Home » پوھوزانت » آل انڈیا بلوچ کانفرنس ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

آل انڈیا بلوچ کانفرنس ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری

حیدر آباد جلسہ

                آل انڈیا بلوچ  کانفرنس  کا دوسرا سالانہ جلسہحیدرآباد میں ہوا۔اس جلسہ کو  ڈاک بنگلہ کے قریب خصوصی پنڈال لگا کر منعقد کیا گیا۔اس سہ روزہ سالانہ جلسے میں سیاسی کارکن، دانشور، اور اس علاقے کے بڑے بڑے بلوچ زمیندار شامل ہوئے ۔ ان زمینداروں میں سے کئی بعد میں سندھ اور مرکز کے وزیر اور اعلیٰ وزیر بنے۔ کانفرنس میں پارٹی کے بلوچستان، سندھ اور ڈیرہ غازی خان کے منتخب  ڈیلیگیٹوں نے شرکت کی۔

                بلوچستان کے ڈیلیگیٹوں کی تعداد دیگر مقامات کے ڈیلیگیٹوں سے زیادہ تھی۔ان میں یوسف علی خان مگسی، میر حسین بخش خان مگسی، مرید حسین خان مگسی، عبدالصمد خان اچکزئی، صمد خان کا بھائی عبدالسلام،اور محمد اسماعیل خان اچکزئی، محمد ایوب خان اچکزئی، عبدالعزیز کرد، محمد حسین سکول ماسٹر پشین، محمد حسین عنقا آف البوچ، ماسٹر پیر بخش نسیم تلوی، میر شہباز خان نوشیروانی، مٹھا خان مری، میر کریم بخش رئیسانڑیں، ماسٹر فیض محمد خان آف پڑنگ آباد، عبد الحئی  آف پڑنگ آباد،اور محمد ایوب اچکزئی سکول ماسٹر سرہ غڑک شامل تھے۔

                ان کے علاوہ وزیٹرز نے بھی بہت بڑی تعداد میں شرکت کی جن میں ایس عبدالمجید سندھی صدر آل انڈیا خلافت کمیٹی، قاضی احسان احمد شجاع آبادی، مسٹر جیٹھ مل ’پر سرام‘ مسٹر نور محمد پلیڈر، رائے بہادر ہاٹ چند ومل اور رائے بہادر جگت سنگھ  وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں (1)۔

                صدرِ منتخب خیر پور کاوالی،علالت کے باعث نہیں آیا۔ اس لیے مسٹر بندے علی ایم ایل اے نے صدارت کی۔بندے علی کی تقریر سندھی میں تھی جبکہ خیر پور کے میر کی اردو تقریر اُس کے پی اے نے پڑھی۔

کانفرنس میں حسبِ سابق روزانہ رہنماؤں کی تقریریں ہوتی تھیں، ممتاز افراد اور تنظیموں کے پیغامات پڑھے جاتے تھے۔ اورہر روز کے اختتام پر اُس روز کی قراردادیں پیش اور منظور کی جاتی تھیں۔

                اس سہ روزہ سیشن میں کل ملا کر40کے قریب قراردادیں منظور ہوئیں۔ایک قرار داد ڈپٹی کمشنر مسٹر گبسن کے شکریہ کے لیے پیش ہوئی تھی مگر نیشنلسٹوں کی سخت مخالفت کے سبب منظور نہ ہوسکی۔ اسی طرح سرنار من کیٹر کے خلاف مذمت کی ایک قرار داد منظور ہوئی۔ایک قرار داد میں میر اللہ بخش نے ایک ایجوکیشن کالج کھولنے کے لیے  ایک لاکھ روپے کے ایک فنڈ کی اپیل کی۔3ہزار روپے وہیں جمع ہوئے،(جن میں مگسی صاحب کے 500روپے شامل تھے)۔ بیس ہزار روپے کے وعدے ہوئے(2)۔ یہ رپورٹ بھی کی گئی کہ کانفرنس کے شرکانے ایک بلوچ کالج، بلوچ بنک، بلوچ سکولز اور بلوچ یتیم خانے کھولنے پر غور کیا۔تقریروں میں بلوچ قوم کی ترقی، تعلیم، صنعتکاری اور تجارت پر زور دیا گیا۔

پہلے دن کی  کارروائی

 جلسہ کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور قومی ترانوں سے کیا گیا۔ صدرِ  استقبالیہ کے بعد صدر اجلاس نے اپنا خطبہ پڑھ کر سنایا۔ بعدازاں پرائیویٹ سیکرٹری والیِ خیر پور نے اُس کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ جس میں اُس نے بہ وجہ علالت عدم شرکت پہ معذرت کی تھی۔

 پہلے دن سیکریٹری (عبدالقادر) کی طرف سے رپورٹ پیش کی گئی۔ جس میں کانفرنس کے گذشتہ ایک برس کی سرگرمیوں کا احوال تھا۔(یہ سیکریٹری رپورٹ ہم کہیں سے حاصل نہ کر پائے)۔

بلوچ کانفرنس  کے حیدر آباد سیشن کے پہلے ہی دن یعنی 26دسمبر کو ”محراب گردی“نامی کتابچے کی کاپیاں تقسیم کی گئیں۔مجھے اس قدر بولڈ اور بہادرانہ موقف بعد کی پوری بلوچ تاریخ میں نہیں ملا۔ اس قدر و اشگاف، اس قدر دبنگ، اس قدر برحق اور اس قدر بے خطر!۔

                 واضح رہے کہ       بلوچ تاریخ میں ایک  اوردلچسپ ترین واقعہ انہی کانفرنسو ں میں ہی ہوا تھا۔ اس کی مثال بھی بعدمیں نہیں ملتی۔ ہوایوں کہ پچھلے برس کی بلوچ کانفرنس (1932)منعقدہ جیکب آباد کے لیے نواب محراب خان تمندار بگٹی قبیلہ نے گرانقدر چندہ یوسف عزیز خان کو دیا تھا لیکن جب بگٹی قبیلہ کے ایک وفد نے نواب کے مظالم کے خلاف یوسف علی خان کو اپنی فریاد پہنچائی تو یوسف علی خان نے سردارانہ تعلقات کی پرواہ کیے بغیر مظلوم بگٹی قبائلیوں کی عملی حمایت کا اعلان کیا تھا اور نواب محراب خان بگٹی کو اُس کا عطا کردہ عطیہ بھی واپس کردیا تھا اور کہاتھا کہ نواب بگٹی کی طرف سے یہ چندہ درحقیقت رشوت ہے تاکہ میں اور تنظیم،مظلوم بگٹیوں کی مدد نہ کر پائیں۔

انگریز جاسوسی رپورٹوں میں حیدر آباد جلسے سے مگسی صاحب کی تقریر کا بھی ذکر ہے جس میں اس نے بلوچستان میں اصلاحات کے لیے کام کرنے کو کانفرنس کی سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیا۔ اس نے سرکار سے بلوچستان میں تعلیم پھیلانے کا مطالبہ کیا۔ نیزبلوچستان کو آئینی صوبہ بنانے کامطالبہ کیا۔۔۔کاش اُس کی تقریر  کا مکمل متن مل جائے!۔

                سیشن کے اِس پہلے دن کی ایک قرارداد میں افغانستان کے بادشاہ نادر خان، عراق کے بادشاہ فیصل، مری قبیلے کے سردار مہرا للہ، میر غلام محمد تالپور وغیرہ کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔

دوسرے دن (27دسمبر) کی کارروائی

اُس دن کی قرار دادیں یہ تھیں:۔

۔1۔ انڈیاکی  بلوچ کمیونٹی سے عموماً اور سندھ کے بلوچوں سے خصوصاً اپیل کی جاتی ہے کہ وہ ہر ضلع میں کمیونٹی کی تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی کے لیے بلوچوں کے انجمن بنالیں جو کہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس سے الحاق کریں۔

۔2۔ اپنے مطالبات میں بلوچستان کے لیے اصلاحات کے معاملے کو شامل کرنے پر آل انڈیا مسلم کانفرنس کا شکریہ ادا کیا گیا۔

۔3۔کانفرنس کے آئین  پر نظرِ ثانی کرنے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی گئی۔اس کے ممبران میں نواب یوسف علی مگسی، میر اللہ بخش ٹالپر، خان عبدالصمد اچکزئی، غلام قادر وکیل، علی محمد عطا محمدشامل کیے  گئے۔

۔4۔کلات سٹیٹ حکام سے سٹیٹ کے اُن زمینداروں کو مرکزی جرگے میں نمائندگی دینے پر زور دیا گیا جو لینڈ یونیو دے رہے ہیں۔

۔5۔بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا یہ سیشن جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے اس رویے کو، جس کے تحت بلوچستان کو ایک الگ صوبے کے بطور بنانے سے انکار کرنے کومایوس کن، افسوس ناک اور نامناسب سمجھتا ہے۔ اور سوچتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کے جذبات کو اس رویے سے ٹھیس پہنچی ہے۔ کانفرنس انڈیا کے دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کے فوائد سے مستفید ہونے کو بلوچستان کا پیدائشی حق سمجھتی ہے۔یہ کانفرنس گورنمنٹ آف انڈیا اور برٹش گورنمنٹ سے درخواست کرتی ہے کہ وہ انڈیا میں بلوچ کمیونٹی کے جذبات کو مزید زخمی نہ کرے اور اس مطالبہ کو مان کر جلد از جلد بلوچستان میں اصلاحات نافذکرے۔

۔6۔ ممبروں کو کانفرنس کی صوبائی شاخیں قائم کرنے کی ہدایت کی گئی۔

۔7۔ حکومت سے کراچی میں لیاری کواٹرز میں ایک انگلش سکول کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔

۔8۔بلوچستان کے حکام سے عبدالصمد خان اچکزئی کو بلوچستان میں ایک اخبار نکالنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیاگیا۔

۔9۔ ایک بلوچ کالج شروع کرنے کے لیے بلوچ کمیونٹی کو ایک لاکھ روپے جمع کرنے کی اپیل کی گئی۔

۔10۔ خان آف قلات سے درخواست کی گئی کہ وہ مسلم عورت کی وارثت میں حق دینے کے انتظامات کرے۔

۔11۔ خان قلات پہ  اس کے علاقے میں سکولز کھولنے پر زور دیا گیا۔

۔12۔ حکومت سے سندھ پولیس میں بلوچوں کو بھرتی کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور ملٹری کالج میں بلوچ کمیونٹی کو سہولتیں دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

۔13۔ نواب خاران اور دیگر سرداروں سے اُن کے علاقوں میں سکولز کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔

۔14۔ ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی سے درخواست کی گئی کہ کراچی اور سندھ میں ایرانی بلوچ مہاجروں کو واپس ایران جانے کی اجازت دے۔

                اس کانفرنس میں قرار پایا کہ جماعت کا آل انڈیا مسلم کانفرنس سے الحاق کیا جائے۔ اور مختلف علاقوں میں اس کی شاخیں قائم کی جائیں۔

تیسرے دن (28دسمبر1933) کی کارروائی

سبجیکٹس کمیٹی کی تجاویز

                مجلس وانتخاب مضامین کا اجلاس 28دسمبر کو صبح 9بج کر 10منٹ سے شروع ہو کر شام کے 3بجے تک ہوا۔کمیٹی نے قرار داد منظور کی کہ مجلس انتظامیہ کے ارکان 130ہونے چاہییں جن میں سے بلوچستان و سندھ کے ارکان کی تعداد 110ہونی چاہییں۔ اور دس باقی ہندوستان سے لیے جائیں۔

اس روز   آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی  اگلے سال کے لیے کابینہ منتخب کی گئی :

صدر:     حاجی میر حسین بخش ٹالپر

نائب صدور:۔

۔1۔خان عبدالصمد خان اچکزئی

۔2۔نواب یوسف علی مگسی

۔3۔خان محمد خان

۔4۔اللہ بخش خان گبول

جنرل سیکرٹری:    وکیل غلام قادر

جوائنٹ سیکرٹریز:   1۔ علی محمد عطا محمد سندھ

۔2۔محمد ایوب اچکزئی

پبلسٹی سیکریٹری:     عبدالعزیز کرد

فنانس سیکریٹری:      بندہ علی

اسی دن پارٹی کے لیے  120ممبروں کی ایگزیکٹو کمیٹی بھی منتخب کی گئی۔جس میں 30ممبر بلوچستان کے تھے، کراچی اور حیدرآباد ضلعوں کے دس دس ممبر، سکھر  دادو اور لاڑکانہ کے پانچ پانچ ممبر، تھرپارکر کے 12،جیکب آباد اور خیر پور سات سات، نواب شاہ 9،پنجاب سے 14ممبر، ایرانی بلوچستان سے دو، اور دیگر صوبوں سے چار ممبرز۔

                اسی طرح اگلے ایک سال تک کے لیے پارٹی کی ایک پندرہ رکنی ورکنگ کمیٹی کا اعلان ہوا:اللہ بخش نواب شاہ، بخشان خان نوثکانڑیں حیدرآباد، ابراہیم خان نواب شاہ، شہباز خان نوشیروانی، محمد اسماعیل اچکزئی، محمد امین کھوسو، محمد حسین عنقا، خیر محمد چانڈیو حیدرآباد، اللہ داد خان تھرپاکر، مراد بخش مری نواب شاہ، خیر محمد مری نواب شاہ، فتح خان حیدرآباد، عبدالغفور کراچی، پیر بخش شہدا دزئی کراچی، رسول بخش نواب شاہ۔

     قرار داد مسٹر اللہ بخش گبول نے پیش کی کہ بلوچوں کو اپنی تنظیم کرنی چاہیے۔ نیز انہیں اپنی جماعت میں معاشرتی، اقتصادی اصلاحات کرنی چاہییں۔

                 ایک اور قرار داد میں جو محمد امین نے پیش کی،آل انڈیا مسلم کانفرنس، حاجی سیٹھ عبداللہ ایم۔ ایل اے  اور شیخ عبدالمجید سندھی کا ان کی اُن مساعی کے لیے شکریہ ادا کیا گیا جو انہوں نے بلوچستان کی بہبود و ترقی کے لیے کی ہیں۔ نواب یوسف علی خان نے قرار داد کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس قرار داد سے ہمارے سندھی بھائیوں کے اس قسم کے تمام شکوک رفع ہوجائیں گے کہ ہماری کانفرنس کا مقصد ایک اور فرقہ وار فضا پیدا کرنا ہے۔

                 چوتھی قرار داد خان عبدلصمد خان نے اصلاحات بلوچستان کے متعلق پیش کی۔ آپ نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو بلوچستان میں فوراً آئینی اصلاحات نافذ کرنی چاہییں۔

                مذکورہ بالا قرار دادوں کے علاوہ مندرجہ ذیل قرار دادیں بھی منظور ہوئیں۔

                1۔یہ کانفرنس ارکان کو اختیار دیتی ہے کہ وہ کانفرنس کی مقامی ضرورتوں کے لیے صوبجاتی شاخیں قائم کریں۔

                2۔خان قلات پر زور دیا گیاکہ وہ مال گزاری اداکرنے والے زمینداروں کو شاہی جاگیروں میں نمائندگی عطا فرمائیں۔

                3۔یہ کانفرنس مقامی حکومت بلوچستان کی اس روش پر اظہار رنج وملال کرتی ہے کہ اس نے بلوچستان میں اخبارات جاری کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس معاملہ میں مداخلت کرے اور حکومت بلوچستان کو حکم دے کہ وہ اخبارات جاری کرنے کی اجازت دے دے۔

                4۔یہ کانفرنس ایجنٹ گورنر جنرل سے درخواست کرتی ہے کہ پسنی اور مکران کے دیگر بندرگاہوں کی نصف آمدنی کے متعلق خشکی کے جائز مطالبہ پر ہمدردانہ غور کریں تاکہ ہر حق دار شخص کو حکومت قلات کے ساتھ گذشتہ معاہدہ کے مطابق جائز حصہ مل سکے۔

                5۔ یہ کانفرنس سرداروں کے اس رواج کو کہ ترکہ میں مستورات کو حصہ نہ دیا جائے۔ شرع اسلام کے خلاف سمجھتی ہے۔ اور اے جی۔ جی اور خان قلات سے درخواست کرتی ہے کہ اس قسم کے منافی شرع اسلام رواج کو بلوچستان جیسے اسلامی ملک میں بند کردیں۔ نیز یہ کہ بلوچستان کی خواتین کے حقوق اس قسم کے ناجائز قوانین کی زد سے محفوظ رکھے جائیں۔(4)

                 میر یوسف علی خان عزیز بلوچ نے تقریرکی۔ مقرر نے میر صاحب خیر پور کے اس بیان کو رد کردیاکہ فرنیٹرریگولیشن ایک مفید قانون ہے۔اور بتایا کہ قانون مذکور ملک کی بے چینی دور نہیں کرسکتا۔ بلکہ حکومت کا فرض ہے کہ عوام میں تعلیم کے ذریعہ ایسی فضا پیدا کرے کہ ایسے سخت قانون کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کانفرنس کا ابتدائی و انتہائی مقصد بلوچستان کے لیے کامل آئینی حکومت حاصل کرنا ہے۔(5)

حوالہ جات

۔1۔ ژوب لورالائی ایس پی کی پولٹیکل ایجنٹ کو روزنامہ ”انقلاب“ کے 21اکتوبر1933کے حوالے سے رپورٹ۔ بلوچستان آرکائیوز کوئٹہ۔

۔2۔رپورٹ منجانب ایس پی کوئٹہ پشین بجانب سیکریٹری اے جی جی۔ 26دسمبر1933 بلوچستان آر کائیوز۔

۔3۔ 4جنوری 1934کو ایس پی کوئٹہ پشین اور سبی کی طرف سے پولٹیکل ایجنٹ کوئٹہ کو بھیجا گیا میمورنڈم۔بلوچستان آرکائیوز

۔4۔   خان غلام قادر۔ روزنامہ انقلاب،9مارچ 1934

۔5۔   خان غلام قادر۔ روزنامہ انقلاب،9مارچ 1934

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *