Home » شیرانی رلی » گلزار

گلزار

مجھے کاجل!۔

وہ فرینچ ٹوسٹ اور کافی  پہ مرتی تھی ،

اور میں ادرک کی چائے پہ!۔

 

اسے نائٹ کلب پسند تھے ،

مجھے رات کی شانت سڑکیں!۔

 

شانت لوگ مرے ہوئے لگتے تھے اسے ،

مجھے شانت رہ کر اسے سننا پسند تھا!۔

 

لیکھک (رائٹر) بورنگ لگتے تھے اسے ،

پر مجھے منٹوں دیکھا کرتی جب میں لکھتا!۔

 

وہ نیویارک کے ٹائمز اسکوائر ،

استنبول کے گرینڈ بازار میں شاپنگے کے سپنے دیکھتی تھی ،

میں آشام کے چائے باگانوں میں کھونا چاہتا تھا!۔

 

 

مسوری کے لال ڈبے میں بیٹھ کر سورج ڈوبنا دیکھنا چاہتا تھا!۔

اس کی باتوں میں مہنگے شہر تھے،

اور میرا تو پورا شہر ہی وہ!۔

 

نہ میں نے اسے بدلنا چاہا نہ اس نے مجھے!۔

 

ایک عرصہ ہوا دونوں کو رشتے سے آگے بڑھے!۔

کچھ دن پہلے اس کے ساتھ رہنے والی ایک دوست سے پتہ چلا ،

وہ اب شانت رہنے لگی ہے،

لکھنے لگی ہے،

 

مسوری بھی گھوم آئی،

لال ڈبے پر اندھیرے تک بیٹھی رہی!۔

آدھی رات کو اچانک سے اس کا من اب چائے پینے کو کرتا ہے!۔

اور میں۔۔۔۔۔۔۔

میں بھی اب اکثر کوفی پی لیتا ہوں کسی مہنگی جگہ بیٹھ کر!۔

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *