Home » پوھوزانت » ایک چھوٹی سی کتاب  ۔۔۔ فہمیدہ ریاض

ایک چھوٹی سی کتاب  ۔۔۔ فہمیدہ ریاض

نام تو اس پر دونوں کا ہے لیکن اینگلز کا کہنا تھا کہ لکھا اسے دراصل صرف مارکس نے تھا۔
اقبال نے کہا تھا ’’وہ پیغمبر نہیں ، لیکن ایک کتاب اس نے بھی دُنیا کو دی ہے۔‘‘ کتاب کہاں، کتابیں کہئے، اقبال کا اشارہ شاید ’’سرمایہ‘‘ کی طرف ہو۔ دیکھی تو میں نے بھی ہے۔ ہاتھ میں بھی اُٹھائی ہے۔ کئی سیر کی کتاب ہے۔ دیکھ کر ہی ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ آدمی تھا کہ جن! اتنی ساری کتابیں لکھ ڈالیں۔ ایک اکیلا ’’سرمایہ‘‘ ہی پوری زندگی میں لکھا جائے۔
اس کے بارے میں ، کبھی لڑکپن میں امریکنوں کا بنایا ہوا ایک لطیفہ سنا تھا۔ مارکس نے اپنی بیگم سے کہا، ’’آج میں نے زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ ’’سرمایہ‘‘ آج مکمل ہوگئی۔‘‘ بیگم نے سرد آہ بھر کہا ، ’’اس کے بدلے کاش تھوڑا سا سرمایہ بنا ہی لیا ہوتا۔‘‘
مگر ان جنونی حضرت نے سرمایہ بالکل نہ بنایا تھا۔ ایک کمرے کے چھوٹے سے گھر میں بیوی بچوں سمیت رہتے تھے۔ گھر اتنا ٹھنڈا تھا کہ دن میں بھی لحاف اوڑھ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ آتش دان میں ایندھن جلانے کیلئے پیسے نہ ہوتے تھے۔ برٹش میوزیم کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر دھوپ ووپ سینک لیتے تھے۔ بچہ نمونیئے سے مر گیا تو کفن دفن کے لئے بھی ان کے پاس رقم نہ تھی۔ اینگلز بھائی چارگی میں جو کچھ بھیج دیتے تھے اس پر ہی صبر شکر سے گزارا کرتے تھے۔
پینسٹھ برس کی عمر میں چل بسے۔ یوں تو انیسویں صدی میں یورپ میں بھی عمریں زیادہ نہ ہوتی تھیں مگر خوشحال اینگلز پچھتر برس تک جیئے۔ کئی کتابیں، مقالے مضامین لکھے، لیکن وہ جو ایک چند صفحوں کا کتابچہ بہ عنوان منشور انہوں نے لکھ ڈالا وہ دُنیا میں اتنا پڑھا گیا کہ لکھتے وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ دُنیا میں لکھی جا سکنے والی کوئی بھی زبان ایسی نہیں جس میں اس کا ترجمہ نہ ہوا ہو، سوا ہیلی سے لیکر اپنی سرائیکی تک میں آدم زادوں نے اسے دھڑا دھڑ ترجمہ کیا، چھاپا ، بانٹا اور مسلسل پونے دو صدیوں تک اسے پڑھتے ہی چلے گئے۔
اگر جملہ حقوق اپنے لئے محفوظ کرا لیتے تو لکھ پتی کیا، کروڑ پتی بن جاتے۔ (اکیسویں صدی کے مادی حالات سے پیدا ہونے والا اپنے وقت کا ایک آئیڈیا!)
سب سے پہلے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں نے کالج کے پہلے یا دوسرے سال میں پڑھا تھا۔ یہ ایک رات گرلز کالج کے ہاسٹل میں ، دو تین لڑکیوں کے ساتھ پڑھا گیا۔ کتابچہ انگریزی میں تھا۔ پہلا جملہ ہی توجہ کھینچنے والا اور شاندار نکلا۔
“A spectre is haunting Europe, the spectre of Communism”
مجھے ایسا لگا تھا جیسے ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے سٹیج سے پردہ اُٹھاتے ہوئے موسیقی کے کچھ اونچے سُر بج رہے ہوں۔ اوہو! مارکس، آپ تو بڑے اچھے ادیب بھی تھے۔ خوب جانتے تھے کہ قاری کو آغاز سے ہی اپنی گرفت میں کیسے لے لیا جائے۔ بس اسی لئے تو ایک دُنیا اس کتابچے کی دیوانی ہوگئی۔ نہیں صرف اسی لئے تو ہرگز نہیں۔ اس میں تو اور بھی کئی بجلیاں بھری تھیں۔ ’’دنیا کے محنت کشو ایک ہو جاؤ۔ کھونے کے لئے اپنی زنجیروں کے سوا تمہارے پاس اور ہے ہی کیا، اور جینے کے لئے دُنیا پڑی ہے‘‘۔ ’’غربت دولت سے کہیں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔‘‘ اور فلسفیوں نے اب تک صرف دُنیا کی تعبیر کی ہے جبکہ اصل کام اسے بدلنا ہے۔‘‘
یہ سب ہی قول تو اشعار کی طرح زبان زد عام ہوگئے۔ شاید ان میں شعریت ہے بھی۔ ان صاحب نے لکھنے کا آغاز تو شاعری سے ہی کیا تھا (مگر جدید غزل نہ لکھی) ۔ناچیز پر ان جادو بھرے جملوں کا ایسا اثر ہوا تھا کہ الف سے یے تک پڑھ ڈالا تھا اور تب سے ہر پانچ سات برس بعد پھر پڑھنے بیٹھ جاتی ہوں۔
اتنا پرانا ایک کتابچہ ! ہر بار کیوں نیا سا لگتا ہے!
جب مارکس نے منشور لکھا اس وقت وہ 29 برس کے تھے۔ جواں سالی کے باوجود ، آدمی رُعب داب کے تھے، کمیونسٹ لیگ کی کانگریس میں شرکت کرنے لندن آئے تھے۔ اس وقت کے مارکس کی تصویر ان کے ہم عصر فریڈرک لیسنر نے یوں کھینچی ہے۔
’’اس شخص میں کوئی بات تھی۔ درمیانہ قد کشادہ شانے، مضبوط کاٹھی، سبھاؤ میں چستی، بلند اور موزوں پیشانی، گھنے سیاہ بھونرا بال، اندر تک اُتر جانے والی نگاہ اور ہونٹوں پر وہ تیکھا تبسم جس سے اس کے مخالفین اس قدر خوف کھاتے تھے۔ہمیں وہ ایک Born Leader لگا تھا۔ اس کی تقریر مختصر منطقی اور قائل کر دینے والی تھی۔ اس نے ایک لفظ بھی اضافی نہ کہا۔ ہر جملے میں ایک خیال تھا اور تمام خیالات مربوط جو ایک موقف پیش کر رہے تھے۔ وہ کوئی خواب زدہ نوجوان نہیں تھا۔‘‘
اس طرح کے تھے مارکس جوانی میں۔ دماغ فلسفیانہ، فکر میں منطق کی نفاست، مزاج جوشیلا، اور دل؟ دل کا کیا پتہ؟ یا شاید دردمند ہو۔ ایک بار رائن لینڈ کے ایک جنگل سے گزر رہے تھے۔ وہاں ایک کسان اپنے استعمال کے لئے درخت کاٹتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور جاگیردار کے کارندے اس جرم پر کسان کو بری طرح مار پیٹ رہے تھے ۔ انہوں نے جو یہ منظر دیکھا تو غم و غصے سے خوب تھرتھرائے اور رہائش گاہ پہنچ کر کتاب لکھنی شروع کر دی۔
بات بات پر کتابیں اور مضمون لکھتے تھے۔ وقت پر کام پورا کرنے میں ہمیشہ دشواری ہوئی۔ جب ان سے منشور لکھنے کے لئے کہا گیا ، ان دنوں یہ پیرس میں ’’اقتصادی اور فلسفیانہ مسودات‘‘ لکھنے میں غرق تھے جو بقول ان کے ایک مبصر میک لیلان ’’انسان دوست کمیونزم کا ایک بھرپور خاکہ‘‘ تھا۔ لندن کے کمیونسٹوں نے زبردست ڈانٹ پلائی اور الٹی میٹم دیا کہ اگر یکم فروری یعنی منگل تک مسودہ نہ بھیجا تو ہم کسی اور سے لکھوا لیں گے۔ تب کہیں جا کر مارکس نے بھاگم بھاگ مسودہ مکمل کیا۔
مارکس کا طریقہ کار (دلپسند طریقہ) یہ تھا کہ فلسفیوں کے کسی کلیہ کو گھما پھرا کر اور الٹ کر دیکھتے تھے۔ پرودھون کے ’’فلسفہِ افلاس‘‘ کے جواب میں ’’افلاسِ فلسفہ‘‘ لکھی۔ (جیسے غالب نے برہان قاطع‘‘ کے جواب میں قاطع برہان‘‘ لکھی تھی۔ کیا مارکس کا مزاج غالب سے ملتا تھا؟)۔ منشور میں بھی غالب کی سی برجستگی نظر آتی ہے۔ اعتراضات کا جواب ترنت اور تیکھا دیتے تھے۔ منشور میں رد آئیڈیلزم میں لکھتے ہیں۔
’’اتنی سی بات سمجھنے کے لئے بھی کیا کسی الہام کی ضرورت ہے (انگریزی میں Deep intution) کہ انسان کا شعور اس کے حالات، اس کے سماجی رشتے ناتے اور معاشرتی زندگی ہی تخلیق کرتے ہیں؟‘‘
مینی فیسٹو کا یہ جملہ کتنا خوبصورت ہے !’’ دُنیا کے ہر سماج کی تاریخ دراصل طبقاتی کش مکش کی تاریخ ہے‘‘۔
وہ ہیگل تھا جس کی نظر میں تاریخ متصادم تہذیبوں (کلچرز) کے عروج و زوال سے بنتی ہے۔ ہنٹنگٹن نے ہیگل ہی کے تصور کو Clash of Civilization میں پیش کیا ہے۔ اس نے ہیگل کی اس اصطلاح کو جسے انگریزی ترجمے میں ’’کلچر‘‘ کہا گیا ہے، ’’سویلیزیشن‘‘ کا نام دیا ہے۔
۔(اس طرح بن لادن کے پیروکار Hegelian ہیں اور تصادمِ تہذیب پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ہنٹگٹن کے ہم خیال ہیں)۔
مارکس نے ہیگل سے اختلاف کرتے ہوئے تہذیبوں کو طبقات سے منسلک کیا اور طبقاتی کشمکش اور تصادم کو وہ قوتیں قرار دیا جو تاریخ کی تشکیل کرتے ہیں۔
مینی فیسٹوکا کہنا تھا کہ فساد کی اصل جڑ تو پیداواری ذرائع پر قبضہ کرنے کی خواہش ہے۔ ایک طبقہ ان ذرائع کو کنٹرول کرتا ہے اور دوسرے تمام طبقات سے مستقل کشمکش کی حالت میں رہتا ہے۔ طبقاتی نفرت اور کشمکش معاشرے میں زہر گھولتی رہتی ہے۔
رقابت اور عداوت ٹکراؤ پیدا کرتی ہے اور معاشرہ پرامن نہیں رہ پاتا۔ سرمایہ محنت کش طبقہ پیدا کرتا ہے جو اشرافیہ کی ملکیت بن جاتا ہے اور دوسری طرف اسے صرف اشرافیہ کے کچھ افراد نہیں، پور ا سماج متحرک رکھتا ہے۔ اس طرح سرمایہ ذاتی نہیں، ایک سماجی قوت ہے۔ پس تو اسے پورے سماج کی ملکیت بنا دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ طبقات کا خاتمہ کیا جائے اور حق حقدار کو ملے۔‘‘
مینی فیسٹو میں ’’یوریکا!‘‘ کی سی پکار اور گونج ہے۔ دریافت کا جوش، اشتیاق! ’’ہم نے راز ہستی پا لیا ہے۔‘‘ کی سی کیفیت اور اسے دُنیا بھر تک پہنچانے کا پرجوش ارادہ، لیکن بے صبری نہیں، مارکس ٹھہرے فلسفی، اس پینتیس چالیس صفحات کے کتابچے میں بھی جی بھر کر فلسفیانہ نکات درج کرنے سے کہاں باز رہ سکتے تھے۔
نسل بعد نسل جن لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے اسے پڑھا ہے، وہ اتنا سارا فلسفہ (ہیگل کا رد اور پر ودھون کا، اور سیس مونڈی کا، الغرض کوئی پندرہ یورپی اجنبی فلسفیوں کا رد) کاہے کو سمجھا ہوگا۔
لیکن ایسا کوئی جادو تھا اس تحریر میں کہ یہی پینتیس چالیس صفحات پر لگا کر اُڑے۔ کتابچہ تھا کہ چنگاری جو خس و خاشاک کے ڈھیر میں جا پڑی تھی۔ اس کے دوسرے روسی ایڈیشن (ترجمہ پلخانوف 1882ء) کے دیباچے میں مارکس اور اینگلز نے لکھا تھا۔
’’جب روس میں کمیونسٹ منشور کا پہلا ایڈیشن چھپا تھا اس وقت مغرب نے اسے صرف ایک اَدبی تجسس کی نظر سے دیکھا تھا۔ یہ رویہ آج ناممکن ہوگا‘‘
اور 1917 میں روس میں کمیونسٹ انقلاب آ بھی گیا۔ اس کے بعد چین، ویت نام، کوریا، کمبوڈیا، کیوبا میں، (مشرقی یورپ کا ذکر نہیں کہ وہاں کمیونسٹ نظام سوویت یونین کے اثر کے تحت نافذہوا گو وہاں بھی پہلے سے یہ نظریہ مقبول تھا اور اس کے رہنما جیلوں میں پڑے سڑ رہے تھے یا ہلاک کئے جا رہے تھے) لیکن منشور کے مصنف کا نام دُنیا کے تاریک ترین براعظموں میں گونجتا رہا ہے۔ مغرب کی نسبت، مشرق میں یہ کہیں زیادہ مقبول ہوا۔ یہ کتابچہ افتادگان خاک کے لئے تھا اور وہ یورپ کی نسبت مشرق میں کہیں زیادہ تعداد میں اور کہیں زیادہ بدحالی میں موجود تھے۔ سو انہوں نے اسے اپنا لیا۔ کسی نے بھی نہ سوچا، کون کارل مارکس؟ یہ گورا تھا، یہودی نسل کا تھا۔
اب فیوکویاما کی کتاب End of History پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے، غور کیجئے تو ایک طرح مارکس نے بھی طبقاتی کشمکش ختم کر کے تاریخ کے اختتام ہی کا نظریہ دیا تھا کیونکہ ان کے نظریے کی بنیاد یہی تھی کہ تاریخ طبقاتی کشمکش سے عبارت ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ اپنے آپ کو دُہراتے ہوئے طبقاتی نفرت اور تصادم کے تماشے کے تسلسل کو توڑ کر ایک نئے، غیرطبقاتی دور کا آغاز ہوگا۔ سوویت یونین کے خاتمے کو فیوکو یاما نے تاریخ کا اختتام سمجھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سرمایہ دارانہ نظام نے مکمل فتح حاصل کرلی ہے اور یہ بلا روک ٹوک ہمیشہ چلتا رہے گا اور اس طرح تاریخ کا (جو فیکویاما کی نظر میں بھی کشمکش پر مبنی تھی) اب اختتام ہوگیا ہے۔
لیکن ابھی اس تحریر کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی ہوگی کہ نائن الیون آ گیا۔ صدر بش کسی آیت اللہ کی طرح سولہویں صدی میں جا پہنچے اور ملکوتی جوش و خروش سے خود رفتہ مبلغوں کی طرح خیر و شر اور شیطان کبیر اور صغیر کی بولیاں بولنے لگے۔ انہوں نے انگلی اُٹھا کر دُنیا کو بتایا (اپنی طرف اشارہ کر کے) ’’یہ خیر ہے‘‘ (دوسری طرف شارہ کر کے) ’’وہ شر ہے‘‘ اور پھر پوچھا ’’کچھ سمجھے؟‘‘۔
لوگ کچھ سمجھے یا نہ سمجھے مگر جنگیں پھر شروع ہوگئیں اور دُنیا کو گویا قرون وسطیٰ میں دھکیل دیا گیا جہاں صلیب و ہلال کے معرکے ہو رہے تھے۔
ختم ہونا کجا، تاریخ یوں معلوم ہوتا تھا اب شروع ہو رہی ہے۔
یہ مارکس نے کہا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام بے شمار خوبیوں کا حامل ہے۔ یہ اسپِ تازی ہے مگر افسوس کہ کچھ چریا بھی ہے۔ دوڑتا تو یہ بہت تیز ہے مگر ناگزیر طور پر سامراجیت اور جنگ کا رُخ کرتا ہے۔
(درست، درست چچا مارکس، یہ بات تو اب مولویوں کی بھی سمجھ میں آ گئی ہے۔ سمجھنا چہ معنی، آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، چچا مارکس اگر آپ اور آپ کے ساتھی مذہب پر اتنا نہ گرجتے برستے، اسے عوام کی ’’افیون‘‘ کا لقب نہ دیتے تو شاید مارکسزم کی مخالفت، اس کو کچلنا، مسخ کرنا، اس کے خلاف بے بنیاد واہیات پروپیگنڈا کرنا اور نئی نسل کے لئے اسے ایک اچھوت نظریہ بنانا ہمارے جیسے ملکوں میں اتنا آسان نہ رہتا)۔
سرمایہ داری کے عالمی نظام کے بارے میں مارکس نے مشور میں لکھا تھا۔ ’’اپنی مصنوعات کے لئے مستقل وسعت پذیر منڈی کی ضروریات پوری کرتے رہنے کی خاطر سرمایہ دار طبقہ پورے کرّے کا طواف کرتا ہے، اسے ہر جگہ ایک آشیانہ بنانا ہے، ہر جگہ مقیم ہونا ہے، ہر جگہ رابطے پیدا کرنے ہیں۔
عالمی منڈی کے استعمال کے ذریعے سرمایہ دار ہر ملک میں پروڈکشن اور اصراف (کنزمپشن) کو ایک کثیر قومی (کاسموپولیٹن) رنگ دیتے ہیں۔ پرانی صنعتیں ختم کرتے ہیں اور نئی صنعتوں کا لگانا قوموں کے لئے موت و زیست کا سوال بن جاتا ہے۔، وہ ایسی صنعتیں لگاتے ہیں جن کا خام مال ان کے اپنے وطن سے نہیں بلکہ دنیا کے دور دراز حصوں سے حاصل کیا جاتا ہے، اور جن کی مصنوعات صرف ان کے وطن میں نہیں، اس کرّے کے ہر کونے میں استعمال کی جاتی ہیں۔ پرانی ’’طلب‘‘ طاق پر رکھ دی جاتی ہے۔ جس کی تکمیل مقامی رسد سے ہوسکتی تھی۔ نئی طلب تخلیق کی جاتی ہے جن کو دور دراز کے ممالک کی مصنوعات ہی پورا کرسکتی ہیں۔ قوموں کی خود انحصاری کا خاتمہ ہوتا ہے اور قومیں Inter-dependent ہو جاتی ہیں۔‘‘
کہئے کچھ گلوبلائزیشن کے خط و خال نظر آ رہے ہیں؟
سرمایہ داری مزید کیا کرتی ہے؟
’’یہ (عالمی نظام) ہر قوم کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس نظام کا پیداواری طریقہ اپنا لے، ورنہ اسے نیست و نابود کر دیا جائے گا، (on Pain of Extinction) یہ ہر قوم کو مجبور کرتا ہے کہ سرمایہ دار جس طرز زندگی کو ’’تہذیب‘‘ کا نام دیتے ہیں اسے اپنے یہاں رائج کر دے اور ان جیسا ہی بن جائے۔ دوسرے الفاظ میں بڑے سرمایہ دار اپنے ہی Image میں پوری دُنیا کو ازسرنو تخلیق کرتے ہیں۔۔۔ یہ کسانوں کی قوموں کو سرمایہ داروں کی قوموں اور مشرق کو مغرب کا محکوم بناتے ہیں۔ اِس نظام میں دُنیا بھر کی پروڈکشن، مواصلات، املاک ہر چیز (بڑے سرمایہ داروں کے) مرکز کے اختیار میں ہوتی ہے اور صرف چند ہاتھوں تک محدود ۔۔۔ ان سب کا یقینی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ سیاسی اختیار بھی اسی مرکز میں مرتکز ہو جاتا ہے۔‘‘
جی نہیں، یہ نوم چومسکی کے کسی حالیہ مضمون کا اقتباس نہیں ہے، یہ مارکس نے 1848ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا۔ یقین نہ آئے تو پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ سیکشن ۱۔ بورژوا اور پرولتاریہ‘‘
’’سرمایہ دار طبقہ پیداوار کے انسٹرومنٹ میں مستقل انقلاب لاتا رہتا ہے۔ اس تبدیلی کے بغیر یہ طبقہ وجود ہی نہیں رکھ سکتا، اس طرح وہ پیداوری رشتوں اور پورے سماج کے باہمی رشتوں میں انقلابی تبدیلیاں کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ ادوار میں ابتدائی صنعتی طبقوں کے وجود کی اولین شرط یہ تھی کہ پرانے طریقہ پیداوار کو سلامت رکھا جائے۔ (Conservation) اس کے برعکس سرمایہ داری کی پہچان مسلسل تبدیلی، سماجی حالات کو مسلسل تہ و بالا کرنا اور لامتناہی بے یقینی اور بے چینی ہے۔ تمام پرانے پیداواری رشتے نابود ہو جاتے ہیں اور نئے رشتے پختہ ہونے سے پہلے پھر بدل دیئے جاتے ہیں۔ ہر ٹھوس شے ہوا بن کر تحلیل ہو جاتی ہے اور ہر مقدس شے بے حرمت بنا دی جاتی ہے یہاں تک کہ بالآخر انسان مجبور ہو جاتا ہے کہ سنجیدگی سے اپنی اصل صورتحال اور انسان کے انسان سے رشتے کا سامنا کرے۔‘‘ (کمیونسٹ منشور سیکشن ۱۔ ’’بورژوا اور پرولتاریہ‘‘)
اخاہ! تو مارکس انسان سے دلچسپی رکھتے تھے! کیا یہ ہی ان کی اصل دلچسپی کا موضوع تھا؟۔ کیا اس لئے وجودی سارتر ان کی جانب کھنچے؟۔
مارکس کیا محسوس کرتے تھے۔ ایسا انہوں نے کبھی نہیں لکھا، احساسات وغیرہ کو وہ جذباتیت سمجھتے ہوں گے اور جذباتیت کے لئے بہت حقارت کا اظہار کرتے تھے۔ انیسویں صدی کا وسط تھا، نئی نئی سائنس ،معاشرے میں متعارف ہو رہی تھی۔ اس وقت کی جواں سال نسل صرف سائنسی فکر کی شیدا تھی (جیسے آج کل ترقی کی آرزومند نسل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی) اور یقین کرتی تھی کہ جاگیردارانہ دور کے توہمات کی جگہ ’’سائنٹیفک فکر‘‘ اور ’’سائنسی نقطہ نظر‘‘ ہی وزن رکھتا ہے اور قائل کرسکتا ہے۔ سو مارکس نے بھی آغاز جوانی کی شاعری کے علاوہ اپنی کسی تحریر میں احساسات یا جذبات کا اظہار نہیں کیا ہے۔ لیکن کمیونسٹ مینی فیسٹو کا ایک پیراگراف پڑھتے ہوئے قاری سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ مارکس لکھتے ہیں:
’’سرمایہ دار طبقے نے طاقت حاصل کرتے ہی پرانے جاگیردارانہ رومانی رشتوں کو نابود کر دیا ہے۔ اب انسان اور انسان کے درمیان صرف بے حجاب ذاتی غرض کا رشتہ باقی رہ گیا ہے۔ صرف نقد ادئیگی کا رشتہ! ماضی کے تمام جذبوں کو اس نے خودغرضانہ حساب کتاب کے یخ پانی میں غرق کر دیا ہے۔ اس نے انسان کی قدر کو ایسی قیمت میں بدل دیا ہے جس کا کسی سے تبادلہ ہوسکتا ہے۔ ان گنت تسلیم شدہ آزادیوں کے مقابلے میں اس نے صرف واحد آزادی ’’آزاد تجارت‘‘ کا جھنڈا گاڑا ہے اور دوسری تمام آزادیاں اس کی زیرنگیں ہیں۔۔۔ اس نے ہر اُس شے کی تقدیس کا ہالہ نوچ پھینکا ہے جسے کل تک محترم سمجھا جاتا تھا۔ آج طبیب ہو کہ وکیل، مذہبی معلم ہو یا شاعر یا سائنس دان، سب اس کے اجرتی مزدوروں میں تبدیل ہوچکے ہیں‘‘۔
اس پیرا گراف کے لہجے میں یہ تاسف کیسا ہے! ۔کیا مارکس کو انسان کی ذلت کا دُکھ تھا؟ ۔کیا وہ چاہتے تھے کہ انسان کی قیمت نہیں، قدر باقی رہے؟۔ کہ طبیب اور وکیل اور شاعر اور سائنس دان کے Vocation کی تقدیس ختم نہ ہو۔۔۔ اس تحریر سے تو ایسے کتنے ہی سراغ ملتے ہیں۔ شاید ایسا ہی کوئی جذبہ تھا جو ان صفحات کے متن میں سرایت کر گیا تھا اور یہ دنیا کی جڑ بنیاد ہلا دینے والا کتابچہ بن گیا۔ اس نے لوگوں کے دماغ پر ہی نہیں دلوں پر اثر کیا تھا۔ دُنیا کی کتنی ہی مفلس اور محروم نسلوں کے لئے یہ صرف ایک فلسفیانہ اور معاشی دستاویز نہیں تھی، انصاف کی امید بھی تھی۔ اس میں دنیا کے نظام کی وضاحت تھی اور اس نظام کو منصفانہ بنانے کی جہد کا بلاوا تھا۔ مارکس کی اس تحریر نے اس کرّے پر انسانی آبادی کے ایک قابل ذکر حصے کو اسی لئے مسخر کر لیا تھا۔ اس نے ان کے تخیل کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا جس طرح ہیگل یا آج کے اُجرتی دانشور ہنٹگٹن وغیرہ اپنی ساری چمکیلی ذہانت اور علم و فضل کے باوجود کبھی نہیں کرسکتے۔
مینی فیسٹو اپنی تصور میں نہ سما سکنے والی املاک سمیت ایک ایسے جادوگر کی طرح نظر آ رہا ہے جو ظلمات سے ابھر آنے والی اس دنیا کو اپنے قابو میں نہیں رکھ پا رہا ہے جو مارکس نے صرف ذہنوں پر نہیں، دلوں پر حکمرانی کی ہے۔ اس نے انسان کو حوصلہ دیا کہ وہ اپنے وجود کے بہتر حصے پر یقین کرسکے۔ دل والوں کو اس سے محبت محسوس ہوئی تو کیا تعجب؟ ۔تب ہی تو فیضؔ نے کہا تھا :۔
ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو، چارہ گرو، راہ گزر تو دیکھو

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *