Home » کتاب پچار » صحرا میں گل کھلتا ہے!  ۔

صحرا میں گل کھلتا ہے!  ۔

کتاب کا نام: گل خان نصیر

مصنف    :     ڈاکٹر شاہ محمد مری

صفحا ت  :       248

قیمت     :       200روپے

پبلشر      :          سنگت اکیڈمی آف سائنسز

مبصر      :       عابدہ رحمان

 

گرد و غبارسے اٹا صحرا، چاروں اَور گرد اڑ رہی تھی۔ وہ 14مئی 1914ء کا سال تھا کہ جب نوشکی کی کلی مینگل میں، مینگلوں کے ذیلی فرقے زگر، پائندزئی گھرانے میں ایک پھول کے کھلنے کی نوید ملتی ہے۔گل خان نصیر، جی ہاں یہی وہ پھول ہے جس نے نہ صرف نوشکی بلکہ پورے بلوچستان کواپنی شاعری سے مہکا دیا۔

”گل خان نصیر“، ڈاکٹر شاہ محمد مری کا ایک اور شاہکار۔ اس کتاب کو بنیادی طور پر چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

صحرا میں گل کھلتا ہے؛ پہلا باب جو اُس پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔اسی میں اس کے بڑے بھائی میر لونگ خان کی شہادت کا ذکر ہے، جسے بھٹو دور میں فوج کشی کے دوران شہید کردیا گیا تھا۔ گل خان نے جو جیل میں تھا، اپنے بھائی کی شہادت پر اشعار کہے تھے۔

میر گل خان نے ابتدائی تعلیم نوشکی اور مستونگ سے حاصل کی اور میٹرک 1932ء میں گورنمنٹ سنڈیمن ہائی سکول کوئٹہ سے کیا۔ وہ مزید تعلیم کے لیے لاہور چلا گیا۔ایک بات واضح ہے کہ اس نے بچپن سے ہی شاعری شروع کر دی تھی۔لاہور میں ہی وہ مارکسزم سے آشنا ہوا‘ اور پھر ساری عمر اس فلسفے کا پیروکار رہا۔1931-32ء سوویت انقلاب، خان آف قلات کا پرائیوٹ سیکرٹری، تحصیلدار؛ اس کی اردو شاعری کی ابتدا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انجمنِ اتحادِ بلوچستان، انجمنِ اسلامیہ ریاستِ قلات، قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے عہدیداروں میں سے رہا۔اور پھر ایک وقت آیا کہ جب وہ صرف شاعری کو وقت دینے لگا۔ڈاکٹر شاہ مری صاحب لکھتے ہیں کہ بے شمار دوسرے لوگوں کی طرح گل خان بھی متاثرِ اقبال تھا اور اگر وہ بلوچستان کی جگہ لاہور میں ہوتا تو عین ممکن تھا کہ اس کی شاعری میں بھی لفظ ’بلوچ‘ کی جگہ ’مومن‘ ہوتا۔ یوں وہ مومنوں کے جھرمٹ سے بچ کر آگے نکل گیا۔ صحافی گل خان نے ’استقلال‘ سے ابتدا کی۔1952ء میں ’نوائے بلوچستان‘ کا ایڈیٹر رہا۔’نوائے وطن‘ چلاتا رہا اور پھر ایک پمفلٹ نکالا،’ریاستِ قلات کا قضیہ مسئلہ کشمیر کی روشنی میں‘ جس کا جواب بابا عبداللہ جان اور غلام جان شاہوانڑیں نے ’ہمارا بلوچستان‘ کی صورت میں دیا لیکن جلد ہی صلح ہو گئی۔ وہ مسلم لیگ میں بس کچھ ہی عرصہ رہا۔

کتاب کا دوسرا باب ہمیں اس کے فکری ارتقا اور شاعری کی ابتدا کے بارے میں بتاتا ہے۔ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ 1934ء میں گل خان قبائیلی نظام کا باغی بن کر تحریکِ آزادی اور سوشلزم کو یکجا کر کے کہہ اٹھتا ہے؛

اگر ٹھہریں تو سر پر تیشہ ِ سردار آتا ہے

اگر بھاگیں تو کیسے؟پاؤں میں زنجیر ہے جرگہ

یوں سرداری نظام، جرگہ، نوآبادیاتی تسلط اس کی شاعری کا موضوع بنتے چلے گئے۔ گل خان نصیر  1941-1973 ء میں بیشمار بار مختلف جیلوں میں صعوبتیں برداشت کرتا رہا لیکن اس دور میں بھی اس نے شاعری نہیں چھوڑی۔ ڈاکٹر صاحب گل خان کی بلوچی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ، 1947-1948ء میں خدائی خدمتگاروں کی کانفرنس میں شرکت کے لیے وہ چارسدہ گیا جہاں کانفرنس کی ساری کاروائی پشتو میں ہوئی، جس سے متاثر ہو کر اس نے ’بیا او بلوچ‘ کی تخلیق کی اور کانفرنس میں سنائی۔اور پھر تو بلوچی شاعری کے پھول وہ ساری زندگی بکھیرتا رہا۔

دانشوروں کو متحد اور منظم کرنے کے لیے وہ ’بلوچی زبان و ادبئے دیوان‘  سے بھی منسلک رہا۔ پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن پر پابندی کے بعد 1964ء میں عوامی ادبی انجمن قائم کی گئی۔ جس کے منشور سب سے پہلے گل خان نے ہی دستخط کیے اور اس کا بلوچی میں ترجمہ بھی کیا۔ون یونٹ کے خلاف بھی گل خان نے خوب شاعری کی۔1958ء میں جب مارشل لالگا تو گل خان نصیر کو بھی اپنے دوسرے ساتھیوں میر غوث بخش بزنجو اور فیض محمد یوسف زئی کے ساتھ قلی کیمپ کی اذیت گاہ میں محصور ہونا پڑا۔

کتاب کے تیسرے  باب ’ہر قوم کا گل خان لائقِ ستائش ہے‘ میں ڈاکٹر مری نے گل خان کی تمام کتابوں کے بارے میں مختصرا ًلکھا ہے۔ اس میں گل بانگ،تاریخِ بلوچستان،شنبلاک، ہپت ہیکل جنگانی زراب،داستان، دوستین و شیریں، حملِ جیند، کوچ و بلوچ، شپ گروک، گرند، بلوچ رزمیہ شاعری، بلوچ عشقیہ شاعری، ھونِ گوانک، گلگال، مشھد کا جنگ نامہ، بلوچستان کے سرحدی  چھاپہ مار، سینائی گچکا، کارواں کے ساتھ شامل ہیں۔

کتاب کا چوتھا  با ب ہے؛ ’شاعرِ چہار زبان‘ جس کے نام سے ظاہر ہے کہ گل خان چار زبانیں اردو، فارسی، براہوی اور بلوچی لکھنا اور پڑھنا جانتا تھا اور ان چاروں زبانوں میں اس نے شاعری کی ہے۔

دے حسرتا دا حالے بلوچا تا ہو نم

تاریخاں کل جہاں نا نام و نشاں تا گم

اسی طرح یوسف عزیز مگسی کے لیے اس کا براہوی شعر پڑھئے؛

مگسی قوم نا فرزند بلوچا تے کے مس رہبر

مرے اوڑا ہمیشہ سایہ رب پاک سبحان نا

اسی طرح بہارِ وطن کے لیے وہ کہتے ہیں؛

ہتم نا ہر کارواں بسونے

کہ جنت نا پھلا تیان بسونے

کہ گواڑخ دسوک پھل وگلاب و سنبل ارے

بہشت نا مثالٹ جہاں کل ارے

اس کتاب میں یہ پڑھ کر اچھا لگا کہ گل خان نے چار زبانوں میں شاعری کی ہے لیکن اس کی اردو شاعری پڑھ کر اس پر اس کی مکمل گرفت سے ہر گز یہ نہیں لگتا کہ کسی ایسے بلوچ شاعر نے یہ اشعار کہے ہیں، جس کی مادری زبان اردو نہیں۔ اس کی ایک مثال دیکھئے؛

جیون نیا ڈگ  مگ ڈولے آشا ہوں پامال

اس انیائے کو کون سہے اور کون چلے یہ چال

رے ساتھی، کون چلے یہ چال

کتاب کا پانچواں باب جو کہ ’شاعری کے موضوعات‘ کے نام سے ہے، خاصا طویل ہے۔ اس باب کو مزید مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

’فطرت کی ناز برداری‘میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ مناظر کا عاشق گل خان اپنی شاعری میں زبردست منظر کشی کرتا تھا۔بارش ہو یا بادل ہوں یا پھر سبزہ،وہ اس پرخوب صورت شاعری کرتا تھا۔ وہ سمندر، گرد کانی چاپ، گرند کپتگ، مہرئے کشار، ماہئے اطلس جیسی نظموں کا شاعر تھا۔اس کے علاوہ اس کا دوسرا موضوع عظمتِ انسان تھا۔وہ انسان کو اشرف ذات جانتا تھا اور اس کی بڑائی و مقام سے واقف ہونے کی وجہ سے انسان کو اپنی شاعری سے اس بات کا احساس بھی دلاتا تھا کہ تمام تر مخلوقات میں وہ عظیم تر ہے۔ انسان کی عظمت کا پرچار ہی کرتا تھا۔تب ہی اس نے اپنی شاعری میں سامراج دشمنی اور سرمایہ داری نظام کی مخالفت کی۔ وہ کہتا ہے؛

ایک خون چوس ہے، ایک ہڈی خور ہے

ایک سرمایہ دار ہے ایک آقا ہے

دنیا کے محنت کشوں کے لیے

ایک نہنگ ہے، ایک سیاہ مار ہے

گل خان کی شاعری کا بہت بڑا موضوع ’بلوچستان‘ ہے۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ گل خان کی شاعری دراصل بلوچ اور بلوچستان ہی کے گرد گھومتی ہے کیونکہ گل خان نصیر بلوچستان کو اپنی غیرت اور شان کہتا ہے جو کہ واقعی ایسا ہی ہے۔وہ بلوچستان کا عاشق ہے۔وہ کہتا ہے؛

ترجمہ؛

وطن کی دوستی تو میرا ایمان ہے

خود کو ایمان سے کیسے جدا کر دوں

بلوچ اور بلوچستان سے محبت کرنے والے کی شاعری کاایک موضوع بلوچ ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’میر گل خان ہر دم لفظ بلوچ کا ورد کرتا رہتا ہے۔ اسے بلوچ سے جنون کی حد تک پیار ہے۔ بلوچ ہی اس کا مرکزِ ثقل اور مرکزِ توجہ رہا ہے۔‘

ترجمہ؛

اپنی آنکھیں کھول اور پڑوسی بھائیوں کو دیکھ

کیسے چابک و چالاک ہیں وہ،باعلم و ہنر دار لوگ

گل خان کی شاعری کا ایک اور موضوع ہے؛ ’بلوچ طبقاتی سماج‘۔ گل خان نے چونکہ بلوچستان کو ایک طبقاتی سماج پایا اس لیے طبقاتی جدوجہد اس کی شاعری کا ایک اور موضوع ہو۔ اس کی شاعری کا ایک ٹکڑا اس حوالے سے دیکھئے؛

ترجمہ؛

میں مزدور اور کسان کو ملاؤں گا

بڑی پگڑی والے ساہوکاروں کو دفن کروں گا

ہر بڑے انسان نے عورت کے حقوق کی بات کی ہے،اسی طرح ہر بڑے شاعر نے بھی اس موضوع پر ضرور شاعری کی ہے۔یہاں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ’میر گل خان خواتین کو محکوم طبقات کا اتحادی قرار دیتا ہے۔‘

ترجمہ؛

لڑکی پھول ہوتی ہے، علم اس کے حسن کو دگنا بناتا ہے

زیبا تر اور پر وقار شرم و حیاکے ساتھ

شاعر ہو، حسین مناظر کا دلدادہ ہو، نرم دل و نرم خو ہو، حسن کا دیوانہ ہو اور وہ محبت کے متاثرین میں سے نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا اس کتاب کا آخری باب ہے ’گل خان کی محبت کی شاعری‘۔حسن اور عشق پر ڈاکٹر شاہ محمد مری بھی جب لکھتے ہیں تو یوں کہ جیسے وہ اس وقت حسن و محبت کے نشے میں ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کے قلم سے دل کی دھڑکنیں پگھل پگھل کر صفحہ قرطاس پر بکھر رہی ہوں۔اس کتاب کا میرا پسندیدہ چیپٹر یہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ،’بلوچی زبان کے لفظ عشق میں اور اردو زبان کے لفظ عشق میں وہی فرق ہوتا ہے جو ایک انسان اور پادری میں ہوتا ہے۔ بلوچ کا عشق انسانی ہوتا ہے‘۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ ’ پتہ نہیں کب مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کہیں نہ کہیں ہم نے محبت کے ساتھ گناہ، جرم و خجالت کے احساسات گوندھ لیے ہیں کہ گویا اس کے شامل ہونے سے شخصیت بکھر اور مرجھا جاتی ہے۔ اور بلوچ بھلا اپنے ہیروؤں کو اپنے ہاتھوں سے کیسے مرجھوائے گا؟ لہٰذا محبت کا باب ہی ’آؤٹ آف کورس‘ کیا جاتا ہے۔  مجموعی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ خود میر گل خان نے بھی بہت بار محبت کے بارے میں بہت مدافعانہ رویہ اختیار کیا۔ جیسے کسی کے سامنے سند لینے کی کوشش کر رہا ہو؛ مومنی کی، پاک دامنی کی!

میر گل خان نصیر کی یہ نظم اگر آپ پڑھیں گے تو آپ کو ان کے اندر کا صحیح اندازہ ہوگا؛

یہ نہ سمجھو کہ میرے دل میں جذبہ ء الفت نہیں

میری نظروں میں جمال و حسن و خال و خط کی کچھ قیمت نہیں

یہ بات طے ہے کہ گل خان نے کبھی بھی محبت کو مسترد نہیں کیا۔ڈاکٹر صاحب اس باب کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ’گل خان محبت کیے بنا اتنا بڑا دانش ور اور شاعر کیسے بن سکا!! ملک الشعرا بننے کے لیے تو دل چاہیے ہوتا ہے …… ہمارا آپ کا نہیں …… عاشق کا!‘

کتاب کا اختتام ’موت پردہ ہے‘ سے ہوتا ہے۔ جس میں بتایا گیا کہ میر گل خان نصیر نے پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہو کر 6 دسمبر 1983ء میں 70  برس کی عمر میں وفات پائی۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی یہ گل خان نصیر کی سیاسی اور شاعرانہ زندگی پر ایک بہت ہی مزیدار کتاب ہے۔

 

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *