Home » پوھوزانت » چاک گریباں ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

چاک گریباں ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

                1988 ء کا دور الیکشن کا دور تھا۔ طویل حکمرانی کے بعد یہ الیکشن ہونے جارہے تھے۔ حبیب جالب کو بھی الیکشن لڑنے کی آفر ہوئی۔لیکن جالب حالات کی نزاکت سے واقف تھا۔ چوہدریوں، وڈیروں، جاگیرداروں کے بیچ رہ کر جالب جیسے انسان کیلئے کامیابی کے آثار کم تھے جالب نے کہا ” جدوجہد اور جیلیں کاٹنے والوں کو نہ پارٹیاں ٹکٹ دیتی ہیں نہ ہی ووٹر ووٹ دیتے ہیں، میرا کام صرف لوگوں کے حقوق کے لیے نظمیں لکھنا ہے اور جیل جا نا ہے میر ا کوئی حلقہ نہیں میرا حلقہ، حلقہ زنجیر ہے۔

اپنا حلقہ ہے حلقہ زنجیر

اور حلقے ہیں سب امیروں کے

سازشیں ہیں وہی خلاف عوام

مشورے ہیں وہی مشیروں کے

۔    1980ء میں جالب کو انسانی حقوق کی پاسداری، جمہوریت کیلئے بیش بہا قربانیوں کے حوالے سے انسانی حقوق کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جب وہ جیل میں تھے،اُنکے بیٹے ناصر عباس نے یہ ایوارڈ حاصل کیا تالیوں کی گونج تھی اور ناصر عباس کا سر فخر سے بلند تھا۔ جیل سے حبیب جالب کایہ پیغام پڑھ کر سنایا گیا ”  جب تک جمہوریت بحال نہیں ہوجاتی اور انسانی حقوق بحال نہیں ہو جاتے  میں اور میرا قلم علم بغاوت بلند کرتا رہے گا۔

”  ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم

روداد وفا دار پہ دہر ا تو گئے ہم

اُٹھیں کر نہ اُٹھیں یہ رضا ان کی ہے جالب

لوگوں کو سردار نظر آ توگئے ہم  “

حبیب جالب جب جیل میں تھے۔ ضیاء آمریت کے دوران سیاسی قیدیوں کے لیے معافی نامہ ارسال کیا گیا۔ غالباً کئی سیاسی قیدی معافی لے کر جیل سے نکل آئے۔ لیکن حبیب جالب نے  مندرجہ ذیل شعر کہے اور میاں والی جیل بھیج دئیے گئے:۔

موت مانگو، رہائی نہ مانگو

عمربھر سرجھکائے پھرو گے

                سرمایہ داری نظام کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی جابر قوتوں کے خلاف مزدور، دہقانو ں کے حق میں ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے دنیامیں بڑھتی ہوئی تباہ کاریوں کیخلاف  اسلحہ کاریوں کے خلاف اٹیمی جنگ کے خطرات کو حبیب جالب اس طرح بیان کرتے ہیں۔

امن کا دشمن جا ن کا دشمن

دھرتی اور دہقان کا دشمن

کھیت اورکھلیان کا دشمن

ایٹم بم امن کا دشمن

درباریوں کی کمی کہیں بھی نہیں، آج بھی علم وسخن کی آڑ میں نام نہاد جمہوریت کا خول چڑھائے ہوئے جمہوریت کو جمہوریت نواز قوتوں نے بڑی حد تک نقصان  پہنچایا ہے۔ یہ درباری عوام کی آنکھوں میں جس طرح دھول جھونک رہے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پہچان عوام نہیں رکھتے۔ ایسا ہر گز نہیں اس طرح کے درباری ہر دور میں رہے ہیں اور ان کا چہرہ جس طرح بے نقاب ہوا ہے۔ اُس کی گواہ تاریخ ہے۔ ایوبی دور کے درباریوں سے لے کر آج تک کے درباریوں کے بارے میں حبیب جالب نے کیا خوب کہاہے

ذہانت رو رہی ہے منہ چھپائے۔    جہالت قہقہے برسا رہی ہے۔

ادب پر افسروں کا ہے تسلط۔۔ حکومت شاعری فرمارہی ہے۔

                حبیب جالب کی  عوامی شاعری کے حوالے سے فیض احمد فیض نے کہاہے۔” جیسے بلھے شاہ پنجابی زبان کا عوامی شاعر ہے اسی طرح حبیب جالب  اردو زبان کے عوامی شاعر ہیں “

 جالب نے کیا خوب کہا ہے

                ” کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے چاک گریباں کا “

                پرچموں کی قطار ہے بھر مار ہے ہر جلسے جلسوں میں اتنے  لوگ نہیں  جتنے پرچم نظر آتے ہیں لیکن گریباں دور تلک نظر نہیں آتے۔ پرچم آج بھی انہی کے ہاتھوں میں ہے۔ جس کے بارے میں آپ نے کہا تھا۔ ” کھیت وڈیروں سے لے لو۔ ملیں لٹیروں سے لے لو رہے نہ کوئی عالی جاہ”جو چل پڑیں تو ارادہ نہیں بدلتے منزل زندان پر ہی ختم ہوجاتی ہے ایسے اشعار حبیب جالب نے ہر مشکل دور  میں کہے۔ ایوب خان کے بعد یحیٰ خان۔ اس دوران مری میں مشاعرہ منعقد ہوا تو اس کی صدارت فیض احمد فیض کر رہے تھے۔ جالب کو سٹیج پر بلایا گیا۔ تو جالب کہنے لگے” آج میں بہت خوش ہوں کہ اس مشاعرے کی صدارت فیض احمد فیض کر رہے  ہیں۔ فیض صاحب کا ہمیشہ اصرار ہوتا ہے کہ غزل پڑھوں۔تو آج غزل لکھ کر لایا ہوں اور یہ جو مری کلب میں ایو ب خان کی جگہ یحیٰ خان کی تصویر لگی ہے تو اُسے مخاطب کرکے یہ غزل پڑھوں گا۔

تم سے پہلے جو شخص یہاں تخت نشین تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا

                حبیب جالب نے زندگی میں ہر اُس تحریک، ہرمارشل لاء ہر وہ سازش جو عوام کے خلاف تھی اس کا مقابلہ کیا۔ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی حوالے سے بھی۔ 1958   میں جب ایوبی مارشلا لگا توبڑے بڑے سیاسی لیڈر چپ ہوگئے۔ ملک کے اندر ایک سناٹا چھا گیا آزمائش کا ایک دور شروع ہوگیا۔ ایک طرف پارٹی پر پابندیاں جیل وبند۔ دھونس دھمکیاں،مزدور تحریکوں کو کچلا گیا۔ اور تنظیمیں خاموش کردی گئی۔ لیکن حبیب جالب کو  خاموش کرنا ایک طوفان کو ہی کھڑا کرنا تھا۔ اور مارشل لاء کے اس دور میں حبیب جالب کی نظمیں ترقی پسند قوتوں کیلئے مشعل راہ بن گئیں۔کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو، علم کی بات کو، جہل کی رات کو، خوف کی زنجیر کو توڑ دو مشعلیں لے کر ایک آواز بن کر، لوگوں کو جگا کر، ظلمت کی شب کو گراکر، بیداری کا پرچم اُٹھا کر، آگے قدم بڑھا کر چلتے رہو چلتے رہو۔ یہ ہمت اور حوصلہ حبیب جالب سے مارشلا دور میں جہاں آزمائش کی گھڑی تھی اور حبیب جالب کی شاعری تھی۔ سرپر کفن باندھ کر نکلنا اسی کو ہی تو کہتے ہیں۔ ورنہ  بے کفن لاشیں گرتی رہیں گی۔ مارشل لاء دور میں ایسی شاعری کسی انقلاب سے کم نہیں تھی جس کی پاداش میں بار بار جالب کو پس زندان جا نا پڑا۔ مگر وہ باز نہیں آئے بلکہ ترنم کے ساتھ بے خوف وخطران کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے۔ پس زندان جب جالب کو نرم گوشہ اختیار کرنے انقلابی شاعری سے اجتناب  کرنے کے لئے رہائی کی شرط اور دوستی کا پیغام ملا تووہ ضیاء الحق سے یوں مخاطب ہوا۔

شعر سے شاعری سے ڈرتے ہو

کم نظر روشنی  سے ڈرتے ہو

ارے لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تیری

اور ہم تیری دوستی سے ڈرتے ہیں

                طویل دور کی جدوجہد میں بیگم حبیب جالب ” آپا تاج’ کو جب اُس وقت کے وزیراعظم نے گھر آکر امداد کی پیشکش کی تو بیگم حبیب جالب کے یہ الفاظ کہ میں اپنے شوہر کی طرح عزت سے مرنا چاہتی ہوں۔ مجھے ان کی وصیت تھی کہ روکھی سوکھی کھا لینا حکومت سے کچھ نہ لینا، منوبھائی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا”کہ کوئی وزیراعظم کسی بڑے اور غیرت مند شاعر کے پسماندگان سے کیوں پوچھیں کہ وہ ان کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟یہ تو ہر وزیرا عظم کو معلوم ہونا چائیے کہ وہ کیا کرسکتے ہیں۔ انہیں کیا کرنا چائیے۔ کشور ناہید نے تو کسی سے نہیں پوچھا تھا کہ حبیب جالب کے جیل بند ہونیکی صورت میں اس حال میں  ان کی بیوی، بچوں کے روز مرہ اخراجات پورے کرنے  کیلے  کیا کیا جائے انہوں  نے تو دوستوں پر دوستی کاجرمانہ عائد کر دیا تھا  “حبیب جالب نے کہا”مجھے پولیس سے زیادہ ٹارچر، ادیبوں اور شاعروں نے کیا وہ مراعات یافتہ ہونے لگے اور میں تنہا ہی موچی گیٹ میں آمریت کے خلاف نظمیں پڑھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                جالب کے لیے جیل جانا اس طرح تھاجیسے گھر جارہا ہو۔ کہتے ہیں ” جیل مجھے ذاتی طور پر معاشی فکروں سے آزاد کر دیتی ہے مگر جب بیوی بچوں کا خیال آتا ہے تو ساری رات آنکھوں  میں کٹ جاتی ہے۔

گھر میں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم

جو رات تھی زندان میں وہی رات وہاں تھی

                حبیب جالب کی شاعری نے ایوب اور یحی خان کے آمریت کی بنیادوں کو ہلا کر دکھ دیا۔ اور جالب گھر گھر گلی گلی ایسے ہی اشعار سے حکمرانوں کی نیندیں حرام کرتا رہا۔۔۔۔۔ موجودہ دور کی صورت حال کو دیکھ کر ہمیں جالب جیسے انسان کی یادشدت سے ستاتی ہے، ظا ہر ہے عوامی انسان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نقوش عوام کے اندر چھوڑجاتے ہیں۔  اُن کا کردار، اُن کا عمل، اُن کی جدوجہد خود ہی ثابت کرتی ہے۔ آپ چاہیں نہ چاہیں وقت اور حالات آپ کو مجبور کرتے ہیں جالب جیسے انسانوں کو یاد کرتے  کیلئے۔ پروفیسر کرار حسین حبیب جالب کے متعلق کہتے ہیں ” حبیب جالب ہمارے معاشرے اور ہمارے زمانے کا قلندر تھا، قلندر ہی  اس بغاوت اور اسی آزادی کالقب ہے“۔

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *