Home » پوھوزانت » مادری زبانوں کا میلہ ۔۔۔ شاہ محمد مری

مادری زبانوں کا میلہ ۔۔۔ شاہ محمد مری

(اسلام آباد میلے میں پڑھا گیا)
میں مادری زبانوں کے اِس میلے میں شریک ہونے پر آپ سب کو مبارک باد دیتا ہوں۔ خواتین وحضرات ۔ میلہ ہمیشہ شعور، جبلت اور جمالیات کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ میلہ انسان کو آزاد تر بناتا ہے ، لطافت عطا کرتا ہے ، روح کو مسرت بخشتا ہے اور آپ بلند تر ہوجاتے ہیں۔ میلہ میں ایک کمال بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں آپ ہانک کر نہیں لائے جاتے، آپ خود اختیاری میں مست و شادان ورقصاں چلے آتے ہیں۔ میلہ گنگدامی، بے دلی اور مجبوری کا الٹ ہوتا ہے ۔ میلے میں دل مچلتا ہے ، روح سیٹیاں بجاتی ہے اور پیر رقصاں ہوتے ہیں۔ ۔۔میلہ ہمیشہ دوسروں کو شامل کرتا ہے ، دھکیلتا نہیں۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میلے میں نہ صرف گفت اور شنید ہوتی ہے بلکہ لطیف ترین انداز میں کلچر کا تبادلہ ہوتا ہے ۔
اور پھر جب میلہ مادری زبانوں کا ہو تو میلے کی شان اور گہرائی و گیرائی بہت بڑھ جاتی ہے ۔ اس لیے کہ جب ہم زبان کی بجائے’’ زبانیں ‘‘کہتے ہیں تو یکدم ایک پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ پیغام کہ ہم ایک یک رنگے، پھیکے اور اکتا دینے والے ملک میں نہیں رہتے بلکہ رنگ برنگے پھولوں سے لدے، اور خوشبوؤں سے بھرے گلستان میں رہتے ہیں۔ ’’زبانیں ‘‘کہنے کا مطلب ہے کہ ہم ایک pluralistic سماج کے مالک ہیں۔ اور یہ بھی کہ ہم اس رنگا رنگی کو برقرار بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ ’’زبانیں‘‘ کہنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس ملک میں کوئی زبان کسی سے کمتر نہیں ہے ۔ یہاں چند سونفوس کی زبان بھی اتنی ہی اہم ، قیمتی اور مقدم و محترم ہے جتنی کہ کروڑوں لوگوں کی زبان ہے ۔’’ زبانیں ‘‘کہنے کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہم یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہاں کسی زبان کو مرنے نہیں دیا جائے گا۔ یہ بھی کہ ہم یہاں کسی زبان کو فوقیت نہیں دینے دیں گے۔
’’زبانیں‘‘ کہنے سے ہم زبانوں کے جمہوری حقوق،مقام اور اُن کے بیچ جمہوری دوستانہ تعلقات کے قیام کی کوشش کرتے رہنے کا گویا عہد کر رہے ہوتے ہیں۔
اپنی مادری زبان سے محبت ایک جبلی خصوصیت بھی ہوتی ہے اور ایک شعوری کوشش بھی۔ مگر اپنی مادری زبان سے محبت اُس آفاقی محبت سے بندھی ہوتی ہے جس کا دوسروں کی مادری زبانیں بھی حقدار ہوتی ہیں۔ دوسرے کی زبان سے نفرت اصل میں خود اپنی مادری زبان سے محبت کو مشکوک اور ناخالص بناتی ہے ۔ مطلب یہ کہ اس ہال میں موجودہم سب لوگ اپنی مادری زبانوں سے محبت تو کرتے ہی ہیں مگر ساتھ میں دوسروں کی مادری زبانوں سے بھی اپنائیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ واضح ہے کہ ہم سب لوگ ساری پاکستانی زبانوں کی بہبود، تحفظ اور ترقی کے لیے ذریعے اور ذرائع ڈھونڈ نے جمع ہوئے ہیں۔ ہم سب کی نظر میں کوئی زبان گروہی زبان نہیں ہے ، ضلعی نہیں ہے ، صوبائی نہیں ہے اور علاقائی توبالکل نہیں ہے ۔ بلکہ ہم پاکستان میں موجود ہر زبان کو اپنی ملکی اور قومی زبان قرار دیتے ہیں۔
زبان محض ذریعہ اِظہار نہیں ہے ۔ نہ ہی یہ محض اپنی بات دو سرے تک پہنچانے کا وسیلہ ہوتی ہے ۔ زبان تو ایک مجموعہ ہوتی ہے اُس خاص خطے میں موجود انسانوں کے اجتماعی شعور، تاریخی پراسیس اور فہم و فراست کا ۔ اس لیے جب ہم اس میلے میں مل رہے ہیں تو صدیوں پہ محیط اپنی کلچرل تاریخ کے شعور کو ایک دوسرے سے شیئر کر رہے ہوتے ہیں، ہم ایک دوسرے کو غنی بنا رہے ہوتے ہیں۔ enrichکر رہے ہوتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں ہم اپنی پگڑی کی پَلُو میں بندھی قیمتی ترین بات دوسرے کو دے رہے ہوتے ہیں اور جواب میں وہ اپنی چادر کا گرہ کھول کر ہمیں اپنی شیرینی کا حصہ دار بنا رہا ہوتا ہے ۔ ہم اپنی بھی اور مخاطب کی بھی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں۔
خواتین و حضرات ،جب ہم کلچرل لین دین کے اتنے مضبوط فرش پہ کھڑے ہیں تو فرسودگی ، رجعت اور ماضی پرست رجحانات سے خوف کیسا ؟۔ اسی طرح جب ہم کلچرل تبادلہ کی ساری کھڑکیاں کھلی رکھے ہوئے ہیں تو گلوبلائزیشن سے ڈرنا کیسا؟ گلوبلائزیشن تو ہمارے عہد کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے ۔ یہ چھوٹی موٹی خرابیوں کے باوجود ٹکنالوجی اور سائنس کی ترقی یافتہ ترین صورت ہے ۔کبھی کبھی ہم خوفزدہ ضرور ہوجاتے ہیں کہ کہیں یہ گلوبلائزیشن ہمیں، ہماری زبان اور ہمارے کلچر کو ہڑپ نہ کر جائے ۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ گلوبلائزیشن اپنے اندر ہی کثیر رنگی لیے ہوئے ہیں۔ یہ کسی صورت بھی رجمنٹلائزیشن کی قائل نہیں ہے ۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کا مرکز انسان ہے ۔ یہ پوری انسانیت کی میراث ہے ۔ ریاضی اور فزکس کب کسی ایک خطے تک محدود رہے ہیں۔ چنانچہ ہم سب اس انسانی جدید ترین کا روان میں اپنی اپنی وضع وقطع کے ساتھ شامل ہیں۔ ٹکنالوجی کبھی بھی انسان کی آقا اور مالک نہ ہوگی۔ اسی طرح مارکیٹ بے شک بڑی قوت ہے مگر زندگی، اُس سے بھی بڑی قوت ہے۔یہ عالمگیر قانون ہے کہ انسانی زندگی کا آرکسٹر ا کبھی بھی ایک انسٹرومنٹ پر مشتمل نہیں ہوتا۔
سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کا نیا عہد تعصبات کو ڈبودے گا، امتیازات کو خواہ وہ نسل وزبان کی بنیاد پہ ہوں یا عقیدہ وصنف کی بنیاد پہ، مار ڈالے گا۔ نئے عہد میں نفرتوں کی گنجائش کم سے کم تر ہوتی جائے گی۔اور یہ کام زبانیں کریں گی ادب اور فنون کے ذریعے۔ ایک بھی زبان ایسی بتائیے جو انسانوں کے بیچ محبت اور امنِ عالم کے حق میں نہ ہو۔
نیازمانہ اب مزید تلوار اور ڈھال اور حملہ اور قبضہ کا زمانہ نہ ہوگا۔ یہاں اب زور آوری کا تصور نہیں رہے گا۔ اب تو دلیل سے بولنے کا زمانہ ہے۔اور دلیل تو بہت میٹھی ، بہت میوزیکل اور ہم آہنگی پیدا کرنے والی نعمت ہوتی ہے ۔ دلیل میدانِ جنگ میں نہیں اسمبلی، اجلاس، اکٹھ اور میلے میں ہوتی ہے ۔ لہذا میلوں کا نام ہے گلوبلائزیشن ۔ہم جب اپنے صوبوں،اور اپنے علاقوں سے یہاں اکٹھے ہونے کو میلہ بول رہے ہیں تو ملکوں سے اکٹھے ہونے سے کیسے خوف کھائیں گے؟۔ انسانی میلوں سے صرف ڈائن خوفزدہ ہوتی ہے ۔ گلوبلائزیشن سے صرف جن اور بھوت بھاگتے ہیں۔
اور پھر اُس خطہ کو سائنس ٹکنالوجی اور گلوبلائزیشن سے کوئی کیا ڈرائے گا جس پہ چار کروڑ سال قبل زندگی کے ثبوت ملے ہیں۔ ہمیں اس مستقبل سے کوئی کیا ڈرائے گا جس مستقبل کی جڑیں ڈیرہ بگٹی میں ملنے والے بلوچ تھیریم نامی جانور کی باقیات کی صورت میں موجود ہیں۔ جو 70لاکھ سال قبل یہاں ریوڑوں کی صورت رہتا تھا۔ اور ہمارے ملک اور اس کی زبانوں اور کلچر کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے جس کے اندر دنیا کی قدیم ترین سولائزیشن مہر گڑھ کی صورت موجود ہو۔جہاں موہن جودڑو کی آثار سے نکلنے والا مجسمہ رقاصہ کا ہو اور جہاں عشق کی روایت عام ہو۔ گلوبلائزیشن آسمان میں ہو یا زمین پر اُسے ہر صورت ہمارے سمندروں سے گزرنا ہوگا۔ اس لیے ہم گلوبلائزیشن سے خوفزدہ نہیں، ہم ہی تو گلوبلائزیشن کی گزرگاہ ہیں۔
اب اس میلے سے متعلق آخری بات ۔ اس میلے کا ایک ہی مطلب ہے۔ وہ یہ کہ ہم اسلام آباد آتے وقت کیا ساتھ لائے تھے اور دو دن بعد جب واپس جائیں گے تو ہمارے پاس کیا کچھ ہوگا۔ میرا اندازہ ہے کہ آپ آتے وقت صرف اپنے آپ کو لائے تھے ۔ آپ جاتے وقت ہم سب کے ساتھ جائیں گے۔ صرف ہمارے دل اور محبت ہی نہیں بلکہ ہم جو شعور اپنے اپنے علاقوں سے لے آئے تھے ، وہ شعور بھی لے کر جائیں گے ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم زیادہ مہذب ہو کر جائیں گے ۔ زیادہ روادار بن کر جائیں گے ، زیادہ برداشت والے بن کر جائیں۔ ہم دوسرے کو زیادہ سننے والے بن کر لوٹیں گے ۔ ہم ناک نقشے کے فرق کو حقیر نہیں بلکہ blessingسمجھ کر جائیں گے ۔ ہم مرد عورت کا فرق کیے بغیر انسان دوست بن کر جائیں گے۔ ہم ہاتھوں میں موبائل کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی تھامے ہوئے جائیں گے ۔ ہم اپنی مادری زبان کے لیے مزید محبت لے کر لوٹیں گے ، ہم ماں کی طرف ، ماؤں کی طرف اور ممتا کی طرف لوٹیں گے۔ ہم زیادہ انسان بن کر لوٹیں گے ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *