Home » پوھوزانت » نوخیں حال ۔۔۔ فضیل اشرف قیصرانی

نوخیں حال ۔۔۔ فضیل اشرف قیصرانی

تؤکلی مست ہم جیسے نابیناؤں کے سامنے شاہ محمد مری کے ذریعے آئے۔اسے ایک طرح سے ہماری خوش قسمتی سمجھئے کہ ہم مست کے شئیر اور اسکے نشانات تک پہلے پہنچے اور مست کے محل تک بعد میں۔مگر مست کے محل اور سمو کی پٹی،سمو پٹی کی زیارت کا قصد تو بہر حال طے تھا سو ہم اپنے تین دوستوں کو رضا مند کرنے میں کامیاب ہو گے کہ زیارات لازمی کی جائیں۔

یہاں ایک بات بتانا لازمی ہے کہ بلوچستان کو ہمارے میڈیا نے ایک ایسی جگہ بنا دیا ہے جہاں لوگ آتے ہوئے گھبراتے ہیں۔سو کسی بھی دوست کو بلوچستان کے سفر کا کہا جاے تو اس کا جواب عمومی نفی میں ملتا ہے یا پھر مروتن مصروفیت کا بہانہ کارگر رہتا ہے۔ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد ہی ہم بھی اپنے تین دوستوں کو اپنا ہمسفر بناے میں کامیاب ہوئے۔

دو موٹر سائیکلوں پہ ہم چار کا قافلہ تونسہ سے بزدار قبیلہ کے صدر مقام بارتھی کی طرف روانہ ہوا۔راستے میں زین اٹامک پلانٹ اہم مقام ہے اور پھر پہاڑ کا روایتی سفر۔بارتھی تک خواص کی پکی سڑک اور پھر عام لوگوں کی عام کچی سڑک۔ہمارا اگلا پڑاؤ سوڑا ڈاٹ تھا۔ڈاٹ اور پھر سوڑا۔ڈاٹ بلوچی میں برساتی نالے کی اس گزرگاہ کو کہتے ہیں جہاں سے اسے پاٹنے کا راستہ گزرتا ہو۔سوڑا ڈاٹ کی چوڑائی بمشکل پندرہ سے بیس فٹ ہو گی۔سو اس جگہ یار لوگوں نے ایک پہاڑی جھونپڑی ڈال رکھی ہے اور ساتھ چائے کا معقول انتظام بھی۔سوڑا ڈاٹ سے آگے ہاتھ سے پھینکے کنکروں کی پہاڑی ہے جسے گرگ چور کہا جاتا ہے۔روائت ہے اس جگہ ایک بھیڑیا مسافروں کو تنگ کرتا تھا۔آخر ایک آدمی نے اسکو مارا اور پھر مسافر اسکی یاد میں اور راستے میں خیریت کے لیے اس جگہ ایک ایک کنکر پھینکنے لگے اور یوں یہ ایک پہاڑی سی بن گئی۔ہم نے بھی اس جگہ کنکر پھینکا اور چل پڑے۔

حد میٹھی پہاڑی چائے کے بعد ہم ہنگلون کچھ پہنچے۔ہنگلون سیاہ آب (کوہ سلیمان میں سیاہ آب اس پانی کو کہا جاتا ہے جو تمام سال رواں رہتا ہے) کے کنارے آباد ایک چھوٹا سا گاوں ہے۔سیاہ آب ،انگریز کا تعمیر کردہ بی ایم پی تھانہ،سید منتور شاہ کے زندہ پہاڑ میں غائب ہونے کا نشان اور اندر پڑ کا واحد داخلی اور خارجی راستہ ہنگلون کی پہچان ہیں۔اندر پڑ کا علاقہ راڑہ شم سے شروع ہو کر ہنگلون پہ ختم ہوتا ہے۔اندر پڑ سیاہ آب پہ آباد وسیع چراگاہیں رکھتا ہے اور آج بھی اندر پڑ میں سفر کا واحد ذریعہ انسانی پاؤں ہیں سو اسی سبب یہاں تھانہ بھی موجود ہے،گو آج اس تھانہ کا کام بلوچستان سے پنجاب کابلی گاڑیوں کو راستہ فراہم کرنا ہے۔

ہنگلون میں حال احوال کی رسم نبھائی اور چراگاہیں آباد اور مالداری کے اچھے ہونے کا پتہ چلا۔ہنگلون سے کچھ ہی فاصلے پہ پیر گھانڑوں کا مزار ہے۔یہ  بزدار قبیلہ کا قومی پیر ہے اور ایک دنیا اس کے مزار کی زیارت کو آتی ہے۔وہ محمدانی غلامانی بزدار ہے اور اس کی مدد کو پکارنے کے الفاظ یوں ہیں،”رکھ گھانڑوں محمدانی”۔

گھانڑوں سے چند کلو میٹر آگے پختہ سڑک شروع ہو جاتی ہے جو براستہ کھرڑ بزدار رکھنی سے جاملتی ہے۔اسی سڑک پہ واقع گاؤں منجھویل میں رات گزاری کا فیصلہ ہوا اور یوں ہم بزدار میزبان کے ہاں جا پہنچے۔بزدار قبیلہ بارکھان،موسی خیل،ڈیرہ اور تونسہ کے  بیچ آباد ہے۔گھانڑوں تک کے بزدار اپنی تعلیم،علاج اور روزگار کے لیے تونسہ جبکہ گھانڑوں کے پار کے بزدار ڈیرہ سے رجوع کرتے ہیں۔منجھویل کے بزدارخوشحال،اور مالدار کم  زمیندار زیادہ ہیں۔اور وہیں معلوم ہوا کہ اس پٹی کے کم و بیش 100 کے قریب بزدار دبئی میں مقیم ہیں اور اب مزدور نہیں کاروباری بن چکے ہیں۔مگر میٹھا پانی آج بھی اس علاقہ میں نایاب ہے سو پانی کا واحدزریعہ ترائی،تلائی یا اوٹغ ہے۔

ہمارا دوسرا حال یہاں منجھویل میں ہوا اور حال میں تمام خیریت کا پتہ چلا،وزیر اعلی پنجاب کے پروجیکٹس کے متعلق خاص طور پہ بتایا گیا۔صبح ناشتہ کے بعد روانگی ہوئی اور کچھ ہی دیر بعد بزدار مع پنجاب ختم ہو گے اور کھیتران مع بلوچستان شروع ہو گے۔

تو جناب اب ہم وگے اور مزرانی کھیترانوں کے علاقہ چھپر میں تھے۔فر بہ اور کثیر مال،سبزیوں کے کھیت اور بجلی کی سہولت نے یہاں ہمارا استقبال کیا اور وہاں سے گزر کے ہم کوئٹہ روڈ پہ پہنچے اور رکھنی جا کے دم لیا۔

رکھنی میں اپنی بائیکس چھوڑنے کے بعد کابلی پروبوکس میں جا بیٹھے اور 120 روپے فی کس کے عوض کھیتران قبیلے کے صدر مقام بارکھان جا پہنچے۔راستے میں بیکڑ سے آنے والا راستہ اور بغاو بڑے مقام ہیں ورنہ وہی بلوچستان کی روائیتی ویران گزرگاہیں۔بارکھان سے کوہلو کی پروبوکس بھی اسی کراے میں مسافروں کو کوہلو چھوڑ آتی ہے۔مری ڈرائیور نے تمام راستہ سبز علی کے گانوں سے ہماری تواضح کی اور یوں ہم کوہلو جا پہنچے۔اگر آپ نے کثیر تعداد میں پٹکے بدھ یا دستار بند افراد دیکھنے ہوں تو آپکو رکھنی اور کوہلو ضرور جانا چاہیے۔کوہلو کے چھوٹے سے بازار میں ذرا وقت گزارا اور پھر ہم سمو پٹی کی جانب چل دیے۔مری میزبان کے آتے ہی حال احوال ہوا اور کوہ سلیمان کی (سوخت،سغند)طلاق میں بدل گئی۔سمو کی زیارت کو جائیں یا کبھی بھی آپ پہاڑ میں سفر کریں تو پنکچر کا سامان،ہوا بھرنے والا سفری پمپ،ایک عدد اضافی موٹر سائیکل کی ٹیوب اور پٹرول ہمراہ رکھیں۔سو اس سفر میں اس بات کا خاص احساس ہوا کہ یہ چیزیں کس قدر ضروری ہیں۔سمو پٹی کے لیے آپ کو کوہلو سبّی روڈ پہ تقریباً 35 کلو میٹر سفر کے بعد کاہان کراس ملتا ہے جہاں سے آپ کوہلو سبّی روڈ کو چھوڑ کے کاہان جانے والے راستے پہ مڑ جاتے ہیں۔جی ہاں وہی کاہان جو مست سمو کے حسن پہ قربان کر چکا ہے،وہی کاہان جو نفسک کی فتح کی یادگار سنبھالے ہوے ہے اور وہی کاہان جو کوہ جاندران اور کوہ سفید کا سنگم ہے۔

مگر مقام افسوس ہے کہ آج کوئی دودا خان مست کو خط نہیں بھیجتا کہ آؤ کاہان پر انگریز چڑھ دوڑے ہیں۔سو آج بھی کاہان سے کوئی مسافر نہیں ملا جو راستے میں بیٹھ کے ہم سے حال لیتا اور پھر حال دیتا،یوں ہم کاہان سے بے خبر ہی لوٹ آے۔کاہان کا راستہ جان لیوا حد تک مصنوعی ویران ہے۔ورنہ  وہاں ہم نے بہتا پانی بھی دیکھا اور پانی پہ اترے چکوروں کا جوڑا بھی۔ہم جیسے مسافروں کی حفاظت کی غرض سے رکھنی سے سمو پٹی تک کم و بیش 10 حفاظتی پوسٹس موجود ہیں۔اور خوشی ہوئی کہ سرکار کی مریوں کی تعلیم بڑھاؤ مہم کی بدولت اب مری مورچے کو پکٹ کہنے لگے ہیں۔اور بلوچی زبان کی ترویج بھی انہی پکٹس سے کی جا رہی ہے جہاں لکھا ہوتا ہے،ایف سی شوئے  مددگار یں۔

یوں تعلیم یافتہ مری علاقہ کی ترمن پوسٹ کے بعد ہم سمو پٹی پہنچے اور زیارت کا شرف پایا۔آبادیاں تو آبادیاں یہاں ہمیں قبرستان بھی ویران نظر آیا۔کوئی نئی قبر نہیں،کوئی لوح مزار نہیں،کوی رومال کسی قبر پہ لہراتا نظر نہیں آیا اور نہ کسی قبر پہ ایستادہ کوی لکڑی نظر آی۔مست نے کچھ یوں کہا تھا کہ سمو بکریوں کے پیچھے بھاگنے کو نہیں بنے،مگر یہاں سمو پٹی میں یوں ہی خیال آیا کہ سمو پٹی بھی تو کسی ویرانی کوسمیٹنے کے لیے نہیں بنی ہوگی۔

سمو کی قبر پہ لوگ منت کے طور پر سلے سلائے زنانہ بلوچی کپڑے دے جاتے ہیں۔ایک رنگ اڑی زنانہ بلوچی قمیص سمو کی قبر پہ ایستادہ لکڑی پہ لہر ا رہی تھی اور بس۔پہاڑ میں خیرات کے طور پہ ٹافیاں بانٹی جاتی ہیں سو ہم نے بھی کچھ ٹافیاں وہاں رکھیں کہ شائید کوئی وہاں آئے اور وہاں سے واپس ہو گے۔

واپسی کے سفر میں ہماری مشکلات یوں بڑھ گئیں کہ ہمارا ایک بائیک پنکچر ہو گیا اور چونکہ ہم خود پنکچر ساز تھے اس لیے پنکچر کچے لگے اور تمبو کراس تک کا سفر ہم نے 11 دفعہ پنکچر لگا کے کیا۔

تمبو کراس پہ ٹیوب بدلی اور مست کی جانب اپنا سفر شروع کیا اور بوقت مغرب مست کے محل جا پہنچے۔کچھ زیارتی بمع اہل و عیال وہاں موجود تھے اور ہمارا استقبال مست کے خلیفہ محمد نے کیا۔

حال حوال ہوا اور پھر  زیارت۔محمد نے دعا کرائی،اور اللہ سے یوں مخاطب ہوا،”سمو بیلی محابہ اے مڑد ماں نی حاجتاں پورا کھاں ”۔

مست کے مزار پہ ٹافیاں اور قینچیاں بڑی تعداد میں نظر آئیں اور باہر درخت پہ منت کی جھنڈیں۔قینچیاں شائید دشمن کے خاتمہ کی منت کو طور پہ رکھی جاتی ہوں گی۔

کیا سادہ لوگ ہیں ہم بھی کہ“جواں نہ یاں جنگا نی بذیں بولی“والے کے مزار پہ قینچیاں بھینٹ کر کے جنگ میں فتح مانگتے ہیں۔وہاں سے مری میزبان کی طلاق کی وجہ سے واپسی کرنا پڑی ورنہ ہمارا رات مست پہ گزارنے کا ارادہ تھا۔اب جو سفر کچے راستوں کا شروع ہوا تو بائیک کے ٹائر نے پھر جواب دے دیا مگر اب کی بار ہم بھی اس قدر بیزار تھے اس آنکھ مچولی سے کہ ہمارے مری میزبان نے کہا،”ما ایشیاں (گالی)ویل چھکا زیراں۔”سو پہاڑی راستوں پہ ویل چھکا بائیک چلاتے ہوے ہم کوہ ٹکیل کے سامنے لیویز پوسٹ جا پہنچے،پہنچے کیا سمو کی مست کو دی گئی تڈی پہ گر پڑے۔حال ہوا،قہوہ پیش ہوا اور بائیک کی ٹیوب بھی بدل دی گئی اور اب کی بار یہ سب ہم نے نہیں ہمارے میزبانوں نے کیا۔وہاں سے نکلے اور تقریباً شب 3 بجے کے آس پاس اپنے میزبان مری کے ہاں جا پہنچے۔پر تکلف مری طلاقی کھانا کھایا، چائے پی اور سو گئے۔

صبح آٹھ بجے کے آس پاس ہم کوہلو سے نکلے اور اب کی بار 3 سو کے عوض پروبوکس ہمیں سیدھا رکھنی چھوڑ آئی۔بلوچ ہو،سلیمانی دامانی ہو اور مال کی منڈی نہ جاے،ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟جیسے ہمارا ماما کو چین میں بھیڑوں کی جھلک نے بے تاب کر دیا بلکل ویسے ہی ہم نے جب یہ سنا کہ رکھنی کی منڈی (پڑی) پاکستان کی بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے تو ہم بھی وہاں جا پہنچے اور مری صاحب کی فراہم کردہ ان معلومات سے فائیدہ اٹھایا جو انہوں نے مال داروں کے بھاؤ تاؤ کے خفیہ طریقہ پہ فراہم کی ہیں۔مگر اب کی بار مزاکرات انگلی اور قمیص کی اوٹ میں نہیں بلکہ زبان اور کان کے بیچ تھے۔یعنی بھاؤ تاؤ بہت دھیمی آواز میں گردن دبوچ کے منہ کان کے نزدیک لے جا کے کیے جا رہے تھے۔

رکھنی سے بائیکس لیں اور واپسی کے سفر پہ صلاح مشورہ کیا۔آپ رکھنی سے تونسہ کے لیے کئی راستوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔بزریعہ پختہ سڑک رکھنی سے ڈیرہ اور ڈیرہ سے تونسہ،رکھنی سے کنگری،کنگری سے موسی خیل،موسی خیل سے درگ اور درگ سے بزریعہ پہاڑ تونسہ،رکھنی سے بارتھی اور بارتھی سے تونسہ۔

مگر پہاڑ چونکہ بلوچوں کے قلعے ہیں اس لیے انتخاب پہاڑی راستے کا ہوا۔ہم رکھنی سے کھرڑ بزدار پہنچے اور اس دلچسپ گاوں کو دیکھا جو بیک وقت دو سرکاری ہائی سکول رکھتا ہے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہاں کافی سارے سرکاری پرائمری اور مڈل سکول بھی موجود ہیں۔یہ قصبہ آدھا بلوچستان میں ہے اور آدھا پنجاب۔سو بلوچستان کی ابتدا اور پنجاب کا اختتام یا پنجاب کی ابتدا اور بلوچستان کا اختتام۔مگر ظلم یہ ہے کہ پنجاب اور بلوچستان کے تمام سکول جو کھرڑ میں ہیں وہاں اساتذہ غیر حاضر ہیں۔

کھرڑ میں مہمان ہوئے،حال ہوا،کھانا کھایا اور مبارکی پہاڑ کی پکی سڑک پہ اپنا سفر شروع کیا۔یہ کھرڑ وہی جگہ ہی جہاں سے مست چنال کے راستے بیہو جایا کرتے تھے۔مبارکی رینج کی پختہ سڑک رونگھنڑ سے ہوتے ہوے سخی سرور کو جاتی ہے۔

یعنی اس سڑک کے زریعے بزدار اور لیغاری باہم جڑے ہوے ہیں۔اچھا موسم،بارش،چراگاہیں اور مالداری اور بلندی مبارکی کی پہچان ہیں۔مبارکی ٹاپ منرو سے بھی بلند ہے۔ہم نے اس پختہ سڑک کو حکیم کھوٹی کے مقام پہ چھوڑا اور ڈاڈہ موسی کوہ میں داخل ہوگے۔ڈاڈا موسی کے نشان کی زیارت کی اور زیر تعمیر پختہ سڑک کے زریعے لوپھانی دف اور گٹہ ریخ سے ہوتے ہوے بارتھی جا پہنچے اور شب 2 بجے کے آس پاس تونسہ کے تل سے ہوتے ہوے گھر پہنچ گے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *