Home » پوھوزانت » داجل اور بختاور کریم ۔۔۔ راشد قاضی

داجل اور بختاور کریم ۔۔۔ راشد قاضی

                ”داجل“ کا قصبہ تحصیل جامپور سے 22کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ قصبہ داجل سے  آگے ہڑند تاریخی اعتبار سے قابل ذکر ہے۔ قلعہ ہڑند تاریخ کا یک اہم حوالہ ہے۔ داجل سے 50کلومیٹر کے فاصلہ پر ہڑند واقع ہے۔ہڑند کے قریب صحت افزاء مقام ماڑی ہے۔

                 ریڈورڈ نے ہڑند کے قلعہ کا ذکر اس طرح سے بیان کیا ہے، ”ہڑند میں قبل ازیں قلعہ نہیں تھا لیکن دیوان ساون مل کے کار دار نے ایک دن بھری عدالت میں کچھ گور شانیوں سے گالی گلوچ کی۔ اس بات پر قبیلہ میں غم و غصے کی لہڑ دوڑ گئی۔ انہوں نے کاردار کے گھر کو گھیر لیا اور اسے باہر نکال کر مارڈالا۔ اس واقعہ کے بعد ساون مل نے یہاں پختہ اینٹوں سے ایک شاندار قلعہ بنوایا جس میں کہ دیوان مولراج کا افسر (محکم چند) 1848-49کی جنگ میں ڈٹا رہا۔ بالآخر بنگال انجینئرز کے لیفٹیننٹ ینگ نے یہ قلعہ گورشانی قبیلہ کی مدد سے فتح کیا جو رنجیت سنگھ سے انتقام لینے کے طاق میں تھے۔ یہ قلعہ قندھار سے آنے والے راستے کے اوپر موجود ہے۔

                ہڑند کے قلعے کو جب رنجیت سنگھ حکومت نے تعمیر کرانا شروع کیا تو گورشانیوں نے دو دفعہ اس پر لشکر کشی کی اور اسے مسمار کردیا۔یہ تیسری بار جا کر تعمیر مکمل ہوئی۔ بارش ہونے کے بعد آج بھی کبھی کبھار ہڑند کے لوگوں کو قلعہ سے زمین کے اندر دبی اشرفیاں مل جاتی ہیں۔

                 داجل کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ بوند بوند پانی کو تر ستے ان لوگوں نے جانوروں کے ساتھ ایک ہی تالاب سے پانی پیا۔ حکومتی سطح پر پانی کی لائنیں بچھا کر جامپور سے رسائیِ آب کو تو ممکن بنایا گیا لیکن سیاسی سرکشی کے باعث مہینوں پانی کی فراہمی روک دی جاتی ہے۔ نو آبادی نظام کے زیر اثر اس علاقے کے لوگوں کو انسان کم سمجھا گیا۔ توجہ سے محروم یہ علاقہ تمنداروں، سرداروں اور زمینداروں کے اثر ور سوخ اور مظالم کی کہانیاں اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہے۔

                قصبہ داجل گورشانی سرداروں کی راجد ھانی تھی۔ تاہم اس کی سیاست پر لغاری، مزاری اور دریشک کا عمل دخل بھی رہا۔ انگریزوں نے ان سرداروں کو افسر مال کے اختیارات اور محدود فوج رکھنے کی بھی اجازت دے دی۔ یہ حکمت عملی قبائلی نظام کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے اختیار کی تھی۔ ان سرداروں نے عوام کاخون پوری سنگدلی سے چوس کر سامراجی رگوں میں بھرا اور انگریز کی بخشی ہوئی حیثیت کو ڈھٹائی کے ساتھ استعمال کیا۔ سرکاری زمین چپکے چپکے ان کے نام منتقل ہونے لگی۔ جب ان کو انتخاب کی ضرورت محسوس ہوئی تو سردار محلات میں بیٹھ کر انتخاب لڑتے تھے۔ ان کے حکم کے بغیر پتا بھی نہ ہل سکتا تھا“۔

                اس پس منظر میں داجل میں ایک بیٹی نے جنم لیا۔ (1984-1966)جس کا نام بخت آور بی بی رکھا گیا۔ بخت آور بی بی کے والد کریم بخش سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں مقیم رہا۔

                 کریم بخش نے اپنی بیٹی کو مخالفتوں کے باوجود پڑھانے کا ارادہ کرلیا۔ ا س زمانے میں جہاں لوگ لڑکوں کو تعلیم حاصل کروانے سے ڈرتے تھے وہاں اس نے نہ صرف اپنے ملک بلکہ غیر ملک یعنی بھارت میں بھی جاکر تعلیم حاصل کی۔ جن علاقوں میں وہ زیر تعلیم رہی ان میں دہلی لائل پور، (فیصل آباد) امر تسر، ملتان اور علی گڑھ شامل ہیں۔

                وہ شعبہ تدریس سے وابستہ رہی۔ مظفر گڑھ سے راجن پور تبادلہ ہوا تو لوگوں کے فرسودہ خیالات بدلنے کی بھرپور کوشش کی۔ راجن پور سے ڈیرہ غازی خان تبادلہ ہوا۔ 11سال ڈیرہ غازی خان میں ملازمت کی۔ اپنے بیٹے طفیل احمد عرشی کی تعلیم کی وجہ سے لاہور تبادلہ کروایا۔ ڈیڑھ سال لاہور میں ملازمت جاری رکھی۔ 1976میں قبل از وقت ریٹائر منٹ لی اور مستقل لاہور میں سکونت اختیار کی۔

                وہ ایک سخت گیر معلمہ اور منظم ماں تھی۔ ریاضی اس کا پسندیدہ مضمون تھا۔ ریاضی ہی کی عمر بھر تدریس کی اور ریاضی کے اصولوں کی طرح ہی منظم تھی۔اس کی شخصیت میں توازن تھا۔

                ”اٹک مٹک دیداں“ 1984میں شائع ہوئی۔ یہ سرائیکی مجموعہ کلام 156صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مجموعہ کلام میں عقیدتاں، ڈوہر ے، ربا عیاں، کافیاں، غزلاں اور نظماں شامل ہیں۔

                داجل جیسے قصبے کی خاتون کے لیے شاعری کرنا آسان نہ تھا۔ ریت رواج، سماج اور معاشرے سے قبولیت کی سند حاصل کرنا بھی سہل نہ تھا مگر بخت آور کریم نے ہمت نہ ہاری۔ نیز ایک پسماندہ علاقے کی روشن خیال عورت نے جب کیفیات، جذبات اور خیالات کا رُخ حضرت خواجہ غلام فرید کی جانب موڑا تو یہ بھی وسیب کی ہر زہ سرائی سے بچنے کے شعوری کوشش تھی۔ سماجیات سے ”غیرمحسوس“بغاوت نے پیر فرید اور پھر داجل ہی کے مخدوم خاندان سے قربت کے باعث وہ بہت سے بہتانوں سے بچی رہی۔ پیری مریدی کے نظام میں جکڑے لوگوں کے لیے یہ بہت بڑی سعادت تھی کہ ایک عورت خواجہ فرید کی عقیدت مند ہے۔

                سرائیکی شاعری میں اُردو کی پیوند کاری سے دلکشی پیدا کی گئی ہے۔

                پنجابی، اُردو اور سرائیکی کی پیوند کاری سے اس کی شاعری معنی خیز ہوئی۔ ساتھ ہی ان اشعار میں ”برسوں کی ماری“ وصل کی خواہش کا اظہار بھی ہے۔

                بخت آور کریم نے مختلف شعری جہتوں کا اپنایا۔کہیں ”عقیدتاں“ کہیں ”کافیاں“ کہیں ”ڈوہڑے“ کہیں ”رباعیاں“ کہیں ”غزلاں“اور کہیں ”نظماں“ گویا انہوں نے گلستان شاعر کو رنگا رنگ پھولوں سے سجادیا۔

                ”پھل پھل خوشبو“ بخت آور کریم کا غیر مطبوعہ کلام ہے۔

                 ”مضامین گلدستہ“ نومبر 1980میں ادبی سنگت لاہور نے شائع کیا۔  مضامین گلدستہ کے موضوعات اراکین اسلام کا احاطہ کرنے کے علاوہ عید الفطر، عید الاضحی، شب معراج، شب برات، فضائل رمضان، وااقعہ کربلا اور محرم الحرام جیسے موضوعات پر سیر حاصل بحت کی گئی ہے۔

                بخت آور کریم نے حیات وممات کی گھتیاں بھی سلجھائی ہیں۔وہ زندگی کے بارے میں لکھتی ہے۔

                ”زندگی جسے انسان روتے اور ہچکیاں بھرتے ہوئے قبول کرتا ہے اور چند دنوں کی مختصر مدت میں شمع انجمن اور مجسمہ درد بننے کے بعد سسیکوں اور آہوں کے طوفان میں ڈوب کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ جاتے ہیں“۔

اُردو تحریر بعض جگہوں پہ رعنائی کے پیکر میں بھی ڈھلی ہے۔

                ”گلابی رخسار جنہیں میں دیکھ کر اکثر عقیدت کا اظہار کیا کرتی تھی اب خزاں رسیدہ پتوں کی طرح زرد پڑ چکے ہیں۔ وہ عنبریں زلفیں جن سے ہمیشہ عرق گلاب کی بھینی بھینی خوشبوئیں نکھرتی تھیں اب ان کی دلکشی ظاہر اََمیر ے لیے مئے خانہ بن سکیں اور وہ گلاب کی پنکھڑیوں سے زیادہ نازک لب جن پر شام احمریں رنگ تلمیلا تا تھا۔ماند پڑ گیا۔ اب کچھ بھی رعنائی باقی نہیں رہی“

                بخت آور کریم کی زندگی محنت، لگن اور جُستجو کا نام ہے۔ اس کا تخیل بھی معنی خیز ہے اور تحریر بھی روشنی کا استعارہ ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *