Home » پوھوزانت » خیر جان کی موت کا گِلہ ۔۔۔ وحید زہیر

خیر جان کی موت کا گِلہ ۔۔۔ وحید زہیر

                وہ جس کی موت کا یقین نہ آئے، اُسے یاد کرتے آنکھیں نم ہوں، ضبط چیلنج بن جائے، اس کے ناگہانی بچھڑنے کی خبر سن کر سانس اکھڑ جائے، چہرے کی رونق ہوا ہو جائے، الفاظ کی ادائیگی میں وقت پیش آئے، مضبوط ٹانگوں پر جسم سنبھلنے نہ پائے، موت کے متعلق ہر ایک سے سوال کیا جائے۔ ظاہر ہے جس کا نعم البدل قریب قریب نہ ہو۔ خیر جان نوجوانوں میں تحریک پیدا کرنے کا باعث تھا۔ بے شمار امیدیں لے کر اٹھتا، بیٹھتا، سوتا تھا۔ اُسے کتاب اور قلم سے محبت تھی، لکھنے پڑھنے والوں کی دوستی پر فخر کرتا تھا۔ اُسے ہمیشہ اپنے اِرد گرد انسانوں کے اجڑنے اور بگڑنے کا غم تھا۔ جیسے اسے آنے والے دنوں میں طوفانوں اور مزید مشکلات کا علم ہو۔ وہ نجات پانے کا متلاشی بھی تھا۔ کیونکہ روحانی طور پر بیلنس انسان تھا۔

                 خیر محمد سمالانڑیں جسے پیار سے سنگت خیر جان کہہ کر پکارتے تھے۔ اس قسم کے تاثرات ایک نظریاتی ساتھی کی ناگہانی موت پرہی پیدا ہوسکتی ہیں۔ خیر جان خاموش مگر متحرک سنگت تھا۔ وہ کامرس کالج میں انگریز ی زبان کا استاد تھا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں ایم فل کا سکالر اور گزر اوقات کے لیے فارماسسٹ کے طور پر کام کرتا تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ غربت سے ایک دکھی شخص کی طرح پوری آشنائی رکھتا تھا۔ زمانے کی ٹھوکریں کھانے والا شخص ہی غربت کے درد محسوس کرتا ہے۔ جبھی تو اسے غریبوں سے ہمدردی تھی۔ مجبور اور بے کسوں کے لیے اکثر ان داتا ثابت ہوتا تھا۔ وہ قبائلی شخص تھا مگر قبائلی طاقت کا مثبت استعمال کرنے پر قدرت رکھتا تھا۔ شاید یہ اُسے ورثے میں بزرگوں سے ملاتھا۔ حالانکہ موجودہ معاشرے کی گندی سیاست اور موقع پرستی میں یہ ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ وہ اکثر نوجوانوں کی مثبت انداز میں تربیت پر زور دیتا تھا۔ وہ اجتماعی خوبیوں کا قائل تھا۔ انفرادی طو رپر برائی کی دلدل میں پھنسے افراد سے اسے دلی ہمدردی تھی۔ سنگت پوہ زانت کی نشست ہو یا سنڈے پارٹی کا اجلاس سب سے پہلے شرکت کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔ کرسیاں لگانا، چائے کا انتظام کرنا وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ ایک ورکر میں جتنی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ حالانکہ فی  زمانہ ورکروں کا تصور مفقود ہوتا جارہا ہے۔ استاد اور شاگرد کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے۔ بس ہر شخص رہنما ہے یا پھر استاد جس کی وجہ سے سیکھنے اور احترام کا تسلسل ماند پڑتا جارہا ہے۔ سنگت خیر جان کی دوستی پر دوستوں کو ناز تھا۔ اچھی کتاب پڑھنا دوسروں کو اس کا تعارف پیش کرنا ان کی اعلیٰ صفت تھی وہ اکثر دوستوں اور لاچاروں کو دواؤں کے سیمپل لا کر دیتے تھے۔ خاندان کی لڑکیوں اور لڑکوں کو علم کی جانب راغب کرنے کے لیے دقیانوسی اور روایتی سوچ کے خلاف علم بغاوت بلند کر چکے تھے ان کے طفیل آج خاندان اور ارِد گرد کے باسی ان کے مرہون منت ہیں کہ خیر جان نے ان کے بچوں کو نئی دنیا کو سمجھنے کا وسیلہ فراہم کیا۔ عزت اور سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ دیا۔ ان کی شرافت اور محنت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے عاقبت نا اندیشوں کے بیچ تلخی کے اتنے گھونٹ حلق سے اتار چکا تھا کہ دلِ نامراد بوجھل بوجھل رہنے لگا تھا۔ اُسے کیا خبر تھی کہ اس دل نے آخر ایک روز ساتھ چھوڑنا ہے۔ اس سمارٹ جسم پر کاری ضرب لگانا ہے۔

                اس کے لیے اُسے ظالم موت کا سہارہ لینا ہے۔ ذہنی طور پر بیدار انسانوں کو پچھاڑنے کے لیے موت ہی واحد ذریعہ ہے۔لیکن اکثر موت اچھے اور مخلص انسانوں کو مارنے کے بعد زندہ اور نامور دیکھ کر اپنی غلطی پر پچھتاتی ہوگی۔ جسے موت کی شکست نام دیا جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے ارے موت تجھے معصوم بچیوں کے ساتھ بلاد کار کرنے والے نظر نہیں آتے؟۔ کتے کا گوشت ہرن کے گوشت کے نام پر بیچنے والے نظر نہیں آتے؟۔ تجھے بے گناہ انسانوں کے قاتل نظر نہیں آتے۔ دوسروں کا حق مارنے والے سرِ راہ نہیں ملتے۔ نوجوانوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے ہیروئن فروش سینہ تان کر چلتے ہوئے نہیں ملتے۔

                ماؤں کے لختِ جگر ان سے الگ کرنے والوں کا پتہ معلوم نہیں۔ مذہب کے نام پر تفرقہ بازی میں مصروف افراد کے ٹھکانوں کا علم نہیں؟۔ بھوک اور افلاس کے جن کے ساتھ شامیں رنگین کرنے والوں کی خبر نہیں۔کیا ہم یہی سمجھیں خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کرنے والوں سے تیرا مک مکا چل رہا ہے؟۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر خیر جان نے تیرا کیا بگاڑا تھا۔ وہ تو حفظان صحت کے اصولوں سے بھی واقف تھا۔ وہ اخلاق اور مثبت رویوں کا حامی تھا۔ وہ علم وشعور کے پھیلانے والوں کی دوستی پر فخر کرتا تھا۔ وہ طبقاتی فرق مٹانے والوں کے مخلصانہ جدوجہد کے کاروان کا ساتھی تھا۔ وہ عورتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے پیش آنے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے کو اپنا وظیفہ سمجھتا تھا۔

                اے موت اُسے تیری موجودگی کا علم تھا۔ اس لیے وہ بے کس اور لاچاروں کو تجھ تک یا تجھے ان تک پہنچنے سے روکنے کے لیے اہلِ علم و دانش کی تعلیمات پر علم پیرا تھا۔ وہ تعلیمات جن سے خوبصورت زندگی کا پرسکون وپرامن آخرت کا راستہ نکلتاہے۔ بہر حال جب جب خیر جان ہمیں یاد آتے رہیں گے ہمارا گِلہ موت سے رہے گا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *