Home » پوھوزانت » نظم جدید کا نمائندہ اختر الایمان ۔۔۔ راحت افشاں

نظم جدید کا نمائندہ اختر الایمان ۔۔۔ راحت افشاں

نئی شاعری کی شناخت اس کا زیادہ سے زیادہ زمینی اور انفرادی ہونا ہے۔ عہد حاضر کے مسائل سے انسانی احساس و جذبات میں جوشکست و ریخت کا عمل جاری ہے وہ نئی حسیت کی بنیاد ہے اس کے برعکس روایتی شاعری کا سرچشمہ ہماری روایتی فکر تھی جو انسانی احساس و جذبات اور اسالیب اظہار دونوں پر یکساں طور پر اثرانداز ہوئی تھی۔ نئی شاعری زیادہ سے زیادہ زمینی اور انفرادی ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات واقعہ نگاری کی شاعری بن کر رہ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سے نئے شاعر سپاٹ پن کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن جہاں کہیں نئے شاعر واقعیت سے اُٹھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہاں وہ اردو کو ایک نئے ذائقہ کی شاعری سے روشناس کراتے ہیں اور اختر الایمان کا شمار ایسے ہی شاعروں میں ہوتا ہے۔

اخترالایمان وہ منفرد شاعر ہیں جنھوں نے اردو نظم کو غزل کی فضا سے الگ کرکے خالصتاً نظم کی فضا میں داخل کیا اور اردو شاعری کو نظمیہ شاعری کی تازہ ترجہت سے روشناس کرایا ان کی نظموں میں فکر کی بلندی، ذہانت و شگفتگی کی آمیزش اور نرم و سبک لہجے کے ساتھ بیان کی تلخی و ترشی کو اس طرح حیرت انگیز طور پر یکجا کیا گیا ہے کہ انسانی اعمال و مقاصد کے بارے میں ان کی گہری بصیرت ابھر کر سامنے آتی ہے جذبات محبت پر مبنی ان کی بہت سی نظمیں ہیں لیکن یہ سب روایتی تصورات عشق کے خلاف واضح رد عمل کی آئینہ دار ہیں جس کا اندازہ صرف اس ایک امر سے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے وفاجفا کی روایتی اقدار سے الگ جذبات محبت میں جسم اور روح کی ثنویت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اسے نہایت موثر انداز سے اجاگر بھی کیا ہے اور روزمرہ زندگی کے مشاہدات و تجربات کو سامنے رکھ کر لطیف و نازک جذبات کے اظہار کے ساتھ محبت میں تلخی اور ناہمواری کو بھی فراموش نہیں کیا ہے اپنے اس رویہ کی وجہ سے وہ تغزل سے اپنا دامن بچانے اور نظمیہ شاعری کی تازہ ترجہت سے ہمیں مانوس کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں اپنے اس رویہ سے قطع نظر وہ اپنی نظموں میں ڈرامائی اور افسانوی رنگ ابھارتے ہیں وہ بھی ان شاعری میں خالصتاً نظمیہ شاعری کی فضا پیدا کرنے میں بہت حد تک معاون ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اختر الایمان عقلیت و جذباتیت کو نہایت ذہانت و طباعی سے نہ صرف یکجا کرتے ہیں بلکہ وہ ان عناصر کو ایک دوسرے کی تقویت کا سبب بنا کر ان میں زیادہ سے زیادہ شدت پیدا کرتے ہیں۔ جس سے نظم میں ایک خاص تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔

زندگی کی بے ثباتی ہماری روایتی شاعری کا نہایت اہم موضوع رہی ہے جس میں اس دنیا کی بے ثباتی کے دکھ کا علاج دوسری دنیا کے ثبات میں تلاش کرکے سکون و طمانیت کی صورت پیدا کی گئی ہے روایتی شعراء کے علاوہ نام نہاد جدیدیت کے علمبردار تو اس دنیا کی بے ثباتی کے پیش نظر اس کی موجودگی ہی کو ناقابل اعتناء گردانتے اور صرف اپنی داخلی کیفیت ہی کو حقیقت بتاتے ہیں لیکن اختر الایمان نے ان دونوں رویوں سے الگ اپنی سوچ کا اظہار کیا ہے مثلاً اپنی نظم  ”عمر گریزاں کے نام“  میں اپنے نظریات کو بھرپور انداز سے پیش کیا ہے ملاحظہ کیجیے۔

عمریوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں

اس کے دامن سے لپٹتا ہوں، مناتا ہوں اسے

واسطہ دیتا ہوں محرومی و ناکامی کا

داستاں آبلہ پائی کی سناتا ہوں اسے

اس سے کہتا ہوں تمنا کے لب و لہجہ میں

اے مری جان! میری لیلیٰ! تابندہ جبیں

سنتا ہوں تو ہے پری پیکر و فرخندہ جمال

سنتا

ہوں تو ہے مہ و مہر سے بھی بڑھ کے حسیں

یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں کہ ابھی تک میں نے

جاننا تجھ کو کجا، پاس سے دیکھا بھی نہیں

اور اس کے بعد وہ اپنے روزمرہ کے معمولات کا نقشہ کھینچنے کے بعد آخر میں کہتے ہیں

اپنی نادانی سے انجام سے غافل ہوکر

میں نے دن رات کئے جمع خسارہ بیٹھا

جاننا تجھ کو کجا‘ پاس سے دیکھا بھی نہیں

اے مری جان! میری لیلیٰ! تابندہ جبیں!

یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی

خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ نے دیکھا کہ اختر الایمان نہ تو بے ثبات اور زندگی گزراں کے دکھوں کا علاج دوسری دنیا کی بقائے دوام میں کرتے ہیں اور نہ نام نہاد جدید یوں کی طرح اسے بالکل مسترد کرتے ہیں بلکہ وہ اس حیات گزراں کے حسن کے قائل ہیں اور چاہتے ہیں کہ وقفہ عمر میں اضافہ ہو تاکہ وہ اپنے خواب پورا کرسکیں اور زندگی کی ماہیئت کو پوری طرح سمجھ سکیں۔ اُن کے لہجے میں دکھ کی ایک لہر ہمیشہ دوڑتی نظر آتی ہے۔ لیکن ان کا دکھ زندگی سے مایوسی اور بیزاری کا دکھ نہیں ہے بلکہ یہ دکھ زندگی کے پیار سے پیدا ہوا ہے اس دکھ کی چھوٹیں زندگی کی مسرتوں اور اذیتوں پر یکساں انداز میں پڑتی ہیں۔ اختر الایمان کے دکھوں کی لہر ان کی شاعری کا جوہر اور فنی تخلیق کا قابل قدر سرمایہ ہے مثال کے طور پر ان کی نظم  ”عہد وفا“  ملاحظہ کیجیے:

یہی شاخ تم جس کے نیچے کسی کے لیے چشم نم ہو، یہاں

اب سے کچھ سال پہلے

مجھے ایک چھوٹی سی بچی ملی تھی جسے میں نے آغوش میں

لے کے پوچھا تھا بیٹی

یہاں کیوں کھڑی رو رہی ہو؟

مجھے اپنے بوسیدہ آنچل میں پھولوں کے گہنے دکھا کر

وہ کہنے لگی

میرا ساتھی اُدھر اس نے انگلی اٹھاکر بتایا، ادھر، اس طرف ہی

جدھر اونچے محلوں کے گنبد، ملوں کی سیہ چمنیاں آسمان

کی طرف سر اُٹھائے کھڑی ہیں

یہ کہہ کر گیا ہے کہ میں سونے چاندی کے گہنے تیرے واسطے لینے جاتا ہوں رامی،

اس مختصر نظم میں صنعتی معاشرہ کی بے رحمی اور سفاکی کا جس طرح اظہار ہوا ہے وہ شاعری کی جان ہے۔ اختر الایمان کی پوری شاعری ایسے ہی دکھوں کی لہروں پر تیرتی نظر آتی ہے۔

اختر الایمان ہمارے عہد کے نظم کے نمائندہ شاعروں میں ہوتے ہیں۔ وہ نظم کو غزل کے اثرات سے اس طرح بچا کر لے جاتے ہیں کہ خود نظم کی اپنی شناخت بھی برقرار رہے اور وہ غزل کی ذیلی صنف بن کر نہ رہ جائے، کچھ دوسرے لوگوں نے بھی نظم کو غزل کے اثر سے آزاد رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن ان میں سے بیشتر اپنی اس کوشش میں شاعری ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لفظوں کو ایسے بے رس اور بے کیف انداز سے منظوم کردیا ہے کہ اسے شاعری کہنا ممکن نہیں لیکن اختر الایمان کا معاملہ بالکل مختلف ہے انھوں نے شروع ہی سے ایسی نظمیں لکھیں کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوگئے لہجے کی گھلاوٹ، آواز کا دھیما پن، احساس کی شدت اور اسلوب کی تازگی ان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ فنی اعتبار سے ان کی نظموں کی بنت اور ارتقاء نظم کے صنفی تقاضوں کو بدرجہ احسن پورا کرتی ہے۔

وہ زندگی کے المیہ احساس کے باوجود کبھی مریضانہ کیفیت کا شکار نہیں ہوتے اور یہ بات شاید اس لئے ممکن ہوسکی کہ ان کا زندگی سے رشتہ ہمیشہ مثبت رہا ہے ان کی ایک اپنی انفرادیت ہے لیکن اس انفرادیت کا کسی مریضانہ فرد پر پرستی سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اطراف میں پھیلی ہوئی سفاکیوں سے آنکھیں بند کرنے کے بجائے ان سفاکیوں کے ہر چیلنج کو قبول کرنے کی ساکت سے بہرہ ور ہیں۔ ان کی ابتدائی نظموں میں ان کی مشہور نظم  ”ایک لڑکا“  ہماری نظمیہ شاعری میں جدید احساس اور جدید رویہ کی ایک ایسی علامت بن گیا ہے کہ ہم اسے اپنی جدید شاعری کی کلاسیک میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس نظم میں نفسیاتی کیفیات اور معاشرتی و حیاتیاتی کوائف کو جس خوبی سے یکجا کیا گیا ہے اس کی مثال اردو نظمیہ شاعری میں بہت کم ملتی ہے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

معیشت دوسروں کے ہاتھ میں ہے میرے قبضہ میں

جز ذہن رسا کچھ بھی نہیں پھر بھی مگر مجھ کو

خروش عمر کے اتمام تک اک بار اٹھانا ہے

عناصر منتشر ہوجانے، نبضیں ڈوب جانے تک

نوائے صبح ہو یا نالہ شب کچھ بھی گانا ہے

ظفر مندوں کے آگے رزق کی تحصیل کی خاطر

کبھی اپنا ہی نغمہ ان کا کہہ کر مسکرانا ہے

وہ خامہ سوزی شب بیداریوں کا جو نتیجہ ہے

اسے اک کھوٹے سکے کی طرح سب کو دکھانا ہے

کبھی جب سوچتا ہوں اپنے بارے میں تو کہتا ہوں

کہ تو اک آبلہ ہے جس کو آخر پھوٹ جانا ہے

غرض گرداں ہوں بار صبح گاہی کی طرح لیکن

سحر کی آرزو میں شب کا دامن تھامتا ہوں جب

یہ لڑکا پوچھتا ہے اختر الایمان تم ہی ہو؟

یہ لڑکا پوچھتا ہے جب تو جھلاکے کہتا ہوں

وہ آشفتہ مزاج، اندوہ پرور، اضطراب آسا

جسے تم پوچھتے رہتے ہو، کب کا مرچکا ظالم

اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا

اسی کی آرزؤں کی لحد میں پھینک آیا ہوں

میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مرچکا جس نے

کبھی چاہا تھا اک خاشاک عالم پھونک ڈالے گا

یہ لڑکا مسکراتا ہے، یہ آہستہ سے کہتا ہے

یہ کذب و افترا ہے، جھوٹ ہے، دیکھو میں زندہ ہوں

اس نظم میں اخترالایمان بتاتے ہیں کہ وہ زندگی میں اعلیٰ اقدار کے قائل تھے۔ لیکن حالات نے انھیں اعلیٰ اقدار کا سودا کرنے پر مجبور کردیا۔ لیکن ان اعلیٰ اقدار کی قائل شخصیت ایک لڑکے کی صورت میں آج بھی زندہ ہے۔

اختر الایمان عظمت انسان کے قائل ہیں جسے وہ طرح طرح سے اپنے کلام میں پیش کرتے ہیں مثال کے طور پر ان کی نظم  ”اعتماد“  کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں:

بولی خود سر ہوا، ایک ذرہ ہے تو، یوں اُڑا دوں گی میں

موج دریا بڑھی، بولی مرے لئے ایک تنکا ہے تو، یوں بہادوں گی میں

آتش تند کی ایک لپٹ نے کہا، میں جلا ڈالوں گی اور زمیں نے کہا، میں نگل جاؤں گی

میں نے چہرے سے اپنے الٹ دی نقاب اور ہنس کر کہا

میں سلیمان ہوں

ابن آدم ہوں یعنی کہ انسان ہوں

اس نظم میں  ”سلیمان“  عظمت انسان کا کنایہ اور ابن آدم نوع انسانی کی وحدت کا واضح اشارہ ہے۔ اختر الایمان نے اپنی شاعری میں نفسیات و معاشرت کے رشتوں کو بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے اس وقت ہم ان کی نظم  ”تلاش کی پہلی اُڑان“  کے چند شعر سنانا چاہتے ہیں:

رزق کی جستجو لے گئی سو بہ سو

جسم کی آرزو لے گئی کو بہ کو

اور جب خوان نعمت سجایا گیا

ایک گل پیراہن ڈھونڈ لایا گیا

دفعتاً تب یہ احساس پیدا ہو!

گوشت اور پوست کی ایک چرخی بنوں

ایک پہیہ ہوں میں گشت کرتا ہوا

اشتہامٹ گئی پیٹ کی جسم کی

روح پیاسی تھی ویسی ہی پیاسی رہی

میرے عزم سفر نے مجھے کیا دیا۔ فاصلہ

شرق سے غرب تک کا صلہ۔ فاصلہ

 

یہ نظم حددرجہ نازک احساس کا شاعرانہ اظہار ہے یوں تو باہمی دوریوں کا ذکر کسی نہ کسی طرح ہماری شاعری میں برابر ہوتا رہا ہے لیکن عام طور پر ان دوریوں کو اجنبیت اور بے گانگی کے مجرد تصورات سے مربوط کرکے پیش کیا جاتا ہے جبکہ اختر الا یمان نے اس دوری کو روز مرہ زندگی سے ربط دے کر پیش کیا ہے انھوں نے اس ربط کو کسی مسلمہ منشور کی طرح بیان نہیں کیا ہے بلکہ اپنے عمل اور اس کے نتیجہ کو اس طرح ابھارا ہے کہ دوریوں کے تمام اسباب معاشرہ کی غلط تشکیل میں مضمر نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی نظم میں نہ معاشرے سے بیزار ہیں اور نہ اس پر کوئی طنز کرتے ہیں بلکہ معاشرے کے ایک عام فرد کی طرح اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن آخر میں انھیں روحانی آسودگی نصیب نہیں ہوتی جس سے محسوس ہوتا ہے کہ خرابی کچھ معاشرے کی ساخت میں ہے۔ اُن کی نظم  ”پھر غزل خوانی کرو“  کے اشعار ملاحظہ کیجیے:

راحت جان کا کوئی ساماں کرو

رسم دلداری نبھانے کا یہی موسم تو ہے

جب خزاں دیدہ بہاریں پھر جواں ہونیکی خواہش میں پلٹ کر آئیں گی

جب پرانے گھاؤ سارے مندمل ہوجائیں گے

جیسے بے معنی شرارت تھی، ہوا جو، کچھ نہ تھا

ہم سے گر پوچھو تو سچ کچھ بھی نہیں

اس کی آنکھوں کے تبسم کے سوا

مدتیں گزریں زمانہ ہوگیا

کوئی مہمانی کرو

کوئی موسم ہو غزل خوانی ہمارا شیوہئ اجداد ہے

پھر غزل خوانی کرو

ہے تاسف چارہ گر کو اب ہمارے حال پر

اب اسے بھی چارہ سازی آگئی

دلنوازی آگئی

آبلوں پر اپنا نشتر جب رکھے جراح وقت

مضمل اعصاب میں بجلی سی دوڑانے لگے

تب کہو جینے کا امکاں ہوگیا

عظمتِ انساں یہی تو ہے چھپالے زخم سب

خواہش راحت مرض ہے اس کا درماں چاہیئے

خود کو بہلاؤ کہ بس اگلے برس اگلے برس

 

ان مصرعوں کے پس پشت جو احساس کار فرما ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پوری نظم میں غموں کے احساس کی شدت کے ساتھ فکر کی توانائی برقرار ہے اور شاعر وقتی دکھوں سے شکست نہیں کھاتا بلکہ وہ دکھوں کو مہمیز سمجھ کر مستبقل کی شاد کامیوں کو اپنے قریب دیکھتا ہے وہ ناکامیوں کے زخموں کو مزید عمل کا محرک جانتا ہے اور اس طرح اسے انسان کی عظمت اور زندگی کے حسن پر پورا یقین رہتا ہے۔ اس نے زندگی، غم اور عمل کے ان تصورات کو منطق و فلسفہ کی زبان میں ادا کرنے کے بجائے احساس کی دھیمی آنچ سے روشن کیا ہے۔ نظم میں سرخوشی اور گداز کو جس طرح یکجا کیا گیا ہے وہ یکسر شاعری کی جان ہے اور اختر الایمان مجموعی طور پر زندگی کی سرخوشی اور انسانی احساس کے گداز کو یکجا کرنے کی خصوصیت کے نمایاں شاعر ہیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *