پس منظر میں رہ کر عوامی بہبود کے بڑے کام کرنا عظیم لوگوں کی نشانی ہوتی ہے۔ امین کھوسہ نے بلوچوں کی اولین بڑی سیاسی پارٹی کے قیام کا آئیڈیا پیش کیا۔ اُس کے قیام کے لیے سخت محنت کی۔۔۔ اور خود پس منظر میں رہا۔ واقعتا فخر ہوتا ہے اپنے بزرگوں پر۔ آئیے اُس کی اپنی تحریر میں یہ سب کچھ دیکھیں:
(البلوچ کراچی 13نومبر1932)
آل انڈیا بلوچ کانفرنس
نوجوانانِ قوم کو پیغام عمل
”لذت ایمان فزاید درعمل
نیست آن ایمان کہ تابددرعمل
”قوم کے سچے غم گسار نواب زادہ محمد یوسف علی خان کی ابتدا سے ہی یہ منشا تھی کہ قوم کے مختلف الخیال سرداروں کو جو سالہاسال تک چلنے والی لڑائیوں کے بدا ثرات کے ماتحت ایک دوسرے کی دشمنی میں سرتا پا ڈوبے ہوئے دست بہ پیکار تھے ایک جگہ جمع کیا جائے اور پھر بلوچی اقوام کے معاشرتی وا قتصادی علمی تنزل وپستی کے مکمل استیصال کے اسباب باہمی معاونت ومشارکت سے دریافت کیے جائیں۔
” بفضلِ خدا سردار غلام رسول خان کی ان تھک کوششیں رنگ لائیں اور نواب زادہ صاحب اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہوگئے۔ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے انعقاد کی تجویز جو ہم نے ڈرتے ڈرتے صرف غربا کی اعانت کے بھروسے قوم کے پیش کی اب اس کی حمایت میں نواب صاحب بگٹی، نواب صاحب لیغاری، سردار غلام پسند خان (؟)کھوسہ، مسڑ مشتاق احمد خان وغیرہ احباب نے اظہار فرمایا اور ساتھ ساتھ اعلیٰ امد ادکی امیدیں بھی دلوائیں۔
”بلوچستان کی تاریخ میں یہ واقع زریں الفاظ میں رقم کیا جائے گا کہ یہی اولین موقع تھا جس پر بلوچی سرداروں نے ایک خالص قوم کی حمایت میں اپنے ”ذاتیات“ دفن کرنے کے بعد متحدہ کوششوں کو عمل میں لانے کا عزم راسخ کیا۔
”آفریں باد برایں ہمت مردانہِ تو“
”نواب صاحب بگٹی وغیرہ حضرات کے خیالات کے بھاؤ کو قومیت کی طرف موڑنے میں جلد کامیابی میرے نئے علیگ دوست سردار غلام رسول کو ہوئی۔ اس پر میں انہیں اور اُن کے سالار ِاعظم نواب زادہ کو خلوص دل سے پیغام تبریک وتہنیت اپنی اور اپنے احباب کی طرف سے بھیجتا ہوں۔
”اس موقع پر سندھ بلوچستان وپنجاب کے نوجوانوں کو اپنے بڑوں کی پیروی کی یاد گیری دلاتا ہوں۔
”جو وحدت ومحبت کا بیج کچھ دنوں پہلے ہندوستان کے تاریخی مقام ملتان میں بویا گیا اس کی پرورش وپرداخت کے فرائض کے بارگراں حمال یہی ہونہاروں کے سپرد ہونے والے ہیں۔ ہم ہی علمبرداران ِآزاد ی ہوں گے۔ ہم ہی ننگِ اسلام وناموسِ مصطفےٰ پر سینے سپر کریں گے۔ اخوت، برادری،مساوات ویک جہتی کی اسلامی تعلیمات کے عملی دور کو قریب تر بنانا ہمارا کام ہوگا۔ ہر قسم کے ”اچھوت پن“ کی زنجیروں کو کاٹنے کے لیے ہماری ”مردانہ نگاہوں“ کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں ان خدمات کی بجا آوری کی صلاحیت واہلیت پیدا کرنی ہے۔ کیا میں ان عظیم الشان اور نمایاں خدمات کے لیے تیار ہوں؟۔یہی سوال غیور بلوچی نوجوانو! اپنے آپ سے پوچھا کرو۔ میں آنے والے دورِ نشاط انگیز کی تخیلات میں آپ کو حال کے فرائض سے بے خبر بنانا نہیں چاہتا۔ رفیقو! ہم اس کو اپنا فرض سمجھیں کہ ہم اپنے سوئے بلوچی بھائیوں کے کانوں تک اس ”صدائے خواب شکن“ کی گونج پہنچائیں جو ایک دردِ قومی واحساس ملی سے معمور دل سے نکلی ہے یعنی جس جس شہر اور گاؤں کے آپ ہوں وہیں کے لوگوں کو اس اتحاد اور اتفاق کی خوشخبری سنائیے جس کو نصب العین بنا کر ہمارے سردارانِ عالیجاہ نواب زادہ یوسف علی خان کے پرچم کے نیچے آگئے ہیں۔ ہر ایک آپ میں سے آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے اغراض ومقاصد کی اشاعت کے لیے رضا کار بن جائے۔ جہاں جہاں بلوچی بھائی اخلاقی تنزل میں ہوں یا جہالت کی تاریکی میں ہوں یا باہمی اختلافات نے انہیں گھیر رکھا ہو تو ان کی اصلاح کے لیے کوشش کیجیے۔ آپ میں سے ہر ایک نے کیا کام کیا،اس کی رپورٹ ”سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد“ کے نام پر بھیج دیں۔ ایسے حضرات کے نام وقتاً فوقتاً لوکل اخبارات میں شائع کیے جائیں گے اور کانفرنس کے اجلاس میں شکریہ کے ساتھ لیے جائیں گے۔ اگر کوئی اخفائے نام کا خواہش مند ہو تو اس پر بھی عمل کیا جاوے گا۔
”آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا یہ اصلاحی پہلو ہے۔ اس میں مدد واعانت ہر صورت میں سیاسیات کے خوفناک مفہوم سے بری ہے۔ یہ تو صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے۔سرکاری ملازم، سرداران،معلمان ومتعلمان وغیر ہ کی شرکت قانوناً میرے خیال میں جرم نہیں۔
”اخیر میں نوخیز نژاد قوم (جس کے قوت بازو سے باطل کے مٹنے کی امیدیں وابستہ ہیں) کے آبائی غیرت میں تلاطم پیدا کرنے کے لیے کہوں گا کہ:
نالہ وفریاد ماتم تا کجا
سینہ کوبی ہائے پیہم تا کجا
درعمل پوشیدہ مضمونِ حیات
لذتِ تحقیق قانونِ حیات“