Home » قصہ » شیشے کا گھر۔۔۔ عابد لغاری

شیشے کا گھر۔۔۔ عابد لغاری

  میرے من میں ہر وقت وطن اور قوم کی محبت موجزن رہتی ہے اور میں تو اس کو ایک پل کے لیے بھی فراموش نہیں کرسکتا۔

   اچھا! میں سمجھ گیا۔

  آپ استاد یعنی ماسٹر ہیں۔

                واہ جناب ”خوب پہچانا آپ نے۔میں بالکل استاد ہوں۔ پر یقین رکھو میں قوم کے نونہالوں کو کمروں، مسجدوں اور مکتبوں میں چٹایوں پر بٹھا کر یا بنچوں پر کھڑا کر کے نہیں پڑھاتا۔اور نہ ان کی غلطیوں پر لاٹھیوں، ڈنڈوں اور رولوں کیساتھ چھید کرتا ہوں۔

                 اچھا تو آپ مصور ہیں؟۔ میں نے فوراً بات کو سمجھتے ہوئے کہا۔ سچ پوچھو تو مصور ہی ہوں، پر خیالی تصویر یں نہیں بناتا۔ اور نہ ہی ان کو لافانی قرار دیتا ہوں۔ میں تو حقیقی جسمانی مشینری کو چیک کرتا ہوں۔ اور اس کی فضا، ماحول کو درست رکھنے کی کوشش کرتاہوں۔ اس نے اپنے انداز میں جواب دیا۔

 اب سمجھا ہوں۔ آپ مکینک ہیں۔ خامخواہ  چھپا رہے تھے۔

سوال کو جاری رکھا۔

                ”درست۔ میں واقعی مکینک ہوں۔ چھپانے کا بھلا کوئی فائدہ۔ پر دوست میں مشینی پرزوں سے بالکل ناواقف ہوں۔ ہاں البتہ حقیقی مخلوق کی بھلائی کی خاطر اپنے آپ کو وقف رکھتا ہوں۔ اور دن رات اس جدوجہد میں اپنی زندگی کو صرف کر رہا ہوں۔

    ”میں حیران ہوں کہ آپ مزدور نہیں ہو۔ کاشکار بھی نہیں ہو۔ مصور بھی نہیں ہو۔اور نہ ڈرائیور ہو اور نہ ہی مکینک ہو‘ آخر آپ ہو تو کیا ہو“۔ میں نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔

  ”میں سب کچھ ہوں۔ پر افسوس کہ سب کچھ ہوتے ہوے بھی کچھ نہیں ہوں“۔ اُس نے مختصراً جواب دیا

 ”تنگ نہ کرو“۔ بیزار ہو کر اس سے کہا۔ فقط اتنا بتاؤ کہ آپ ہو کون اور کیا کرتے ہو۔ معاشرے میں آپ کی کیا حیثیت ہے۔ ڈاکٹر تو نہیں ہو؟

                اس نے سخت گرمی کی وجہ سے پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا ایسے بھی کہا جاسکتا ہے۔ میں واقعی ڈاکٹر ہوں پر جسمانی بیماریوں کا علاج میرے پاس نہیں ملے گا۔ میں ظاہری یا انفرادی زخموں اور ناسوروں کو چھیڑتا نہیں ہوں بلکہ میں قومی اور مجموعی ناسوروں اورکمزوریوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے پاس نہ خالص اور نہ ناکارہ ملاوٹ کی ہوئی دائیاں ملیں گی۔ اور نہ ہی رنگین پانی کا مکسچر پلاتا ہوں۔ نہ ہی میری کوئی فیس ہوتی ہے۔ اور نہ ہی میرے دروازے پر بیمار انتظار کرتے ہوئے دم توڑ دیتے ہیں۔ میں توصرف اندرونی اور روحانی بیماریوں اور کمزوریوں کی نشاندھی کرتا ہوں جو کہ انفرادی بھی ہوتے ہیں۔ اور قومی  بھی۔۔۔

  بس بس ابھی مجھے پتہ لگ گیا ہے۔ تم جوتشی ہو۔ خوامخواہ آکے تنگ کیا ہے۔ میں نے اُس سے کہا۔

                 اندازہ غلط نہیں لگایا ہے میرے دوست میں جو تشی ہی ہوں پر بھائی میں ستاروں اور سیاروں کو سبب بنا کے کسی مجبور اور لاچار کی قسمت کا قتل نہیں کرتا۔ اور نہ ہی اسی طرح ہمدرد دشمن کی صورت میں لوگوں اور قوم کی جیبیں کاٹتا ہوں۔ اور نہ ہی لوگوں کے ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر عظیم پامسٹ، نہ ہی ماضی کے درد ناک حالات بتا کر مستقبل کے حالات اور سہانے خواب دکھا کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

                ”آخر آپ کونسی بلاہو دوست! جسکا نہ منہ ہے اور نہ سر۔ ملازم ہو۔ یا فقیر۔ چور ہو یا سیاستدان، واپاری ہو یا کاشتکار، عاشق ہو یا دنیا بیزار موالی۔ مجھے غصہ آگیا۔ اس کو قمیص سے پکڑکھڑا ہوگیا۔ سچ سچ بتاؤ۔ مجھے پاگل مت بناؤ۔ اور نہ ہی بد دماغ بناؤ۔۔

 میرے بھی تارے نکل آئے۔ طبیعت میں غصہ دیکھ کر بھی اُس کے چہرے پر کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ اطمینان سے اپنے آپ کو چھڑا کر کہنے لگا۔

   ”ملازم ہی سمجھو۔ مگر یقین کرو کہ کسی بھی آفس میں ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر فائلوں کی ورق گردانی کرتا ہوں اور نہ ہی منہ بنا کے بیٹھتا ہوں کہ کوئی مجبور نزدیک آنے کی جرات نہ کرے۔ اور اگر آبھی جائے۔ پہلے میرا ہاتھ اُس کے جیب میں ہو۔ اور پھر اُس کی درخواست میرے میز پر“۔ وہ کہتا رہا۔

  سیاستدان تو چوٹی کا ہوں پر جھوٹے وعدے مجھ سے نہیں ہوتے۔ نہ ہی قوم کے کمزور نبض پر ہاتھ رکھ کر ووٹ مانگتا ہوں۔ میں واپاری بھی بڑا ہوں اور سودا گری بھی مجھ سے کون سیکھے پر میں قوم کے موت کی رسی اپنے پاس کھینچ کرنہیں رکھتا جو جب دِل کرے اپنا ”الو“ سیدھا کرتا رہوں۔

 چور بھی ہوں کیونکہ یہ میرے لیے عیب نہیں ہے۔ پر میں کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا ہوں۔ میں اپنا گھر بھرنے کے بجائے ہر چیز قوم کی نذر کرتا ہوں۔

  فقیر ہونے میں کونسا شک! پر بابا میں اپنا پیٹ بھرنے کے بجائے، ثقافت، تہذیب اور تاریخ کو محفوظ رکھنے کی خاطر قوم سے بھیک مانگتا ہوں۔

   یہ بھی سچ ہے کہ تعمیر کرنا میرے فرض میں شامل ہے پر دوست میں نہ محلات بناتا ہوں اور نہ ہی جگہیں تعمیر کرتا ہوں۔

                ہاں میں پتھر اور اینٹوں کے بجائے خیالی اور تصوراتی قلعے ضرور بناتا ہوں۔ جوکہ اپنے ملکی بقا اور قوم کی سربلندی کی خاطر ہوتے ہیں۔ جن کو نہ کوئی گرا سکتا ہے۔ اور نہ ہی کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

  عاشق کہلانے میں کوئی حرج نہیں۔ بابا پر دوسروں کوبھی ہمیشہ گھایل رکھتا ہوں۔

   ”بس بس میں مزید سننا نہیں چاہتا“۔ درمیان میں اُس کو ٹوکتے ہوئے کہا ”معلوم ہوا ہے کہ آپ کچھ بھی نہیں ہو۔ اگر ہو تو۔۔۔ تو۔۔۔۔ روح۔۔۔ یا اس کا۔۔۔ سایہ۔

  ”دوست بیزار نہ ہوں“ اس نے پیار والے انداز میں کہا ”مجھ کو اگر ڈھونڈنا چاہتے ہو تو پھر کسی کتاب میں دیکھو۔ کیونکہ میں خود کتاب ہوں۔ اور قلم بھی اس کے ساتھ ہے۔ لکھنا میرا کام ہے۔سچ لکھنا اور سچ کہنا“۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *