم نظم نظم نئی دنیا کو سلا م ہے۔یہ ایک تمثیلی نظم ہے اور اس میں علامتی کرداروں کے حوالے سے عالمی پس منظر میں عالمی امن کی بات کی گئی ہے۔ان قوتوں اور تحریکوں کا مطالعہ کیا گیا ہے جو استحصالی قوتوں کے خلا ف پر سر پیکا ر ہیں۔

                 ایشیا جاگ اٹھا بھی ایک طویل نظم ہے۔ یہ ایشیا کی بیداری کا رزمیہ ہے جو بہت بڑے کینوس پر لکھا گیا ہے۔ اس نظم میں کہیں کہیں جعفری صاحب کا انداز پبلو نرودا سے ملتا ہے۔ ہسپا نوی زبان کے اس عظیم شا عر کے ہاں الفا ظ کے ترنم میں انقلا بی احسا سات کی جو آنچ ہے ایشیا جاگ اٹھا میں بھی وہی مو سیقی میں گھلی ہوئی انقلا ب کی بجلیاں کوندتی نظر آتی ہیں۔

                سردار جعفری کی تنقیدی بصیرت اور انکے سیا سی شعور کے حوالے سے ترقی پسند ادب وہ اہم کتا ب ہے جس نے ہندوستان اور پا کستان کے ادیبوں کو نئے زا ویہ سے سو چنے پر مجبورکیا۔ ترقی پسند تحریک نے ادب اور زندگی کے گہرے تعلق پر زور دیا۔ پرانے نظر یات کے زمین پر نئے تصورات، نئی فکر اور نئی حقیقتوں کی عمارت تعمیر کی۔ سردار جعفری اس عمارت کی تعمیر میں شریک کا ر رہے۔ ترقی پسند ادب ان کے گہرے سیاسی شعورکا آئینہ دار ہے۔انتہا ئی مقبول ہونے کے باوجود اس کتاب کی مخالفت بھی ہوئی۔ ادب میں اختلا فات کی اپنی ایک اہمیت ہے جس کے بہت سے افا دی پہلو ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہمارے ہاں اختلا ف رائے مخالفت کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور نوبت ذاتیات تک پہنچ جا تی ہے حالانکہ ہر سوچنے والا ذہن اختلافی رائے رکھ سکتا ہے۔

                سردار جعفری کی پیغمبران ِسخن بھی کمال تخلیق ہے۔ اس میں اردو کی تین عظیم شخصیتوں یعنی کبیر داس، میر تقی میر اور غالب پر تفصیلی مضامین ہیں جو تا ریخی، تنقیدی اور تجزیا تی حوالے سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ان شعرا کے مطالعے کا جو رواج تھا سردار صاحب نے اس سے ہٹ کردیکھا۔ دراصل یہ منفرد انداز فکر ہی سردار جعفری کی تحریر کا حسن اور ان کی پہچان ہے۔

                سردار جعفری کی ان تمام کتا بوں کے مطالعے کا مطالعہ سردار شنا سی میں تو میرا مدد گار تھا لیکن جو ایک کھوج تھی مجھ میں اس بڑی شخصیت کی پرورش اور اس منفرد فکر کی تعمیر میں کون سا ماحول، کیسے حالات اور عوامل شامل تھے جنہوں نے روایت کی سرکا ر سے اٹھا کے اس فنکار کو اس کا با غی بنا دیا۔ اس کھوج کو میری سردار جعفری کے تحفے لکھنؤ کی پا نچ راتیں نے خوب سیراب کیا۔ اس کتاب کی تمہید میں سردار جعفری صاحب نے خود کہا ہے۔یہ اس افسانے کے چند پریشان ٹکڑے ہیں جسے زندگی کہتے ہیں -۔

                ان اوراق میں بچپن، لڑکپن، جوانی، تربیت، بغاوت جیسے زندگی کے بہت سے عنوانات کے تحت وہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں جنکے صفحات جوڑ دئے جائیں تو سردار کتھا بن جاتی ہے-۔

                اس کتاب کا چلتے چلتے تھوڑا سا اور تعارف کراتی چلوں۔ لکھنؤ کی پانچ راتیں یوں تو سا ت مضامین کا مجموعہ ہے لیکن اس عنوان کے تحت پا نچ مضا میں یا پا نچ ابواب ہیں۔ اس طرح کتاب میں کل نو مضا میں شامل ہیں۔ چہرومانجھی سردار جعفری کا مشہور رپورتاژ جو کہ افسانوی اندازمیں کمال خوبصورتی سے لکھا گیا ہے اور جس کا دنیا کی آٹھ دس زبانوں میں تر جمہ ہوچکا ہے۔وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

                 ہم پر ہے ختم شام غریبان لکھنؤ ان کے ہمدم ان کے دوست مجا ز کی درد ناک موت کی حدیث ہے۔

                ذوق تعمیر، گلینا، خال محبوب اور امن عالم، دوسرے ممالک کے سفر کی خوشگوار یا دیں ہیں۔ غرض ہر مضمون اور ہرورق اپنے اندر وہ داستان لئے ہوئے ہے جس کے تانے بانے اپنے بیتے ہوئے ایام سے بُنے گئے ہیں۔ اس طرح لکھنؤ کی پانچ راتیں ہی سردار کتھا کو جاننے کا بہترین ذریعہ ہیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *